وحدثني عبد الاعلى بن حماد ، ومحمد بن ابي بكر المقدمي ، قالا: حدثنا معتمر ، حدثنا عبيد الله ، عن ثابت البناني ، عن انس بن مالك ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يخطب يوم الجمعة، فقام إليه الناس فصاحوا، وقالوا: يا نبي الله قحط المطر واحمر الشجر وهلكت البهائم، وساق الحديث، وفيه من رواية عبد الاعلى: " فتقشعت، عن المدينة فجعلت تمطر حواليها، وما تمطر بالمدينة قطرة، فنظرت إلى المدينة وإنها لفي مثل الإكليل ".وحَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَامَ إِلَيْهِ النَّاسُ فَصَاحُوا، وَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَحَطَ الْمَطَرُ وَاحْمَرَّ الشَّجَرُ وَهَلَكَتِ الْبَهَائِمُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَفِيهِ مِنْ رِوَايَةِ عَبْدِ الْأَعْلَى: " فَتَقَشَّعَتْ، عَنْ الْمَدِينَةِ فَجَعَلَتْ تُمْطِرُ حَوَالَيْهَا، وَمَا تُمْطِرُ بِالْمَدِينَةِ قَطْرَةً، فَنَظَرْتُ إِلَى الْمَدِينَةِ وَإِنَّهَا لَفِي مِثْلِ الْإِكْلِيلِ ".
عبدالاعلیٰ بن حماد اور محمد بن ابی بکر مقدمی نے کہا: ہمیں معتمر نے حدیث بیا ن کی، انھوں نے کہا: ہمیں عبیداللہ نے ثابت بنانی سے اور انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ لوگ آپ کے سامنے کھڑے ہوگئے، (بات شروع کرنے والے بدو کے ساتھ دوسرے بھی شامل ہوگئے) وہ فریاد کرنے لگے اور کہنے لگے: اےاللہ کے نبی!بارش بندہوگئی، درختوں (کے پتے سوکھ کر) سرخ ہوگئے اور مویشی ہلاک ہوگئے۔۔۔اور (آگے مذکورہ بالا حدیث کے مانند) حدیث بیان کی۔اس میں عبدالاعلیٰ کی روایت سے یہ (الفاظ) ہیں: مدینہ سے بادل چھٹ گئے اور اس کے ارد گرد بارش برسانے لگے جبکہ مدینہ میں ایک قطرہ بھی نہیں برس رہاتھا میں نے مدینہ کو دیکھا وہ ایک طرح کے تاج کے اندر (بارش سے محفوظ) تھا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ لوگ کھڑے ہو کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پکارنے لگے اور اےاللہ کے نبی! بارش بند ہوگئی، پودے سرخ ہو گئے یا درختوں کے پتے سوکھ گئے اور مویشی مرنے لگے۔۔۔ آگے مذکورہ بالا حدیث ہے اور عبدالاعلیٰ کی روایت میں ہے مدینہ سے بادل چھٹ گئے اور اس کے ارد گرد بارش برسانے لگے اور مدینہ میں ایک قطرہ بھی نہیں برس رہاتھا میں نے مدینہ کو دیکھا وہ ایک دائرہ یا ٹوپی کی طرح اندر سے بارش سے محفوظ تھا۔
سلمان بن مغیرۃ نے ثابت اور انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اسی کے ہم معنی روایت کی اور یہ اضافہ کیا: اللہ تعالیٰ نے بادلوں کو جوڑ دیا اور ہم اسی (حالت) میں رہے حتیٰ کہ میں نے دیکھا ایک قوی اور مضبوط آدمی کو بھی اس کا دل (بارش کی کثرت کی بناء پر) اس فکر میں مبتلا کردیتاتھا کہ وہ ا پنے اہل وعیال کے پاس پہنچے۔
امام صاحب حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہی روایت ایک اور سند سے لائے ہیں۔اس میں یہ اضافہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بادلوں کو جوڑدیا اور ہم رُک گئے۔اور میں نے دیکھا کہ قوی اور مضبوط آدمی کو بھی گھر پہنچنے کی پریشانی اور فکر تھی۔
