صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
The Book of Pilgrimage
29. بَابُ بَيَانِ أَنَّ الْمُحْرِمَ بِعُمْرَةٍ لَّا يَتَحَلَّلُ بِالطَّوَافِ قَبْلَ السَّعْيِ وَأَنَّ الْمُحْرِمَ بِحَجٍّ لَّا يَتَحَلَّلُ بِطَوَافِ الْقُدُومِ وَكَذٰلِكَ الْقَارِنُ
29. باب: عمرہ کا احرام باندھنے والا سعی کرنے سے پہلے طواف کے ساتھ حلال نہیں ہو سکتا اور نہ ہی حج کا احرام باندھنے والا طواف قدوم سے پہلے حلال ہو سکتا ہے یعنی احرام نہیں کھول سکتا، اور اسی طرح قارن۔
Chapter: Clarifying that the pilgrim who has entered Ihram for Umrah should not exit Ihram after performing Tawaf before Sa'i; And the pilgrim who has entered Ihram for Hajj should not exit Ihram after performing Tawaf Al-Qudum, and the same applies to the pilgrim performing Qiran
حدیث نمبر: 3001
Save to word اعراب
حدثني هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني عمرو وهو ابن الحارث ، عن محمد بن عبد الرحمن ، ان رجلا من اهل العراق قال له: سل لي عروة بن الزبير ، عن رجل يهل بالحج فإذا طاف بالبيت ايحل ام لا؟، فإن قال لك: لا يحل، فقل له: إن رجلا يقول ذلك، قال: فسالته، فقال: " لا يحل من اهل بالحج إلا بالحج "، قلت: فإن رجلا كان يقول ذلك، قال: بئس ما قال، فتصداني الرجل فسالني فحدثته، فقال: فقل له: فإن رجلا كان يخبر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد فعل ذلك، وما شان اسماء والزبير قد فعلا ذلك، قال فجئته فذكرت له ذلك، فقال: من هذا؟، فقلت: لا ادري، قال: فما باله لا ياتيني بنفسه يسالني اظنه عراقيا، قلت: لا ادري، قال: فإنه قد كذب: " قد حج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبرتني عائشة رضي الله عنها، ان اول شيء بدا به حين قدم مكة انه توضا، ثم طاف بالبيت "، ثم حج ابو بكر، فكان اول شيء بدا به الطواف بالبيت، ثم لم يكن غيره، ثم عمر مثل ذلك، ثم حج عثمان، فرايته اول شيء بدا به الطواف بالبيت، ثم لم يكن غيره، ثم معاوية، وعبد الله بن عمر، ثم حججت مع ابي الزبير بن العوام، فكان اول شيء بدا به الطواف بالبيت، ثم لم يكن غيره، ثم رايت المهاجرين والانصار يفعلون ذلك، ثم لم يكن غيره، ثم آخر من رايت فعل ذلك ابن عمر، ثم لم ينقضها بعمرة، وهذا ابن عمر عندهم افلا يسالونه، ولا احد ممن مضى ما كانوا يبدءون بشيء حين يضعون اقدامهم، اول من الطواف بالبيت، ثم لا يحلون، وقد رايت امي وخالتي حين تقدمان، لا تبدآن بشيء اول من البيت تطوفان به، ثم لا تحلان، وقد اخبرتني امي انها اقبلت هي واختها والزبير وفلان وفلان بعمرة قط، فلما مسحوا الركن حلوا، وقد كذب فيما ذكر من ذلك.حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ قَالَ لَهُ: سَلْ لِي عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ ، عَنْ رَجُلٍ يُهِلُّ بِالْحَجِّ فَإِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ أَيَحِلُّ أَمْ لَا؟، فَإِنْ قَالَ لَكَ: لَا يَحِلُّ، فَقُلْ لَهُ: إِنَّ رَجُلًا يَقُولُ ذَلِكَ، قَالَ: فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: " لَا يَحِلُّ مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ إِلَّا بِالْحَجِّ "، قُلْتُ: فَإِنَّ رَجُلًا كَانَ يَقُولُ ذَلِكَ، قَالَ: بِئْسَ مَا قَالَ، فَتَصَدَّانِي الرَّجُلُ فَسَأَلَنِي فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ: فَقُلْ لَهُ: فَإِنَّ رَجُلًا كَانَ يُخْبِرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَ ذَلِكَ، وَمَا شَأْنُ أَسْمَاءَ وَالزُّبَيْرِ قَدْ فَعَلَا ذَلِكَ، قَالَ فَجِئْتُهُ فَذَكَرْتُ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟، فَقُلْتُ: لَا أَدْرِي، قَالَ: فَمَا بَالُهُ لَا يَأْتِينِي بِنَفْسِهِ يَسْأَلُنِي أَظُنُّهُ عِرَاقِيًّا، قُلْتُ: لَا أَدْرِي، قَالَ: فَإِنَّهُ قَدْ كَذَبَ: " قَدْ حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ أَوَّلَ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ أَنَّهُ تَوَضَّأَ، ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ "، ثُمَّ حَجَّ أَبُو بَكْرٍ، فَكَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ، ثُمَّ عُمَرُ مِثْلُ ذَلِكَ، ثُمَّ حَجَّ عُثْمَانُ، فَرَأَيْتُهُ أَوَّلُ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ، ثُمَّ مُعَاوِيَةُ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، ثُمَّ حَجَجْتُ مَعَ أَبِي الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، فَكَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ، ثُمَّ رَأَيْتُ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارَ يَفْعَلُونَ ذَلِكَ، ثُمَّ لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ، ثُمَّ آخِرُ مَنْ رَأَيْتُ فَعَلَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ، ثُمَّ لَمْ يَنْقُضْهَا بِعُمْرَةٍ، وَهَذَا ابْنُ عُمَرَ عِنْدَهُمْ أَفَلَا يَسْأَلُونَهُ، وَلَا أَحَدٌ مِمَّنْ مَضَى مَا كَانُوا يَبْدَءُونَ بِشَيْءٍ حِينَ يَضَعُونَ أَقْدَامَهُمْ، أَوَّلَ مِنَ الطَّوَافِ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَا يَحِلُّونَ، وَقَدْ رَأَيْتُ أُمِّي وَخَالَتِي حِينَ تَقْدَمَانِ، لَا تَبْدَآنِ بِشَيْءٍ أَوَّلَ مِنَ الْبَيْتِ تَطُوفَانِ بِهِ، ثُمَّ لَا تَحِلَّانِ، وَقَدْ أَخْبَرَتْنِي أُمِّي أَنَّهَا أَقْبَلَتْ هِيَ وَأُخْتُهَا وَالزُّبَيْرُ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ بِعُمْرَةٍ قَطُّ، فَلَمَّا مَسَحُوا الرُّكْنَ حَلُّوا، وَقَدْ كَذَبَ فِيمَا ذَكَرَ مِنْ ذَلِكَ.
محمد بن عبدالرحمان سے روایت ہے کہ ایک عراقی شخص نے ان سے کہا: میری طرف سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اس شخص کے بارے میں سوال کیجئے جو حج کا تلبیہ پکارتا ہے، جب وہ بیت اللہ کاطواف کرلےتو کیا احرام سے آزاد ہوجائےگا یانہیں؟اگر وہ تمھیں جواب دیں کہ وہ آزاد نہیں ہوگا تو ان سے کہناکہ ایک شخص ہے جو یہ کہتاہے (محمد بن عبدالرحمان نے) کہا: میں نے عروہ سے اس کی بابت سوال کیا توا نھوں نےکہا: جو شخص حج کا احرام باندھے، وہ حج کیے بغیر احرام سے فارغ نہیں ہوگا۔میں (محمد بن عبدالرحمان) نے عرض کی کہ ایک شخص ہے جو یہی بات کہتا ہے انھوں نے فرمایا: کتنی بری بات ہے جو اس نے کہی ہے۔پھر میرا ٹکراؤ (اس عراقی) شخص سے ہوا تو اس نے مجھ سے (اپنے سوال کے متعلق) پوچھا۔میں نے اسے بتادیا۔اس (عراقی) نے کہا: ان (عروہ) سے کہو، بلاشبہ ایک شخص خبر دے رہاتھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا حکم کیا تھا (حکم دیا تھا) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا کیا معاملہ تھا؟انھوں نے (بھی تو) ایسا کیا تھا۔ (محمد بن عبدالرحمان نے) کہا: میں ان عروہ کے پاس آیا اور ان کو یہ بات سنائی۔انھوں نے پوچھا: یہ (سائل) کون ہے؟میں نے عرض کی: میں نہیں جانتا۔انھوں نے کہا: اسے کیا ہے؟وہ خود میرے پاس آکرمجھ سے سوال کیوں نہیں کرتا؟میرا خیال ہے، وہ کوئی عراقی ہوگا۔ میں نے کہا: میں نہیں جانتا۔ (عروہ نے) کہا: بلاشبہ اس نے جھوٹ بولاہے۔مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نےخبر دی کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا، مکہ آکر آپ نے جو کام سب سے پہلے کیا، یہ تھا کہ آپ نے وضوفرمایا اور پھر بیت اللہ کاطواف کیا۔پھر ان کے بعدحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی حج کیا، انھوں نے بھی، سب سے پہلے جو کیا، یہی تھا کہ بیت اللہ کا طواف کیا اور اس کےسوا کوئی کام نہ کیا (نہ بال کٹوائے نہ احرام کھولا)، پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہی ایسا ہی کیا۔پھرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حج کیا۔میں نےانھیں دیکھا، انھوں نے بھی سب سے پہلا کام جس سے آغاز کیا، بیت اللہ کاطواف تھا، پھر اس کےپھر اس کے علاوہ کوئی کام نہ ہوا۔پھرمعاویہ رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (نے بھی ایسا ہی کیا) پھر میں نے اپنے والد زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا، انھوں نے بھی سب سے پہلے جس سے آغاز کیا بیت اللہ کاطواف تھا اور اس کے علاوہ کوئی نہ تھا، پھر میں نے مہاجرین وانصار (کی جماعت) کو بھی ایسا ہی کرتے دیکھا۔