وحدثنا قتيبة بن سعيد ، عن مالك بن انس ، عن عبد الله بن ابي بكر ، عن ابيه ان عبد الله بن قيس بن مخرمة اخبره، عن زيد بن خالد الجهني ، انه قال: لارمقن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم الليلة، " فصلى ركعتين خفيفتين، ثم صلى ركعتين، طويلتين، طويلتين، طويلتين، ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما، ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما، ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما، ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما، ثم اوتر، فذلك ثلاث عشرة ركعة ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: لَأَرْمُقَنَّ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّيْلَةَ، " فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، طَوِيلَتَيْنِ، طَوِيلَتَيْنِ، طَوِيلَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ أَوْتَرَ، فَذَلِكَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً ".
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔کہ انھوں نے (دل میں) کہا: میں آج رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا (گہری نظر سے) مشاہدہ کروں گا، تو (میں نے دیکھا کہ) آپ نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر دو انتہائی لمبی رکعتیں بہت ہی زیادہ لمبی رکعتیں اداکیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں۔جو (ان طویل ترین) رکعتوں سے ہلکی تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو اپنے سے پہلے کی دو رکعتوں سے ہلکی تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو ا پنے سے پہلے کی دو رکعتوں سے کم تر تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو اپنے سے پہلی والی رکعتوں سے کم تھیں، پھر وتر پڑھا تو یہ تیرہ رکعتیں ہوئیں۔
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ انھوں نے (دل میں) کہا: میں آج رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا گہری نظر سے مشاہدہ کروں گا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر بہت ہی زیادہ لمبی رکعتیں ادا کیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں۔ جو ان سے پہلی دو رکعتوں سے ہلکی تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو اپنے سے پہلے کی دو رکعتوں سے ہلکی تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو ا پنے سے پہلے کی دو رکعتوں سے کم تر تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو اپنے سے پہلی والی رکعتوں سے کم تھیں، پھر وتر پڑھا تو یہ تیرہ رکعتیں ہوئیں۔
صلى ركعتين خفيفتين ثم صلى ركعتين طويلتين طويلتين طويلتين ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم أوتر فذلك ثلاث عشرة ركعة
صلى رسول الله ركعتين خفيفتين ثم صلى ركعتين طويلتين طويلتين طويلتين ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين دون اللتين قبلهما ثم أوتر فذلك ثلاث عشرة ركعة
صلى ركعتين خفيفتين ثم ركعتين طويلتين طويلتين طويلتين ثم ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم ركعتين ثم أوتر فتلك ثلاث عشرة ركعة
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1804
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: لَأَرْمُقَنَّ: میں گہری اور طویل نظر سے جائزہ لوں گا۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوا آ پﷺ نماز کا آغاز دو خفیف رکعتوں سے فرماتے تھے اس کے بعد دو انتہائی طویل رکعتیں پڑھتے اس کے بعد ہر بعد والا دوگانہ پہلے سے کم ہوتا جاتا اور آخر میں آپﷺ ایک وتر پڑھ لیتے اور آپﷺ جس طرح خود آغاز میں دو ہلکی رکعتیں پڑھتے دوسروں کو بھی یہی حکم دیتے تھے جیسا کہ آگے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت آ رہی ہے اگر دو ہلکی رکعات کو شمار نہ کریں تو رکعات گیارہ ہوں گی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1804
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 164
´رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں` «. . . 312- مالك عن عبد الله بن أبى بكر عن أبيه أن عبد الله بن قيس بن مخرمة أخبره عن زيد بن خالد الجهني أنه قال: لأرمقن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم الليلة. قال: فتوسدت عتبته أو فسطاطه، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين خفيفتين ثم صلى ركعتين طويلتين طويلتين طويلتين، ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما، ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما، ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما، ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما، ثم أوتر، فذلك ثلاث عشرة ركعة. . . .» ”. . . سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں آج رات ضرور دیکھوں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسی نماز پڑھتے ہیں؟ لہٰذا میں آپ کی چوکھٹ یا خیمے کے پاس لیٹ گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر دو لمبی لمبی رکعتیں پڑھیں، پھر ان کے بعد دو رکعتیں پڑھیں جو کہ پہلی دو رکعتیں سے کم تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو کہ پہلی دو رکعتوں سے کم تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں اور وہ پہلی دو رکعتوں سے کم تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو پہلی دو رکعتوں سے کم تھیں، پھر وتر پڑھا تو یہ (کل) تیرہ رکعتیں تھیں . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 164]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 765، من حديث ما لك به] تفقه: ➊ عشاء کی دوسنتوں کو ملا کر رات کی نفل نمازکل تیرہ رکعتیں ہیں جن میں سے گیارہ رکعتیں عوام میں تہجد کے نام سے مشہور ہیں۔ ہی رکعتیں رمضان میں تراویح کہلاتی ہیں۔ ➋ صحابۂ کرام دین سیکھنے کے لئے ہر وقت مستعد رہتے تھے۔ ➌ دین سیکھنے سکھانے کے لئے صحابہ کرام ہر وقت مستعد رہتے تھے۔ ➍ علم سیکھنے سکھانے کے دوران میں جو سختیاں آئیں، ان پر صبر کرنا چاہئے۔ ➎ نیز دیکھئے [الموطأ حديث: 36، 417، البخاري 2013، 1129، ومسلم 738]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 312
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1362
´تہجد میں کتنی رکعتیں پڑھے؟` زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جی میں کہا کہ میں آج رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ضرور دیکھوں گا، میں نے آپ کی چوکھٹ یا خیمہ پر ٹیک لگا لیا، آپ کھڑے ہوئے، آپ نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر اس کے بعد دو رکعتیں کافی لمبی پڑھیں، پھر دو رکعتیں پچھلی دو رکعتوں سے کچھ ہلکی پڑھیں، پھر دو رکعتیں پچھلی دو رکعتوں سے ہلکی پڑھیں، پھر دو رکعتیں پچھلی دو رکعتوں سے ہلکی پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر وتر ادا کی تو یہ سب تیرہ رکعتیں ہوئیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1362]
اردو حاشہ: فائدہ: گزشتہ روایت میں فجر کی سنتوں سمیت تیرہ رکعتیں مذکور ہیں۔ جب کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فجر کی سنتوں کے علاوہ بھی گیارہ کی بجائے تیرہ رکعتیں پڑھنا درست ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1362