حدثنا سويد بن سعيد ، حدثنا حفص بن ميسرة ، حدثني زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن ابن عباس ، قال: انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس معه، فقام قياما طويلا قدر نحو سورة البقرة، ثم ركع ركوعا طويلا، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم سجد ثم قام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم سجد، ثم انصرف وقد انجلت الشمس، فقال: " إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا ينكسفان لموت احد ولا لحياته، فإذا رايتم ذلك فاذكروا الله ". قالوا: يا رسول الله رايناك تناولت شيئا في مقامك هذا، ثم رايناك كففت، فقال: " إني رايت الجنة فتناولت منها عنقودا، ولو اخذته لاكلتم منه ما بقيت الدنيا، ورايت النار فلم ار كاليوم منظرا قط، ورايت اكثر اهلها النساء "، قالوا: بم يا رسول الله؟ قال: " بكفرهن ". قيل ايكفرن بالله؟ قال: " بكفر العشير، وبكفر الإحسان، لو احسنت إلى إحداهن الدهر، ثم رات منك شيئا، قالت: ما رايت منك خيرا قط ".حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا قَدْرَ نَحْوِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدِ انْجَلَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ ". قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ هَذَا، ثُمَّ رَأَيْنَاكَ كَفَفْتَ، فَقَالَ: " إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُودًا، وَلَوْ أَخَذْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا، وَرَأَيْتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ، وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ "، قَالُوا: بِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " بِكُفْرِهِنَّ ". قِيلَ أَيَكْفُرْنَ بِاللَّهِ؟ قَالَ: " بِكُفْرِ الْعَشِيرِ، وَبِكُفْرِ الْإِحْسَانِ، لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ ".
حفص بن میسرہ نے کہا: زید بن اسلم نے مجھے عطاء بن یسار سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی، انھوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگ گیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کی معیت میں لوگوں نے نماز پڑھی۔آپ نے بہت طویل قیام کیا، سورہ بقرہ کے بقدر، پھر آپ نے بہت طویل رکوع کیا، پھر آپ نے سر اٹھایا اور طویل قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے طویل رکوع کیا اور وہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدے کیے، پھر آپ نے طویل قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے کچھ کم تھا، پھر آپ نے طویل ر کوع کیا اور وہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سر اٹھایا اور طویل قیام کیا اور وہ اپنے سے پہلے والے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے لمبا رکوع کیا اور وہ پہلے کے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدے کیے، پھر آپ نے سلام پھیرا تو سورج روشن ہوچکا تھا۔پھر آپ نے ارشاد فرمایا: "سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی دو نشانیوں میں سےنشانیاں ہیں، وہ کسی کی موت پر گرہن زدہ نہیں ہوتے اور نہ کسی کی زندگی کے سبب سے (انھیں گرہن لگتاہے) جب تم (ان کو) اس طرح دیکھ تو اللہ کا زکر کرو (نماز پڑھو۔) "لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے اپنے کھڑےہونے کی اس جگہ پر کوئی چیز لینے کی کوشش کی، پھرہم نے دیکھاکہ آپ رک گئے۔آپ نے فرمایا: "میں نے جنت دیکھی اور میں نے اس میں سے ایک گچھہ لینا چاہا اور اگر میں اس کو پکڑ لیتا تو تم ر ہتی دنیا تک اس میں سے کھاتے رہتے (اور) میں نے جہنم دیکھی، میں نے آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا اور میں نے اہل جہنم کی اکثریت عورتوں کی دیکھی۔"لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! (یہ) کس وجہ سے؟آپ نے فرمایا: "ان کے کفر کی وجہ سے۔"کہا گیا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟آپ نے فرمایا: "رفیق زندگی کا کفران (ناشکری) کرتی ہیں۔اوراحسان کا کفران کر تی ہیں۔اگر تم ان میں سے کسی کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک کرتے رہو پھر وہ تم سے کسی دن کوئی (ناگوار) بات دیکھے تو کہہ دے گی: تم سے میں نے کبھی کوئی خیر نہیں دیکھی۔"
