محمد بن بشر، اسماعیل بن ابی خالد، محمد بن سعید، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا کہ مہینہ اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ ایک انگلی کم فرمالی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا: ”مہینہ ایسا، ایسا ہوتا ہے۔ پھر تیسری مرتبہ ایک انگلی کم کر دی۔
زائدہ، اسماعیل، حضرت محمد بن سعد اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مہینہ اس طرح اور اس طرح اور اس طرح سے ہوتا ہے دس اور دس اور نو مرتبہ۔
حضرت سعد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ ایسا، ایسا، ایسا ہوتا ہے۔“ دس اور دس اور ایک دفعہ نو یعنی انتیس۔
5. باب: ہر شہر کے لئے اس کی اپنی رؤیت معتبر ہے اور کسی شہر میں چاند دیکھنے سے دور والوں کے لیے رؤیت ثابت نہیں ہوتی۔
Chapter: Each land has its own sighting of the moon, and if they see the crescent in one land, that does not necessarily apply to regions that are far away from it
حدثنا يحيى بن يحيى ، ويحيى بن ايوب ، وقتيبة ، وابن حجر ، قال يحيى بن يحيى: اخبرنا، وقال الآخرون: حدثنا إسماعيل وهو ابن جعفر ، عن محمد وهو ابن ابي حرملة ، عن كريب ، ان ام الفضل بنت الحارث بعثته إلى معاوية بالشام، قال: فقدمت الشام فقضيت حاجتها، واستهل علي رمضان وانا بالشام، فرايت الهلال ليلة الجمعة، ثم قدمت المدينة في آخر الشهر، فسالني عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، ثم ذكر الهلال، فقال: " متى رايتم الهلال؟ "، فقلت: " رايناه ليلة الجمعة "، فقال: " انت رايته؟ "، فقلت: " نعم ورآه الناس، وصاموا وصام معاوية "، فقال: " لكنا رايناه ليلة السبت فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين او نراه "، فقلت: " او لا تكتفي برؤية معاوية وصيامه "، فقال: " لا هكذا امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم "، وشك يحيى بن يحيى في نكتفي او تكتفي.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: " مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ "، فَقُلْتُ: " رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ "، فَقَالَ: " أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟ "، فَقُلْتُ: " نَعَمْ وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ "، فَقَالَ: " لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ أَوْ نَرَاهُ "، فَقُلْتُ: " أَوَ لَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ "، فَقَالَ: " لَا هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، وَشَكَّ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى فِي نَكْتَفِي أَوْ تَكْتَفِي.
یحییٰ بن یحییٰ، یحییٰ بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر، یحییٰ بن یحییٰ، اسماعیل، ابن جعفر، محمد، ابن حرملہ حضرت کریب سے روایت ہے کہ حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے مجھے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف ملک شام بھیجا میں شام میں پہنچا تو میں نے حضرت ام الفضل کا کام پورا کیا۔اور وہیں پر رمضان المبارک کا چاند ظاہر ہوگیا۔اور میں نے شام میں ہی جمعے کی رات چاند دیکھا پھر میں مہینے کے آخر میں مدینے آیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے چاند کا ذکر ہوا تو مجھے پوچھنے لگے کہ تم نے چاند کب دیکھا ہے؟تو میں نے کہا کہ ہم نے جمعہ کی رات چانددیکھا ہے۔پھر فرمایا! تو نے خود دیکھاتھا؟میں نے کہا ہاں! اور لوگوں نے بھی دیکھا ہے اور انہوں نے روزہ رکھا۔اورحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے؟حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں!رسول اللہ نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ یحییٰ بن یحییٰ کو شک ہے کہ "ہم اکتفا نہیں کریں گے"کے الفاظ تھے یا"آپ اکتفا نہیں کریں گے"کے۔
ابوکریب رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ اُم الفضل بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں شام حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیجا میں شام آیا اور ان کی ضرورت پوری کی۔ اور چاند جبکہ میں شام ہی میں تھا نمودار ہو گیا میں نے چاند جمعہ کی رات دیکھا، پھر مہینہ کے آخر میں مدینہ آ گیا تو مجھ سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ پوچھا، پھر چاند کا تذکرہ کیا اور کہا تم نے چاند کب دیکھا؟ میں نے کہا: ہم نے اسے جمعہ کی رات دیکھا، تو انھوں نے پوچھا: تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں! اور لوگوں نے بھی دیکھا ہے سب نے روزہ رکھا اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی روزہ رکھا، تو انھوں نے کہا: لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات دیکھا ہے اس لیے ہم روزہ رکھتے رہیں گے حتی کہ تیس پورے ہو جائیں یا ہمیں نظر آ جائے، میں نے کہا: کیا آپ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رؤیت اور ان کے روزہ کو کافی نہیں سمجھتے۔ انھوں نے کہا: نہیں۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی حکم دیا ہے۔ یحییٰ بن یحییٰ کی حدیث میں ہے ”لانَكْتَفِى او تَكْتَفِى“ ہم کافی نہیں سمجھیں گے۔ یا آپ کافی نہیں سمجھتے۔