اس کے بعد (بال کٹوانا احرام کھولنا) کوئی کام نہ ہوا۔ پھر سب سے آخر میں جسے میں نے یہ کرتے دیکھا وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔انہوں نے بھی عمرے کے ذریعے سے اپنے حج کو فسخ نہیں کیا، اور یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے پاس موجود ہیں۔یہ انھی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے؟اور نہ گزرے ہوئے لوگوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) میں سے کسی نے (یہ کام) کیا۔وہ (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) جب بھی بیت اللہ میں قدم رکھتے تو طواف سے پہلے اور کسی چیز سے ابتداء نہ کرتے تھے (طوا ف کرنے کے بعد) احرام نہیں کھولتے تھے۔میں نے اپنی والدہ اور خالہ کو بھی دیکھا، وہ جب بھی مکہ آتیں طواف سے پہلے کسی اور کام سے آغاز نہ کرتیں، اس کا طواف کرتیں، پھر احرام نہ کھولتیں (حتیٰ کہ حج پورا کرلیتیں) میری والدہ نے مجھے بتایا کہ وہ، ان کی ہمشیرہ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا)، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فلاں فلاں لوگ کسی وقت عمرہ کے لئے آئے تھے، جب انھوں نے حجر اسود کا استلام کرلیا (اور عمرہ مکمل ہوگیا) تو (اس کے بعد) انھوں نے احرام کھولا۔اس شخص نے اس کے بارے میں جس بات کا ذکر کیا ہے، اس میں جھوٹ بولا ہے۔
محمد بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ ایک عراقی آدمی نے مجھے یہ کہا، میری خاطر، عروہ بن زبیر سے دریافت کیجئے، ایک آدمی حج کا احرام باندھتا ہے، تو جب وہ بیت اللہ کا طواف کر لیتا ہے، تو کیا وہ حلال ہو جائے گا یا نہیں؟ اگر وہ تمہیں یہ جواب دیں کہ وہ حلال نہیں ہو گا، تو ان سے کہنا، ایک آدمی اس کا قائل ہے، تو میں نے عروہ سے اس کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے کہا، جو حج کا احرام باندھتا ہے، وہ حج سے فراغت کے بعد حلال ہو گا، میں نے کہا، ایک آدمی کا یہی قول ہے، تو انہوں نے کہا، ان سے کہنا، ایک آدمی بتاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا ہے، اور کیا وجہ ہے حضرت اسماء اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بھی ایسا کیا ہے، میں ان (عروہ) کے پاس آیا، اور ان سے اس کا تذکرہ کیا، انہوں نے کہا، یہ سائل کون ہے؟ میں نے کہا، میں نہیں جانتا، انہوں نے کہا، کیا وجہ ہے وہ خود آ کر مجھ سے سوال کیوں نہیں کرتا؟ میرا گمان ہے وہ عراقی ہے، میں نے کہا، مجھے معلوم نہیں، انہوں نے کہا، اس نے غلط کہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا، تو مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پہنچ کر سب سے پہلا کام یہ کیا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر بیت اللہ کا طواف کیا، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کیا، اور سب سے پہلا کام یہی کیا کہ بیت اللہ کا طواف کیا، پھر وہ حج کے سوا نہیں بنا، پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسے ہی کیا، پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کیا، میں نے انہیں دیکھا، انہوں نے سب سے پہلے بیت اللہ کا طواف کیا، اور وہ حج کے سوا نہیں بنا، پھر میں نے اپنے باپ زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حج کیا، انہوں نے بھی سب سے پہلا کام یہی کیا کہ بیت اللہ کا طواف کیا، پھر وہ حج کے سوا نہیں بنا، پھر میں نے مہاجرین اور انصار کو ایسے کرتے دیکھا، لیکن ان کا حج ہی رہا (یعنی کسی کا حج طواف قدوم سے فسخ ہو کر عمرہ نہیں بنا) پھر آخری شخص جس کو میں نے یہ کام کرتے دیکھا، وہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، انہوں نے حج کو فسخ کر کے عمرہ نہیں بنایا، یہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود ہیں، ان سے کیوں نہیں پوچھتے؟ جو صحابہ کرام فوت ہو چکے ہیں، جب وہ مکہ میں قدم رکھتے، بیت اللہ کے طواف سے پہلے کوئی کام نہیں کرتے تھے، پھر وہ حلال نہیں ہوتے تھے، میں نے اپنی والدہ اور خالہ (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کو دیکھا ہے، وہ جب آتی ہیں، طواف سے پہلے کوئی کام نہیں کرتی ہیں، اس کے باوجود حلال نہیں ہوتی ہیں، اور مجھے میری والدہ نے بتایا ہے کہ وہ اس کی بہن، زبیر اور فلاں فلاں نے فقط عمرہ کیا، جب انہوں نے رکن اسود کا بوسہ لیا، تو حلال ہو گئے، عراقی نے جو بیان کیا ہے وہ غلط ہے۔
