صالح بن کیسان نے عروہ بن زبیر سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا، سفر اور حضر (مقیم ہونے کی حالت) میں نماز دو دور رکعت فرض کی گئی تھی، پھر سفر کی نماز (پہلی حالت پر) قائم رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کردیا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتی ہیں کہ سفر اور حضر (اقامت) میں نماز دو دو رکعت فرض کی گئی تھی، پھر سفر میں نماز پہلی حالت پر برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا۔
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، انھوں نے کہا، مجھے عروہ بن زبیر نے حدیث بیان کی، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب اللہ تعالیٰ نےنماز فرض کی تو وہ دو رکعت فرض کی، پھر حضر کی صورت میں اسے مکمل کردیا اور سفر کی نماز کو پہلے فریضے پر قائم رکھاگیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے نماز فرض کی تو اسے دو رکعت فرض قرار دیا۔ پھر حضر کی صورت میں اسے پورا کر دیا اور سفر میں نماز کو پہلی فرضیت پر قائم رکھا گیا۔
ابن عینیہ نے زہری سے انھوں نے عروہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ ابتدا میں نماز دو رکعت فرض کی گئی، پھر سفر کی نماز، (اسی حالت میں) برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز مکمل کردی گئی۔ امام زہری نے کہا: میں نے عروہ سے پوچھا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقف کیا ہے۔وہ سفر میں پوری نماز (کیوں) پڑھتی تھیں؟انھوں نے کہا: انھوں نے اس کا ایک مفہوم لے لیا ہے جس طرح عثمان رضی اللہ عنہ نے لیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آغاز میں نماز دو رکعت فرض کی گئی۔ پھر سفر کی نماز برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز پوری کر دی گئی۔ امام زہری کہتے ہیں میں نے عروہ سے پوچھا۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سفر میں نماز پوری کیوں پڑھتی ہیں؟ اس نے کہا: عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح وہ بھی تأویل کرتی ہیں۔
عبداللہ بن ادریس نے ابن جریج سے، انھوں نے ابن ابی عمار سے، انھوں نے عبداللہ بن بابیہ سے اور انھوں نے یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی: کہا: میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے عرض کی (کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے) "اگر تمھیں خوف ہو کہ کافر تمھیں فتنے میں ڈال دیں گے تو تم پر کوئی حرج نہیں ہے کہ تم نماز قصر کرلو"اب تو لوگ امن میں ہیں (پھر قصر کیوں کرتے ہیں؟تو انھوں نے جواب دیا مجھے بھی اس بات پر تعجب ہو ا تھا جس پر تمھیں تعجب ہوا ہے۔تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوا ل کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " (یہ) صدقہ (رعایت) ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے اس لئے تم اس کا صدقہ قبول کرو۔"
حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”اگر تمہیں کافروں کی طرف سے فتنہ کا اندیشہ ہو تو تم پر کوئی حرج نہیں ہے کہ نماز میں قصر کرلو“(النساء: ۱۰۱)- اب لوگ تو بے خوف ہو گئے ہیں (پھر قصر کیوں کرتے ہیں) تو انہوں نے جواب دیا مجھے بھی اس بات پر تعجب ہوا تھا، جس پر تم تعجب کر رہے ہو تو میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اللہ تعالیٰ کا صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے تو اس کے صدقہ کو قبول کرو۔“
یحییٰ نے ابن جریج سے سابقہ سند کے ساتھ حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا! میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے عرض کی۔۔۔ (بقیہ روایت) ابن ادریس کی حدیث کی طرح ہے۔
حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا تو انہوں نے مذکورہ بالا جواب دیا۔
ابو عوانہ نے بکیر بن اخنس سے، انھوں نے مجاہد سے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: اللہ تعالیٰ نے تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نماز فرض کی، حضر (جب مقیم ہوں) میں چار رکعتیں، سفر میں دو رکعتیں اور خوف (جنگ) میں (امام کے ساتھ) ایک رکعت (پھر اس کی امامت کے بغیر ایک رکعت)۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے اس کی زبان سے حضر میں چار، سفر میں دو اور خوف (جنگ) میں ایک رکعت نماز فرض کی ہے۔
ایوب بن عائد طائی نے بکیر بن اخنس سے، انھوں نے م مجاہد سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، کہا!بے شک اللہ تعالیٰ نے تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نماز فرض کی، مسافر پردو رکعتیں، مقیم پر چار اور (جنگ کے) خوف کے عالم میں (امام کی اقتداء میں) ایک رکعت (اور اقتدا کے بغیر ایک رکعت)۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر مسافر پر دو رکعتیں، مقیم پر چار اور جنگ میں ایک رکعت فرص کی ہے۔
شعبہ نے کہا: میں نے قتادہ سے سنا، وہ موسیٰ بن سلمہ ہذلی (بصری) سے حدیث بیان کررہے تھے۔کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: جب میں مکہ میں ہوں اور امام کے ساتھ نماز نہ پڑھوں تو پھر کیسے نماز پڑھوں؟تو انھوں نے جواب دیا: دو رکعتیں، (یہی) ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
