حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا عبد الاعلى ، عن داود ، عن عامر ، قال: " سالت علقمة، هل كان ابن مسعود، شهد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة الجن؟ قال: فقال علقمة : انا سالت ابن مسعود ، فقلت: هل شهد احد منكم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة الجن؟ قال: لا، ولكنا كنا مع رسول الله ذات ليلة، ففقدناه، فالتمسناه في الاودية والشعاب، فقلنا استطير او اغتيل، قال: فبتنا بشر ليلة، بات بها قوم، فلما اصبحنا إذا هو، جاء من قبل حراء، قال: فقلنا: يا رسول الله، فقدناك، فطلبناك فلم نجدك، فبتنا بشر ليلة، بات بها قوم، فقال: اتاني، داعي الجن، فذهبت معه فقرات عليهم القرآن، قال: فانطلق بنا، فارانا آثارهم، وآثار نيرانهم، وسالوه الزاد، فقال: لكم كل عظم، ذكر اسم الله عليه، يقع في ايديكم اوفر ما يكون لحما، وكل بعرة علف لدوابكم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فلا تستنجوا بهما، فإنهما طعام إخوانكم "،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ: " سَأَلْتُ عَلْقَمَةَ، هَلْ كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ، شَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ؟ قَالَ: فَقَالَ عَلْقَمَةُ : أَنَا سَأَلْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ ، فَقُلْتُ: هَلْ شَهِدَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَفَقَدْنَاهُ، فَالْتَمَسْنَاهُ فِي الأَوْدِيَةِ وَالشِّعَابِ، فَقُلْنَا اسْتُطِيرَ أَوِ اغْتِيلَ، قَالَ: فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ، بَاتَ بِهَا قَوْمٌ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا هُوَ، جَاءٍ مِنْ قِبَلِ حِرَاءٍ، قَالَ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَدْنَاكَ، فَطَلَبْنَاكَ فَلَمْ نَجِدْكَ، فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ، بَاتَ بِهَا قَوْمٌ، فَقَالَ: أَتَانِي، دَاعِي الْجِنِّ، فَذَهَبْتُ مَعَهُ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ بِنَا، فَأَرَانَا آثَارَهُمْ، وَآثَارَ نِيرَانِهِمْ، وَسَأَلُوهُ الزَّادَ، فَقَالَ: لَكُمْ كُلُّ عَظْمٍ، ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ، يَقَعُ فِي أَيْدِيكُمْ أَوْفَرَ مَا يَكُونُ لَحْمًا، وَكُلُّ بَعْرَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَلَا تَسْتَنْجُوا بِهِمَا، فَإِنَّهُمَا طَعَامُ إِخْوَانِكُمْ "،
عبد الاعلیٰ نے داؤد سے اور انہوں نے عامر (بن شراحیل) سے روایت کی، کہا: میں نے علقمہ سے پوچھا: کیا جنوں (سے ملاقات) کی رات عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے ساتھ تھے؟ کہا: علقمہ نے جواب دیا: میں نے خود ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ لوگوں میں سے کوئی لیلۃ الجن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں، لیکن ایک رات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو ہم نے آپ کو گم پایا، ہم نے آپ کو وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا، (آپ نہ ملے) تو ہم نے کہا کہ آپ کو اڑا لیا گیا ہے یا آپ کو بے خبری میں قتل کر دیا گیا ہے، کہا: ہم نے بدترین رات گزاری جو کسی قوم نے (کبھی) گزاری ہو گی۔ جب ہم نے صبح کی تو اچانک دیکھا کہ آپ حراء کی طرف سے تشریف لا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ کوگم پایا تو آپ کی تلاش شروع کر دی لیکن آپ نہ ملے، اس لیے ہم نے وہ بدترین رات گزاری جو کوئی قوم (کبھی) گزار سکتی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا: ” میرے پاس جنوں کی طرف سے دعوت دینے والا آیا تو میں اس کے ساتھ گیا اور میں نے ان کے سامنے قرآن کی قراءت کی۔“ انہوں نے کہا: پھر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمیں لے کر گئے اور ہمیں ان کے نقوش قدم اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے۔ جنوں نے آپ سے زاد (خوراک) کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”تمہارے لیے ہر وہ ہڈی ہے جس (کے جانور) پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور تمہارے ہاتھ لگ جائے، (اس پر لگا ہوا) گوشت جتنا زیادہ سے زیادہ ہو اور (ہر نرم قدموں والے اونٹ اور کٹے سموں والے) جانور کی لید تمہارے جانوروں کا چارہ ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (انسانوں سے) فرمایا: ” تم ان دونوں چیزوں سے استنجا نہ کیا کرو کیونکہ یہ دونوں (دین میں) تمہارے بھائیوں (جنوں اور ان کے جانوروں) کا کھانا ہیں۔“