حدیث نمبر: 3002
Save to word اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا محمد بن بكر ، اخبرنا ابن جريج . ح وحدثني زهير بن حرب واللفظ له، حدثنا روح بن عبادة ، حدثنا ابن جريج ، حدثني منصور بن عبد الرحمن ، عن امه صفية بنت شيبة ، عن اسماء بنت ابي بكررضي الله عنهما، قالت: خرجنا محرمين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كان معه هدي فليقم على إحرامه، ومن لم يكن معه هدي فليحلل "، فلم يكن معي هدي فحللت، وكان مع الزبير هدي فلم يحلل، قالت: فلبست ثيابي ثم خرجت فجلست إلى الزبير، فقال: قومي عني، فقلت: اتخشى ان اثب عليك،حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أُمِّهِ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مُحْرِمِينَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَقُمْ عَلَى إِحْرَامِهِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحْلِلْ "، فَلَمْ يَكُنْ مَعِي هَدْيٌ فَحَلَلْتُ، وَكَانَ مَعَ الزُّبَيْرِ هَدْيٌ فَلَمْ يَحْلِلْ، قَالَتْ: فَلَبِسْتُ ثِيَابِي ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَلَسْتُ إِلَى الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: قُومِي عَنِّي، فَقُلْتُ: أَتَخْشَى أَنْ أَثِبَ عَلَيْكَ،
ابن جریج نے کہا: مجھے منصور بن عبدالرحمان نے اپنی والدہ صفیہ بنت شیبہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت کی۔انھوں نے کہا: ہم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ) احرام باندھے ہوئے روانہ ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کے ساتھ قربانی ہے وہ اپنے احرام پر قائم رہے اور جس کے ساتھ قربانی نہیں ہے (وہ عمرے کےبعد) احرام کھول دے۔"میرے ساتھ قربانی نہیں تھی میں نے احرام کھول دیا اور (میرے شوہر) زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ قربانی تھی، انھوں نے نہیں کھولا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: (عمرے کے بعد) میں نے (دوسرے) کپڑے پہن لئے اور زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آبیٹھی، وہ کہنے لگے: میرے پاس سے اٹھ جاؤ، میں نے کہا: آپ کو خدشہ ہے کہ میں آپ پر جھپٹ پڑوں گی۔
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے نقل کرتے ہیں، حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم احرام باندھ کر چلے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس قربانی ہے، وہ اپنا احرام برقرار رکھے، اور جو قربانی ساتھ نہیں لایا، وہ حلال ہو جائے۔ میرے پاس قربانی نہیں تھی، اس لیے میں نے احرام کھول دیا، اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ قربانی تھی، اس لیے وہ حلال نہ ہوئے، وہ بیان کرتی ہیں، میں نے اپنے (حلال ہونے والے) کپڑے پہن لیے، پھر نکل کر زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جا بیٹھی، تو وہ کہنے لگے، میرے پاس سے چلی جاؤ، تو میں نے کہا، کیا تمہیں اندیشہ ہے کہ میں تم پر جھپٹ پڑوں گی؟
حدیث نمبر: 3003
Save to word اعراب
وحدثني عباس بن عبد العظيم العنبري ، حدثنا ابو هشام المغيرة بن سلمة المخزومي ، حدثنا وهيب ، حدثنا منصور بن عبد الرحمن ، عن امه ، عن اسماء بنت ابي بكر رضي الله عنهما قالت: قدمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم مهلين بالحج، ثم ذكر بمثل حديث ابن جريج، غير انه قال: فقال: استرخي عني استرخي عني، فقلت: اتخشى ان اثب عليك.وَحَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ الْمَخْزُومِيُّ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَتْ: قَدِمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ، ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَقَالَ: اسْتَرْخِي عَنِّي اسْتَرْخِي عَنِّي، فَقُلْتُ: أَتَخْشَى أَنْ أَثِبَ عَلَيْكَ.