6. باب: چاند کے چھوٹے بڑے ہونے کا اعتبار نہیں اور جب بادل ہوں تو تیس دن شمار کر لیا کرو۔
Chapter: Clarifying that it does not matter whether the crescent is large or small, for Allah, the Most High, causes it to appear for long enough that people can see it, and if it is cloudy then thirty days should be completed
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا محمد بن فضيل ، عن حصين ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي البختري ، قال: خرجنا للعمرة فلما نزلنا ببطن نخلة، قال: تراءينا الهلال، فقال بعض القوم: هو ابن ثلاث، وقال بعض القوم: هو ابن ليلتين، قال: فلقينا ابن عباس ، فقلنا: إنا راينا الهلال، فقال بعض القوم: هو ابن ثلاث، وقال بعض القوم: هو ابن ليلتين، فقال: اي ليلة رايتموه؟، قال: فقلنا: ليلة كذا وكذا، فقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله مده للرؤية، فهو لليلة رايتموه ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، قَالَ: خَرَجْنَا لِلْعُمْرَةِ فَلَمَّا نَزَلْنَا بِبَطْنِ نَخْلَةَ، قَالَ: تَرَاءَيْنَا الْهِلَالَ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ، وَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هُوَ ابْنُ لَيْلَتَيْنِ، قَالَ: فَلَقِينَا ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقُلْنَا: إِنَّا رَأَيْنَا الْهِلَالَ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ، وَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هُوَ ابْنُ لَيْلَتَيْنِ، فَقَالَ: أَيَّ لَيْلَةٍ رَأَيْتُمُوهُ؟، قَالَ: فَقُلْنَا: لَيْلَةَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ مَدَّهُ لِلرُّؤْيَةِ، فَهُوَ لِلَيْلَةٍ رَأَيْتُمُوهُ ".
۔ حصین، عمر بن مرہ، حضرت ابوالبختری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم عمرہ کے لئے نکلے تو جب ہم وادی نخلہ میں اترے تو ہم نے چاند دیکھا بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تیسری کا چاندہے۔اور کسی نے کہا کہ یہ دو راتوں کا چاند ہے۔تو ہماری ملاقات ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو ہم نے ان سے عرض کیا کہ ہم نے چاند دیکھا ہے۔کوئی کہتا ہے کہ تیسری تاریخ کا چاندہے۔کوئی کہتا ہے کہ د وسری کا چاند ہے۔تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے کس ر ات چاند دیکھا تھا؟تو ہم نے عرض کیا کہ فلاں فلاں رات کا تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دیکھنے کے لئے اسے بڑھا دیاہے۔در حقیقت کا اسی رات کا چاند ہے جس رات تم نے اسے دیکھا۔
ابو البختری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ہم عمرہ کے لیے نکلے، جب بطن نخلہ نامی مقام پر پڑاؤ کیا تو ہم نے ایک دوسرے کو چاند دکھایا، بعض لوگوں نے کہا: تیسری رات کا چاند ہے اور بعض نے کہا: دوسری رات کا ہے اور ہماری ملاقات ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی تو ہم نے پوچھا: ہم نے چاند دیکھا تو بعض لوگوں نے کہا: تیسری رات کا چاند ہے اور بعض لوگوں نے کہا: دوسری رات کا ہے۔ آپ نے پوچھا: تم نے اسے کس رات دیکھا؟ تو ہم نے بتایا کہ فلاں فلاں رات کو دیکھا ہے۔ اس پر انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اسے دیکھنے کے لیے بڑھا دیتا ہے درحقیقت وہ اس رات کا ہے جس رات تم نے اسے دیکھا ہے ”مَدَّة“ دیکھنے کے لیے اس کی مدت رؤیت بڑھا دی۔
شعبہ، عمرو ابن مرہ حضرت ابو البختری فرماتے ہیں کہ ہم نے ذات عرق میں رمضان کا چاندد یکھا تو ہم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف ایک آدمی بھیجا تاکہ وہ چاند کے بارے میں آپ سے پوچھے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے چاند دیکھنے کے لئے بڑھا دیا ہے۔تو اگر مطلع ابر آلود ہوتو گنتی پوری کرو۔
ابو البختری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رمضان کا چاند ذات عرق میں دیکھا تو ہم نے ایک آدمی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پوچھنے کے لیے بھیجا۔ تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اسے دیکھنے کے لیے مدت زیادہ دیتا ہے (بڑھا دیتا ہے) اگر مطلع ابر آلود ہو جائے تو گنتی (تیس) پوری کرو۔“
یزید بن زریع، خالد، حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عید کے دو ماہ ناقص نہیں ہوتے ایک رمضان المبارک کا دوسرے ذی الحجہ کا۔
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عید کے دو ماہ رمضان اور ذوالحجہ ناقص نہیں ہوتے۔“
