29. باب: عمرہ کا احرام باندھنے والا سعی کرنے سے پہلے طواف کے ساتھ حلال نہیں ہو سکتا اور نہ ہی حج کا احرام باندھنے والا طواف قدوم سے پہلے حلال ہو سکتا ہے یعنی احرام نہیں کھول سکتا، اور اسی طرح قارن۔
Chapter: Clarifying that the pilgrim who has entered Ihram for Umrah should not exit Ihram after performing Tawaf before Sa'i; And the pilgrim who has entered Ihram for Hajj should not exit Ihram after performing Tawaf Al-Qudum, and the same applies to the pilgrim performing Qiran
حدثني هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني عمرو وهو ابن الحارث ، عن محمد بن عبد الرحمن ، ان رجلا من اهل العراق قال له: سل لي عروة بن الزبير ، عن رجل يهل بالحج فإذا طاف بالبيت ايحل ام لا؟، فإن قال لك: لا يحل، فقل له: إن رجلا يقول ذلك، قال: فسالته، فقال: " لا يحل من اهل بالحج إلا بالحج "، قلت: فإن رجلا كان يقول ذلك، قال: بئس ما قال، فتصداني الرجل فسالني فحدثته، فقال: فقل له: فإن رجلا كان يخبر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد فعل ذلك، وما شان اسماء والزبير قد فعلا ذلك، قال فجئته فذكرت له ذلك، فقال: من هذا؟، فقلت: لا ادري، قال: فما باله لا ياتيني بنفسه يسالني اظنه عراقيا، قلت: لا ادري، قال: فإنه قد كذب: " قد حج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبرتني عائشة رضي الله عنها، ان اول شيء بدا به حين قدم مكة انه توضا، ثم طاف بالبيت "، ثم حج ابو بكر، فكان اول شيء بدا به الطواف بالبيت، ثم لم يكن غيره، ثم عمر مثل ذلك، ثم حج عثمان، فرايته اول شيء بدا به الطواف بالبيت، ثم لم يكن غيره، ثم معاوية، وعبد الله بن عمر، ثم حججت مع ابي الزبير بن العوام، فكان اول شيء بدا به الطواف بالبيت، ثم لم يكن غيره، ثم رايت المهاجرين والانصار يفعلون ذلك، ثم لم يكن غيره، ثم آخر من رايت فعل ذلك ابن عمر، ثم لم ينقضها بعمرة، وهذا ابن عمر عندهم افلا يسالونه، ولا احد ممن مضى ما كانوا يبدءون بشيء حين يضعون اقدامهم، اول من الطواف بالبيت، ثم لا يحلون، وقد رايت امي وخالتي حين تقدمان، لا تبدآن بشيء اول من البيت تطوفان به، ثم لا تحلان، وقد اخبرتني امي انها اقبلت هي واختها والزبير وفلان وفلان بعمرة قط، فلما مسحوا الركن حلوا، وقد كذب فيما ذكر من ذلك.حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ قَالَ لَهُ: سَلْ لِي عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ ، عَنْ رَجُلٍ يُهِلُّ بِالْحَجِّ فَإِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ أَيَحِلُّ أَمْ لَا؟، فَإِنْ قَالَ لَكَ: لَا يَحِلُّ، فَقُلْ لَهُ: إِنَّ رَجُلًا يَقُولُ ذَلِكَ، قَالَ: فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: " لَا يَحِلُّ مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ إِلَّا بِالْحَجِّ "، قُلْتُ: فَإِنَّ رَجُلًا كَانَ يَقُولُ ذَلِكَ، قَالَ: بِئْسَ مَا قَالَ، فَتَصَدَّانِي الرَّجُلُ فَسَأَلَنِي فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ: فَقُلْ لَهُ: فَإِنَّ رَجُلًا كَانَ يُخْبِرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَ ذَلِكَ، وَمَا شَأْنُ أَسْمَاءَ وَالزُّبَيْرِ قَدْ فَعَلَا ذَلِكَ، قَالَ فَجِئْتُهُ فَذَكَرْتُ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟، فَقُلْتُ: لَا أَدْرِي، قَالَ: فَمَا بَالُهُ لَا يَأْتِينِي بِنَفْسِهِ يَسْأَلُنِي أَظُنُّهُ عِرَاقِيًّا، قُلْتُ: لَا أَدْرِي، قَالَ: فَإِنَّهُ قَدْ كَذَبَ: " قَدْ حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ أَوَّلَ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ أَنَّهُ تَوَضَّأَ، ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ "، ثُمَّ حَجَّ أَبُو بَكْرٍ، فَكَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ، ثُمَّ عُمَرُ مِثْلُ ذَلِكَ، ثُمَّ حَجَّ عُثْمَانُ، فَرَأَيْتُهُ أَوَّلُ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ، ثُمَّ مُعَاوِيَةُ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، ثُمَّ حَجَجْتُ مَعَ أَبِي الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، فَكَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ، ثُمَّ رَأَيْتُ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارَ يَفْعَلُونَ ذَلِكَ، ثُمَّ لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ، ثُمَّ آخِرُ مَنْ رَأَيْتُ فَعَلَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ، ثُمَّ لَمْ يَنْقُضْهَا بِعُمْرَةٍ، وَهَذَا ابْنُ عُمَرَ عِنْدَهُمْ أَفَلَا يَسْأَلُونَهُ، وَلَا أَحَدٌ مِمَّنْ مَضَى مَا كَانُوا يَبْدَءُونَ بِشَيْءٍ حِينَ يَضَعُونَ أَقْدَامَهُمْ، أَوَّلَ مِنَ الطَّوَافِ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَا يَحِلُّونَ، وَقَدْ رَأَيْتُ أُمِّي وَخَالَتِي حِينَ تَقْدَمَانِ، لَا تَبْدَآنِ بِشَيْءٍ أَوَّلَ مِنَ الْبَيْتِ تَطُوفَانِ بِهِ، ثُمَّ لَا تَحِلَّانِ، وَقَدْ أَخْبَرَتْنِي أُمِّي أَنَّهَا أَقْبَلَتْ هِيَ وَأُخْتُهَا وَالزُّبَيْرُ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ بِعُمْرَةٍ قَطُّ، فَلَمَّا مَسَحُوا الرُّكْنَ حَلُّوا، وَقَدْ كَذَبَ فِيمَا ذَكَرَ مِنْ ذَلِكَ.
محمد بن عبدالرحمان سے روایت ہے کہ ایک عراقی شخص نے ان سے کہا: میری طرف سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اس شخص کے بارے میں سوال کیجئے جو حج کا تلبیہ پکارتا ہے، جب وہ بیت اللہ کاطواف کرلےتو کیا احرام سے آزاد ہوجائےگا یانہیں؟اگر وہ تمھیں جواب دیں کہ وہ آزاد نہیں ہوگا تو ان سے کہناکہ ایک شخص ہے جو یہ کہتاہے (محمد بن عبدالرحمان نے) کہا: میں نے عروہ سے اس کی بابت سوال کیا توا نھوں نےکہا: جو شخص حج کا احرام باندھے، وہ حج کیے بغیر احرام سے فارغ نہیں ہوگا۔میں (محمد بن عبدالرحمان) نے عرض کی کہ ایک شخص ہے جو یہی بات کہتا ہے انھوں نے فرمایا: کتنی بری بات ہے جو اس نے کہی ہے۔پھر میرا ٹکراؤ (اس عراقی) شخص سے ہوا تو اس نے مجھ سے (اپنے سوال کے متعلق) پوچھا۔میں نے اسے بتادیا۔اس (عراقی) نے کہا: ان (عروہ) سے کہو، بلاشبہ ایک شخص خبر دے رہاتھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا حکم کیا تھا (حکم دیا تھا) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا کیا معاملہ تھا؟انھوں نے (بھی تو) ایسا کیا تھا۔ (محمد بن عبدالرحمان نے) کہا: میں ان عروہ کے پاس آیا اور ان کو یہ بات سنائی۔انھوں نے پوچھا: یہ (سائل) کون ہے؟میں نے عرض کی: میں نہیں جانتا۔انھوں نے کہا: اسے کیا ہے؟