وہیب نے کہا: ہمیں منصور بن عبدالرحمان نے اپنی والدہ (صفیہ بنت شیبہ) سے، انھوں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے فرمایا: ہم حج کا تلبیہ کہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ پہنچے، پھر آگے ابن جریج کی طرح ہی حدیث بیان کی، البتہ (اپنی حدیث میں یہ اضافہ) ذکر کیا: (زبیر رضی اللہ عنہ نے) کہا: مجھ سے دور رہو، مجھ سے دور رہو، میں نے کہا: آپ کو خدشہ ہے کہ میں آپ پر جھپٹ پڑوں گی۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتی ہیں، ہم حج کا احرام باندھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ پہنچے، آ گے مذکورہ بالا روایت بیان کی، صرف یہ فرق ہے کہ اس روایت میں (قُوْمِيْ عَنِّيْ)
حدیث نمبر: 3004
Save to word اعراب
وحدثني وحدثني هارون بن سعيد الايلي ، واحمد بن عيسى ، قالا: حدثنا ابن وهب ، اخبرني عمرو ، عن ابي الاسود ، ان عبد الله مولى اسماء بنت ابي بكر رضي الله عنهما، حدثه، انه كان يسمع اسماء كلما مرت بالحجون، تقول: " صلى الله على رسوله وسلم لقد نزلنا معه هاهنا، ونحن يومئذ خفاف الحقائب قليل ظهرنا قليلة ازوادنا، فاعتمرت انا واختي عائشة، والزبير وفلان وفلان، فلما مسحنا البيت احللنا، ثم اهللنا من العشي بالحج "، قال هارون في روايته: ان مولى اسماء، ولم يسم عبد الله.وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، حَدَّثَهُ، أَنَّهُ كَانَ يَسْمَعُ أَسْمَاءَ كُلَّمَا مَرَّتْ بِالْحَجُونِ، تَقُولُ: " صَلَّى اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ نَزَلْنَا مَعَهُ هَاهُنَا، وَنَحْنُ يَوْمَئِذٍ خِفَافُ الْحَقَائِبِ قَلِيلٌ ظَهْرُنَا قَلِيلَةٌ أَزْوَادُنَا، فَاعْتَمَرْتُ أَنَا وَأُخْتِي عَائِشَةُ، وَالزُّبَيْرُ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَلَمَّا مَسَحْنَا الْبَيْتَ أَحْلَلْنَا، ثُمَّ أَهْلَلْنَا مِنَ الْعَشِيِّ بِالْحَجِّ "، قَالَ هَارُونُ فِي رِوَايَتِهِ: أَنَّ مَوْلَى أَسْمَاءَ، وَلَمْ يُسَمِّ عَبْدَ اللَّهِ.
