قیس بن سعد نے طاؤس سے، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کی۔ (اس حدیث کے راوی عمران القصیر کے) الفاظ ان (امام مالک، سفیان، ابن جریج) کے الفاظ سے ملتے جلتے ہیں۔
امام صاحب نے ایک دوسری سند سے بھی مذکورہ بالا روایت سے ملتی جلتی روایت بیان کی ہے۔
حدثنا محمد بن المثنى ، ومحمد بن حاتم ، وعبد بن حميد ، وابو معن الرقاشي ، قالوا: حدثنا عمر بن يونس ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثنا يحيى بن ابي كثير، حدثني ابو سلمة بن عبد الرحمن بن عوف ، قال: سالت عائشة ام المؤمنين، باي شيء كان نبي الله صلى الله عليه وسلم يفتتح صلاته، إذا قام من الليل؟ قالت: كان إذا قام من الليل افتتح صلاته " اللهم رب جبرائيل، وميكائيل، وإسرافيل، فاطر السماوات والارض، عالم الغيب والشهادة، انت تحكم بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفون، اهدني لما اختلف فيه من الحق بإذنك، إنك تهدي من تشاء إلى صراط مستقيم ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، وأبو معن الرقاشي ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ صَلَاتَهُ، إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ؟ قَالَتْ: كَانَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ افْتَتَحَ صَلَاتَهُ " اللَّهُمَّ رَبَّ جَبْرَائِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ".
ابو سلمہ بن عبدالرحمان نے کہا: میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز کے لئے اٹھتے تھے تو کس چیز کے ساتھ نماز کا آغاز کرتے تھے؟انھوں نے جواب دیا: جب آپ رات کو اٹھتے تو نماز کا آ غاز (اس دعا سے) کرتے: "اے اللہ! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب!آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمانے والے!پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے!تیرے بندے جن باتوں میں اختلاف کرتے تھے تو ہی ان کے درمیان فیصلہ فرمائےگا۔، جن باتوں میں اختلاف کیا گیا ہے تو ہی ا پنے حکم سے مجھے ان میں سے جو حق ہے اس پر چلا، بے شک تو ہی جسے چاہے سیدھی راہ پر چلاتا ہے۔"
ابو سلمہ بن عبدالرحمان بیان کرتے ہیں، میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز کے لئے اٹھتے تھے تو نماز کا آغاز کون سے کلمات سے کرتےتھے؟ انھوں نے جواب دیا، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم رات کو قیام کرتے تو نماز کا آ غاز اس دعا سے کرتے: ”اے اللہ! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے آقا اور مالک! آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمانے والے!پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے!تیرے بندے جن باتوں میں اختلاف کررہے ہیں تو ہی ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ جن باتوں میں اختلاف کیا گیا ہے تو ہی ا پنے مجھے ان میں سے حق پرقائم رکھ یا اپنی توفیق سے مجھے جس حق میں اختلاف کیا گیا ہے، میری راہنمائی فرما، اس بے شک تو ہی سیدھی راہ دکھانے والا ہے۔“
یوسف ماجثون نے کہا: مجھ سے میرے والد (یعقوب بن ابی سلمہ ماجثون) نے عبدالرحمان اعرج سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبیداللہ بن ابی رافع سے، انھوں نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ر وایت کی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑ ے ہوتے تھے تو فرماتے: "میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کردیا ہے۔جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا، ہر طرف سے یکسو ہوکر، اور میں اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والوں میں سے نہیں، میری نماز اور میری ہر (بدنی ومالی) عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لئے ہے جو کائنات کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم ملا ہے اور میں فرمانبرداری کرونے والوں میں سے ہوں۔