5. باب: ہر شہر کے لئے اس کی اپنی رؤیت معتبر ہے اور کسی شہر میں چاند دیکھنے سے دور والوں کے لیے رؤیت ثابت نہیں ہوتی۔
Chapter: Each land has its own sighting of the moon, and if they see the crescent in one land, that does not necessarily apply to regions that are far away from it
حدثنا يحيى بن يحيى ، ويحيى بن ايوب ، وقتيبة ، وابن حجر ، قال يحيى بن يحيى: اخبرنا، وقال الآخرون: حدثنا إسماعيل وهو ابن جعفر ، عن محمد وهو ابن ابي حرملة ، عن كريب ، ان ام الفضل بنت الحارث بعثته إلى معاوية بالشام، قال: فقدمت الشام فقضيت حاجتها، واستهل علي رمضان وانا بالشام، فرايت الهلال ليلة الجمعة، ثم قدمت المدينة في آخر الشهر، فسالني عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، ثم ذكر الهلال، فقال: " متى رايتم الهلال؟ "، فقلت: " رايناه ليلة الجمعة "، فقال: " انت رايته؟ "، فقلت: " نعم ورآه الناس، وصاموا وصام معاوية "، فقال: " لكنا رايناه ليلة السبت فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين او نراه "، فقلت: " او لا تكتفي برؤية معاوية وصيامه "، فقال: " لا هكذا امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم "، وشك يحيى بن يحيى في نكتفي او تكتفي.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: " مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ "، فَقُلْتُ: " رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ "، فَقَالَ: " أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟ "، فَقُلْتُ: " نَعَمْ وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ "، فَقَالَ: " لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ أَوْ نَرَاهُ "، فَقُلْتُ: " أَوَ لَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ "، فَقَالَ: " لَا هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، وَشَكَّ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى فِي نَكْتَفِي أَوْ تَكْتَفِي.
یحییٰ بن یحییٰ، یحییٰ بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر، یحییٰ بن یحییٰ، اسماعیل، ابن جعفر، محمد، ابن حرملہ حضرت کریب سے روایت ہے کہ حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے مجھے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف ملک شام بھیجا میں شام میں پہنچا تو میں نے حضرت ام الفضل کا کام پورا کیا۔اور وہیں پر رمضان المبارک کا چاند ظاہر ہوگیا۔اور میں نے شام میں ہی جمعے کی رات چاند دیکھا پھر میں مہینے کے آخر میں مدینے آیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے چاند کا ذکر ہوا تو مجھے پوچھنے لگے کہ تم نے چاند کب دیکھا ہے؟تو میں نے کہا کہ ہم نے جمعہ کی رات چانددیکھا ہے۔پھر فرمایا! تو نے خود دیکھاتھا؟میں نے کہا ہاں! اور لوگوں نے بھی دیکھا ہے اور انہوں نے روزہ رکھا۔اورحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے؟حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں!رسول اللہ نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ یحییٰ بن یحییٰ کو شک ہے کہ "ہم اکتفا نہیں کریں گے"کے الفاظ تھے یا"آپ اکتفا نہیں کریں گے"کے۔
ابوکریب رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ اُم الفضل بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں شام حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیجا میں شام آیا اور ان کی ضرورت پوری کی۔ اور چاند جبکہ میں شام ہی میں تھا نمودار ہو گیا میں نے چاند جمعہ کی رات دیکھا، پھر مہینہ کے آخر میں مدینہ آ گیا تو مجھ سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ پوچھا، پھر چاند کا تذکرہ کیا اور کہا تم نے چاند کب دیکھا؟ میں نے کہا: ہم نے اسے جمعہ کی رات دیکھا، تو انھوں نے پوچھا: تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں! اور لوگوں نے بھی دیکھا ہے سب نے روزہ رکھا اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی روزہ رکھا، تو انھوں نے کہا: لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات دیکھا ہے اس لیے ہم روزہ رکھتے رہیں گے حتی کہ تیس پورے ہو جائیں یا ہمیں نظر آ جائے، میں نے کہا: کیا آپ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رؤیت اور ان کے روزہ کو کافی نہیں سمجھتے۔ انھوں نے کہا: نہیں۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی حکم دیا ہے۔ یحییٰ بن یحییٰ کی حدیث میں ہے ”لانَكْتَفِى او تَكْتَفِى“ ہم کافی نہیں سمجھیں گے۔ یا آپ کافی نہیں سمجھتے۔