وہ خود میرے پاس آکرمجھ سے سوال کیوں نہیں کرتا؟میرا خیال ہے، وہ کوئی عراقی ہوگا۔ میں نے کہا: میں نہیں جانتا۔ (عروہ نے) کہا: بلاشبہ اس نے جھوٹ بولاہے۔مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نےخبر دی کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا، مکہ آکر آپ نے جو کام سب سے پہلے کیا، یہ تھا کہ آپ نے وضوفرمایا اور پھر بیت اللہ کاطواف کیا۔پھر ان کے بعدحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی حج کیا، انھوں نے بھی، سب سے پہلے جو کیا، یہی تھا کہ بیت اللہ کا طواف کیا اور اس کےسوا کوئی کام نہ کیا (نہ بال کٹوائے نہ احرام کھولا)، پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہی ایسا ہی کیا۔پھرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حج کیا۔میں نےانھیں دیکھا، انھوں نے بھی سب سے پہلا کام جس سے آغاز کیا، بیت اللہ کاطواف تھا، پھر اس کےپھر اس کے علاوہ کوئی کام نہ ہوا۔پھرمعاویہ رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (نے بھی ایسا ہی کیا) پھر میں نے اپنے والد زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا، انھوں نے بھی سب سے پہلے جس سے آغاز کیا بیت اللہ کاطواف تھا اور اس کے علاوہ کوئی نہ تھا، پھر میں نے مہاجرین وانصار (کی جماعت) کو بھی ایسا ہی کرتے دیکھا۔اس کے بعد (بال کٹوانا احرام کھولنا) کوئی کام نہ ہوا۔ پھر سب سے آخر میں جسے میں نے یہ کرتے دیکھا وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔انہوں نے بھی عمرے کے ذریعے سے اپنے حج کو فسخ نہیں کیا، اور یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے پاس موجود ہیں۔یہ انھی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے؟اور نہ گزرے ہوئے لوگوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) میں سے کسی نے (یہ کام) کیا۔وہ (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) جب بھی بیت اللہ میں قدم رکھتے تو طواف سے پہلے اور کسی چیز سے ابتداء نہ کرتے تھے (طوا ف کرنے کے بعد) احرام نہیں کھولتے تھے۔میں نے اپنی والدہ اور خالہ کو بھی دیکھا، وہ جب بھی مکہ آتیں طواف سے پہلے کسی اور کام سے آغاز نہ کرتیں، اس کا طواف کرتیں، پھر احرام نہ کھولتیں (حتیٰ کہ حج پورا کرلیتیں) میری والدہ نے مجھے بتایا کہ وہ، ان کی ہمشیرہ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا)، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فلاں فلاں لوگ کسی وقت عمرہ کے لئے آئے تھے، جب انھوں نے حجر اسود کا استلام کرلیا (اور عمرہ مکمل ہوگیا) تو (اس کے بعد) انھوں نے احرام کھولا۔اس شخص نے اس کے بارے میں جس بات کا ذکر کیا ہے، اس میں جھوٹ بولا ہے۔
محمد بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ ایک عراقی آدمی نے مجھے یہ کہا، میری خاطر، عروہ بن زبیر سے دریافت کیجئے، ایک آدمی حج کا احرام باندھتا ہے، تو جب وہ بیت اللہ کا طواف کر لیتا ہے، تو کیا وہ حلال ہو جائے گا یا نہیں؟ اگر وہ تمہیں یہ جواب دیں کہ وہ حلال نہیں ہو گا، تو ان سے کہنا، ایک آدمی اس کا قائل ہے، تو میں نے عروہ سے اس کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے کہا، جو حج کا احرام باندھتا ہے، وہ حج سے فراغت کے بعد حلال ہو گا، میں نے کہا، ایک آدمی کا یہی قول ہے، تو انہوں نے کہا، ان سے کہنا، ایک آدمی بتاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا ہے، اور کیا وجہ ہے حضرت اسماء اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بھی ایسا کیا ہے، میں ان (عروہ) کے پاس آیا، اور ان سے اس کا تذکرہ کیا، انہوں نے کہا، یہ سائل کون ہے؟ میں نے کہا، میں نہیں جانتا، انہوں نے کہا، کیا وجہ ہے وہ خود آ کر مجھ سے سوال کیوں نہیں کرتا؟ میرا گمان ہے وہ عراقی ہے، میں نے کہا، مجھے معلوم نہیں، انہوں نے کہا، اس نے غلط کہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا، تو مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پہنچ کر سب سے پہلا کام یہ کیا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر بیت اللہ کا طواف کیا، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کیا، اور سب سے پہلا کام یہی کیا کہ بیت اللہ کا طواف کیا، پھر وہ حج کے سوا نہیں بنا، پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسے ہی کیا، پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کیا، میں نے انہیں دیکھا، انہوں نے سب سے پہلے بیت اللہ کا طواف کیا، اور وہ حج کے سوا نہیں بنا، پھر میں نے اپنے باپ زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حج کیا، انہوں نے بھی سب سے پہلا کام یہی کیا کہ بیت اللہ کا طواف کیا، پھر وہ حج کے سوا نہیں بنا، پھر میں نے مہاجرین اور انصار کو ایسے کرتے دیکھا، لیکن ان کا حج ہی رہا (یعنی کسی کا حج طواف قدوم سے فسخ ہو کر عمرہ نہیں بنا) پھر آخری شخص جس کو میں نے یہ کام کرتے دیکھا، وہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، انہوں نے حج کو فسخ کر کے عمرہ نہیں بنایا، یہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود ہیں، ان سے کیوں نہیں پوچھتے؟ جو صحابہ کرام فوت ہو چکے ہیں، جب وہ مکہ میں قدم رکھتے، بیت اللہ کے طواف سے پہلے کوئی کام نہیں کرتے تھے، پھر وہ حلال نہیں ہوتے تھے، میں نے اپنی والدہ اور خالہ (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کو دیکھا ہے، وہ جب آتی ہیں، طواف سے پہلے کوئی کام نہیں کرتی ہیں، اس کے باوجود حلال نہیں ہوتی ہیں، اور مجھے میری والدہ نے بتایا ہے کہ وہ اس کی بہن، زبیر اور فلاں فلاں نے فقط عمرہ کیا، جب انہوں نے رکن اسود کا بوسہ لیا، تو حلال ہو گئے، عراقی نے جو بیان کیا ہے وہ غلط ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3001
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ اس حدیث سے ثابت ہوا طواف بیت اللہ سے پہلے وضو کرنا ضروری ہےامام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین کے نزدیک طواف کے لیے با وضو ہونا شرط ہے اس کے بغیر طواف نہیں ہو گا۔ احناف کے نزدیک طہارت شرط نہیں ہے بلکہ واجب ہے اگر بلا طہارت طواف کرے گا تو طواف ہو جائے لیکن ترک واجب کی بنا پر ایک بکری کی قربانی دینی ہو گی۔ 2۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف یہ ہے کہ جو انسان حج افراد کا احرام باندھتا ہے اگر وہ قربانی ساتھ نہیں لاتا اور آ کر بیت اللہ کا طواف کر لیتا ہے تو اس کا یہ طواف اور سعی عمرہ میں بدل جائیں گے اور حج فسخ ہو جائے گا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں یہی حکم دیا تھا کہ جن کے پاس ہدی نہیں ہے وہ سب حلال ہو جائیں اور اس حدیث کا آخری حصہ: (فَلَمَّا مَسَحُوا الرُّكْنَ حَلُّوا) (وہ رکن اسود کو بوسہ دینے سے فارغ ہو گئے (حلال ہوگئے) یعنی جب انھوں نے طواف قدوم کر لیا اور اس کے بعد سعی کر لی تو حلال ہو گئے یہی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نظریہ ہے اور جو لوگ حلال نہیں ہوئے وہ وہی تھے جن کے پاس قربانیاں تھیں لیکن اکثر آئمہ اور بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا موقف یہ ہے فسخ کا حکم حجۃ الوداع سے خاص ہے اب طواف کا آغاز کرنے کے بعد حج کو فسخ نہیں کیا جا سکتا حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ بیت اللہ کے طواف کے بعد اور سعی سے پہلے وہ حلال ہو جائے گا، بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ جس کے پاس قربانی نہیں ہے اور بیت اللہ کا طواف کر لیتا ہے تواب اس کو سعی کر کے حلال ہونا پڑے گا اگر وہ جس کے پاس قربانی نہیں ہے اور وہ بیت اللہ کا طواف کر لیتا ہے تو اب اس کو سعی کر کے حلال ہونا پڑے گا اگر وہ حلال نہیں ہونا چاہتا تو بیت اللہ کا طواف قدوم نہ کرے حج کے لیے طواف افاضہ ہی کرے اور حدیث کے آخر میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حلال ہونے والوں میں شمار کیا گیا ہے یہ اس اعتبار سے تو درست ہے کہ انھوں نے حج تمتع کی نیت کرلی تھی، جس میں عمرہ کر کے انسان حلال ہو جاتا ہے لیکن بعد میں جب انہیں حیض آنے لگا تو وہ اپنی اس نیت پر عمل نہیں کر سکیں تھیں کیونکہ وہ بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتی تھی اس لیے ان کی طرف حلال ہونے کی نسبت محض نیت اور ارادہ کے اعتبار سے ہے عملاً ایسا نہیں ہوا، حضرت عروہ نے سب حضرات کے طواف کا تذکرہ کیا ہے سعی کو نظر انداز کر دیا ہے کیونکہ یہ تو معلوم ہی ہے سب نے طواف کے بعد سعی کی تھی ان کا مقصد صرف یہ بیان کرنا ہے کہ طواف وسعی سے حلال ہونا ضروری نہیں ٹھہرتا یہ سب حضرات قارن تھے اور ان کے پاس قربانیاں تھیں اس لیے ان کا احرام نہ کھولنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف دلیل نہیں بن سکتا اور نہ ہی اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سعی ضروری نہیں ہے کیونکہ سعی عمرہ اور حج کا رکن ہے اس کے بغیر نہ عمرہ ہو سکتا ہے اور نہ حج امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور باقی محدثین رحمۃ اللہ علیہم کا یہی موقف ہے لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی واجب ہے لیکن رکن نہیں ہے، امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا موقف بھی یہی ہے اگر رہ جائے تو ایک جانور کی قربانی سے تلافی ہو سکتی ہے، بعض صحابہ و تابعین کا نظریہ یہ ہے کہ یہ سنت ہے نہ رکن ہے اور نہ واجب سوال یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی کی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوحسنہ ہونے کا تقاضا کیا ہے فقہی موشگافیوں کی بجائے ایک مسلمان کے پیش نظر ہر عمل میں یہ رہنا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام کیسے کیا جب کہ یہ فرمان بھی موجود ہے (صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي)(میری طرح نماز پڑھو) (خُذُوا عَنِّي مَناسِكَكُمْ) (حج میں میرے طرز عمل کو اپناؤ) تو اس لیے ہر کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق کیا جائے گا۔