حفص بن عبیداللہ بن انس بن مالک نے بیان کیاکہ انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: جمعے کے دن ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جبکہ آپ منبر پر تھے۔۔۔ (آگے مذکورہ بالاحدیث کے مانند) حدیث بیان کی اور اس میں یہ اضافہ کیا: میں نے بادل کو دیکھاوہ اس طرح چھٹ رہا تھا جیسے وہ ایک بڑی چادر ہوجب اسے لپیٹا جارہا ہو۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بدو جمعہ کے دن جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور مذکورہ بالا حدیث بیان کی اور اس میں یہ اضافہ کیا میں نے بادلوں کو اس طرح پھٹتے دیکھا، گویا وہ ایک بڑی چادرتھی، جس کو لپیٹ دیا گیا۔
وحدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا جعفر بن سليمان ، عن ثابت البناني ، عن انس، قال: قال انس : " اصابنا ونحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم مطر، قال: فحسر رسول الله صلى الله عليه وسلم ثوبه حتى اصابه من المطر، فقلنا: يا رسول الله لم صنعت هذا؟ قال: " لانه حديث عهد بربه تعالى ".وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ : " أَصَابَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَطَرٌ، قَالَ: فَحَسَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبَهُ حَتَّى أَصَابَهُ مِنَ الْمَطَرِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ قَالَ: " لِأَنَّهُ حَدِيثُ عَهْدٍ بِرَبِّهِ تَعَالَى ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ہم پر بارش برسنے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا (سر اور کندھے کا کپڑا) کھول دیا حتیٰ کہ بارش آپ پر آنے لگی۔ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے ایسا کیوں کیا؟آپ نے فرمایا: "کیونکہ وہ نئی نئی (سیدھی) اپنے رب عزوجل کی طرف سے آرہی ہے۔"
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ہم پر بارش برسنے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کپڑا بدن سے اٹھا دیا حتیٰ کہ بارش آپصلی اللہ علیہ وسلم کے بدن پر گرنے لگی، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: ”کیونکہ وہ اپنے رب کے حکم سے اس کے پاس سے نئی نئی آ رہی ہے“
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا سليمان يعني ابن بلال ، عن جعفر وهو ابن محمد ، عن عطاء بن ابي رباح ، انه سمع عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، تقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا كان يوم الريح والغيم، عرف ذلك في وجهه واقبل وادبر، فإذا مطرت سر به وذهب عنه ذلك، قالت عائشة: فسالته، فقال: " إني خشيت ان يكون عذابا سلط على امتي "، ويقول إذا راى المطر: " رحمة ".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا كَانَ يَوْمُ الرِّيحِ وَالْغَيْمِ، عُرِفَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ، فَإِذَا مَطَرَتْ سُرَّ بِهِ وَذَهَبَ عَنْهُ ذَلِكَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: " إِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عَذَابًا سُلِّطَ عَلَى أُمَّتِي "، وَيَقُولُ إِذَا رَأَى الْمَطَرَ: " رَحْمَةٌ ".
