ہمیں ابن مبارک نے حدیث بیا ن کی، ہمیں عبیداللہ نے نافع سےخبر دی (کہا:) انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے خبر دی، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے حجر اسود تک تین چکروں میں رمل کیا، اور (باقی) چار میں چلے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے حجر اسود تک تین چکروں میں رمل کیا، اور چار چکروں میں معمول کے مطابق چلے۔
سلیم بن اخضر نے عبیداللہ بن عمر سے مذکورہ بالا سند کے ساتھ حدیث بیا ن کی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کیا، اوربتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا۔
نافع بیان کرتے ہیں، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کیا اور بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تھا۔
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب نے کہا: ہمیں حدیث بیان کی جبکہ یحییٰ نے کہا اور الفاظ انھی کے ہیں: میں نے مالک کے سامنے قراءت کی (کہ) جعفر بن محمد نے اپنے والد سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نےفرمایا: میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے حجر اسود سے دوبارہ وہاں تک پہنچنے تک، تین چکروں میں رمل کیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چکروں میں حجر اسود سے اس تک پہنچنے تک رمل کیا۔
عبداللہ بن وہب نے کہا: مجھے مالک اورابن جریج نے خبر دی، انھوں نے جعفر بن محمد سے، انھوں نے ا پنے والد (محمد باقر) سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چکروں میں حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے حجر اسود تک تین چکروں میں رمل کیا۔
حدثنا ابو كامل فضيل بن حسين الجحدري ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا الجريري ، عن ابي الطفيل ، قال: قلت لابن عباس : ارايت هذا الرمل بالبيت ثلاثة اطواف ومشي اربعة اطواف اسنة هو؟ فإن قومك يزعمون انه سنة قال: فقال: صدقوا وكذبوا، قال: قلت: ما قولك صدقوا وكذبوا؟ قال: " إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قدم مكة، فقال المشركون: إن محمدا، واصحابه لا يستطيعون ان يطوفوا بالبيت من الهزال، وكانوا يحسدونه، قال: " فامرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يرملوا ثلاثا ويمشوا اربعا "، قال: قلت له: اخبرني عن الطواف بين الصفا، والمروة راكبا اسنة هو؟ فإن قومك يزعمون انه سنة، قال: صدقوا وكذبوا، قال: قلت: وما قولك صدقوا وكذبوا؟ قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كثر عليه الناس، يقولون: هذا محمد هذا محمد حتى خرج العواتق من البيوت، قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يضرب الناس بين يديه، فلما كثر عليه ركب، والمشي والسعي افضل "،حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ : أَرَأَيْتَ هَذَا الرَّمَلَ بِالْبَيْتِ ثَلَاثَةَ أَطْوَافٍ وَمَشْيَ أَرْبَعَةِ أَطْوَافٍ أَسُنَّةٌ هُوَ؟ فَإِنَّ قَوْمَكَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُ سُنَّةٌ قَالَ: فَقَالَ: صَدَقُوا وَكَذَبُوا، قَالَ: قُلْتُ: مَا قَوْلُكَ صَدَقُوا وَكَذَبُوا؟ قَالَ: " إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ مَكَّةَ، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: إِنَّ مُحَمَّدًا، وَأَصْحَابَهُ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَطُوفُوا بِالْبَيْتِ مِنَ الْهُزَالِ، وَكَانُوا يَحْسُدُونَهُ، قَالَ: " فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْمُلُوا ثَلَاثًا وَيَمْشُوا أَرْبَعًا "، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: أَخْبِرْنِي عَنِ الطَّوَافِ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ رَاكِبًا أَسُنَّةٌ هُوَ؟ فَإِنَّ قَوْمَكَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُ سُنَّةٌ، قَالَ: صَدَقُوا وَكَذَبُوا، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا قَوْلُكَ صَدَقُوا وَكَذَبُوا؟ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثُرَ عَلَيْهِ النَّاسُ، يَقُولُونَ: هَذَا مُحَمَّدٌ هَذَا مُحَمَّدٌ حَتَّى خَرَجَ الْعَوَاتِقُ مِنَ الْبُيُوتِ، قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُضْرَبُ النَّاسُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَلَمَّا كَثُرَ عَلَيْهِ رَكِبَ، وَالْمَشْيُ وَالسَّعْيُ أَفْضَلُ "،