متى رأيتم الهلال فقلت رأيناه ليلة الجمعة فقال أنت رأيته فقلت نعم ورآه الناس وصاموا وصام معاوية فقال لكنا رأيناه ليلة السبت فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين أو نراه فقلت أو لا تكتفي برؤية معاوية وصيامه فقال لا هكذا أمرنا رسول الله
متى رأيتم الهلال قلت رأيته ليلة الجمعة قال أنت رأيته قلت نعم وصاموا وصام معاوية ورآه الناس قال لكنا رأيناه ليلة السبت فلا نزال نصومه حتى نكمل الثلاثين أو نراه فقلت أفلا تكتفي برؤية معاوية وصيامه قال لا هكذا أمرنا رسول الله
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2528
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ رؤیت ہلال کے سلسلہ میں ائمہ میں اختلاف ہے کہ اگر ایک علاقہ میں چاند نظر آ جائے تو دوسرے علاقے کے لوگ کیا کریں؟ 1۔ امام اعظم یعنی امیر وحاکم رؤیت قبول کر لے تو سب کو روزہ رکھنا ہوگا وگرنہ جہاں نظر آیا ہے وہیں کے لوگ روزہ رکھیں گے۔ 2۔ ہرعلاقے کے لیے اپنی اپنی رؤیت ہے۔ 3۔ اگر ایک علاقے میں چاند نظر آ جائے تو ہرجگہ کے لوگوں کو اس کا اعتبار کرنا ہو گا۔ 4۔ اختلاف مطلع کا لحاظ ہے، جن علاقوں کا مطلع ایک ہے، اگر ایک علاقہ میں نظر آ گیا ہے تو دوسرے میں بھی نظر آنا چاہیے تھا۔ کسی سبب یاعارضہ کی وجہ سے نظر نہیں آ سکا۔ اس طرح ایک مطلع والوں کے لیے آپس میں رؤیت بہتر ہے۔ عراقیوں اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف یہی ہے اور یہی بات درست ہے۔ اگر مطالع الگ الگ ہیں ایک جگہ نظر آنے سے دوسری جگہ نظر آنا ضروری نہیں ہے۔ تو پھر ایک جگہ کی رؤیت دوسری جگہ کے لیے معتبر نہیں ہے۔ 5۔ ایک صوبہ یا ایک ملک کے سب علاقوں کا ایک حکم ہے۔ 6۔ اوربقول نووی رحمۃ اللہ علیہ غزالی وغیرہما مسافت قصر کا لحاظ ہے مسافت قصر سے کم ہوتو حکم ایک ہے وگرنہ الگ الگ۔ 2۔ موجودہ دور میں رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان کا اعتبار ہے وہ شرعی اصولوں کے مطابق گواہی لے کر اعلان کر دے تو وہ معتبر ہو گا۔ 3۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔ امام احمد لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہ اور بعض شوافع رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک بیان کیا جاتا ہے کہ: (صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور اسے دیکھ کر روزے ختم کرو، کا حکم عام ہے سب مسلمان اس کے مخاطب ہیں۔ تو اس کا معنی یہ ہوا کہ تمام مسلمان ممالک میں روزے کا آغاز اور اختتام یکساں ہونا چاہیے اور چاند کی تاریخ تقریباً یکساں ہونی چاہیے حالانکہ واقعہ یہ ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف اس بات پر سب کا اتفاق ہے اگر وہ جگہوں کا فاصلہ غیر معمول ہو جیسے حجاز اور اندلس تو ان کاحکم الگ الگ ہے۔ (بدایۃ المجتھد ج1) ۔ 4۔ رمضان کے چاند کے لیے ایک آدمی کی شہادت اکثرعلماء کے نزدیک کافی ہے۔ اور شوال کے چاند کے لیے ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دو آدمیوں کی شہادت معتبر ہے۔ لیکن قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابوثور رحمۃ اللہ علیہ کے مؤقف کی تائید کی ہے کہ شوال کے لیے بھی رمضان کی طرح ایک گواہی کافی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2528
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2113
´رویت ہلال میں ایک شہر والوں سے دوسرے شہر والوں کے اختلاف کا بیان۔` کریب مولیٰ ابن عباس کہتے ہیں: ام فضل رضی اللہ عنہا نے انہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا، تو میں شام آیا، اور میں نے ان کی ضرورت پوری کی، اور میں شام (ہی) میں تھا کہ رمضان کا چاند نکل آیا، میں نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا، پھر میں مہینہ کے آخری (ایام) میں مدینہ آ گیا، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے (حال چال) پوچھا، پھر پہلی تاریخ کے چاند کا ذکر کیا، (اور مجھ سے) پوچھا: تم لوگوں نے چاند کب د۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2113]
