وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا محمد بن بكر ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني عطاء ، عن ابن عباس ، قال: بت ذات ليلة عند خالتي ميمونة، " فقام النبي صلى الله عليه وسلم، يصلي متطوعا من الليل، فقام النبي صلى الله عليه وسلم إلى القربة فتوضا، فقام فصلى، فقمت لما رايته صنع ذلك فتوضات من القربة، ثم قمت إلى شقه الايسر، فاخذ بيدي من وراء ظهره يعدلني كذلك من وراء ظهره إلى الشق الايمن "، قلت: افي التطوع كان ذلك؟ قال: نعم.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: بِتُّ ذَاتَ لَيْلَةٍ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، " فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُصَلِّي مُتَطَوِّعًا مِنَ اللَّيْلِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْقِرْبَةِ فَتَوَضَّأَ، فَقَامَ فَصَلَّى، فَقُمْتُ لَمَّا رَأَيْتُهُ صَنَعَ ذَلِكَ فَتَوَضَّأْتُ مِنَ الْقِرْبَةِ، ثُمَّ قُمْتُ إِلَى شِقِّهِ الأَيْسَرِ، فَأَخَذَ بِيَدِي مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِهِ يَعْدِلُنِي كَذَلِكَ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِهِ إِلَى الشِّقِّ الأَيْمَنِ "، قُلْتُ: أَفِي التَّطَوُّعِ كَانَ ذَلِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ.
ابن جریج نے کہا، مجھے عطاء نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے خبر دی، انھوں نے کہا: میں نے ایک رات اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس بسر کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نفل نماز پڑھنے کے لئے جاگے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کرمشک کی طرف گئے اور وضو فرمایا، پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھی، جب میں یہ آپ کو یہ کرتے دیکھا تو میں بھی اٹھا اور میں نے بھی مشک سے وضوکیا، (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے رہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ جاگنے کے بعد غور سے انھیں دیکھتے رہے تاکہ آپ کی اتباع کرسکیں) پھر میں آپ کے بائیں پہلو میں کھڑا ہوگیا تو آپ نے اپنی پشت کے پیچھے سے میراہاتھ پکڑا، ااسی طرح پیچھے سے مجھے دائیں جانب ٹھیک کرکے کھڑا کیا۔ (عطا ء نے کہا:) میں نے پوچھا: کیا یہ نفل نماز میں ہوا تھا؟انھوں نے کہا: ہاں۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بسر کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نفلی نماز پڑھنے کے لئے اٹھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر مشک کی طرف گئے اور وضو فرمایا، پھر اٹھ کر نماز شروع کر دی، جب میں نے آپﷺ کو یہ کرتے دیکھا تو میں بھی اٹھا اور میں نے بھی مشک سے وضو کیا، پھر میں آپﷺ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو آپﷺ نے اپنی پشت کے پیچھے سے میرا ہاتھ پکڑا، اسی طرح پیچھے سے مجھے دائیں جانب پھیر لیا۔ عطا ء نے کہتے ہیں میں نے پوچھا: کیا یہ نفل نماز میں ہوا تھا؟ انھوں نے کہا: ہاں۔
قیس بن سعد، عطاء سے حدیث بیان کرتے ہیں، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے تو وہ رات میں نے آپ کے ساتھ گزاری، آپ رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے لگےاور میں آپ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا تو آپ نے مجھے اپنی پشت کے پیچھے سے پکڑا اور اپنی دائیں جانب کرلیا (اس حدیث میں مذید یہ تفصیل سامنے آئی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ان کے والد نے بھیجاتھا) -
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ مجھے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری خالہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں تھے تو وہ رات میں نے آپﷺ کے ساتھ گزاری، آپﷺ رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے لگےاور میں آپﷺ کے بائیں کھڑا ہو گیا تو آپﷺ نے مجھے اپنی پشت کے پیچھے سے پکڑا اور اپنی دائیں جانب کر لیا۔
عبدالملک نے عطاء سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رات گزاری۔۔۔آگے ابن جریج اور قیس بن سعد کی روایت کی طرح ہے۔
مصنف نے ایک دوسرے استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کی ہے۔
ابو بکر بن ابی شیبہ ابن مثنیٰ، اور ابن بشار نے غندر، شعبہ اور ابوجمرہ کی سند سے حدیث بیان کی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کوتیرہ رکعتیں پڑھاکرتے تھے (یہی رات کی رکعتوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد ہے جس میں دو خفیف رکعتیں شامل ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول گیارہ کاتھا جس طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا۔)
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، عن مالك بن انس ، عن عبد الله بن ابي بكر ، عن ابيه ان عبد الله بن قيس بن مخرمة اخبره، عن زيد بن خالد الجهني ، انه قال: لارمقن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم الليلة، " فصلى ركعتين خفيفتين، ثم صلى ركعتين، طويلتين، طويلتين، طويلتين، ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما، ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما، ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما، ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما، ثم اوتر، فذلك ثلاث عشرة ركعة ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: لَأَرْمُقَنَّ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّيْلَةَ، " فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، طَوِيلَتَيْنِ، طَوِيلَتَيْنِ، طَوِيلَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ أَوْتَرَ، فَذَلِكَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً ".
