صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Prayer - Funerals
حدیث نمبر: 2253
Save to word اعراب
وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا بهز ، حدثنا وهيب ، حدثنا موسى بن عقبة ، عن عبد الواحد ، عن عباد بن عبد الله بن الزبير يحدث، عن عائشة انها لما توفي سعد بن ابي وقاص، ارسل ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ان يمروا بجنازته في المسجد فيصلين عليه، ففعلوا فوقف به على حجرهن يصلين عليه، اخرج به من باب الجنائز الذي كان إلى المقاعد، فبلغهن ان الناس عابوا ذلك وقالوا: ما كانت الجنائز يدخل بها المسجد، فبلغ ذلك عائشة فقالت: " ما اسرع الناس إلى ان يعيبوا ما لا علم لهم به، عابوا علينا ان يمر بجنازة في المسجد، وما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على سهيل بن بيضاء إلا في جوف المسجد ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا لَمَّا تُوُفِّيَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَمُرُّوا بِجَنَازَتِهِ فِي الْمَسْجِدِ فَيُصَلِّينَ عَلَيْهِ، فَفَعَلُوا فَوُقِفَ بِهِ عَلَى حُجَرِهِنَّ يُصَلِّينَ عَلَيْهِ، أُخْرِجَ بِهِ مِنْ بَابِ الْجَنَائِزِ الَّذِي كَانَ إِلَى الْمَقَاعِدِ، فَبَلَغَهُنَّ أَنَّ النَّاسَ عَابُوا ذَلِكَ وَقَالُوا: مَا كَانَتِ الْجَنَائِزُ يُدْخَلُ بِهَا الْمَسْجِدَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ: " مَا أَسْرَعَ النَّاسَ إِلَى أَنْ يَعِيبُوا مَا لَا عِلْمَ لَهُمْ بِهِ، عَابُوا عَلَيْنَا أَنْ يُمَرَّ بِجَنَازَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، وَمَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سُهَيْلِ بْنِ بَيْضَاءَ إِلَّا فِي جَوْفِ الْمَسْجِدِ ".
موسیٰ بن عقبہ نے عبدالواحد سے اور انھوں نے عباد بن عبداللہ بن زبیر سے روایت کی، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے پیغام بھیجا کہ ان کے جنازے کو مسجد میں سے گزار کرلے جائیں تا کہ وہ بھی ان کی نماز جنازہ ادا کرسکیں تو انھوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے ایسا ہی کیا، اس جنازے کو ان کے حجروں کے سامنے روک (کررکھ) دیا گیا (تاکہ) وہ نماز جنازہ پڑھ لیں۔ (پھر) اس (جنازے) کو باب الجنائز سے، جو مقاعد کی طرف (کھلتا) تھا، باہر نکالا گیا۔اس کے بعد ان (ازواج) کو یہ بات پہنچی کہ لوگوں نے معیوب سمجھا ہے اور کہا ہے: جنازوں کو مسجد میں نہیں لایا جاتا تھا۔یہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تک پہنچی تو انھوں نے فرمایا: لوگوں نےاس کام کو معیوب سمجھنے میں کتنی جلدی کی جس کا انھیں علم نہیں!انھوں نے ہماری اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ جنازہ مسجد میں لایاجائے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد کے اندر ہی پڑھا تھا۔
عباد بن عبداللہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے پیغام بھیجا کہ ان کا جنازہ مسجد میں لایا جائے تاکہ وہ بھی ان کی نماز جنازہ پڑھیں لوگوں نے ایسے یہ کیا ہی کیا، جنازہ ان کے حجروں کے سامنے رکھ دیا گیا تاکہ وہ نماز جنازہ پڑھ لیں۔ پھراسے باب الجنائز سے،جو مقاعد بیٹھنے کی جگہیں) کے قریب تھا سے نکالا گیا۔ اور انہیں پتہ چلاکہ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے جنازوں کو مسجد میں نہیں لایا جاتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک بھی اعتراض پہنچا تو انہوں نے فرمایا: کس قدر جلدی لوگ اس کام پر اعتراض کرنے لگٰے ہیں جس کا انہیں علم ہی نہیں ہے ہم پر جنازہ مسجد میں لانے پرعیب (نکتہ چینی) حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ مسجد کے اندر ہی پڑھا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2254
Save to word اعراب
