قزہ بن خالد نے کہا: ہمیں ابو زبیر نے حدیث بیا ن کی، کہا: ہمیں سعید بن جبیر نے حدیث سنائی، انھوں نے کہا: ہمیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیا ن کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے دوران ایک سفر میں نمازوں کو جمع کیا، ظہراورعصر کو اکھٹا پڑھا اور مغرب اور عشاء کو اکھٹا پڑھا۔ سعید نے کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا تھا؟انھوں نے کہا: آپ نے چاہا اپنی امت کو حرج (اور تنگی) میں نہ ڈالیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر جو غزوہٴ تبوک کے لیے کیا تھا دو نمازوں کو جمع کیا، ظہر اور عصر کو اکٹھا پڑھا مغرب اور عشاء کو اکٹھا پڑھا۔ (ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد) سعید کہتے ہیں، میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا تھا؟ انہوں نے کہا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا اپنی امت کو حرج اور تنگی میں نہ ڈالیں۔
زہیر نے کہا: ہمیں ابو زبیر نے ابو طفیل عامر سے حدیث سنائی اور انھوں نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ہم غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو (اس دوران میں) آپ ظہر اور عصر اکھٹی پڑھتے رہے اور مغرب اور عشاء کو جمع کرتے رہے۔
ابو طفیل عامر، معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ ہم غزوہٴ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکلے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر اکٹھی پڑھتے تھے اور مغرب اور عشاء کو جمع کرتے تھے۔
قرہ بن خالد نے کہا: ہمیں ابو زبیر نے حدیث بیا ن کی، کہا: ہمیں عامر بن واثلہ ابو طفیل نے حدیث بیا ن کی، کہا: ہمیں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک میں ظہر، عصر کو اور مغرب، عشاء کو جمع کیا۔ (عامر بن واثلہ نے) کہا: میں نے (حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے) پوچھا: آپ نے ایسا کیوں کیا؟تو انھوں نے کہا: آپ نے چاہا کہ اپنی امت کو دشواری میں نہ ڈالیں۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہٴ تبوک میں ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کو جمع کیا (معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد) کہتے ہیں میں نے پوچھا آپ نے ایسا کس مقصد کے لیے کیا؟ تو انہوں نے کہا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا امت کو دشواری نہ ہو۔
ابو معاویہ اور وکیع دونوں نے اعمش سے روایت کی، انھوں نے حبیب بن ثابت سے انھوں نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر، عصر اور مغرب، عشاء کو مدینہ میں کسی خوف اور بارش کے بغیر جمع کیا۔وکیع کی روایت میں ہے (سعید نے) کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے کہا: تاکہ اپنی امت کو دشواری میں مبتلا نہ کریں اور ابو معاویہ کی حدیث میں ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا چاہتے ہوئے ایسا کیا؟انھوں نے کہا: آپ نے چاہا اپنی امت کو دشواری میں نہ ڈالیں۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بلا خوف و خطر اور بلا بارش ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کیا، وکیع کی روایت میں ہے سعید نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا، تاکہ اپنی امت کو دشواری میں مبتلا نہ کریں اور ابو معاویہ کی حدیث میں ہے، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کیا چاہا؟ انہوں نے کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا آپصلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو دشواری نہ ہو۔
سفیان بن عینیہ نے عمرو بن دینار سے انھوں نے (ابوشعشاء) جابر بن زید سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آٹھ رکعات (ظہر اورعصر) اکھٹی اور سات رکعات (مغرب اور عشاء) اکھٹی پڑھیں۔ (عمرو نے کہا) میں نے ابو شعشاء (جابر بن زید) سے کہا کہ میرا خیال ہے آپ نے ظہر کو موخر کیا اور عصر جلدی پڑھی اور مغرب کو موخر کیا اور عشاء میں جلدی کی۔انھوں نے کہا: میرا بھی یہی خیال ہے۔
جابر بن زید ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آٹھ رکعات (ظہر و عصر) اکٹھی پڑھیں اور سات رکعات (مغرب و عشاء) اکٹھی پڑھیں، عمرو کہتے ہیں میں نے ابو شعثاء (جابر بن زید) سے پوچھا کہ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر میں تاخیر کی اور عصر جلدی پڑھی، مغرب کو مؤخر کیا اور عشاء میں تعجیل (جلدی کی، انہوں نے کہا، میرا خیال بھی یہی ہے۔) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی باب باندھا ہے۔ (أَخَّرَ الظُّھْرَ وَ عَجَّلَ الْعَصْرَ)۔
حماد بن زید نے عمرو بن دینار سے انھوں نے جابر بن زید سے اور انھوں نے حضرت ا بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں سات رکعات اور آٹھ رکعات نماز پڑھی۔یعنی ظہر، عصر، مغرب اور عشاء (ملا کرپڑھیں)۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں سات رکعات اور آٹھ رکعات نماز پڑھی یعنی ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء اکٹھی پڑھیں۔
وحدثني ابو الربيع الزهراني ، حدثنا حماد ، عن الزبير بن الخريت ، عن عبد الله بن شقيق ، قال: خطبنا ابن عباس ، يوما بعد العصر، حتى غربت الشمس، وبدت النجوم، وجعل الناس، يقولون: الصلاة، الصلاة، قال: فجاءه رجل من بني تميم، لا يفتر، ولا ينثني، الصلاة، الصلاة، فقال ابن عباس: اتعلمني بالسنة، لا ام لك؟ ثم قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، " جمع بين الظهر والعصر، والمغرب والعشاء "، قال عبد الله بن شقيق: فحاك في صدري من ذلك شيء، فاتيت ابا هريرة ، فسالته، فصدق مقالته.وحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ الْخِرِّيتِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ: خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ، يَوْمًا بَعْدَ الْعَصْرِ، حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَبَدَتِ النُّجُومُ، وَجَعَلَ النَّاسُ، يَقُولُونَ: الصَّلَاةَ، الصَّلَاةَ، قَالَ: فَجَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، لَا يَفْتُرُ، وَلَا يَنْثَنِي، الصَّلَاةَ، الصَّلَاةَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَتُعَلِّمُنِي بِالسُّنَّةِ، لَا أُمَّ لَكَ؟ ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ: فَحَاكَ فِي صَدْرِي مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ، فَأَتَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، فَسَأَلْتُهُ، فَصَدَّقَ مَقَالَتَهُ.