اے اللہ! تو ہی بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، تو میرا رب ہے میں تیرا بندہ ہوں اور میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اپنے گناہ کا اعتراف کیا ہے، اس لئے میرے سارے گناہ بخش دے کیونکہ گناہوں کو بخشنے والا تیرے سوا کوئی نہیں، اور میری بہترین اخلاق کی طرف راہنمائی فرما، تیرے سوا بہترین اخلاق کی راہ پر چلانے والا کوئی نہیں، اور برے اخلاق مجھ سے ہٹا دے، تیرے سوا برے اخلاق کو مجھ سے دور کرنے والا کوئی نہیں، میں تیرے حضور حاضر ہوں اور دونوں جہانوں کی سعادتیں تجھ سے ہیں ہر طرح کی بھلائی تیر ے ہاتھ میں ہے اور برائی کا تیر ی طرف کوئی گزر نہیں ہے میں تیرے ہی سہارے ہوں، اور تیری ہی طرف میرا رخ ہے، تو برکت والا رفعت والا اور بلندی والا ہے میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کر تا ہوں۔" اور جب آپ رکوع کرتے تو فرماتے: "اے اللہ! میں تیرے سامنے جھکا ہوا ہوں اور میں تجھ ہی پر ایمان لایاہوں، اپنے آپ کو تیرے ہی سپرد کر دیا ہے، میرے کان اور میری آنکھیں اور میرا مغز اور میری ہڈیاں اور میری رگیں اور میرے پٹھے تیرے ہی حضور جھکے ہوئے ہیں۔" اور جب رکوع سے اٹھتے تو کہتے: "اے اللہ! ہمارے رب، تیرے ہی لئے حمد ہے جس سے آ سمانوں اور زمین کی وسعتیں بھر جائیں اور اس کے بعد جو تو چاہے اس کی وسعتیں بھر جائیں۔" اور جب آپ سجدہ کرتے تو کہتے: "اے اللہ!میں نے تیرے ہی حضور سجدہ کیااور تجھ ہی پر ایمان لایا اور ا پنے آپ کو تیرے ہی حوالے کیا، میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہے جس نےاسے پیدا کیا، اس کی صورت گری کی اور اس کے کان اور اس کی آنکھیں تراشیں، برکت والاہے اللہ جو بہترین خالق ہے۔"پھر تشہد اور سلام کے درمیان میں یہ دعا پڑھتے۔"اے اللہ! بخش دے جو خطائیں میں نے پہلے کیں یا بعد میں کیں اور چھپا کر کہیں یا علانیہ کیں اور جو بھی زیادتی میں نے کی اور جس کا مجھ سے زیادہ تمھیں علم ہے (اطاعت اور خیر میں) تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کا حقدار نہیں۔"
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑ ے ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے: ”میں نے اپنا چھرہ ہر طرف سے یکسو ہو کر، اس ذات کی طرف کر دیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا، اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں، جو اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں، میری نماز اور میری قربانی یا میرا ہر دینی عمل اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لئے ہے، جو کائنات کا آقا ومالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس کا حکم ملا ہے اور میں فرمانبرداری کرنے والوں میں سے ہوں۔ اے اللہ! تو ہی بادشاہ اور مالک ہے، تیرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں ہے، تو میرا مالک وآقا ہے اور میں تیرا بندہ ہوں، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، اور میں اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہوں،پس میرے سارے گناہوں کو بخش دے کیونکہ تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں، اور میری بہترین اخلاق کی طرف راہنمائی فرما، تیرے سوا بہترین اخلاق کی طرف وہنمائی کرنے والا کوئی نہیں، اور برے اخلاق میری طرف سے پھیر دے، تیرے سوا مجھ سے برے اخلاق کو دور کرنے والا کوئی نہیں، تیرے حضور حاضر ہوں اور تیری خدمت واطاعت کے لئے تیارہوں،ہر قسم کی خیروبھلائی تیر ے ہاتھ میں ہے اور برائی کا تیر ی طرف گزر نہیں ہے، مجھے تیرا ہی سہارا ہے، اور تیری ہی طرف میرا رخ ہے، تو برکت والا اور رفعت و بلندی والا ہے، میں تجھ سے بخشش کا سائل ہوں اور تیرے حضور توبہ کر تا ہوں، اور جب آپصلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو فرماتے: ”اے اللہ! میں تیرے حضور جھکا ہوا ہوں اور میں تجھ پر ایمان لایا ہوں،اور میں نے اپنے آپ کو تیرے ہی سپرد کر دیا ہے، میرے کان اور میری آنکھیں اور میرا مغز اور میری ہڈیاں اور میری رگ و پٹھے تیرے ہی حضور جھکے ہوئے ہیں۔“ اور جب رکوع سے اٹھتے تو دعا کرتے: ”اے اللہ! ہمارے رب، تیرے ہی لئے حمد ہے،(ایسی وسیع اور بے انتہا) جس سے آ سمانوں کی وسعتیں بھر جائیں اور زمین کی وسعتیں بھر جائیں اور جوکچھ ان کے درمیان ہے یعنی درمیان کا سارا خلا پر ہوجائے اور ان کے سوا تو جو چاہے وہ بھر جائے۔“ اور جب آپصلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو کہتے: ”اے اللہ!میں تیرے حضوری سجدہ ریز ہوں اور میں تجھ پر ہی ایمان لایا اور ا پنے آپ کو تیرے ہی حوالے کیا، میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ کرتا ہے جس نےاسے پیدا کیا،اور اس کی شکل وصورت بنائی اور اس کے کان اور اس کی آنکھیں تراشیں، اور برکت والا ہے، بہترین خالق۔“ پھر تشہد اور سلام کے درمیان آخر میں یہ دعا پڑھتے۔”اے اللہ! جو خطائیں میں نے پہلے کیں یا بعد میں کیں اور چھپ کر کیں یا علانیہ کیں، اور جو بھی زیادتی میں نے کی اور جس کا تجھے مجھ سے زیادہ علم ہے، سب معاف کر دے، مجھے بخش تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے، اور تیرے سوا عبادت کا مقدورکوئی نہیں ہے۔“
عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ نے اپنے چچا الماجثون (یعقوب) بن ابی سلمہ سے اور انھوں نے (عبدالرحمان) اعرج سے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کا آغاز فرماتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر د عا پڑھتے: وجہت وجہیی اس میں (کے بجائے) "انا من المسلمین" اور میں اطاعت وفرمانبرداری میں اولین (مقام پر فائز) ہوں"کے الفاظ ہیں اور کہا: جب آپ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو"سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد" کہتے اورصورہ (اس کی صورت گری کی) کے بعد "فاحسن صورہ" (اس کو بہترین شکل وصورت عنایت فرمائی) کے الفاظ کہے اور کہا جب سلام پھیرتے تو کہتے: " اللہم اغفرلی ما قدمت "اے اللہ! بخش دے جو میں نے پہلے کیا۔"حدیث کے آخر تک اور انھوں نے "تشہد اور سلام پھیرنے کے درمیان" کے الفاظ نہیں کہے۔
امام صاحب یہی روایت دوسرے استاد کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں، اس میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کا آغاز کرتے تو اَللہُ اَکْبَر کہنے کے بعد، (وَجَّهْتُ وَجْهِيَ) دعا پڑھتے۔اور اس میں (اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْن) کی بجائے (اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْن) ہے کہ میں سب سے پہلے اطاعت گزار ہوں اور میں اطاعت وفرمانبرداری میں پہلے مقام ومرتبہ پر فائز ہوں۔ اوراس میں ہے جب آپصلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہتے اور (صَوَّرَهُ) کے بعد (فَاَحْسَنَ صُوَرَهُ)(اس کو بہترین شکل وصورت عنایت فرمائی) اور اس میں ہے کہ (اللهم اغْفِرْلِيْ مَاقَدَّمْتُ) والی دعا سلام پھیرنے کے بعد پڑھتے۔ تشہد اور سلام پھیرنے کے درمیان کا ذکر نہیں کیا۔
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير ، وابو معاوية . ح وحدثنا زهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم جميعا، عن جرير كلهم، عن الاعمش . ح وحدثنا ابن نمير واللفظ له، حدثنا ابي ، حدثنا الاعمش ، عن سعد بن عبيدة ، عن المستورد بن الاحنف ، عن صلة بن زفر ، عن حذيفة ، قال: " صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فافتتح البقرة، فقلت يركع عند المائة، ثم مضى، فقلت: يصلي بها في ركعة، فمضى، فقلت: يركع بها، ثم افتتح النساء فقراها، ثم افتتح آل عمران فقراها، يقرا مترسلا، إذا مر بآية فيها، تسبيح سبح، وإذا مر بسؤال سال، وإذا مر بتعوذ تعوذ، ثم ركع، فجعل يقول: سبحان ربي العظيم، فكان ركوعه نحوا من قيامه، ثم قال: سمع الله لمن حمده، ثم قام طويلا، قريبا مما ركع، ثم سجد، فقال: سبحان ربي الاعلى، فكان سجوده قريبا من قيامه "، قال: وفي حديث جرير من الزيادة، فقال: سمع الله لمن حمده، ربنا لك الحمد.وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ جميعا، عَنْ جَرِيرٍ كُلُّهُمْ، عَنِ الأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ الأَحْنَفِ ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَافْتَتَحَ الْبَقَرَةَ، فَقُلْتُ يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَةِ، ثُمَّ مَضَى، فَقُلْتُ: يُصَلِّي بِهَا فِي رَكْعَةٍ، فَمَضَى، فَقُلْتُ: يَرْكَعُ بِهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ النِّسَاءَ فَقَرَأَهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ فَقَرَأَهَا، يَقْرَأُ مُتَرَسِّلًا، إِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا، تَسْبِيحٌ سَبَّحَ، وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ، وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَجَعَلَ يَقُولُ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ، فَكَانَ رُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ قَامَ طَوِيلًا، قَرِيبًا مِمَّا رَكَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَقَالَ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى، فَكَانَ سُجُودُهُ قَرِيبًا مِنْ قِيَامِه "، قَالَ: وَفِي حَدِيثِ جَرِيرٍ مِنَ الزِّيَادَةِ، فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ.