حضرت عامر رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے علقمہ سے پوچھا، کیا لیلتہ الجن (جنوں سے ملاقات کی رات) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے؟ تو علقمہ نے جواب دیا، میں نے خود ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا، کہ کیا تم میں سے کوئی ایک لیلتہ الجن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھا؟ انہوں نے کہا، نہیں۔ لیکن ایک رات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم ہم سے گم ہوگئے تو ہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو پہاڑی وادیوں اور دروں (گھاٹیوں) میں تلاش کیا، (آپصلی اللہ علیہ وسلم نہ ملے) تو ہم نے سمجھا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کو جن اڑا لے گئے ہیں یا آپصلی اللہ علیہ وسلم کو چپکے سے پوشیدہ طور پر قتل کردیا گیا ہے تو ہم نے انتہائی پریشانی کے ساتھ بدترین رات گزاری، جو کوئی قوم بے چینی کے ساتھ گزارتی ہے، جب صبح ہوئی تو ہم نے اچانک دیکھا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم غار حرا کی طرف سے تشریف لا رہے ہیں تو ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو گم پایا تو تلاش شروع کر دی، لیکن آپصلی اللہ علیہ وسلم نہ ملے تو ہم نے رات انتہائی بے چینی اور پریشانی کے ساتھ گزاری ہے، جو کوئی قوم سخت کرب کے ساتھ گزارتی ہے، اس پر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جنوں کی طرف سے دعوت دینے والا آیا تو میں اس کے ساتھ چلا گیا اور میں نے ان کو قرآن سنایا۔ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لے کر گئے اور ہمیں ان کے نقوش قدم اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے، جنوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے زاد (خوراک) کی درخواست کی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر وہ جانور جس کو اللہ کے نام سے ذبح کیا گیا ہو گا اس کی جو ہڈی تمہیں ملے گی، اس پر وافر گوشت ہو گا، اور اونٹ کی ہر مینگنی تمہارے جانوروں کا چارہ یعنی خوراک ہو گی۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں چیزوں سے استنجا نہ کرنا کیونکہ یہ دونوں تمہارے بھائیوں کا کھانا ہیں۔
وحدثنيه علي بن حجر السعدي ، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن داود ، بهذا الإسناد إلى قوله: وآثار نيرانهم، قال الشعبي وسالوه الزاد، وكانوا من جن الجزيرة، إلى آخر الحديث، من قول الشعبي، مفصلا من حديث عبد الله،وحَدَّثَنِيهِ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ دَاوُدَ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ إِلَى قَوْلِهِ: وَآثَارَ نِيرَانِهِمْ، قَالَ الشَّعْبِيُّ وَسَأَلُوهُ الزَّادَ، وكانوا من جن الجزيرة، إلى آخر الحديث، من قول الشعبي، مفصلا من حديث عبد الله،
۔ اسماعیل بن ابراہیم نے داؤد سے اسی سند کے ساتھ وآثار نیرانہم (ان کی آگ کے نشانات) تک بیان کیا۔ شعبی نے کہا: جنوں نے آپ سے خوراک کا سوار کیا اور وہ جزیرہ کے جنوں میں سے تھے ... حدیث کے آخری حصے تک جو شعبی کا قول ہے، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے الگ ہے۔
امام صاحب نے مذکورہ بالا روایت ایک اور سند سے بیان کی اور کہا شعبی نے بتایا، جنوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے خوراک کا سوال کیا، اور وہ جزیرہ کے علاقہ کے تھے، آگے حدیث کے آخر تک شعبی کا قول ہے، جو عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث سے الگ ہے۔