ہمیں ہارون بن سعید ایلی اور احمد بن عیسیٰ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابن وہب نے حدیث بیا ن کی، (کہا:) مجھے عمرو نے ابن اسود سےخبر دی کہ اسماء رضی اللہ عنہا کے مولیٰ عبداللہ (بن کیسان) نے انھیں حدیث بیان کی کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا جب بھی مقام حجون سے گزرتیں تو وہ انھیں یہ کہتے ہوئے سنتے: "اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں فرمائے!"ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس مقام پر پڑاؤ کیا تھا۔ان دنوں ہمارے سفر کےتھیلے ہلکے، سواریاں کم اور زاد راہ بھی تھوڑا ہوتا تھا۔میں، میری بہن عائشہ رضی اللہ عنہا، زبیر رضی اللہ عنہ اور فلاں فلاں شخص نے عمرہ کیاتھا، پھر جب ہم (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا باقی سب) نے بیت اللہ (اور صفا مروہ) کا طواف کرلیا تو ہم (میں سے جنھوں نے عمرہ کرنا تھاانھوں نے) احرام کھول دیے، پھر (ترویہ کے دن) زوال کے بعد ہم نے (احرام باندھ کر) حج کا تلبیہ پکارا۔ ہارون نے اپنی روایت میں کہا: حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام نے (کہا)، انھوں نے ان کا نام، عبداللہ نہیں لیا۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آزاد کردہ غلام عبداللہ بیان کرتے ہیں، کہ وہ جب بھی حجون سے گزرتیں، میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنتا، اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام نازل فرمائے، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس حال میں یہاں اترے کہ ہمارے خوراک کے تھیلے ہلکے تھے، (خوراک کم تھی) ہماری سواریاں بھی تھوڑی تھیں اور زاد سفر بھی کم تھا، میں، میری بہن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، زبیر اور فلاں فلاں نے عمرہ کا ارادہ کیا، جب ہم نے بیت اللہ کا طواف کر لیا، ہم حلال ہو گئے، پھر ہم نے (آٹھ ذوالحجہ کو) زوال کے بعد حج کا احرام باندھا، امام صاحب کے استاد ہارون کی روایت میں حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے غلام کا نام نہیں لیا گیا، حَقَائِبْ، حَقِيْبَةٌ
30. باب فِي مُتْعَةِ الْحَجِّ:
30. باب: حج تمتع کا بیان۔
Chapter: Tamattu' in Hajj
حدیث نمبر: 3005
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن حاتم ، حدثنا روح بن عبادة ، حدثنا شعبة ، عن مسلم القري ، قال: سالت ابن عباس رضي الله عن متعة الحج فرخص فيها، وكان ابن الزبير ينهى عنها، فقال: هذه ام ابن الزبير ، تحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم رخص فيها، فادخلوا عليها فاسالوها، قال: فدخلنا عليها فإذا امراة ضخمة عمياء، فقالت: " قد رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها "،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْقُرِّيِّ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ مُتْعَةِ الْحَجِّ فَرَخَّصَ فِيهَا، وَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَنْهَى عَنْهَا، فَقَالَ: هَذِهِ أُمُّ ابْنِ الزُّبَيْرِ ، تُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِيهَا، فَادْخُلُوا عَلَيْهَا فَاسْأَلُوهَا، قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَيْهَا فَإِذَا امْرَأَةٌ ضَخْمَةٌ عَمْيَاءُ، فَقَالَتْ: " قَدْ رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا "،
شعبہ نے مسلم قری سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے حج تمتع کے بارے میں سوا ل کیا۔انھوں نے اس کی اجازت دی، جبکہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ اس سے منع فرمایا کرتے تھے۔انھوں (ابن عباس رضی اللہ عنہ) نے کہا: یہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی والدہ ہیں۔ وہ حدیث بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی، ان کے پاس جاؤ۔اور ان سے پوچھو (قری نے) کہا: ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ (اس وقت) بھاری جسم کی نابینا خاتون تھی، (ہمارے استفسار کے جواب میں) انھوں نےفرمایا: یقیناً اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (حج تمتع) کی اجازت عطا فرمائی تھی۔
مسلم القری بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت ابن عباس رضی الله تعالی عنہ سے حج تمتع کے بارے میں دریافت کیا؟ انہوں نے اس کی اجازت دی اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے روکتے تھے، تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، یہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے، ان کے پاس جاؤ، اور ان سے پوچھ لو، تو ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہ ایک بھاری بھر کم اور نابینا عورت تھیں، انہوں نے بتایا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی رخصت دی ہے۔
حدیث نمبر: 3006
Save to word اعراب
وحدثناه ابن المثنى ، حدثنا عبد الرحمن . ح وحدثناه ابن بشار ، حدثنا محمد يعني ابن جعفر جميعا، عن شعبة بهذا الإسناد، فاما عبد الرحمن ففي حديثه المتعة، ولم يقل متعة الحج، واما ابن جعفر، فقال شعبة: قال مسلم: لا ادري متعة الحج او متعة النساء.وحَدَّثَنَاه ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ . ح وحَدَّثَنَاه ابْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ جَمِيعًا، عَنْ شُعْبَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، فَأَمَّا عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَفِي حَدِيثِهِ الْمُتْعَةُ، وَلَمْ يَقُلْ مُتْعَةُ الْحَجِّ، وَأَمَّا ابْنُ جَعْفَرٍ، فَقَالَ شُعْبَةُ: قَالَ مُسْلِمٌ: لَا أَدْرِي مُتْعَةُ الْحَجِّ أَوْ مُتْعَةُ النِّسَاءِ.
