عبدالواحد بن زیاد نےہمیں حدیث سنائی، (کہا:) ہمیں جریری نے ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عرض کی: آپ کی کیا رائے ہے بیت اللہ کاطواف کرتے ہوئے تین چکروں میں رمل اور چار چکروں میں چلنا، کیا یہ سنت ہے؟کیونکہ آپ کی قوم یہ سمجھتی ہے کہ یہ سنت ہے۔کہا: (انھوں نے) فرمایا: انھوں نے صحیح بھی کہا اورغلط بھی۔میں نے کہا: آپ کے اس جملے کا کہ انھوں نے درست بھی کہا اورغلط بھی، کیامطلب ہے؟انھوں نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا: محمد اوران کے ساتھی (مدینے کی ناموافق آب وہوا، بخار اور) کمزوری کے باعث بیت اللہ کا طواف نہیں کرسکتے۔کفار آپ سے حسد کرتے تھے۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہ نے) کہا: (ان کی با ت سن کر) آپ نے انھیں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کو) حکم دیا کہ تین چکروں میں رمل کرو اورچار چکروں میں (عام رفتار سے) چلو۔ (ابوطفیل رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے ان (ابن عباس رضی اللہ عنہ) سے عرض کی: مجھے سوار ہوکرصفا مروہ کی سعی کرنے کے متعلق بھی بتائیے، کیاوہ سنت ہے؟کیونکہ آپ کی قوم کے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ سنت ہے۔انھوں نے فرمایا: انھوں نے صحیح بھی کہا اور غلط بھی، میں نے کہا: اس بات کا کیا مطلب ہے کہ انھوں نےصحیح بھی کہا اورغلط بھی؟انھوں نےفرمایا: اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم پرلوگوں کا جمگھٹا ہوگیا، وہ سب (آپ کو دیکھنے کے خواہش مندتھے اور ایک دوسرے سے) کہہ رہے تھے۔یہ ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔یہ ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم حتیٰ کہ نوجوان عورتیں بھی گھروں سے نکلی۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہ نے) کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے (ہٹانے کےلئے) لوگوں کو مارانہیں جاتا تھا، جب آپ (کے راستے) پر لوگوں کا ٹھٹھہ لگ گیا تو آپ سوار ہوگئے۔ (کچھ حصے میں) چلنا اور (کچھ میں) سعی کرنا (تیز چلنا ہی) افضل ہے۔ (کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصل میں یہی کرنا چاہتے تھے۔)
ابو طفیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا، بتلائیے کیا بیت اللہ کے تین چکروں میں رمل کرنا، اور چار چکروں میں چلنا، کیا سنت ہے؟ کیونکہ آپ کی قوم اس کو سنت خیال کرتی ہے، انہوں نے جواب دیا، وہ ٹھیک بھی کہتے ہیں اور غلط بھی، میں نے پوچھا، آپ کے قول (صَدَقُوْا وَ كَذَبُوْا)