معتمر بن سلیمان، اسحاق بن سوید، خالد، حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتےہوئے فرماتے ہیں۔کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایادو مہینے ناقص نہیں ہوتے خالد کی حدیث میں ہے کہ عید کے دو مہینے رمضان اور ذی الحجہ کے ہیں۔ خالد کی حدیث میں ہے"عید کے دونوں مہینے، رمضان اور ذوالحجہ۔"
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عید کے دو ماہ کم نہیں ہوتے“ خالد کی حدیث میں ہے۔ ”عید کے دو ماہ رمضان اور ذوالحجہ ہیں۔“
8. باب: روزہ طلوع فجر سے شروع ہو جاتا ہے اور طلوع فجر تک کھانا وغیرہ جائز ہے، اور اس فجر (صبح کاذب) کا بیان جس میں روزہ شروع ہوتا ہے، اور اس فجر (صبح صادق) کا بیان جس میں صبح کی نماز کا وقت شروع ہوتا ہے۔
Chapter: Clarifying that fasting begins at dawn, and a person may eat and other than that until dawn begins; And clarifying the dawn which has to do with the rulings concerning the beginning of fasting and the beginning of the time for the Subh Prayer, and other than that, which is the Second Dawn, which is called the True Dawn. The First Dawn, which is the False Dawn, has nothing to do with the rulings
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن إدريس ، عن حصين ، عن الشعبي ، عن عدي بن حاتم رضي الله عنه، قال: لما نزلت حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر سورة البقرة آية 187، قال له عدي بن حاتم: يا رسول الله إني اجعل تحت وسادتي عقالين: عقالا ابيض وعقالا اسود، اعرف الليل من النهار، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن وسادتك لعريض، إنما هو سواد الليل، وبياض النهار ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ سورة البقرة آية 187، قَالَ لَهُ عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَجْعَلُ تَحْتَ وِسَادَتِي عِقَالَيْنِ: عِقَالًا أَبْيَضَ وَعِقَالًا أَسْوَدَ، أَعْرِفُ اللَّيْلَ مِنَ النَّهَارِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ وِسَادَتَكَ لَعَرِيضٌ، إِنَّمَا هُوَ سَوَادُ اللَّيْلِ، وَبَيَاضُ النَّهَارِ ".
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب آیت حَتَّیٰ یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ نازل ہوئی۔تو حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں نے اپنے تکیے کے نیچے سفید اور سیاہ رنگ کے دو دھاگے رکھ لئے ہیں۔جن کی وجہ سے میں رات اور دن میں امتیاز کرلیتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا تکیہ بہت چوڑا ہے کہ جس میں رات اور دن سماگئے ہیں۔ وہ (د ھاگا) تو رات کی سیاہی اور دن کی روشنی ہے۔"
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت اتری ”یہاں تک کہ تم پر فجر کا سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے نمایاں ہو جائے۔“ بقرہ آیت187۔ عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے تکیہ کے نیچے دو رسیاں ایک سفید رنگ کی رسی اور ایک سیاہ رنگ کی رسی رکھ لیتا ہوں تاکہ میں رات اور دن میں امتیاز کر سکوں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پھر تو) تمھارا تکیہ بہت چوڑا ہے (جس کے نیچے رات دن چھپ جاتے ہیں) ان سے مراد تو رات کی سیاہی اور دن کی روشنی ہے۔“
حدثنا حدثنا عبيد الله بن عمر القواريري ، حدثنا فضيل بن سليمان ، حدثنا ابو حازم ، حدثنا سهل بن سعد ، قال: " لما نزلت هذه الآية وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود سورة البقرة آية 187، قال: كان الرجل ياخذ خيطا ابيض وخيطا اسود، فياكل حتى يستبينهما، حتى انزل الله عز وجل من الفجر سورة البقرة آية 187 فبين ذلك ".حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ سورة البقرة آية 187، قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يَأْخُذُ خَيْطًا أَبْيَضَ وَخَيْطًا أَسْوَدَ، فَيَأْكُلُ حَتَّى يَسْتَبِينَهُمَا، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْفَجْرِ سورة البقرة آية 187 فَبَيَّنَ ذَلِكَ ".
فضیل بن سلیمان، ابو حازم، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔جب یہ آیتوَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّیٰ یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ نازل ہوئی تو بعض آدمی سفید دھاگہ اور سیاہ دھاگہ لے لیتے اور جب تک ان میں واضح امتیاز نظر نہ آتاتو کھاتے رہتے یہاں تک اللہ تعالیٰ نے لفظ" مِنَ الْفَجْرِ " نازل فرمایا اور سفید دھاگے کی وضاحت ہوگئی۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں جب یہ آیت اتری ”اور کھاؤ پیو یہاں تک تم پر سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ممتاز ہو جائے“ تو بعض لوگ ایک سفید دھاگا اور ایک سیاہ دھاگا لے لیتے اور ان دونوں کے ممتاز اور نمایاں ہونے تک کھاتے رہتے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ﴿مِنَ الْفَجْرِ﴾ فجر سے لفظ اتار کر مفہوم کو واضح کر دیا ہے۔