وحدثني وحدثني هارون بن عبد الله ، ومحمد بن رافع ، واللفظ لابن رافع، قالا: حدثنا ابن ابي فديك ، اخبرنا الضحاك يعني ابن عثمان ، عن ابي النضر ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، ان عائشة لما توفي سعد بن ابي وقاص قالت: ادخلوا به المسجد حتى اصلي عليه، فانكر ذلك عليها، فقالت: " والله لقد صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على ابني بيضاء في المسجد: سهيل واخيه "، قال مسلم: سهيل بن دعد وهو ابن البيضاء امه بيضاء.وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ عَائِشَةَ لَمَّا تُوُفِّيَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَتْ: ادْخُلُوا بِهِ الْمَسْجِدَ حَتَّى أُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَأُنْكِرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: " وَاللَّهِ لَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ابْنَيْ بَيْضَاءَ فِي الْمَسْجِدِ: سُهَيْلٍ وَأَخِيهِ "، قَالَ مُسْلِم: سُهَيْلُ بْنُ دَعْدٍ وَهُوَ ابْنُ الْبَيْضَاءِ أُمُّهُ بَيْضَاءُ.
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمان سے روایت ہے کہ جب حضر ت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ان کو مسجد میں لاؤ تاکہ میں بھی انکی نماز جنازہ ادا کرسکوں۔ان کی اس بات پر اعتراض کیا گیا تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دو بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی (سہل) رضوان اللہ عنھم اجمعین کا جنازہ مسجد میں ہی پڑھا تھا۔ امام مسلم ؒ نے کہا: سہیل بن دعد، جو ابن بیضاء ہے، اس کی ماں بیضاء تھیں۔ (بیضاء کا اصل نام دعد تھا، سہیل کے والد کا نام وہب بن ربیعہ تھا، اسے شرف صحبت حاصل نہ ہوا۔)
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمان سے روایت ہے کہ جب حضر ت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: ان کو مسجد میں لاؤ تاکہ میں بھی نماز جنازہ پڑھوں۔ ان پر اعتراض کیا گیا ا س پر انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دو بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی رضوان اللہ عنھم اجمعین کا جنازہ مسجد میں ہی پڑھا تھا۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، سہیل بن دعد ہی بیضاء کے بیٹے ہیں۔ بیضاء ماں کا نام ہے، اصل نام دعد ہے، بیضاء کے نام سے معروف تھیں اور دوسرے بیٹے کا نام صفوان ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
35. باب مَا يُقَالُ عِنْدَ دُخُولِ الْقُبُورِ وَالدُّعَاءِ لأَهْلِهَا:
35. باب: قبر میں داخل کرتے وقت کیا کہنا چاہئیے اور قبر والوں کے لئے دعا کا بیان۔
Chapter: What is to be said when entering the graveyard and supplicating for its occupants
حدیث نمبر: 2255
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى التميمي ، ويحيى بن ايوب ، وقتيبة بن سعيد ، قال يحيى بن يحيى اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا إسماعيل بن جعفر ، عن شريك وهو ابن ابي نمر ، عن عطاء بن يسار ، عن عائشة ، انها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما كان ليلتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج من آخر الليل إلى البقيع، فيقول: " السلام عليكم دار قوم مؤمنين، واتاكم ما توعدون، غدا مؤجلون، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون، اللهم اغفر لاهل بقيع الغرقد "، ولم يقم قتيبة قوله: واتاكم.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ شَرِيكٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي نَمِرٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا كَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقُولُ: " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ، غَدًا مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ "، وَلَمْ يُقِمْ قُتَيْبَةُ قَوْلَهُ: وَأَتَاكُمْ.