عبداللہ بن نمیر، ابو معاویہ اور جریر سب نے اعمش سے، انھوں نے سعد بن عبیدہ سے، انھوں نے مستورد بن احنف سے، انھوں نے صلہ بن زفر سے اور انھوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی،۔انھوں نے کہا: ایک رات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے سورہ بقرہ کا آغاز فرمایا، میں نے (دل میں) کہا: آپ سو آیات پڑھ کر رکوع فرمائیں گے مگر آپ آگے بڑھ گئے میں نے کہا: آپ اسے (پوری) رکعت میں پڑھیں گے، آپ آگے پڑھتے گئے، میں نے سوچا، اسے پڑھ کر رکوع کریں گے مگر آپ نے سورہ نساءشروع کردی، آپ نے وہ پوری پڑھی، پھر آپ نے آل عمران شروع کردی، اس کو پورا پڑھا، آپ ٹھر ٹھر کر قرائت فرماتے رہے جب ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہے توسبحان اللہ کہتے اور جب سوال (کرنے والی آیت) سے گزرتے (پڑھتے) تو سوا ل کرتے اور جب پناہ مانگنے والی آیت سے گزرتے تو۔ (اللہ سے) پناہ مانگتے، پھر آپ نے ر کوع فرمایا اور سبحان ربی العظیم کہنے لگے، آپ کا رکوع (تقریباً) آپ کے قیام جتنا تھا۔پھر آپ نے "سمع اللہ لمن حمدہ"کہا: پھر آپ لمبی دیر کھڑے رہے، تقریباً اتنی دیر جتنی دیر رکوع کیا تھا، پھر سجدہ کیا اور "سبحان ربی الاعلی" کہنے لگے اور آپ کا سجدہ (بھی) آپ کے قیام کے قریب تھا۔ جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہےکہ آپ نے کہا: (سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد") یعنی ربنا لک الحمدکا اضافہ ہے۔)
امام صاحب مختلف اساتذہ سے روایت کرتے ہیں، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ بقرہ پڑھنی شروع کردی، میں نے دل میں سوچا، آپصلی اللہ علیہ وسلم سو آیات پڑھ کر رکوع فرمائیں گے، مگر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد قرأت جاری رکھی، میں نے سوچا، آپصلی اللہ علیہ وسلم پوری سورت ایک رکعت میں پڑھیں گے، لیکن آپصلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے رہے، میں نے سوچا، آخر میں رکوع کریں گے، مگر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نساء شروع کر دی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پوری پڑھ ڈالی، پھر آل عمران شروع کر دی، اس کو پورا پڑھ ڈالا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر قرأ ت فرماتے رہے، جب تسبیح والی آیت سے گزرتے تو (سُبْحَانَ اللہ) کہتے اور جب سوال والی آیت سے گزرتے (پڑھتے) تو سوا ل کرتے اور جب تعوذ(اللہ سے پناہ مانگنا) والی آیت سے گزرتے تو اللہ سے پناہ مانگتے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ر کوع کیا اور مسلسل (سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْم) کہتے رہے،اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع آپصلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے قریب تھا۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قیام کیا،جو رکوع کے برابر تھا، پھر سجدہ کیا اور (سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰي) کہتے رہے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے قریب تھا۔ اور جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے کہا (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) یعنی (رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) کا اضافہ ہے۔
جریر نے اعمش سے اور انھوں نے ابووائل سے روایت کی۔انھوں نے کہا: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازپڑھی آپ نے اتنی لمبی نماز پڑھی کہ میں نے ایک ناپسندیدہ کام کا ارادہ کر لیا۔کہا: تو ان سے پوچھا گیا آپ نے کس بات کا ارادہ کیا تھا؟ انھوں نے کہا: میں نے ارادہ کیا کہ بیٹھ جاؤں اور آپ کو (اکیلے ہی قیام کی حالت میں) چھوڑدوں۔"
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز شروع کی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے بہت طویل نماز پڑھی حتی کہ میں نے ایک برے کام کا ارادہ کر لیا تو ان سے پوچھا گیا، آپ نے کس بات کا ارادہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا، میں نے ارادہ کیا کہ میں بیٹھ جاؤں اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑا چھوڑ دوں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا گیا جو رات نھر سویا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی آپ نے فرمایا: وہ (ایسا) شخص ہے کہ شیطان نے اس کے کان میں۔"یا فرمایا: "اس کے دونوں کا نوں میں پیشاب کر دیا ہے۔"
