ابو عامر اشعری عبداللہ بن براد اور محمد بن علاء نے کہا: ہمیں ابو اسامہ نے برید سے حدیث سنائی، انھوں نے ابو بردہ سے اور انھوں نے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگ گیا تو آپ تیزی سے اٹھے، آپ کو خوف لاحق ہوا کہ مبادا قیامت (آگئی) ہو، یہاں تک کہ آپ مسجد میں تشریف لے آئے اور آپ کھڑے ہوئے بہت طویل قیام، رکوع اورسجدے کے ساتھ نماز پڑھتے رہے، میں نے کبھی آپ کو نہیں دیکھا تھا کہ کسی نماز میں (آپ نے) ایسا کیا ہو، پھر آپ نے فرمایا: "یہی نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔یہ کسی کی موت یا زندگی کی بناء پر نہیں ہوتیں، بلکہ اللہ ان کو بھیجتا ہے تاکہ ان کے زریعے سے اپنے بندوں کو (قیامت سے) خوف دلائے، اس لئے جب تم ان میں سے کوئی نشانی دیکھو تو جلد از جلد اس کے ذکر، دعا اور استغفار کی طرف لپکو، "ابن علاء کی ر وایت میں"خسفت الشمس" کے بجائے) کسفت الشمس (سورج کو گرہن لگا) کے الفاظ ہیں (معنی ایک ہی ہے) اور انھوں نے (یخوف بہا عبادہ ان کے ذریعے سے اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے کے بجائے) یخوف عبادہ (اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے) کہا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج کو گہن لگ گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم خوف زدہ ہو کر اس طرح اٹھے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت قائم ہونے کا ڈر ہو حتی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آ گئے اور آپ نے انتہائی طویل قیام، رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز پڑھی میں نے آپ کو کسی نماز میں کبھی ایسے کرنے نہیں دیکھا تھا پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ نشانیاں جو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ یہ کسی کی موت و حیات کی بناء پر نہیں ہوتیں، لیکن اللہ ان کو اپنے بندوں کی تخویف (ڈرانے) کے لیے بھیجتا ہے تو جب تم ان میں سے کوئی نشانی دیکھو تو فوراً اس کے ذکر، دعا اور استغفار کی پناہ لو“ ابن العلاء کی روایت میں ہے:"كسفت الشمس"یعنی"خَسَفَتْ " کی جگہ اور کہا" يُخَوِّفُ عِبَادَهُ "یعنی" يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ "کی جگہ۔