عبد اللہ بن ادریس نے داؤد سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وآثار نیرانہم تک روایت کیا اور بعد والا حصہ بیان نہیں کیا۔
امام صاحب نے مذکورہ بالا روایت ایک اور سند سے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعاً (وَآثَارَ نِيرَانِهِمْ) تک نقل کی اور بعد والا حصہ بیان نہیں کیا۔
شعبی کے بجائے) ابراہیم (نخعی) نے علقمہ سے اور انہوں نے عبد اللہ سے روایت کی، کہا: میں لیلۃ الجن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ تھا اور میری خواہش تھی کہ میں آپ کے ساتھ ہوتا
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں لیلتہ الجن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ تھا، اور میری خواہش ہے، اے کاش میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتا۔
معن (بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن مسعود ہذلی) سے روایت ہے، کہا: میں نے اپنے والد سے سنا، کہا: میں نے مسروق سے پوچھا: جس رات جنوں نے کان لگا کر (قرآن) سنا، اس کی اطلاع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے دی؟ انہوں نے کہا: مجھے تمہارے والد (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) نے بتایا کہ آپ کو ان جنوں کی اطلاع ایک درخت نے دی تھی۔ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔)
معن سے روایت ہے کہ میں نے اپنے باپ سے سنا کہ میں نے مسروق سے پوچھا، جس رات جنوں نے کان لگا کر قرآن سنا، اس کی اطلاع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے دی؟ اس نے بتایا کہ مجھے تمہارے باپ (ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ) نے بتایا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کو جنوں (کے سننے) کی اطلاع درخت نے دی تھی۔
حجاج صواف نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی قتادہ اور ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تو ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں (ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد ایک سورت) پڑھتے اور کبھی کبھار ہمیں کوئی آیت سنا دیتے۔ ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے اور دوسری رکعت مختصر کرتے اور صبح کی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے۔
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تو ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ اور ہر رکعت میں کوئی ایک سورت پڑھتے اور کبھی کبھی ہمیں بھی کوئی ایک آیت سنادیتے اور ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے اور دوسری رکعت چھوٹی کرتے اور صبح کی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے۔ حدیث حاشیہ: Abu Qatadah (RA) reported: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم ) led us in prayer and recited in the first two rak'ahs of the noon and afternoon prayers Surat al-Fatiha and two (other) surahs. And he would sometimes recite loud enough for us to hear the verses. He would prolong the first rak'ah more than the second. And he acted similarly in the morning prayer.حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حجاج کے بجائے) ہمام اور ابان بن یزید نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی قتادہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں(سے ہر رکعت میں) سورۃ فاتحہ اور ایک سورت پڑھتے اور کبھی کبھار ہمیں بھی کوئی آیت سنا دیتے اور آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔حدیث حاشیہ: حجاج کے بجائے) ہمام اور ابان بن یزید نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی قتادہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں(سے ہر رکعت میں) سورۃ فاتحہ اور ایک سورت پڑھتے اور کبھی کبھار ہمیں بھی کوئی آیت سنا دیتے اور آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حجاج کے