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔کہ انھوں نے (دل میں) کہا: میں آج رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا (گہری نظر سے) مشاہدہ کروں گا، تو (میں نے دیکھا کہ) آپ نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر دو انتہائی لمبی رکعتیں بہت ہی زیادہ لمبی رکعتیں اداکیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں۔جو (ان طویل ترین) رکعتوں سے ہلکی تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو اپنے سے پہلے کی دو رکعتوں سے ہلکی تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو ا پنے سے پہلے کی دو رکعتوں سے کم تر تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو اپنے سے پہلی والی رکعتوں سے کم تھیں، پھر وتر پڑھا تو یہ تیرہ رکعتیں ہوئیں۔
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ انھوں نے (دل میں) کہا: میں آج رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا گہری نظر سے مشاہدہ کروں گا، آپﷺ نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر بہت ہی زیادہ لمبی رکعتیں ادا کیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں۔ جو ان سے پہلی دو رکعتوں سے ہلکی تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو اپنے سے پہلے کی دو رکعتوں سے ہلکی تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو ا پنے سے پہلے کی دو رکعتوں سے کم تر تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو اپنے سے پہلی والی رکعتوں سے کم تھیں، پھر وتر پڑھا تو یہ تیرہ رکعتیں ہوئیں۔
وحدثني حجاج بن الشاعر ، حدثني محمد بن جعفر المدائني ابو جعفر ، حدثنا ورقاء ، عن محمد بن المنكدر ، عن جابر بن عبد الله ، قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فانتهينا إلى مشرعة، فقال: الا تشرع يا جابر؟ قلت: بلى، قال: فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم، واشرعت، قال: ثم ذهب لحاجته، ووضعت له وضوءا، قال: " فجاء فتوضا، ثم قام فصلى في ثوب واحد خالف بين طرفيه، فقمت خلفه، فاخذ باذني فجعلني عن يمينه ".وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَدَائِنِيُّ أَبُو جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى مَشْرَعَةٍ، فَقَالَ: أَلَا تُشْرِعُ يَا جَابِرُ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَشْرَعْتُ، قَالَ: ثُمَّ ذَهَبَ لِحَاجَتِهِ، وَوَضَعْتُ لَهُ وَضُوءًا، قَالَ: " فَجَاءَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ خَالَفَ بَيْنَ طَرَفَيْهِ، فَقُمْتُ خَلْفَهُ، فَأَخَذَ بِأُذُنِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ ".