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، یحییٰ بن ایوب اور قتیبہ بن سعید نے ہمیں حدیث سنائی۔۔۔یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: ہمیں خبر دی اور دوسرے دونوں نے کہا: ہمیں حدیث سنائی۔۔۔اسماعیل بن جعفر نے شریک سے، انھوں نے عطاء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انھوں نے کہا:۔۔۔جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ان کے پاس ہوتی تو۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں بقیع (کے قبرستان میں) تشریف لے جاتے اور فرماتے: "اے ایمان رکھنے والی قوم کے گھرانے!تم پر اللہ کی سلامتی ہو، کل کے بارے میں تم سے جس کا وعدہ کیا جاتا تھا، وہ تم تک پہنچ گیا۔تم کو (قیامت) تک مہلت دے دی گئی اور ہم بھی، اگر اللہ نے چاہا تم سے ملنے والے ہیں۔اے اللہ!بقیع غرقد (میں رہنے) والوں کو بخش دے۔"قتیبہ نے (اپنی روایت) میں"واتاکم" (تم تک پہنچ گیا) نہیں کہا۔۔۔
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت نقل کرتےہیں، انہوں نے کہا (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری میرے ہاں ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصہ میں بقیع (اہل مدینہ کا قبرستان) تشریف لے جاتے اور فرماتے: اے مومنو کے گھر کے باسیو! تم پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی نازل ہو۔ جس کا تم سے وعدہ تھا آچکا، کل تک تمہیں مہلت ہے، اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ! بقیع غرقد والوں کو معاف فرما۔ اورقتیبہ کی روایت میں اتاكم کا لفظ نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2256
Save to word اعراب
وحدثني هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرنا ابن جريج ، عن عبد الله بن كثير بن المطلب ، انه سمع محمد بن قيس ، يقول: سمعت عائشة تحدث، فقالت: الا احدثكم عن النبي صلى الله عليه وسلم وعني؟، قلنا: بلى. ح وحدثني من سمع حجاجا الاعور، واللفظ له قال: حدثنا حجاج بن محمد ، حدثنا ابن جريج ، اخبرني عبد الله رجل من قريش، عن محمد بن قيس بن مخرمة بن المطلب ، انه قال يوما: الا احدثكم عني وعن امي؟، قال: فظننا انه يريد امه التي ولدته، قال: قالت عائشة : الا احدثكم عني وعن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، قلنا: بلى، قال: قالت: لما كانت ليلتي التي كان النبي صلى الله عليه وسلم فيها عندي، انقلب فوضع رداءه، وخلع نعليه فوضعهما عند رجليه، وبسط طرف إزاره على فراشه، فاضطجع فلم يلبث إلا ريثما ظن ان قد رقدت، فاخذ رداءه رويدا وانتعل رويدا، وفتح الباب فخرج ثم اجافه رويدا، فجعلت درعي في راسي واختمرت، وتقنعت إزاري ثم انطلقت على إثره، حتى جاء البقيع فقام، فاطال القيام ثم رفع يديه ثلاث مرات، ثم انحرف فانحرفت فاسرع فاسرعت، فهرول فهرولت، فاحضر فاحضرت فسبقته، فدخلت فليس إلا ان اضطجعت فدخل، فقال: ما لك يا عائش حشيا رابية؟" قالت: قلت: لا شيء، قال:" لتخبريني او ليخبرني اللطيف الخبير، قالت: قلت: يا رسول الله بابي انت وامي فاخبرته، قال: فانت السواد الذي رايت امامي، قلت: نعم فلهدني في صدري لهدة اوجعتني، ثم قال: اظننت ان يحيف الله عليك ورسوله"، قالت: مهما يكتم الناس يعلمه الله نعم، قال: فإن جبريل اتاني حين رايت فناداني، فاخفاه منك فاجبته فاخفيته منك، ولم يكن يدخل عليك، وقد وضعت ثيابك، وظننت ان قد رقدت فكرهت ان اوقظك، وخشيت ان تستوحشي، فقال: إن ربك يامرك ان تاتي اهل البقيع فتستغفر لهم، قالت: قلت: كيف اقول لهم يا رسول الله؟، قال: قولي السلام على اهل الديار من المؤمنين والمسلمين، ويرحم الله المستقدمين منا والمستاخرين، وإنا إن شاء الله بكم للاحقون".وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ، فَقَالَتْ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي؟، قُلْنَا: بَلَى. ح وحَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ حَجَّاجًا الْأَعْوَرَ، وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ ، أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ أُمِّي؟، قَالَ: فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي، انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَاءَهُ، وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ، وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ، فَاضْطَجَعَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنْ قَدْ رَقَدْتُ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا، وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا، فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ، وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَى إِثْرِهِ، حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَقَامَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ، فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ، فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ فَسَبَقْتُهُ، فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنِ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ، فَقَالَ: مَا لَكِ يَا عَائِشُ حَشْيَا رَابِيَةً؟" قَالَتْ: قُلْتُ: لَا شَيْءَ، قَالَ:" لَتُخْبِرِينِي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ، قَالَ: فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي، قُلْتُ: نَعَمْ فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي، ثُمَّ قَالَ: أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ"، قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ فَنَادَانِي، فَأَخْفَاهُ مِنْكِ فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ، وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ، وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ، وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ، وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي، فَقَالَ: إِنَّ رَبَّكَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ، قَالَتْ: قُلْتُ: كَيْفَ أَقُولُ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: قُولِي السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَيَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا والمُستَأخِرينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ".