جعفر بن محمد نے عطاء بن ابی ر باح سے روایت کی انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھیں کہ جب آندھی یا بادل کا دن ہوتا تو آپ کے چہرہ مبارک پر اس کا اثر پہچانا جاسکتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اضطراب کے عالم میں) کبھی آگے جاتے اور کبھی پیچھے ہٹتے، پھر جب بارش برسناشروع ہوجاتی تو آپ اس سے خوش ہوجاتے اور وہ (پہلی کیفیت) آ پ سے دور ہوجاتی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے (ایک بار) آپ سے (اس کا سبب) پوچھا تو آپ نے فرمایا: "میں ڈر گیا کہ یہ عذاب نہ ہو جو میری امت پر مسلط کردیا گیا ہو"اور بارش کو دیکھ لیتے تو فرماتے"رحمت ہے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں:کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھیں کہ جب آندھی یا بادل ہوتا تو آپ کے چہرہ مبارک پر (خوف کی کیفیت) نمایاں ہوتی (اضطراب کی بنا پر) کبھی آگے جاتے اور کبھی پیچھے ہٹتے، پھر جب بارش برسنا شروع ہوجاتی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اس سے خوش ہو جاتے اور خوف کی کیفیت آپصلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہوجاتی، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا سبب پوچھا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”مجھے خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ میری امت پر عذاب ہی مسلط نہ کر دیا گیا ہو“ اور بارش کو دیکھ کر فرماتے ”رحمت ہے۔“
وحدثني ابو الطاهر ، اخبرنا ابن وهب ، قال: سمعت ابن جريج ، يحدثنا، عن عطاء بن ابي رباح ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا عصفت الريح، قال: " اللهم إني اسالك خيرها وخير ما فيها وخير ما ارسلت به، واعوذ بك من شرها وشر ما فيها وشر ما ارسلت به "، قالت: وإذا تخيلت السماء تغير لونه وخرج ودخل واقبل وادبر، فإذا مطرت سري عنه، فعرفت ذلك في وجهه. قالت عائشة: فسالته، فقال: " لعله يا عائشة كما قال قوم عاد: فلما راوه عارضا مستقبل اوديتهم قالوا هذا عارض ممطرنا سورة الاحقاف آية 24 ".وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ جُرَيْجٍ ، يُحَدِّثُنَا، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْج النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَصَفَتِ الرِّيحُ، قَالَ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا فِيهَا وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا فِيهَا وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ "، قَالَتْ: وَإِذَا تَخَيَّلَتِ السَّمَاءُ تَغَيَّرَ لَوْنُهُ وَخَرَجَ وَدَخَلَ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ، فَإِذَا مَطَرَتْ سُرِّيَ عَنْهُ، فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ. قَالَتْ عَائِشَةُ: فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: " لَعَلَّهُ يَا عَائِشَةُ كَمَا قَالَ قَوْمُ عَادٍ: فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا سورة الأحقاف آية 24 ".
ابن جریج عطاء بن ابی رباح سے حدیث بیان کرتے ہیں، انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روای کی کہ انھوں نے کہا: جب تیز ہوا چلتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے: "اے اللہ!میں تجھ سے اس کی خیر اور بھلائی کا سوا ل کرتا ہوں۔اور جو اس میں ہے اس کی اور جو کچھ اس کے زریعے بھیجا گیا ہے اس کی خیر (کا طلبگار ہوں) اور اس کے شر سے اور جو کچھ اس میں ہے اور جو اس میں بھیجا گیا ہے ا س کے شر سے تیری پناہ چاہتاہوں" (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: جب آسمان پر بادل گھر آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا اور آ پ (اضطراب کے عالم میں) کبھی باہر نکلتے اور کبھی اندر آتے، کبھی آگے بڑھتے اور کبھی پیچھے ہٹتے، اس کے بعد جب بارش برسنے لگتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (یہ کیفیت) دورہوجاتی، مجھے اس کیفیت کا پتہ چل گیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تومیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عائشہ!ہوسکتاہے (یہ اسی طرح ہو) جیسے قوم عاد نے (بادلوں کو دیکھ کر) کہا تھا: "جب انھوں نے اس (عذاب) کو بادل کی طرح اپنی بستیوں کی طرف آتے دیکھا تو انھوں نے کہا: یہ بادل ہے جو ہم پربرسے گا۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب تیز ہوا چلتی تو دعا کرتے: ”اے اللہ!!میں تجھ سے اس کی خیر و بھلائی کا طالب ہوں۔ اور جو اس میں ہے اس کی خیر کا اور جو کچھ اس کے اس میں بھیجا گیا ہے اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس کے شر سے اور جو اس میں ہے اس کے شر سے اور جو اس میں بھیجا گیا ہے ا س کے شر سے تیری پناہ چاہتاہوں“(حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) بیان فرماتی ہیں جب آسمان پر بادل گرجتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم (اضطراب اور ڈر سے) کبھی اندر آتے اور کبھی باہر نکلتے، کبھی آگے بڑھتے اور کبھی پیچھے ہٹتے، اور جب بارش ہو جاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت ختم ہو جاتی، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں جب مجھے اس کیفیت کا پتہ چلا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ!ہو سکتا ہے یہ وہی صروت ہو جیسے عاد کی قوم نے دیکھ کر کہا تھا: جب انھوں نے اس (عذاب) کو بادل کی طرح اپنی بستیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہا: یہ بادل ہے جو ہم پربارش برسائے گا۔“(الأحقاف: 24)
وحدثني هارون بن معروف ، حدثنا ابن وهب ، عن عمرو بن الحارث . ح وحدثني ابو الطاهر ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرنا عمرو بن الحارث ، ان ابا النضر حدثه، عن سليمان بن يسار ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت: ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم مستجمعا ضاحكا حتى ارى منه لهواته، إنما كان يتبسم، قالت: وكان إذا راى غيما او ريحا، عرف ذلك في وجهه، فقالت: يا رسول الله ارى الناس إذا راوا الغيم فرحوا رجاء ان يكون فيه المطر، واراك إذا رايته عرفت في وجهك الكراهية، قالت: فقال: " يا عائشة ما يؤمنني ان يكون فيه عذاب، قد عذب قوم بالريح، وقد راى قوم العذاب فقالوا: هذا عارض ممطرنا ".وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَجْمِعًا ضَاحِكًا حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ، قَالَتْ: وَكَانَ إِذَا رَأَى غَيْمًا أَوْ رِيحًا، عُرِفَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَى النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْغَيْمَ فَرِحُوا رَجَاءَ أَنْ يَكُونَ فِيهِ الْمَطَرُ، وَأَرَاكَ إِذَا رَأَيْتَهُ عَرَفْتُ فِي وَجْهِكَ الْكَرَاهِيَةَ، قَالَتْ: فَقَالَ: " يَا عَائِشَةُ مَا يُؤَمِّنُنِي أَنْ يَكُونَ فِيهِ عَذَابٌ، قَدْ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيحِ، وَقَدْ رَأَى قَوْمٌ الْعَذَابَ فَقَالُوا: هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا ".
سلمان بن یسار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ انھوں نے کہا: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی پوری طرح ایسا ایسےہنستا ہوانہیں دیکھاکہ میں آپ کے حلق مبارک کے اندر کا ابھرا ہواحصہ دیکھ لوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف مسکرایا کرتے تھے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بادل یا آندھی دیکھتے تو اس کا اثرآپ کے چہرہ انور پرعیاں ہوجاتا تو (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں لوگوں کو دیکھتی ہوں کہ جب بادل دیکھتے ہیں تو اس اُمید پر خوش ہوجاتے ہیں کہ اس میں بارش ہوگی اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتی ہوں کہ جب آپ اس (بادل) دیکھتے ہیں تو میں آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی محسوس کرتی ہوں؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عائشہ!مجھے اس بات سے کیا چیز امن دلا سکتی ہے کہ کہیں ان میں عذاب (نہ) ہو، ایک قوم آندھی کے عذاب کا شکار ہوئی تھی اور ایک قوم نے عذاب کو (دور) سے دیکھا تو کہا: "یہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا۔"
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے کبھی آپصلی اللہ علیہ وسلم کو پوری طرح کھل کر ہنستےنہیں دیکھا کہ میں آپ کا کوا دیکھ لوںآپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف مسکرایا کرتے تھے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بادل یا آندھی (نتد و تیز ہوا) دیکھتے تو اس کا اثرآپ کے چہرہ انور پر ظاہر ہو جاتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں لوگوں کو دیکھتی ہوں کہ جب بادل دیکھتے ہیں تو خوش ہوجاتے ہیں اسی امید پر کہ بارش ہوگی اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتی ہوں کہ جب بادل دیکھتے ہیں تو میں آپ کے چہرے پر ناخوشی محسوس کرتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! میں اس بات سے بے خوف نہیں ہوتا کہ کہیں اس میں عذاب ہو۔ ایک قوم آندھی کے عذاب کا شکار ہوئی تھی، ایک قوم نے عذاب دیکھ کر کہا یہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا۔
مجاہد نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بادصبا (مشرقی سمت سے چلنے والی ہوا) سے میری مدد کی گئی ہے اور باددبور (مغربی سمت سے چلنے والی ہوا) سے قوم عاد کو ہلاک کیا گیا۔"
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میری بادصبا (مشرقی ہوا) سے مدد کی گئی ہے اور عادیوں کو باد دبور(مغربی ہوا) سے ہلاک کیا گیا۔