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ہم پانی کے ایک گھاٹ پر پہنچے تو آپ نے فرمایا: "جابر!کیا تم سواری کو پلانے کے لئے گھاٹ پر نہیں اتروں گے؟"میں نے کہا: کیوں نہیں!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بھی) گھاٹ پر اترے اور میں بھی اترا، پھر آپ ضرورت کے لئے تشریف لے گئے اور میں نے آپ کے لئے وضو کا پانی رکھ دیا، آپ واپس آئے اور وضو فرمایا، پھر آپ کھڑ ے ہوئے اور ایک کپڑے میں نماز پڑھی جس کے دونوں کنارے آپ نے مخالف سمتوں میں ڈال رکھے تھے (دائیں کنارے کو بائیں کندھے پر اور بائیں کنارے کو دائیں کندھے پر ڈالا) میں آپ کے پیچھے کھڑا ہوگیا تو آپ نے میرے کان سے پکڑ کر مجھے اپنی دائیں طرف کرلیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ہم ایک گھاٹ پر پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا: ”اے جابر! کیا تم پانی پلانے کے لئے گھاٹ پر نہیں اترو گے؟ ”میں نے کہا: کیوں نہیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور میں نے پانی پلانا شروع کیا، پھر آپﷺ قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے اور میں نے آپﷺ کے لئے پانی رکھا، آپﷺ واپس آئے اور وضو فرمایا، پھر اٹھ کر نماز پڑھنی شروع کر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخالف اطرف پرڈالا ہوا ٹھا یعنی دائیں کنارے کو بائیں کندھے پر اور بائیں کنارے کو دائیں کندھے پر، میں آپﷺ کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو آپﷺ نے میرے کان سے پکڑ کر مجھے اپنے دائیں کر لیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز پڑھنے کےلئے اٹھتے، اپنی نماز کا آغاز دو ہلکی رکعتوں سے فرماتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز پڑھنے کے لیے اٹھتے، اپنی نماز کا افتتاح (ابتدا) دو ہلکی رکعتوں سے فرماتے۔
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی رات کو (نماز کے لئے) اٹھے تو وہ اپنی نماز کا آغاز دو ہلکی رکعتوں سے کرے۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی رات کو (نماز کے لیے اٹھے) تو وہ ا پنی نماز کی ابتداء دو ہلکی رکعتوں سے کرے۔“
امام مالک ؒ نے ابو زہیر سے، انھوں نے طاؤس سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کی آ خری تہائی میں نماز کے لئے اٹھتے تو فرماتے: "اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لئے ہے، تو آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور تیرے ہی لئے حمد ہے تو آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے اور تیرے ہی لئے حمد ہےتو آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان میں ہے تو پالنے والا ہے۔اور توبرحق ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تیرا قول اٹل ہے اور تیرے ساتھ ملاقات قطعی ہے اور جنت حق ہے اور جہنم حق ہے اور قیامت حق ہے۔اے اللہ میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کردیا اور میں تجھ پر ایمان لایا اور میں نے تجھ پر توکل اور بھروسہ کیا اور تیری طرف رجوع کیا اور تیر ی توفیق سے (تیرے منکروں سے) جھگڑا کیا اور تیرے ہی حضور فیصلہ لایا (تجھے ہی حاکم تسلیم کیا) تو بخش دے وہ گناہ جو میں نے پہلے کیے اور جو بعد میں کئے اور جو چھپ کرکئے اور جو ظاہرا کیے تو ہی میرا معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔"
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آدھی رات کو نماز کے لئے اٹھتے تو فرماتے: ”اے اللہ! تو ہی حمد کاحقدار ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اور تو ہی شکر کا مستحق ہے تو آسمانوں اور زمین نگران ہے اور تیرے ہی لئے حمد ہے تو آسمانوں اور زمین کا (اور جو کچھ ان میں ہے) ان کا مالک ہے، اور تو برحق ہے، اور تیرا وعدہ شدنی ہے اور تیرا قول اٹل ہے اور تیری ملاقات قطعی ہے اور جنت موجود ہے اور آگ موجود ہے، اور قیامت واقع ہو کر رہے گی، اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کر دیا، اور تجھ ہی پر میں ایمان لایا، اور تجھ ہی پر میں نے اعتماد اور بھروسہ کیا، اور تیری ہی طرف رجوع کیا اور تیر ی ہی توفیق سے تیرے منکروں سے جھگڑا کیا، اور تیرے ہی حضور میں فیصلہ لایا، یعنی تجھے ہی حکم تسلیم کیا، تو میرے اگلے پچھلے، چھپے اور کھلے گناہ بخش دے تو ہی میرا الہ ہے تیرے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔“
سفیان اور ابن جریج دونوں نے سلیمان ا حول سے، انھوں نے طاؤس سے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ابن جریج اور امام مالک ؒ کی (گزشتہ) حدیث کے الفاظ ایک جیسے ہیں، دو جملوں کے سوا کوئی اختلاف نہیں، ابن جریج نے قیام کے بجائے قیم کہا (معنی ایک ہیں) اور واسررت کی جگہ وما اسررت کہا۔ (سفیان) ابن عینیہ کی حدیث میں کچھ اضافہ ہے، وہ متعدد جملوں میں امام مالکؒ اور ابن جریج سے اختلاف کرتے ہیں۔
یہی روایات امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ابن جریج اور ابن عیینہ نے بھی بیان کی ہیں، ابن جریج اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث کے الفاظ یکساں ہیں،صرف دو لفظوں میں اختلاف ہے، ابن جریج نے قَيَّامُ کی بجائے قَيِّمُ کہا اور وَاَسْرَرْتُ کی جگہ وَمَا اَسْرَرْتُ کہا۔ ابن عیينه کی روایت میں کچھ اضافہ ہے،اور بعض کلمات میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور ابن جریج کی مخالفت ہے۔