عبدالواحد بن زیاد نےہمیں حدیث سنائی، (کہا:) ہمیں جریری نے ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عرض کی: آپ کی کیا رائے ہے بیت اللہ کاطواف کرتے ہوئے تین چکروں میں رمل اور چار چکروں میں چلنا، کیا یہ سنت ہے؟کیونکہ آپ کی قوم یہ سمجھتی ہے کہ یہ سنت ہے۔کہا: (انھوں نے) فرمایا: انھوں نے صحیح بھی کہا اورغلط بھی۔میں نے کہا: آپ کے اس جملے کا کہ انھوں نے درست بھی کہا اورغلط بھی، کیامطلب ہے؟انھوں نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا: محمد اوران کے ساتھی (مدینے کی ناموافق آب وہوا، بخار اور) کمزوری کے باعث بیت اللہ کا طواف نہیں کرسکتے۔کفار آپ سے حسد کرتے تھے۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہ نے) کہا: (ان کی با ت سن کر) آپ نے انھیں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کو) حکم دیا کہ تین چکروں میں رمل کرو اورچار چکروں میں (عام رفتار سے) چلو۔ (ابوطفیل رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے ان (ابن عباس رضی اللہ عنہ) سے عرض کی: مجھے سوار ہوکرصفا مروہ کی سعی کرنے کے متعلق بھی بتائیے، کیاوہ سنت ہے؟کیونکہ آپ کی قوم کے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ سنت ہے۔انھوں نے فرمایا: انھوں نے صحیح بھی کہا اور غلط بھی، میں نے کہا: اس بات کا کیا مطلب ہے کہ انھوں نےصحیح بھی کہا اورغلط بھی؟انھوں نےفرمایا: اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم پرلوگوں کا جمگھٹا ہوگیا، وہ سب (آپ کو دیکھنے کے خواہش مندتھے اور ایک دوسرے سے) کہہ رہے تھے۔یہ ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔یہ ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم حتیٰ کہ نوجوان عورتیں بھی گھروں سے نکلی۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہ نے) کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے (ہٹانے کےلئے) لوگوں کو مارانہیں جاتا تھا، جب آپ (کے راستے) پر لوگوں کا ٹھٹھہ لگ گیا تو آپ سوار ہوگئے۔ (کچھ حصے میں) چلنا اور (کچھ میں) سعی کرنا (تیز چلنا ہی) افضل ہے۔ (کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصل میں یہی کرنا چاہتے تھے۔)
ابو طفیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا، بتلائیے کیا بیت اللہ کے تین چکروں میں رمل کرنا، اور چار چکروں میں چلنا، کیا سنت ہے؟ کیونکہ آپ کی قوم اس کو سنت خیال کرتی ہے، انہوں نے جواب دیا، وہ ٹھیک بھی کہتے ہیں اور غلط بھی، میں نے پوچھا، آپ کے قول (صَدَقُوْا وَ كَذَبُوْا)
وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا يزيد ، اخبرنا الجريري ، بهذا الإسناد نحوه، غير انه قال: وكان اهل مكة: قوم حسد، ولم يقل: يحسدونه.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: وَكَانَ أَهْلُ مَكَّةَ: قَوْمَ حَسَدٍ، وَلَمْ يَقُلْ: يَحْسُدُونَهُ.
یزید (بن زریع تمیمی) نے حدیث بیان کی، (کہا) ہمیں جریری نے اسی سند سے خبر دی، البتہ اس نے یہ کہا کہ اہل مکہ حاسد لوگ تھے، یہ نہیں کہا ہ وہ آ پ سے حسد کرتے تھے۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت ایک اور استاد سے نقل کرتے ہیں کہ لیکن اس میں یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: مکہ کے لوگ حاسد تھے، یہ نہیں کہا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد رکھتے تھے۔
ابن ابی حسین نے ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ کی قوم کا خیال ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ (کے طواف میں) اورصفا مروہ کے درمیان میں رمل کیا تھا، اور یہ سنت ہے۔انھوں نے فرمایا: انھوں نے صحیح بھی کہا اورغلط بھی۔
ابو طفیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا، آپ کی قوم یہ سمجھتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے طواف میں رمل کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگائے اور یہ سنت ہے، انہوں نے جواب دیا، انہوں نے سچ کہا اور جھوٹ بھی بولا۔
عبدالملک بن سعید بن ابجر نے ابوطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: میرا خیال ہے کہ میں نے (حجۃ الوداع کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاتھا۔ (انھوں نے) کہا: ان کی صفت (تمھیں کس طرح نظر آئی) بیان کرو۔میں نے عرض کی: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مروہ کے پاس اونٹنی پر (سوار) دیکھا تھا، اور آپ (کو دیکھنے کےلئے) لوگوں کا بہت ہجوم تھا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (ہاں) وہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔لوگوں کوآپ سے (دورہٹانے کےلئے) دھکے دیئے جاتے تھے نہ انھیں ڈانٹا جاتاتھا۔