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر طویل قیام کیا کہ وہ سورہ بقرہ کے بقدر تھا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے بہت طویل رکوع کیا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور طویل قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے طویل رکوع کیا اور وہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے کیے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قیام کیا اور وہ (اپنے سے) پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے طویل ر کوع کیا اور وہ اپنے سے پہلے رکوع سے کم تھا، پھر سر اٹھایا اور طویل قیام کیا اور وہ اپنے سے پہلے والے قیام سے کم تھا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے طویل رکوع کیا، جو اپنے سے پہلے کے رکوع سے کم تھا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے کیے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا جبکہ سورج روشن ہو چکا تھا۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آفتاب اور ماہتاب اللہ تعالیٰ کی دو نشانیوں میں سےنشانیاں ہیں، وہ کسی کی موت پر بے نور نہیں ہوتے اور نہ کسی کی حیات سے، جب تم ان کو اس طرح دیکھو تو اللہ کو یاد کرو (نماز پڑھو۔)“ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے اپنی اس جگہ کوئی چیز پکڑنے کی کوشش کی، پھر ہم نے دیکھا کہ آپ رک گئے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جنت کو دیکھا اور میں نے اس میں سے گچھہ پکڑنا چاہا اور اگر میں اس کو پکڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اس میں سے کھاتے رہتے، اور میں نے آگ دیکھی، میں نے آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا اور میں نے دیکھا اس کے رہنے والوں میں عورتوں کی کثرت ہے“ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیوں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی نا شکری کی وجہ سے“ پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کی ناشکری ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رفیق زندگی کی ناشکری کی وجہ سے اور احسان کی نا قدری کیوجہ سے، اگر انسان ان کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک کرتا رہے پھر وہ اس سے کسی دن کوئی ناگوار بات دیکھے تو کہہ اٹھے گی میں نے تو تم سے کبھی کوئی خیر نہیں دیکھی۔“
امام مالک نے زید بن اسلم سے اسی سند کے ساتھ اس (مذکورہ حدیث) کے مانند روایت کی، البتہ انھوں نے "ثم رایناک کففت کے بجائے) ثم رایناک تکعکعت " (پھر ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ آگے بڑھنے سے باز رہے)
مصنف نے اپنے دوسرے استاد سے زید بن اسلم کی سند سے ہی مذکورہ بالاروایت بیان کی ہے۔ صرف یہ فرق ہے کہ اس میں ”كَفَفْت“ کی جگہ ”تَكَعْكَعْتَ“ ہے۔ اس کا معنی بھی توقف کرنا اور باز رہنا ہے۔
اسماعیل ابن علیہ نے سفیان سے، انھوں نے حبیب بن ابی ثابت سے، انھوں نے طاوس سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: جب سورج کو گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار سجدوں کے ساتھ آٹھ رکوع کیے۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مانند روایت کی گئی ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آفتاب کو گہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار سجدوں کے ساتھ آٹھ رکوع کیے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح منقول ہے۔
یحییٰ نے سفیان سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں حبیب نے طاوس سے حدیث سنائی، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے کسوف (کے دوران) میں نماز پڑھائی، قراءت کی پھر رکوع کیا، پھر قرءات کی، پھر رکوع کیا، پھر قراءت کی۔پھر رکوع کیا۔پھر قراءت کی۔پھر رکوع کیا۔پھر سجدے کئے۔کہا: دوسری (رکعت) بھی اسی طرح تھی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسوف کی نماز پڑھائی قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرآت کی پھر رکوع کیا، پھر قرائت کی پھر رکوع کیا، پھر قراءت کی پھر رکوع کیا، پھرقراءت کی پھرکوع کیا پھر سجدے کیے اور دوسری رکعت بھی اسی طرح پڑھی۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گرہن ہواتو" الصلواۃ جامعۃ " (کے الفاظ کے ساتھ) اعلان کیاگیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو رکوع کیے، پھر دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوگئے اور ایک رکعت میں دو رکوع کیے، پھر سورج سے گرہن زائل کردیا گیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے نہ کبھی ایسا رکوع کیا اور نہ کبھی ایسا سجدہ کیا جو اس سے زیادہ لمبا ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گہن لگا تو الصلواة جامعة کے ذریعے اعلان کیا گیا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو رکوع کیے، پھر دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو گئے اور ایک رکعت میں دو رکوع کیے، پھر سورج روشن ہورگیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: میں نے نہ ا س سے کبھی لمبا رکوع کیا اور نہ کبھی اس سے لمبا سجدہ کیا۔
وحدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا هشيم ، عن إسماعيل ، عن قيس بن ابي حازم ، عن ابي مسعود الانصاري ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، يخوف الله بهما عباده، وإنهما لا ينكسفان لموت احد من الناس، فإذا رايتم منها شيئا، فصلوا وادعوا الله حتى يكشف ما بكم ".وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِمَا عِبَادَهُ، وَإِنَّهُمَا لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهَا شَيْئًا، فَصَلُّوا وَادْعُوا اللَّهَ حَتَّى يُكْشَفَ مَا بِكُمْ ".