موسیٰ بن سلمہ ہذلی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا جب میں مکہ میں ہوں اور امام کے ساتھ نماز نہ پڑھوں تو پھر کیسے نماز پڑھوں؟ تو انہوں نے جواب دیا۔ ابوالقاسمصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دو رکعت ہے۔
وحدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا عيسى بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب ، عن ابيه ، قال: صحبت ابن عمر في طريق مكة، قال: فصلى لنا الظهر ركعتين، ثم اقبل، واقبلنا معه حتى جاء رحله وجلس، وجلسنا معه، فحانت منه التفاتة نحو حيث صلى، فراى ناسا قياما، فقال: ما يصنع هؤلاء؟ قلت: يسبحون، قال: لو كنت مسبحا لاتممت صلاتي يا ابن اخي، " إني صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم في السفر، فلم يزد على ركعتين، حتى قبضه الله "، وصحبت ابا بكر فلم يزد على ركعتين، حتى قبضه الله، وصحبت عمر فلم يزد على ركعتين، حتى قبضه الله، ثم صحبت عثمان فلم يزد على ركعتين، حتى قبضه الله، وقد قال الله: لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21.وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ، قَالَ: فَصَلَّى لَنَا الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَقْبَلَ، وَأَقْبَلْنَا مَعَهُ حَتَّى جَاءَ رَحْلَهُ وَجَلَسَ، وَجَلَسْنَا مَعَهُ، فَحَانَتْ مِنْهُ الْتِفَاتَةٌ نَحْوَ حَيْثُ صَلَّى، فَرَأَى نَاسًا قِيَامًا، فَقَالَ: مَا يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ؟ قُلْتُ: يُسَبِّحُونَ، قَالَ: لَوْ كُنْتُ مُسَبِّحًا لَأَتْمَمْتُ صَلَاتِي يَا ابْنَ أَخِي، " إِنِّي صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ، فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ "، وَصَحِبْتُ أَبَا بَكْرٍ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ، وَصَحِبْتُ عُمَرَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ، ثُمَّ صَحِبْتُ عُثْمَانَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ، وَقَدْ قَالَ اللَّهُ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21.
عیسیٰ بن حضص بن عاصم بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے والد (حفص) سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے مکہ کے راستے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفر کیا، انھوں نے ہمیں ظہر کی نماز دو رکعتیں پڑھائی، پھر وہ اور ہم آگے بڑھے اور اپنی قیام گاہ پر آئے اور بیٹھ گئے، ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔پھر اچانک ان کی توجہ اس طرف ہوئی جہاں انھوں نے نماز پڑھی تھی، انھوں نے (وہاں) لوگوں کو قیام کی حالت میں دیکھاانھوں نےپوچھا، یہ لوگ کیا کررہے ہیں؟میں نے کہا: سنتیں پڑھ رہے ہیں۔انھوں نے کہا: اگر مجھے سنتیں پڑھنی ہوتیں تو میں نماز (بھی) پوری کرتا (قصر نہ کرتا) بھتیجے!میں سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا آپ نے دو رکعت سے زائد نماز نہ پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا اور میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہمرا ہ رہا انھوں نے بھی دو رکعت سے زائد نماز نہ پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی بلا لیا، اور میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ رہا، انھوں نے بھی دورکعت نما ز سے زائد نہ پڑھی۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی بلا لیا۔پھر میں عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دو سے زائد رکعتیں نہیں پڑھیں، یہا ں تک کہ اللہ نے انھیں بلا لیا اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "بے شک تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے عمل) میں بہترین نمونہ ہے۔"
حفص بن عاصم بیان کرتے ہیں کہ میں نے مکہ کے راستہ میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ سفر کیا۔ انہوں نے ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی، پھر وہ اور ہم اپنی قیام گاہ کی طرف بڑھے اور ہم ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اچانک انہوں نے اس جگہ کی طرف نظر دوڑائی جہاں انہوں نے نماز پڑھائی تھی تو لوگوں کو دیکھا کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے پوچھا: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا سنتیں پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: اگر مجھے سنتیں پڑھنی ہوتیں تو میں نماز پوری پڑھتا (قصر نہ کرتا) اے میرے بھتیجے! میں سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کر لی اور میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ رہا تو انہوں نے بھی دو رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قبضہ میں لے لیا اور میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ رہا تو تو انہوں نے دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دی اور میں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہ پڑھیں یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وفات پا گئے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ ہیں“