ابو طفیل بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا، میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، انہوں نے کہا، مجھے دیکھنے کی کیفیت بتاؤ، میں نے کہا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مروہ کے پاس ایک اونٹنی پر دیکھا، لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیرا ہوا تھا، تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے، لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور نہیں ہٹایا جاتا تھا، یا دھکے نہیں دیے جاتے تھے، نہ دور رہنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔
وحدثني ابو الربيع الزهراني ، حدثنا حماد يعني ابن زيد ، عن ايوب ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه مكة، وقد وهنتهم حمى يثرب، قال المشركون: إنه يقدم عليكم غدا قوم قد وهنتهم الحمى، ولقوا منها شدة، فجلسوا مما يلي الحجر، وامرهم النبي صلى الله عليه وسلم ان يرملوا ثلاثة اشواط، ويمشوا ما بين الركنين، ليرى المشركون جلدهم "، فقال المشركون: هؤلاء الذين زعمتم ان الحمى قد وهنتهم، هؤلاء اجلد من كذا وكذا، قال ابن عباس: ولم يمنعه ان يامرهم ان يرملوا الاشواط كلها، إلا الإبقاء عليهم.وَحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مَكَّةَ، وَقَدْ وَهَنَتْهُمْ حُمَّى يَثْرِبَ، قَالَ الْمُشْرِكُونَ: إِنَّهُ يَقْدَمُ عَلَيْكُمْ غَدًا قَوْمٌ قَدْ وَهَنَتْهُمُ الْحُمَّى، وَلَقُوا مِنْهَا شِدَّةً، فَجَلَسُوا مِمَّا يَلِي الْحِجْرَ، وَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْمُلُوا ثَلَاثَةَ أَشْوَاطٍ، وَيَمْشُوا مَا بَيْنَ الرُّكْنَيْنِ، لِيَرَى الْمُشْرِكُونَ جَلَدَهُمْ "، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: هَؤُلَاءِ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّ الْحُمَّى قَدْ وَهَنَتْهُمْ، هَؤُلَاءِ أَجْلَدُ مِنْ كَذَا وَكَذَا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَلَمْ يَمْنَعْهُ أَنْ يَأْمُرَهُمْ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ كُلَّهَا، إِلَّا الْإِبْقَاءُ عَلَيْهِمْ.
سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین (عمرہ قضا کےلیے) مکہ آئے تو انھیں یثرب (مدینہ) کے بخار نے کمزور کردیا تھا۔مشرکین نے کہا: کل تمھارے ہاں ایسے لوگ آرہے ہیں جنھیں بخار نے کمزور کردیا ہے۔اورانھیں اس سے بڑی تکلیف پہنچی ہے۔اور وہ لوگ حطیم کے ساتھ (لگ کر) بیٹھ گئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (اپنے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) کو حکم دیا کہ بیت اللہ کے تین چکروں میں چھوٹے قدموں کی تیز، مضبوط چال چلیں، اور دونوں (یمانی) کونوں کےدرمیان عام چال چلیں تاکہ مشرکوں کوان کی مضبوطی نظرآجائے۔ (مسلمانوں کی مضبوط چال دیکھ کر) مشرکوں نے کہا: یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تمھارا خیال تھا کہ انھیں بخار نے کمزور کردیا ہے۔یہ تو فلاں فلاں سے بھی زیادہ مضبوط ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: انھیں پورے چکروں میں رمل نہ کرنے کاحکم دینے سے، آپ کو محض اس شفقت نے روکا جو آپ ان پر فرماتے تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی مکہ مکرمہ تشریف لائے اور انہیں یثرب (مدینہ) کے بخار نے کمزور کر ڈالا تھا، مشرکوں نے کہا، کل تمہارے ہاں ایسے لوگ آئیں گے، جنہیں بخار نے کمزور کر دیا ہے، اور انہیں اس سے تکلیف پہنچی ہے، تو وہ حجر کی طرف بیٹھ گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو تین چکروں میں رمل کرنے کا حکم دیا، اور فرمایا: ”رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلیں (کیونکہ مشرکوں کو نظر نہیں آ سکتے تھے) تا کہ مشرکین ان کی قوت، طاقت کا مشاہدہ کر لیں۔“، مشرکین (دیکھ کر) کہنے لگے، یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تمہارا خیال تھا کہ بخار نے انہیں کمزور کر دیا ہے، یہ تو فلاں فلاں سے بھی زیادہ طاقت ور ہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام چکروں میں رمل کرنے کا حکم محض ان پر شفقت فرماتے ہوئے نہیں دیا۔
عطاء نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا مروہ کی سعی اور بیت اللہ کے طواف میں رمل صرف مشرکین کواپنی (قوم کی) طاقت اور قوت دکھانے کے لیے کیا تھا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعا لیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی اور بیت اللہ کے طواف میں رمل صرف مشرکوں کو اپنی قوت دکھانے کے لیے کیا تھا۔