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا گیا جو رات بھر صبح تک سویا رہا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ایسا شخص ہے کہ شیطان نے اس کے کانوں میں بول کر دیا ہے۔“ یا فرمایا:”اس کے کان میں پیشاب کیا ہے۔“
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن عقيل ، عن الزهري ، عن علي بن حسين ، ان الحسين بن علي حدثه، عن علي بن ابي طالب ، ان النبي صلى الله عليه وسلم طرقه، وفاطمة، فقال: " الا تصلون؟ فقلت: يا رسول الله، إنما انفسنا بيد الله، فإذا شاء ان يبعثنا بعثنا، فانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قلت له ذلك، ثم سمعته وهو مدبر يضرب فخذه، ويقول: وكان الإنسان اكثر شيء جدلا ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيّ حَدَّثَهُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ، وَفَاطِمَةَ، فَقَالَ: " أَلَا تُصَلُّونَ؟ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قُلْتُ لَهُ ذَلِكَ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُدْبِرٌ يَضْرِبُ فَخِذَهُ، وَيَقُولُ: وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا ".
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت انھیں اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جگایا اور فرمایا: "کیا تم لوگ نماز نہیں پڑھو گے؟ میں نےکہا: اے اللہ کے رسول!ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں جب وہ ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے جب میں نے آپ سے یہ کہا تو آپ واپس چلے گئے پھر میں نے آپ کو سنا کہ آپ واپس پلٹتے ہو ئے اپنی ران پر ہاتھ مارتے تھے اور کہتے (آیتکا ایک ٹکڑاپڑھتے) تھے: "انسان سب سے بڑھ کر جھگڑا کرنے والا ہے (جدل (جھگڑا) یہ تھی کہ جگا ئے جا نے پر ممنون ہو نے اور نماز پڑھنے کی بجا ئے عذر پیش کیا گیا۔)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو ان کے اور فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں تشریف لائے اور فرما یا: ” تم اٹھ کر نماز کیوں نہیں پڑھتے؟“ تو میں نے عرض کی، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے نفوس اللہ کے ہاتھ میں ہیں تو جب وہ چاہتا ہے ہمیں بیدار کر لیتا ہے،یا حب اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے، جب میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا آپصلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے گئے، پھر میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹتے ہو ئے اپنی ران پر ہاتھ مارکر فرما رہے تھے: ”انسان سب سے بڑھ کر حجت باز ہے۔“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے انھوں نے یہ فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا آپ نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی سوجا تا ہے تو شیطان اس کے سر کے پچھلے حصے پر تین گرہیں لگاتا ہے ہر گرہ پر تھپکی دیتا ہے کہ تم پر ایک بہت لمبی رات (کا سونا لا زم) ہے جب انسان بیدار ہو کر اللہ تعا لیٰ کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جا تی ہے اور جب وہ وضو کرتا ہے اس سے دو گرہ کھل جا تی ہے پھر جب نماز پڑھتا ہے ساری گرہیں کھل جاتی ہیں اور وہ چاق چوبند ہشاش بشاش پاک طبیعت (کےساتھ) صبح کرتا ہے ورنہ (جاگ کر عبادت نہیں کرتا تو) صبح کو گندے دل کے ساتھ اور سست اٹھتا ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: ” شیطان، جب تم میں سے کو ئی سو جا تا ہے تو اس کی گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے، ہر گرہ پر تھپکی دیتا ہے کہ ابھی رات بہت لمبی ہے تو جب انسان بیدار ہو کر اللہ تعا لیٰ کو یاد کرتا ہے، ایک گرہ کھل جا تی ہے اور جب وہ وضو کرتا ہے، اس سے دوسری گرہ کھل جا تی ہے، پھر جب نماز پڑھتا ہے، ساری گرہیں کھل جاتی ہیں اور وہ صبح چاق وچوبند ہشاش بشاش پاک طبیعت کرتا ہے، وگرنہ صبح گندہ دل اور سست اٹھتا ہے۔“