بجائے) ہمام اور ابان بن یزید نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی قتادہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں(سے ہر رکعت میں) سورۃ فاتحہ اور ایک سورت پڑھتے اور کبھی کبھار ہمیں بھی کوئی آیت سنا دیتے اور آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔ حدیث حاشیہ: حجاج صواف نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی قتادہ اور ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابو قتادہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تو ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں (ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد ایک سورت) پڑھتے اور کبھی کبھار ہمیں کوئی آیت سنا دیتے۔ ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے اور دوسری رکعت مختصر کرتے اور صبح کی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے۔حدیث حاشیہ: رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر) ١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم1034٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)451٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)685٤. ترقيم فؤاد عبد الباقي (برنامج الكتب التسعة)ترقیم فواد عبد الباقی (کتب تسعہ پروگرام)451٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)984٧. ترقيم دار إحیاء الکتب العربیة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم دار احیاء الکتب العربیہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)451٨. ترقيم دار السلامترقیم دار السلام1012 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × انسان اشرف المخلوقات ہے، اگر اب تک میسر سائنسی معلومات کو بنیاد بنایا جائے تو انسان ہی سب سے عقلمند مخلوق ہے جس نے عناصر قدرت سے کام لے کر اپنے لیے قوت و طاقت کے بہت سے انتظامات کر لیے ہیں۔ اس کے باوجود یہ بہت ہی کمزور، بار بار مشکلات میں گھر کر بے بس ہو جانے والی مخلوق ہے جو اپنی زندگی کے اکثر معاملات میں دوسروں کی مدد کی محتاج ہے، دوسروں پر انحصار کرتی ہے، اپنے مستقبل کے حوالے سے ہر وقت خدشات کا شکار اور خوفزدہ رہتی ہے۔ ان میں سے جو انسان ایک قادر مطلق پر ایمان سے محروم ہیں، ان میں سے اکثر دوسری ایسی مخلوقات کا سہارا لیتے اور ان کو اپنا محافظ، اپنا رازق اور خالق سمجھتے اور ان سے مدد کی درخواست کرتے ہیں جو ان کی پہنچ سے دور ہوں یا جن کی اپنی کمزوریوں سے انسان بے خبر ہوں۔ مظاہر فطرت کی پوجا، بتوں کی پوجا، دیوتاؤں اور دیویوں کی پرستش حتی کہ ہاتھیوں، بندروں اور سانپوں کی عبادت کمزور انسان کی خوفزدگی اور اس کی احتیاج کی دلیل ہے۔ اللہ کے بھیجے ہوئے دین نے انسان کو یہ سکھایا کہ جنہیں تم پوجتے ہو وہ بھی تمھاری طرح بلکہ تم سے بڑھ کر کمزور اورمحتاج ہیں۔ وہ محض ایک ہی ذات ہے جس کے ساتھ کسی کی کوئی شراکت داری نہیں اور وہی ہر شے پر قادر ہے۔ ہر قوت اس کے پاس ہے۔ ہر نعمت کے خزانوں کا مالک وہی ہے۔ اس نے سبھی کو پیدا کیا۔ وہ بھی پیدا ہونے کا یا کسی بھی اور چیز کا محتاج تھانہ آیندہ بھی ہوگا۔ وہ ہماری عبادت کا بھی محتاج نہیں بلکہ ہم ہی اس کے قرب، اس کی رحمت، اس کی مہربانی اور اس کی سخاوت کے محتاج ہیں۔ اس کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجانے سے ہماری کمزوری طاقت میں، ہماری احتیاج فراوانی میں بدل سکتی ہے اور ہمارا خوف عمل سلاتی کے احساس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ تمام انبیاء کا مشن یہی تھا کہ انسان اس ابدی حقیقت کو سمجھ لے اور اس قادر مطلق کا قرب حاصل کرنے کے لیے عبادت کاصحیح طریقہ اپنا لے۔ اس وقت جتنے آسمانی دین موجود ہیں ان میں سب سے مکمل، سب سے خوبصورت اور سب سے آسان طریقہ عبادت وہ ہے جو اسلام نے سکھایا ہے۔ ان اسلامی عبادات میں سے اہم ترین عبادت نماز ہے۔ نماز کا ارادہ کرتے ہی خیر، برکت اور کسب اعمال صالحہ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ طہارت اور وضو سے انسان ظاہری اور باطنی کثافت اور میل کچیل سے صاف ہو جاتا ہے اور نماز میں داخل ہونے کے ساتھ ہی وہ اللہ کے حضور بازیاب ہو جا تا ہے۔