صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
1. باب صَلاَةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا:
باب: مسافر کی نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 1572
وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، " أَنَّ الصَّلَاةَ أَوَّلَ مَا فُرِضَتْ رَكْعَتَيْنِ، فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ، وَأُتِمَّتْ صَلَاةُ الْحَضَرِ "، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَقُلْتُ لِعُرْوَةَ: مَا بَالُ عَائِشَةَ، تُتِمُّ فِي السَّفَرِ، قَالَ: إِنَّهَا تَأَوَّلَتْ كَمَا تَأَوَّلَ عُثْمَانُ.
ابن عینیہ نے زہری سے انھوں نے عروہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ ابتدا میں نماز دو رکعت فرض کی گئی، پھر سفر کی نماز، (اسی حالت میں) برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز مکمل کردی گئی۔ امام زہری نے کہا: میں نے عروہ سے پوچھا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقف کیا ہے۔وہ سفر میں پوری نماز (کیوں) پڑھتی تھیں؟انھوں نے کہا: انھوں نے اس کا ایک مفہوم لے لیا ہے جس طرح عثمان رضی اللہ عنہ نے لیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آغاز میں نماز دو رکعت فرض کی گئی۔ پھر سفر کی نماز برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز پوری کر دی گئی۔ امام زہری کہتے ہیں میں نے عروہ سے پوچھا۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سفر میں نماز پوری کیوں پڑھتی ہیں؟ اس نے کہا: عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح وہ بھی تأویل کرتی ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1572 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1572
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
نماز ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں فرض ہوئی ہے،
مغرب کی نماز کے سوا باقی چاروں نمازیں دو دو رکعت تھیں۔
مدینہ منورہ کی ہجرت کے بعد مغرب اور فجر کے سوا نمازوں میں دو دو رکعت کا اضافہ کر دیا گیا۔
فجر میں قرأت طویل ہوتی ہے اس لیے اس میں اضافہ نہیں کیا گیا اور مغرب کا انداز پہلے ہی جدا گانہ تھا۔
2۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نماز پوری کیوں پڑھتے تھے؟ اس کے سبب اور وجہ یا تأویل میں اختلاف ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا خیال ہے دوران سفر نماز میں قصر کرتے تھے اور جب کہیں پڑاؤ کر لیتے تو نماز پوری پڑھتے تھے۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں اسلام دور تک پھیل گیا اور بعض ایسے لوگ بھی حج کرنے کے لیے آتے تھے جو دینی مسائل پوری طرح نہیں سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے اپنی خلافت کا آدھا دور گزرنے کے بعد منیٰ میں نماز پوری پڑھنی شروع کر دی تھی تاکہ لوگ کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جب منیٰ میں لوگوں نے رہائش کے لیے مکانات بنا لیے اور اس نے ایک بستی کی شکل اختیار کر لی تو انہوں نے نماز پوری پڑھنی شروع کر دی۔
بعض حضرات کا خیال ہے انہوں نے منیٰ میں شادی کر لی تھی اور انسان جہاں شادی کر لے وہاں نماز پوری پڑھے گا۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ بھی یہی ہے۔
اس لیے بقول امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ یہی جواب بہتر ہے اگرچہ اور بھی اسباب بیان کیے گئے ہیں۔
3۔
سفر میں نماز کے قصر اور روزہ کے افطار کرنے کی رخصت ہے اس لیے صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قصر کو فرض نہیں سمجھتے تھے جس طرح کہ سنن دارقطنی میں روایت ہے جس کو انہوں نے صحیح قرار دیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپﷺ نے نماز قصر پڑھی ہے اور میں نے نماز پوری پڑھی ہے۔
آپﷺ نے روزہ رکھا ہے اور میں نے افطار کیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أَحْسَنْتِ يَا عَائِشَةُ)
”اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تو نے اچھا کیا ہے۔
“4۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز میں قصر کرنا افضل اور پورا پڑھنا جائز ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قصر فرض ہے اکیلے کے لیے پوری نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔
ہاں امام کی اقتدا میں جائز ہے۔
حالانکہ احناف کا اصول ہے کہ راوی کے فہم کو روایت پر ترجیح ہو گی اور یہاں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا عمل یہی ہے کہ وہ نماز پوری پڑھتی تھیں۔
اسی لیے احناف کو نماز پوری پڑھنی چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1572