عبداللہ بن وہب نے ہمیں حدیث سنائی اور کہا: ابن جریج نے عبداللہ بن کثیر بن مطلب سے روایت کی، انھوں نے محمد بن قیس بن مخرمہ بن مطلب (المطلبی) کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ حدیث بیان کررہی تھیں، انھوں نے کہا: کیا میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنی طرف سے حدیث نہ سناؤں؟ہم نے کہا: کیوں نہیں۔۔۔اور حجاج بن محمد نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: ہمیں ابن جریج نے حدیث سنائی، کہا: قریش کے ایک فرد عبداللہ نے محمد بن قیس بن مخرمہ بن مطلب سے روایت کی کہ ایک دن انھوں نے کہا؛کیا میں تمھیں اپنی اور اپنی ماں کی طرف سے حدیث نہ سناؤں؟کہا: ہم نے سمجھا کہ ان کی مراد اپنی اس ماں سے ہے جس نے انھیں جنم دیا (لیکن انھوں نے) کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا میں تمھیں اپنی طرف سے اور ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حدیث نہ سناؤں؟ہم نے کہا: کیوں نہیں!کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: (ایک دفعہ) جب میری (باری کی) رات ہوئی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تھے، آپ (مسجد سے) لوٹے، اپنی چادر (سرہانے) رکھی، اپنے دونوں جوتے اتار کر اپنے دونوں پاؤں کے پاس رکھے اور اپنے تہبند کا ایک حصہ بستر پر بچھایا، پھر لیٹ گئے۔آپ نے صرف اتنی دیر انتظار کیا کہ آپ نے خیال کیا میں سو گئی ہوں، تو آپ نے آہستہ سے اپنی چادر اٹھائی، آہستہ سے اپنے جوتے پہنے اور آہستہ سے دروازہ کھولا، نکلے، پھر آہستہ سے اس کو بند کردیا۔ (یہ دیکھ کر) میں نے بھی اپنی قمیص سر سے گزاری (جلدی سے پہنی) اپنا دوپٹا اوڑھا اور اپنی آزار (کمر پر) باندھی، پھر آپ کے پیچھے چل پڑی حتیٰ کہ آپ بقیع (کے قبرستان میں) پہنچے اور کھڑے ہوگئے اور آپ لمبی دیر تک کھڑے رہے، پھر آپ نے تین دفعہ ہاتھ اٹھائے، پھر آپ پلٹے اور میں بھی واپس لوٹی، آپ تیز ہوگئے تو میں بھی تیز ہوگئی، آپ تیز تر ہوگئے تو میں بھی تیز تر ہوگئی۔آپ دوڑ کر چلے تو میں نے بھی دوڑنا شروع کردیا۔میں آپ سے آگے نکل آئی اور گھر میں داخل ہوگئی۔جونہی میں لیٹی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر میں داخل ہوگئے اور فرمایا: "عائشہ! تمھیں کیا ہوا کانپ رہی ہو؟سانس چڑھی ہوئی ہے۔"میں نے کہا کوئی بات نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم مجھے بتاؤ گی یا پھر وہ مجھے بتائے گا جو لطیف وخبیر ہے (باریک بین ہے اور انتہائی باخبر) ہے۔"میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں!اور میں نے (پوری بات) آپ کو بتادی۔آپ نے فرمایا: "تو وہ سیاہ (ہیولا) جو میں نے اپنے آگے دیکھا تھا، تم تھیں؟"میں نے کہا: ہاں۔آپ نے میرے سینے کو زور سے دھکیلا جس سے مجھے تکلیف ہوئی۔پھر آپ نے فرمایا: "کیا تم نے یہ خیال کیا کہ اللہ تم پر زیادتی کرے گا اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟" (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: لوگ (کسی بات کو) کتنا ہی چھپا لیں اللہ اس کوجانتا ہے، ہاں۔آپ نے فرمایا: "جب تو نے (مجھے جاتے ہوئے) دیکھاتھا اس وقت جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے۔انھوں نے (آکر) مجھے آواز دی اور اپنی آواز کو تم سے مخفی رکھا، میں نے ان کو جواب دیا تو میں نے بھی تم سے اس کو مخفی رکھا اور وہ تمہارے پاس اندر نہیں آسکتے تھے تم کپڑے اتار چکیں تھیں اور میں نے خیال کیا کہ تم سوچکی ہو تو میں نے تمھیں بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا اور مجھے خدشہ محسوس ہواکہ تم (اکیلی) وحشت محسوس کروگی۔تو انھوں (جبرئیل علیہ السلام) نے کہا: آپ کا رب آپ کو حکم دیتاہے کہ آپ اہل بقیع کے پاس جائیں اور ان کے لئے بخشش کی دعا کریں۔" (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں نے پوچھا: اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں ان کے حق میں (دعا کے لئے) کیسے کہوں؟آپ نے فرمایا: "تم کہو، مومنوں اور مسلمانوں میں سے ان ٹھکانوں میں رہنے والوں پر سلامتی ہو، اللہ تعالیٰ ہم سے آگے جانے والوں اور بعد میں آنے والوں پر رحم کرے، اور ہم ان شاء اللہ ضرور تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔"