اردو حاشہ: (1)”یہی حکم دیا ہے“ کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر شخص چاند دیکھے بلکہ کوئی ایک معتبر آدمی بھی چاند دیکھ لے یا کسی اور جگہ چاند نظر آنے کی خبر پہنچ جائے تو اس علاقے کے تمام لوگ روزہ رکھیں گے یا عید کریں گے اور نیا مہینہ شروع ہو جائے گا، البتہ یہ تحقیق ضروری ہے کہ دونوں جگہوں میں اتنا فاصلہ نہ ہو جتنے فاصلے سے چاند دیکھنے میں ایک یا دو دن کا فرق پڑ سکتا ہے۔ جس جگہ چاند نظر آیا ہو، اس کے اردگرد جتنے علاقے میں وہ چاند نظر آ سکتا ہو، اتنے علاقے کے لیے وہ رؤیت معتبر ہوگی۔ اس سلسلے میں علمائے رصد سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ آج کل ہر اسلامی ملک اتنا چھوٹا ہے کہ اس ملک میں کسی جگہ بھی چاند نظر آجائے تو وہ پورے ملک میں نظر آسکتا ہے، لہٰذا ایک ملک میں کسی جگہ چاند نظر آنے پر سارے ملک میں روزہ یا عید ہو سکتے ہیں، البتہ مختلف ممالک میں چاند مختلف ہو سکتا ہے، مثلاً: سعودی عرب اور پاکستان ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر ہیں۔ اس سلسلے میں علمائے ہیئت و رصد ہی صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں، لہٰذا رؤیت ہلال کمیٹی میں ان کی شرکت انتہائی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں چند اصول مسلمہ ہیں: * جب ایک شہر میں چاند نظر آئے تو اس سے ملتے جلتے طول بلد پر واقع تمام شہروں میں چاند ہوگا، خواہ ان کا درمیان فاصلہ ہزاروں میل ہی میں ہو۔ *کسی شہر میں چاند نظر آئے تو اس سے مغرب میں واقع تمام علاقوں میں خواہ مخواہ چاند نظر آجائے گا، دیکھنے کی ضرورت نہیں، خواہ فاصلہ ہزاروں میل ہو، البتہ اس کے الٹ ضروری نہیں، یعنی مغرب کا چاند مشرق کے لیے معتبر نہیں، الگ دیکھنا ہوگا۔ *بالائی علاقے میں چاند نظر آئے تو نشیبی علاقے میں چاند کا نظر آنا ضروری نہیں، البتہ اس کے الٹ ضروری ہے، یعنی نشیبی علاقے میں چاند نظر آیا تو بالائی علاقے میں لازماً چاند ہوگا، اور یہ اصول بدیہی ہیں، ان میں اختلاف ممکن نہیں۔ (2) مدینہ منورہ اور دمشق کے درمیان ویسے تو کافی فاصلہ ہے مگر طول بلد کے لحاظ سے صرف چھ درجے کا فرق ہے۔ گویا طلوع اور غروب میں 24 منٹ کا فرق ہے، اتنے فرق سے چاند کی رؤیت میں فرق نہیں پڑتا۔ دونوں جگہ ایک ہی دن چاند ہونا چاہیے، مگر اس دور میں پیغام رسانی کے تیز ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے اتنے فاصلے سے بروقت خبر پہنچنا ناممکن تھا، لہٰذا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ کے لیے شام (یعنی دمشق جو اس وقت دارالخلافہ تھا) کی رؤیت کو کافی نہ سمجھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2113
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2332
´اگر کسی شہر میں دوسرے شہر سے ایک رات پہلے چاند نظر آ جائے تو کیا کرے؟` کریب کہتے ہیں کہ ام الفضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا، میں نے (وہاں پہنچ کر) ان کی ضرورت پوری کی، میں ابھی شام ہی میں تھا کہ رمضان کا چاند نکل آیا، ہم نے جمعہ کی رات میں چاند دیکھا، پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آ گیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے چاند کے متعلق پوچھا کہ تم نے چاند کب دیکھا؟ میں نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات میں، فرمایا: تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، اور لوگوں نے بھی دیکھا ہے، اور روزہ رکھا ہے، معاویہ نے بھی روزہ رکھا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: لیک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2332]
فوائد ومسائل: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ ہے کہ ہر علاقے والوں کے لیے ان کی اپنی رؤیت کا اعتبار ہے۔ امام شافعی رحمة اللہ علیہ اس میں مزید یوں فرماتے ہیں کہ اگر مختلف علاقوں کا مطلع ایک ہو تو ایک دوسرے کی رؤیت ان کے لیے معتبر ہو گی ورنہ نہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2332