ہشیم نے اسماعیل سے، انھوں نے قیس بن ابی حازم سے، اور انھوں نے ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی دو نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اپنے بندوں کو خوف دلاتاہے۔اور ان دونوں کو انسانوں میں سے کسی کی موت کی بناء پر گرہن نہیں لگتا، لہذا جب تم ان میں سے کوئی نشانی دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ تعالیٰ کو پکارو یہاں تک کہ جو کچھ تمہارے (ساتھ ہوا) ہے وہ کھل جائے۔"
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی (قدرت اور جلال و جبروت کی) نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بے نور کر کے (اپنی ربوبیت اور قدرت و سطوت کا اظہار کر کے) اپنے بندوں کو (نافرمانی سے) ڈراتا ہے۔ اور یہ دونوں لوگوں میں سے کسی کی موت پر بے نور نہیں ہوتے لہٰذا جب تم ان میں سے کوئی نشانی دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ تعالیٰ کو پکارو حتی کہ تمہاری یہ مصیبت دور کر دی جائے، یعنی گہن دور ہو جائے“
معتمر نے اسماعیل سے، انھوں نے قیس سے اور انھوں نے حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سورج اور چاند کو لوگوں میں سے کسی کے مرنے پر گرہن نہیں لگتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سےدو نشانیاں ہیں۔لہذا جب تم اس (گرہن) کو دیکھو تو قیام کرو اور نماز پڑھو۔"
حضرت ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج اور چاند کو لوگوں میں سے کسی کے مرنے پر گہن نہیں لگتا، لیکن وہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں،اور جب تم یہ نشانی دیکھوتو اٹھو اور نماز پڑھو۔“
وکیع، ابواسامہ، ابن نمیر، جریر، سفیان، اورمروان سب نے اسماعیل سے اسی سند کے ساتھ روایت کی، سفیان اوروکیع، کی روایت میں ہے کہ ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے دن سورج کو گرہن لگا تو لوگوں نے کہا: سورج کو ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی بناء پر گرہن لگا ہے۔
امام صاحب ا پنے بہت سے اساتذہ سے اسماعیل کی اس سند سے روایت بیان کرتے ہیں۔ سفیان اور وکیع کی روایت میں ہے کہ ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موت کے دن سورج کو گہن لگا، تو لوگوں نے کہا، سورج کو گہن ابراہیم کی موت کی وجہ سے لگا ہے۔
حدثنا ابو عامر الاشعري عبد الله بن براد ومحمد بن العلاء ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن بريد ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: خسفت الشمس في زمن النبي صلى الله عليه وسلم، فقام فزعا يخشى ان تكون الساعة، حتى اتى المسجد، فقام يصلي باطول قيام وركوع وسجود، ما رايته يفعله في صلاة قط، ثم قال: " إن هذه الآيات التي يرسل الله لا تكون لموت احد ولا لحياته، ولكن الله يرسلها يخوف بها عباده، فإذا رايتم منها شيئا، فافزعوا إلى ذكره ودعائه واستغفاره ". وفي رواية ابن العلاء: " كسفت الشمس "، وقال: " يخوف عباده ".حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْأَشْعَرِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ فَزِعًا يَخْشَى أَنْ تَكُونَ السَّاعَةُ، حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ، فَقَامَ يُصَلِّي بِأَطْوَلِ قِيَامٍ وَرُكُوعٍ وَسُجُودٍ، مَا رَأَيْتُهُ يَفْعَلُهُ فِي صَلَاةٍ قَطُّ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ هَذِهِ الْآيَاتِ الَّتِي يُرْسِلُ اللَّهُ لَا تَكُونُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُرْسِلُهَا يُخَوِّفُ بِهَا عِبَادَهُ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهَا شَيْئًا، فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ ". وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ الْعَلَاءِ: " كَسَفَتِ الشَّمْسُ "، وَقَالَ: " يُخَوِّفُ عِبَادَهُ ".