محمد بن قیس بن مخرمہ بن مطلب نے ایک دن ساتھیوں سے کہا، کیا میں تمھیں اپنے اور اپنی ماں کے بارے میں بات نہ بتاؤں؟ ساتھیوں نے خیال کیا کہ وہ اپنی ماں مراد لے رہا ہے جس نے اسے جنا ہے، اس نے کہا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: کیا میں تمھیں اپنے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا کیوں نہیں، توعائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: جب میری وہ رات ہوئی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں ہوتے تھے، آپ گھر لوٹے (مسجد سے گھر آئے)، اپنی چادر(چارپائی پر) رکھی، اپنے جوتے اتار کر اپنے پاؤں (پینتی) کے پاس رکھے اور اپنے تہبند کا ایک حصہ بستر پر بچھا کر لیٹ گئے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم صرف اتنی دیر ٹھہرے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے خیال کیا میں سو گئی ہوں، تو آپ نے آہستگی سے (تاکہ میں بیدار نہ ہوجاؤں) اپنی چادر اٹھائی، آہستگی سے اپنا جوتا پہنا اور دروازہ کھول کر نکلے اور اسے آہستگی سے بند کر دیا۔ میں نے بھی اپنی قمیص گلے میں ڈالی، اپنی اوڑھنی کو ڈوپٹہ بنایا اور اپنی تہبند باندھ لی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل نکلی، حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم بقیع (قبرستان) پہنچ گئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کافی دیر تک کھڑے رہے پھر آپ نے تین دفعہ ہاتھ اٹھائے، پھر آپ پلٹے اور میں بھی واپس لوٹی، آپصلی اللہ علیہ وسلم تیز ہو گئے تو میں بھی تیز ہو گئی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دوڑ لگائی تو میں نے بھی دوڑ پڑی آپصلی اللہ علیہ وسلم نے تیز دوڑ شروع کی تو میں بھی تیز دوڑ پڑی، اور میں آپ سے پہلے آ گئی اور گھر میں داخل ہو کر لیٹ گئی۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر میں داخل ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: اے عائشہ! تمھیں کیا ہوا سانس پھولا ہوا ہے، اور پیٹ ابھرا ہوا ہے۔ میں نے کہا: کوئی بات نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مجھے بتاؤ دو یا مجھے باریک بین، واقف آگاہ (اللہ تعالی) بتا دے گا تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان! اور میں نےصورتِ حال بتا دی۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو وہ شخص جو مجھے اپنےآگے نظر آ رہا تھا تم تھیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے کو زور سے دھکا دیا جس سے مجھے تکلیف ہوئی۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے یہ خیال کیا کہ تم پر اللہ اور اس کا رسول زیادتی کرے گا؟تیری باری میں کسی اور کے پاس چلا جاؤں گا میں نے دل میں کہا: لوگ کتنا ہی چھپائیں اللہ اسے جانتا ہے، (آپصلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیتا ہے) خود ہی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ہاں کہا۔ (اور گمان و نظریہ کی تصدیق کی) آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تو نے دیکھا، اس وقت میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آیا اوراس نے مجھے آواز دی اور اپنی آواز تچھ سے مخفی رکھی، میں تجھ سے پوشیدہ رکھ کر اس کو جواب دیا، اور وہ اندر تیرے پاس نہیں آ سکتا تھا کیونکہ تم کپڑے اتار چکی تھی (سونے کا لباس پہن لیا تھا) اور میں نے خیال کیا کہ تم سو چکی ہو تو میں نے تمھیں بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا اور مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ تم (اگر تم جاگ گئی تو اکیلی) وحشت محسوس کرو گی۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: آپ کے رب کا حکم ہے کہ اہل بقیع کے پاس جا کر ان کے لئے بخشش کی دعا کرو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میں ان کے حق میں کیسے دعا کروں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہوسلام ہو تم پر اے گھروں والو! مومنوں میں سے اور مسلمانوں میں سے، اللہ تعالیٰ ہم سے پہلے اور بعد میں آنے والوں پر رحم فرمائے۔ اور ہم اللہ نے چاہا تو تم سے ملنے والے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2257
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، قالا: حدثنا محمد بن عبد الله الاسدي ، عن سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمهم إذا خرجوا إلى المقابر، فكان قائلهم يقول: - في رواية ابي بكر السلام على اهل الديار، وفي رواية زهير السلام عليكم اهل الديار من المؤمنين والمسلمين، وإنا إن شاء الله للاحقون اسال الله لنا ولكم العافية ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَسَدِيُّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُهُمْ إِذَا خَرَجُوا إِلَى الْمَقَابِرِ، فَكَانَ قَائِلُهُمْ يَقُولُ: - فِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ، وَفِي رِوَايَةِ زُهَيْرٍ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَلَاحِقُونَ أَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ ".
ابو بکر بن ابی شیبہ اور زہیر بن حرب نے کہا: ہمیں محمد بن عبد اللہ اسدی نے سفیان سے حدیث سنائی، انھوں نے علقمہ بن مرثد سے، انھوں نے سلیمان بن بریدہ سے اور انھوں نے ا پنے والد (بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انھوں نے کہا: جب وہ قبرستان جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تعلیم دیا کرتے تھے تو (سیکھنے کے بعد) ان کا کہنے والا کہتا: ابو بکر کی روایت میں ہے: "سلامتی ہو مسلمانوں اور مومنوں کے ٹھکانوں میں رہنے والوں پر"اورزہیر کی روایت میں ہے؛"مسلمانوں اور مومنوں کے ٹھکانے میں رہنے والو تم پر۔۔۔اور ہم ان شاء اللہ ضرور (تمہارے ساتھ) ملنے والے ہیں، میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اور تمھارے لئے عافیت مانگتا ہوں۔"
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو اس طرح جا کر کہیں، ابوبکر کی روایت ہے: السَّلامُ عَلَي أَهْل الدِّيارِ اے گھر والو! سلام ہو۔ اور زہیر کی روایت ہے۔ السَّلامُ عَلَيكُمْ أَهْل الدِّيارِ "اے گھر والو تم پر سلام! مومنوں میں سے اور مسلمانوں میں سے اور ہم ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت (سکھ،چین اور سکون) کا سوال کرتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
36. باب اسْتِئْذَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ:
36. باب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے رب سے اجازت طلب کرنا اپنی والدہ کی قبر دیکھنے کی۔
Chapter: The prophet (saws) asked his Lord for permission to visit the grave of his mother
حدیث نمبر: 2258
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن ايوب ، ومحمد بن عباد ، واللفظ ليحيى، قالا: حدثنا مروان بن معاوية ، عن يزيد يعني ابن كيسان ، عن ابي حازم ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " استاذنت ربي ان استغفر لامي فلم ياذن لي، واستاذنته ان ازور قبرها فاذن لي ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ كَيْسَانَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْتَأْذَنْتُ رَبِّي أَنْ أَسْتَغْفِرَ لِأُمِّي فَلَمْ يَأْذَنْ لِي، وَاسْتَأْذَنْتُهُ أَنْ أَزُورَ قَبْرَهَا فَأَذِنَ لِي ".