زبیر بن خریت نے عبداللہ بن شفیق سے روایت کی انھوں نے کہا: ایک دن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ عصر کے بعد ہمیں خطاب کرنے لگے حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے نمودار ہوگئے اور لوگ کہنے لگے: نماز، نماز! پھر ان کے پاس بنو تمیم کا ایک آدمی آیا جو نہ تھکتا تھا اور نہ باز آرہاتھا نماز، نماز کہے جارہاتھا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا تیری ماں نہ ہو!تو مجھے سنت سکھا رہا ہے؟پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے ظہر وعصر کو اور مغرب وعشاء کو جمع کیا۔ عبداللہ بن شفیق نے کہا: تو اس سے میرے دل میں کچھ کھٹکنے لگا، چنانچہ میں حضر ت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے پوچھا تو ا نھوں نے ان (ابن عباس رضی اللہ عنہ) کے قول کی تصدیق کی۔
عبداللہ بن شفیق بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عصر کے بعد خطاب شروع کیا، حتی کہ سورج غروب ہو گیا اور ستارے نمودار ہو گئے اور لوگ کہنے لگے، نماز، نماز۔ پھر ان کے پاس بنو تمیم کا ایک آدمی آیا جو نہ سست پڑتا تھا اور نہ باز آ رہا تھا، نماز، نماز کہے جا رہا تھا۔ تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا، بڑے تعجب اور حیرت کی بات ہے کیا تو مجھے سنت سکھا رہا ہے، پھر کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کو جمع کیا، عبداللہ بن شفیق کہتے ہیں تو اس سے میرے دل میں خلش اور کھٹکا پیدا ہوا۔ تو میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے قول کی تصدیق کی۔
عمران بن خدیرنے عبداللہ بن شقیق عقیلی سے روایت کی، انھوں نے کہا: ایک شخص نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: نماز! آپ خاموش رہے اس نے پھر کہا: نماز! آپ پھر چپ رہے، اس نے پھر کہا: نماز! تو آپ (کچھ دیر) چپ رہے، پھر فرمایا: تیری ماں نہ ہو! کیاتو ہمیں نماز کی تعلیم دیتا ہے؟ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دو نمازیں جمع کرلیاکرتے تھے۔
ایک شخص نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا، نماز پڑھو، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموش رہے، اس نے پھر کہا، نماز پڑھو، وہ پھر بھی چپ رہے۔ اس نے پھر کہا، نماز، تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چپ رہے۔ پھر کہنے لگے، تجھ پر حیرت ہے تو کیا ہمیں نماز کی تعلیم دیتا ہے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دو نمازیں جمع کر لیا کرتے تھے۔
ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے، انھوں نے عمارہ سے، انھوں نے اسود سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ (بن مسعود) سے روایت کی، کہا: تم میں سے کوئی شخص اپنی ذات میں سے شیطان کاحصہ نہ رکھے (وہم اور وسوسے کا شکار نہ ہو) یہ خیال نہ کرے کہ اس پر لازم ہے کہ وہ نماز سےدائیں کے علاوہ کسی اور جانب سے رخ نہ موڑے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر دیکھا تھا، آپ بائیں جانب سے رخ مبارک موڑتے تھے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ تم میں سے کوئی اپنی ذات سے شیطان کو حصہ نہ دے، یہ نہ خیال کرے کہ اس پر لازم ہے کہ وہ نماز سے دائیں طرف ہی مڑے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر دیکھا ہے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بائیں طرف پھرتے تھے۔