ابو عامر اشعری عبداللہ بن براد اور محمد بن علاء نے کہا: ہمیں ابو اسامہ نے برید سے حدیث سنائی، انھوں نے ابو بردہ سے اور انھوں نے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگ گیا تو آپ تیزی سے اٹھے، آپ کو خوف لاحق ہوا کہ مبادا قیامت (آگئی) ہو، یہاں تک کہ آپ مسجد میں تشریف لے آئے اور آپ کھڑے ہوئے بہت طویل قیام، رکوع اورسجدے کے ساتھ نماز پڑھتے رہے، میں نے کبھی آپ کو نہیں دیکھا تھا کہ کسی نماز میں (آپ نے) ایسا کیا ہو، پھر آپ نے فرمایا: "یہی نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔یہ کسی کی موت یا زندگی کی بناء پر نہیں ہوتیں، بلکہ اللہ ان کو بھیجتا ہے تاکہ ان کے زریعے سے اپنے بندوں کو (قیامت سے) خوف دلائے، اس لئے جب تم ان میں سے کوئی نشانی دیکھو تو جلد از جلد اس کے ذکر، دعا اور استغفار کی طرف لپکو، "ابن علاء کی ر وایت میں"خسفت الشمس" کے بجائے) کسفت الشمس (سورج کو گرہن لگا) کے الفاظ ہیں (معنی ایک ہی ہے) اور انھوں نے (یخوف بہا عبادہ ان کے ذریعے سے اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے کے بجائے) یخوف عبادہ (اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے) کہا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج کو گہن لگ گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم خوف زدہ ہو کر اس طرح اٹھے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت قائم ہونے کا ڈر ہو حتی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آ گئے اور آپ نے انتہائی طویل قیام، رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز پڑھی میں نے آپ کو کسی نماز میں کبھی ایسے کرنے نہیں دیکھا تھا پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ نشانیاں جو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ یہ کسی کی موت و حیات کی بناء پر نہیں ہوتیں، لیکن اللہ ان کو اپنے بندوں کی تخویف (ڈرانے) کے لیے بھیجتا ہے تو جب تم ان میں سے کوئی نشانی دیکھو تو فوراً اس کے ذکر، دعا اور استغفار کی پناہ لو“ ابن العلاء کی روایت میں ہے:"كسفت الشمس"یعنی"خَسَفَتْ " کی جگہ اور کہا" يُخَوِّفُ عِبَادَهُ "یعنی" يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ "کی جگہ۔
وحدثني عبيد الله بن عمر القواريري ، حدثنا بشر بن المفضل ، حدثنا الجريري ، عن ابي العلاء حيان بن عمير ، عن عبد الرحمن بن سمرة ، قال: " بينما انا ارمي باسهمي في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ انكسفت الشمس، فنبذتهن، وقلت: لانظرن إلى ما يحدث لرسول الله صلى الله عليه وسلم في انكساف الشمس اليوم، فانتهيت إليه وهو رافع يديه يدعو ويكبر ويحمد ويهلل، حتى جلي عن الشمس، فقرا سورتين وركع ركعتين ".وحَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ حَيَّانَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: " بَيْنَمَا أَنَا أَرْمِي بِأَسْهُمِي فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَنَبَذْتُهُنَّ، وَقُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ إِلَى مَا يَحْدُثُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي انْكِسَافِ الشَّمْسِ الْيَوْمَ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَدْعُو وَيُكَبِّرُ وَيَحْمَدُ وَيُهَلِّلُ، حَتَّى جُلِّيَ عَنِ الشَّمْسِ، فَقَرَأَ سُورَتَيْنِ وَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ ".
بشر بن مفضل نے کہا: جریری نے ہمیں ابو علاء حیان بن عمیر سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اپنے تیروں کے ذریعے سے تیر اندازی کر رہا تھا کے سورج کو گرہن لگ گیا، تو نے ان کو پھینکا اور (دل میں) کہا کہ میں آج ہر صورت دیکھوں گا کہ سورج گرہن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا نئی کیفیت طاری ہوتی ہے۔میں آپ کے پاس پہنچا تو (دیکھا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے، (اللہ کو) پکار رہے تھے، اس کی بڑائی بیان کر رہے تھے، اس کی حمد و ثنا بیان کر رہے تھے اور «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کا ورد فرما رہے تھے، یہاں تک کہ سورج سے گرہن ہٹا دیا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہررکعت میں) دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعتیں ادا کیں۔
حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسی اثنا میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اپنے تیر چلا رہا تھا کہ سورج کو گہن لگ گیا، تو میں نے ان کو پھینک دیا اور جی میں کہا کہ میں آج دیکھوں گا کہ سورج گہن کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا نیا کام کرتے ہیں، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حال میں پہنچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے دعا، تکبیر، تحمید اور تہلیل کہہ رہے تھے حتی کہ سورج روشن ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعت نماز ادا کی۔