مروان بن معاویہ نے یزید، یعنی ابن کیسان سے، انھوں نے ابو حازم سےاور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کے استغفار کی اجازت مانگی تو اس نے مجھے اجازت نہیں دی اور میں نے اس سے ان کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت دے دی۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کے استغفار کی اجازت مانگی تو اس نے مجھے اجازت نہیں دی اور میں نے اس سے ان کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت دے دی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2259
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، قالا: حدثنا محمد بن عبيد ، عن يزيد بن كيسان ، عن ابي حازم ، عن ابي هريرة ، قال: زار النبي صلى الله عليه وسلم قبر امه، فبكى وابكى من حوله، فقال: " استاذنت ربي في ان استغفر لها فلم يؤذن لي، واستاذنته في ان ازور قبرها فاذن لي، فزوروا القبور فإنها تذكر الموت ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: زَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْرَ أُمِّهِ، فَبَكَى وَأَبْكَى مَنْ حَوْلَهُ، فَقَالَ: " اسْتَأْذَنْتُ رَبِّي فِي أَنْ أَسْتَغْفِرَ لَهَا فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي، وَاسْتَأْذَنْتُهُ فِي أَنْ أَزُورَ قَبْرَهَا فَأُذِنَ لِي، فَزُورُوا الْقُبُورَ فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الْمَوْتَ ".
محمد بن عبید نے یزید بن کیسان سے، انھوں نے ابو حازم سے اور اور انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی، آپ روئے اور اپنے اردگرد والوں کو بھی رلایا، پھر فرمایا: "میں نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ میں ان کے لئے بخشش کی طلب کروں تو مجھے اجازت نہیں دی گئی اور میں نے اجازت مانگی کہ میں ان کی قبر کی زیارت کروں تو اس نے مجھے اجازت دے دی، پس تم بھی قبروں کی زیارت کیاکرو کیونکہ وہ تمھیں موت کی یاددلاتی ہیں۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی، (اس کی قبر پر گئے) خود بھی روئے اور اپنے اردگرد والوں کو بھی رلایا، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ میں اس کے لئے بخشش کی درخواست کروں تو مجھے اجازت نہیں دی گئی۔ اور میں نے ا س سے اس کی قبر کی قبر کی زیارت اجازت طلب کی تو اس نے مجھے دے دی، تم فبروں کی قبروں کی زیارت کیاکرو کیونکہ وہ تمھیں موت کی یاد دلاتی ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2260
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن عبد الله بن نمير ، ومحمد بن المثنى ، واللفظ لابي بكر وابن نمير، قالوا: حدثنا محمد بن فضيل ، عن ابي سنان وهو ضرار بن مرة ، عن محارب بن دثار ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها، ونهيتكم عن لحوم الاضاحي فوق ثلاث، فامسكوا ما بدا لكم، ونهيتكم عن النبيذ إلا في سقاء، فاشربوا في الاسقية كلها ولا تشربوا مسكرا "، قال ابن نمير في روايته: عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه .حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ وَابْنِ نُمَيْرٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ وَهُوَ ضِرَارُ بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثٍ، فَأَمْسِكُوا مَا بَدَا لَكُمْ، وَنَهَيْتُكُمْ عَنِ النَّبِيذِ إِلَّا فِي سِقَاءٍ، فَاشْرَبُوا فِي الْأَسْقِيَةِ كُلِّهَا وَلَا تَشْرَبُوا مُسْكِرًا "، قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي رِوَايَتِهِ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ .
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر اور محمد بن مثنی نے ہمیں حدیث سنائی۔۔۔الفاظ ابو بکر اور ابن نمیر کے ہیں۔۔۔انھوں نے کہا: ہمیں محمد بن فضیل نے ابو سنان سے، جو ضرار بن مرہ ہیں، حدیث سنائی، انھوں نے محارب بن دثار سے، انھوں نے ابن بریدہ سے، اور انھوں نے اپنے والد (حضرت بریرہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھاتو (اب) تم ان کی زیارت کیا کرو۔اور میں نے تمھیں تین دن سے اوپر قربانیوں کے گوشت (رکھنے) سے منع کیا تھا (اب) تم جب تک چاہو رکھ سکتے ہو اور میں نے تمھیں مشکیزوں کے سوا کسی اور برتن میں نبیذ پینے سے منع کیا تھا، اب تم ہر قسم کے برتنوں میں سے پی سکتے ہولیکن کوئی نشہ آورچیز نہ پیو۔" ابن نمیر نے اپنی روایت میں کہا: عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی۔ (انھوں نے ابن بریدہ کے نام، عبداللہ کی صراحت کی۔)
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، تو ان کی زیارت کیا کرو، اور میں نےتمھیں تین دن سے زائد قربانیوں کے گوشت رکھنے سے منع کیا تھا، اب تم جب تک چاہو رکھ سکتے ہو۔ اور میں نے تمہیں مشکیزوں کے سوا چیزوں سے نبیذ پینے سے منع کیاتھا۔ اب تم ہر قسم کے برتنوں میں پی سکتے ہو، لیکن نشہ آور نہ پیو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2261
Save to word اعراب
ح وحدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا ابو خيثمة ، عن زبيد اليامي ، عن محارب بن دثار ، عن ابن بريدةاراه، عن ابيه الشك من ابي خيثمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم. ح وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا قبيصة بن عقبة ، عن سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم. ح وحدثنا ابن ابي عمر ، ومحمد بن رافع ، وعبد بن حميد ، جميعا، عن عبد الرزاق ، عن معمر ، عن عطاء الخراساني ، قال: حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم كلهم بمعنى حديث ابي سنان.ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ زُبَيْدٍ الْيَامِيِّ ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَأُرَاهُ، عَنْ أَبِيهِ الشَّكُّ مِنْ أَبِي خَيْثَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، جَمِيعًا، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّهُمْ بِمَعْنَى حَدِيثِ أَبِي سِنَانٍ.
امام صاحب نے مذکورہ بالا روایت اپنے متعدد اوراساتذہ سے بیان کی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
37. باب تَرْكِ الصَّلاَةِ عَلَى الْقَاتِلِ نَفْسَهُ:
37. باب: خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھنے کی ممانعت۔
Chapter: Leaving the funeral prayer for one who committed suicide
حدیث نمبر: 2262
Save to word اعراب
حدثنا عون بن سلام الكوفي ، اخبرنا زهير ، عن سماك ، عن جابر بن سمرة ، قال: " اتي النبي صلى الله عليه وسلم برجل قتل نفسه بمشاقص، فلم يصل عليه ".حَدَّثَنَا عَوْنُ بْنُ سَلَّامٍ الْكُوفِيُّ ، أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: " أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ ".
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے اپنے آپ کو ایک چوڑے تیر سے قتل کرڈالا تھا تو آپ نے (خود) اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ (دوسروں کو پڑھنے کا حکم دیا جس طرح ابتداء میں آپ دوسروں کو مقروض کا جنازہ پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی لایا گیا، جس نے اپنے آپ کو ایک چوڑے تیر سے قتل کر ڈالا تھا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

Previous    10    11    12    13    14    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.