عبدالرحمان اور محمد بن جعفر دونوں نے اسی سند کے ساتھ شعبہ سے روایت کی، ان میں سے عبدالرحمان کی حدیث میں صرف لفظ تمتع ہے، انھوں نے حج تمتع کے الفاظ روایت نہیں کیے۔جبکہ ابن جعفر نے کہا: شعبہ کا قول ہے کہ مسلم (قری) نے کہا: میں نہیں جانتا کہ (ابن عباس رضی اللہ عنہ) نے حج تمتع کا ذکر کیا یا کہ عورتوں سے (نکاح) متعہ کی بات کی۔
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، ایک کے استاد نے اپنی روایت میں صرف متعہ کہا، متع الحج نہیں کہا اور دوسرے کے استاد نے کہا، مجھے معلوم نہیں ہے، مسلم قری نے متعہ الحج کہا یا متعۃ النساء۔
حدیث نمبر: 3007
Save to word اعراب
وحدثنا عبيد الله بن معاذ ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة ، حدثنا مسلم القري ، سمع ابن عباس رضي الله عنهما، يقول: " اهل النبي صلى الله عليه وسلم بعمرة، واهل اصحابه بحج، فلم يحل النبي صلى الله عليه وسلم ولا من ساق الهدي من اصحابه، وحل بقيتهم، فكان طلحة بن عبيد الله فيمن ساق الهدي فلم يحل "،وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ الْقُرِّيُّ ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: " أَهَلَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُمْرَةٍ، وَأَهَلَّ أَصْحَابُهُ بِحَجٍّ، فَلَمْ يَحِلَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا مَنْ سَاقَ الْهَدْيَ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَحَلَّ بَقِيَّتُهُمْ، فَكَانَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ فِيمَنْ سَاقَ الْهَدْيَ فَلَمْ يَحِلَّ "،
معاذ (بن معاذ) نے ہمیں شعبہ سے حدیث سنائی، (کہا:) مسلم قریؒ نے ہمیں حدیث سنائی، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرمارہے تھے: (حجۃ الوداع کے موقع پر اولاً) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حج کے ساتھ ملاکر) عمرہ کرنے کا تلبیہ پکاراتھا، اور آپ کے (بعض) صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حج کا تلبیہ پکارا تھا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین جو قربانیاں ساتھ لائے تھے، انھوں نے (جب تک حج مکمل نہ کرلیا) احرام نہ کھولا، باقی صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے (جن کےہمراہ قربانیاں نہ تھیں) احرام کھول دیا۔حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ بھی انھی لوگوں میں سے تھے جو قربانیاں ساتھ لائے تھے، لہذا انھوں نے احرام نہ کھولا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حج کے ساتھ) عمرہ کا تلبیہ کہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے حج کا تلبیہ کہا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ساتھی ہدی ساتھ لائے تھے، حلال نہ ہوئے، اور باقی حلال ہو گئے، طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان میں داخل تھے، جو ہدی ساتھ لائے تھے، اس لیے وہ محرم ہی رہے۔
حدیث نمبر: 3008
Save to word اعراب
وحدثناه محمد بن بشار ، حدثنا محمد يعني ابن جعفر ، حدثنا شعبة بهذا الإسناد غير انه، قال: " وكان ممن لم يكن معه الهدي طلحة بن عبيد الله ورجل آخر فاحلا ".وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: " وَكَانَ مِمَّنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ الْهَدْيُ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ وَرَجُلٌ آخَرُ فَأَحَلَّا ".
محمد، یعنی ابن جعفر نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں شعبہ نے اسی سند کے ساتھ حدیث سنائی، البتہ انھوں نے کہا: جن کے پاس قربانیاں نہ تھیں ان میں طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے صاحب تھے، لہذا ان دونوں نے (عمرے کے بعد) احرام کھول دیا۔
یہی روایت امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں، لیکن اس روایت میں یہ ہے کہ طلحہ بن عبیداللہ اور ایک اور آدمی ان لوگوں میں سے تھے، جن کے ساتھ ہدی نہ تھی، اس لیے دونوں حلال ہو گئے، (صحیح بات یہ ہے کہ حضرت طلحہ کے پاس قربانی تھی، جیسا کہ حضرت جابر کی متفق علیہ حدیث ہے)۔
31. باب جَوَازِ الْعُمْرَةِ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ:
31. باب: حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کا جواز۔
Chapter: It is permissible to perform 'Umrah during the months of Hajj
حدیث نمبر: 3009
Save to word اعراب
وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا بهز ، حدثنا وهيب ، حدثنا عبد الله بن طاوس ، عن ابيه ، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: كانوا يرون ان العمرة في اشهر الحج من افجر الفجور في الارض، ويجعلون المحرم صفرا، ويقولون إذا برا الدبر وعفا الاثر وانسلخ صفر، حلت العمرة لمن اعتمر، فقدم النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه صبيحة رابعة مهلين بالحج، فامرهم ان يجعلوها عمرة، فتعاظم ذلك عندهم، فقالوا: يا رسول الله، اي الحل؟ قال: " الحل كله ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الْعُمْرَةَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ مِنْ أَفْجَرِ الْفُجُورِ فِي الْأَرْضِ، وَيَجْعَلُونَ الْمُحَرَّمَ صَفَرًا، وَيَقُولُونَ إِذَا بَرَأَ الدَّبَرْ وَعَفَا الْأَثَرْ وَانْسَلَخَ صَفَرْ، حَلَّتِ الْعُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرْ، فَقَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ صَبِيحَةَ رَابِعَةٍ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً، فَتَعَاظَمَ ذَلِكَ عِنْدَهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْحِلِّ؟ قَالَ: " الْحِلُّ كُلُّهُ ".