اس عبادت میں بندہ گا ہے اپنے جیسے بہت سے عبادت گزاروں کے ساتھ مل کر جذب و سرمستی میں اللہ کو پکارتا، اس سے حال دل کہتا اور اس کے سامنے زاری کرتا ہے اور گاہے تنہائی کے عالم میں اپنے رب کے سامنے ہوتا ہے اور اس کے ساتھ سرگوشی اور مناجات کرتاہے(1)صحيح مسلم،المساجد،باب النهى عن البصاق فى المسجد،حديث:1230(551) عبادت کایہ مکمل اورسب سےخوبصورت طریقہ خود الله تبارک و تعالی نے کائنات کے افضل ترین عبادت گزار (عبد) محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا اور انھوں نے انسانیت کو اس کی تعلیم دی۔آپ کی نمازکی کیفیتیں کیاتھیں؟ان کی تفصیل صحیح مسلم کی كتاب الصلاة،كتاب المساجد،كتاب صلاة المسافرين اورمابعدکےابواب میں بالتفصیل مذکور ہے۔ جن خوش نصیب لوگوں نےاس عبادت کاطریقہ براہ راست رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سےسیکھا،وہ اس کی لذتوں سےصحیح طورپرآشناتھے،مثلاحضرت انس انہیں یادکرکےبےاختیارکہتےتھے:ماصليت ورآءإمام قط أخف صلاة ولاأتم صلاة من رسولصلی اللہ علیہ وسلم ”میں کبھی کسی امام کےپیچھےنمازنہیں پڑھی جس کی نمازرسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی نمازسےزیادہ ہلکی اورمکمل ترین ہو۔ “(2)صحيح مسلم،الصلاة،باب أمرالأئمة بتخفيف الصلاةفى تمام، حديث:1054(469)یہ نمازباجماعت کی کیفیت تھی۔ رات کی تنہائیوں میں آپ کی نمازکیسی تھی، حضرت عائشہؓ بتانابھی چاہتی ہیں اوراس سےزیادہ کہہ بھی نہیں سکتیں:يٌصلى أربعافلاتسأل عن حسنهن وطولهن،ثم يصلى أربعافلاتسال عن حسنهن وطولهن ”آپ چاررکعتیں پڑھتےاورمت پوچھوکہ ان کی خوبصورتی کیاتھی اورطوالت کتنی تھی،پھرآپ چاررکعتیں ادافرماتے،نہ پوچھوکہ ان کاجمال کیساتھا،کتنی لمبی ہوتی تھیں۔“(3) صحيح مسلم،صلاة المسافرين وقصرها، باب الصلاة الليل،حديث:1723(738)یہ لذتیں محسوس کی جاسکتی تھیں لیکن زبان ان کےبیان سےقاصرتھی۔ قرآن مجیدنےاس عبادت کاتذکرہ اس طرح کیاکہ اس مشاہدہ کرنےوالےاس کی طرف کھچےچلےآتےتھےاوراس میں مستغرق ہوجاتےہیں: ﴿وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّـهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا﴾ ”اورجب اللہ کابندہ اس کوپکارنےکھڑاہوا،تووہ اس پرگروہ درگروہ اکٹھےہونےلگے۔ “الجن19:72)محدثین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے حوالے سے وہ ساری تفصیلات انتہائی جانفشانی سے جمع کر کے یکجا کر دیں جو صحابہ کرام نے بیان کی تھیں۔ آج اگر ذوق وشوق کی کیفیتوں میں ڈوب کر ان کا مطالعہ کیا جائے تو پورا منظر سامنے آ جاتا ہے، جو حسن و جمال کا بے مثال مرقع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد فتنوں کا دور آیا۔ بے شمار انسانوں کے عقائد اور اعمال اس کی زد میں آئے منع زکاة، ارتد او،خوارج وغیرہ کے باطل عقائد اسی فتنے کی تباہ کاریوں کے چند پہلو ہیں۔ اس دور کا مطالعہ کیا جائے تو عبادات اور اعمال میں سہل انگاری، غفلت اور لاپروائی حتی کہ جہالت کی ایسی کیفیتیں سامنے آتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ بنو امیہ کے دور میں نماز جیسے اسلام کے بنیادی رکن کی کیفیت ایسی ہوگئی تھی کہ حضرت انس بنانے اس کے سبب سے باقاعدہ گریہ میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ لوگوں اور ان کے حکمرانوں نے اس دور میں اوقات نماز تک ضائع کر دیے تھے۔ امام زہری کہتے ہیں: میں دمشق میں حضرت انس نے کے ہاں حاضر ہوا تو آپ رورہے تھے۔ میں نے پوچھا: کیا بات ہے جو آپ کو رلا رہی ہے؟ فرمایا: میں نے عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جو کچھ دیکھا تھا اس میں نماز ہی رہ گئی تھی، اب یہ بھی نماز بھی ضائع کردی گئی ہے۔ (4) صحيح البخارى،مواقيت الصلاة،باب فى تضييع الصلاة عن وقتها، حديث:530)آپ سےنمازکےبارےمیں یہ الفاظ بھی منقول ہیں،رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کےعہدمیں جوکچھ ہوتاتھاان میں سےکوئی چیزنہیں جومیں پہچان سکوں(سب کچھ بدل گیاہے۔)