عبداللہ بن طاوس نے اپنے والد طاوس بن کیسان سے، انھوں نےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے فرمایا: (جاہلیت میں) لوگوں کا خیال تھا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا، زمین میں سب سے براکام ہے۔اور وہ لوگ محرم کے مہینے کو صفر بنا لیا کرتے تھے، اور کہا کرتے تھے: جب (اونٹوں کا) پیٹھ کا زخم مندمل ہو جائے، (مسافروں کا) نشان (قدم) مٹ جائے اورصفر (اصل میں محر م) گزر جائے تو عمرہ والے کے لئے عمرہ کرنا جائز ہے۔ (حالانکہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ چار ذوالحجہ کی صبح کو حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے مکہ پہنچے، اور ان (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) کو حکم دیا کہ اپنے حج (کی نیت) کو عمرے میں بدل دیں، یہ بات ان (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) پر بڑی گراں تھی، سب نے بیک زبان کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیسی حلت (احرام کا خاتمہ) ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مکمل حلت۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (جاہلیت کے دور میں) لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا زمین میں سب سے بڑی برائی سمجھتے تھے، اور وہ محرم کے مہینہ کو صفر قرار دیتے اور کہتے تھے، جب اونٹوں کی پشتوں کے زخم ٹھیک ہو جائیں، اور نقش قدم مٹ جائیں یا زخموں کے نشان مٹ جائیں اور ماہ صفر گزر جائے تو عمرہ کرنے والوں کے لیے عمرہ حلال ہو جاتا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی چار ذوالحجہ کی صبح (مکہ مکرمہ) پہنچے اور انہوں نے حج کا احرام باندھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں، اس کو عمرہ قرار دینے کا حکم دیا، یہ بات ان کے لیے انتہائی گرانی کا باعث بنی، تو انہوں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کس قسم کا حلال ہونا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مکمل طور پر حلال ہو جاؤ۔
حدیث نمبر: 3010
Save to word اعراب
حدثنا نصر بن علي الجهضمي ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة ، عن ايوب ، عن ابي العالية البراء ، انه سمع ابن عباس رضي الله عنهما، يقول: اهل رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج، فقدم لاربع مضين من ذي الحجة فصلى الصبح، وقال لما صلى الصبح: " من شاء ان يجعلها عمرة فليجعلها عمرة "،حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ، فَقَدِمَ لِأَرْبَعٍ مَضَيْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ فَصَلَّى الصُّبْحَ، وَقَالَ لَمَّا صَلَّى الصُّبْحَ: " مَنْ شَاءَ أَنْ يَجْعَلَهَا عُمْرَةً فَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً "،
نصر بن علی جحضمی نے ہمیں حدیث سنائی، (کہا:) میرے والد نے ہمیں حدیث سنائی، (کہا:) شعبہ نے ہمیں حدیث سنائی، انھوں نے ایوب سے، انھوں نے ابو عالیہ براء سے روایت کی، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرمارہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کاتلبیہ پکارا اور چار ذوالحجہ کو تشریف لائے اور فجر کی نماز ادا کی، جب نماز فجر ادا کرچکے تو فرمایا: " جو (اپنے حج کو) عمرہ بنانا چاہے، وہ اسے عمرہ بنا لے۔"
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے لیے احرام باندھا، اور چار ذوالحجہ کو پہنچ کر، صبح کی نماز (مکہ مکرمہ میں) ادا کی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھ لی تو فرمایا: جو حج کے احرام کو عمرہ سے بدلنا چاہتا ہو، وہ اس کو عمرہ کا احرام قرار دے لے۔

Previous    18    19    20    21    22    23    24    25    26    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.