کہاگیا:نماز(توہے!)فرمایاکیااس میں بھی تم نےوہ سب کچھ نہیں کردیاجوکردیاہے۔(1) صحيح البخارى،مواقيت الصلاة،باب فى تضييع الصلاة عن وقتها، حديث:529) جامع ترمذی کی روایت کےالفاظ ہیں تم نےاپنی نمازوں میں وہ سب کچھ نہیں کرڈالاجس کاتمھی کوپتہ ہے۔ (2)جامع الترمذى،صفة القيامة،باب حديث إضاعة الناس الصلاة،حديث2447)ایک اور روایت میں ہے، ثابت بنانی کہتے ہیں: ہم حضرت انس بن مالک کے ساتھ تھے کہ حجاج نے نماز میں تاخیر کر دی،حضرت انس کھڑے ہوئے، وہ اس سے بات کرنا چاہتے تھے، ان کے ساتھیوں نے حجاج سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے انھیں روک دیا تو آپ وہاں سے نکلے، سواری پر بیٹھے اور راستے میں کہا: رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کی کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے لا الہ الا اللہ کی شہادت کے۔ ایک آدمی نے کہا: ابوحمزه! نماز؟ تو فرمایا تم نے ظہر کی نماز مغرب میں پہنچا دی! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یہ تھی۔ (3)فتح البارى،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة عن وقتها،حديث:529)حکمرانوں کی جہالت کی وجہ سے خرابی کا یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور سوائے چند اہل علم کے باقی لوگ اسی ناقص اور بگاڑی ہوئی نماز کےعادی ہو گئے۔ حافظ ابن حجر نے امام عبدالرزاق کے حوالے سے مشہور تابعی عطاء کا واقعہ نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ولید بن عبد الملک نے جمعے میں تاخیر کی حتی کہ شام ہوگئی، میں آیا اور بیٹھنے سے پہلے ظہر ادا کر لی، پھر اس کے خطبے کے دوران میں بیٹھے ہوئے اشارے سے عصر پڑھی۔ اشارے سے اس لیے کہ عطاء کو خوف تھا کہ اگر انھوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی تو انھیں قتل کردیا جائے گا۔(4) فتح البارى،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة عن وقتها،حديث:529)اکثر لوگ حکمرانوں کے اس عمل ہی کو اسلام سمجھتے تھے، ان کو اس بات کا احساس تک نہ تھا کہ یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے۔ عام لوگوں کی تو بات ہی کیا ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے عالم کو بھی مدینہ کا گورنر مقرر ہونے تک اصل اوقات نماز کا علم نہ تھا۔ وہ مدینہ کے گورز ہو کر آئے تو ایک دن انھوں نے عصر کی نماز میں تاخیر کر دی۔ عروہ بن زبیر ان کے پاس آئے اور انھیں بتایا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے، جب وہ عراق میں گورنر تھے، ایک دن نماز میں تاخیر کر دی تو حضرت ابو مسعود انصاری (بدری) آپ کے پاس آئے اور فرمایا: مغیرہ یہ کیا ہے؟ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ جبریل نے نازل ہوکر نماز پڑھائی .... .(پانچویں نماز یں، ایک دن ہر نماز کا وقت شروع ہونے پر اور دوسرے دن ہر نماز کے وقت آخر میں پڑھائیں۔) اس پر عمر بن عبدالعزیز نے عروہ سے کہا: دیکھ لو کیا کہہ رہے ہو؟ کیا واقعی جبریل نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز کے وقت کی نشاندہی کی؟ عروہ نے جواب دیا: بشیر بن ابی مسعود اپنے والد (بدری صحابی ابومسعود انصاری) سے اس طرح بیان کرتے تھے۔(5) فتح البارى،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة وفضلها،حديث:521)نماز کے طریقے میں بھی اسی طرح کی تبدیلیاں پیدا ہوگئیں۔ صحابہ کرام اور ان کے شاگردوں نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے جہاد شروع کیا، پھر محدثین نے، جو علم حدیث میں ان ہی کے جانشیں تھے، اس جہاد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی تمام تفصیلات پوری تحقیق اور جستجو کے بعد امت کے سامنے پیش کر دیں اور امت کو رسول اللهصلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک پر کماحقہ عمل کا موقع فراہم کیا کہ «صلوا كما رأيتموني أصلي» تم اسی طرح نماز ادا کرو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔“(1)صحيح البخارى،الأذان،باب الأذان للمسافرين،حديث:631)یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان جس صورت میں جس عمل کا عادی ہوتا ہے ہمیشہ اسی کو درست سمجھتا ہے اور ہر صورت میں اس کے دفاع کی کوشش کرتا ہے۔ محدثین کے سامنے بہت بڑا اور كٹھن مشن تھا، انھوں نے نادان حکمرانوں کی سر پرستی میں راسخ شده عادات کے خلاف اتنا مؤثر جہاد کیا کہ اب ان لوگوں کے سامنے، جو عادت کی بنا پر اصرار اور ضد کا شکار نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور آپ کا منور طر یق عمل روز روشن کی طرح واضح ہے۔امام مسلم نے کتاب الصلاة، کتاب المساجد، کتاب صلاة المسافرین اور بعد کے ابواب میں خوبصورت ترتیب سےصحیح اسناد کے ساتھ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی مکمل تفصیلات جمع کردی ہیں۔ محدثین کے عظیم الشان کام کے بعد امت کے فقہاء اور علماءکے استنباطات، چاہے وہ جس مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں، محدثین کی بیان کردہ اانہی احادیث کے گرد گھومتے ہیں۔ تمام فقہی اختلافات کے حوالے سے بھی آخری اور حتمی فیصلہ صرف اور صرف وہی ہوسکتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صادر فرما دیا اور جسے محدثین نے پوری امانت داری سے امت تک پہنچا دیا ہے۔
حجاج کے بجائے) ہمام اور ابان بن یزید نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی قتادہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں (سے ہر رکعت میں) سورۃ فاتحہ اور ایک سورت پڑھتے اور کبھی کبھار ہمیں بھی کوئی آیت سنا دیتے اور آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن ابی قتادہ کی اپنے باپ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ہر رکعت میں فاتحہ اور ایک سورة پڑھتے تھے، اور کبھی کبھار بلند آواز سے پڑھتے تھے کہ ہم بھی سن لیتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں سورة فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔
حدثنا يحيى بن يحيى ، وابو بكر بن ابي شيبة جميعا، عن هشيم ، قال يحيى، اخبرنا هشيم، عن منصور ، عن الوليد بن مسلم ، عن ابي الصديق ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: " كنا نحزر قيام رسول الله صلى الله عليه وسلم، في الظهر والعصر، فحزرنا قيامه في الركعتين الاوليين من الظهر، قدر قراءة الم تنزيل السجدة، وحزرنا قيامه في الاخريين، قدر النصف من ذلك، وحزرنا قيامه في الركعتين الاوليين من العصر، على قدر قيامه في الاخريين من الظهر، وفي الاخريين من العصر على النصف من ذلك، ولم يذكر ابو بكر في روايته: الم تنزيل، وقال: قدر ثلاثين آية ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ جَمِيعًا، عَنْ هُشَيْمٍ ، قَالَ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: " كُنَّا نَحْزِرُ قِيَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، فَحَزَرْنَا قِيَامَهُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ، قَدْرَ قِرَاءَةِ الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةِ، وَحَزَرْنَا قِيَامَهُ فِي الأُخْرَيَيْنِ، قَدْرَ النِّصْفِ مِنْ ذَلِكَ، وَحَزَرْنَا قِيَامَهُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ مِنَ الْعَصْرِ، عَلَى قَدْرِ قِيَامِهِ فِي الأُخْرَيَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ، وَفِي الأُخْرَيَيْنِ مِنَ الْعَصْرِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ ذَلِكَ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَبُو بَكْرٍ فِي رِوَايَتِهِ: الم تَنْزِيلُ، وَقَالَ: قَدْرَ ثَلَاثِينَ آيَةً ".
یحییٰ بن یحییٰ اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے ہشیم سے، انہوں نے منصور سے، انہوں نے ولید بن مسلم سے، انہوں نے ابو صدیق (ناجی) سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی، انہوں نے کہا: ہم ظہر اور عصر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کا اندازہ لگاتے تھے تو ہم نے ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں قیام کا اندازہ ﴿الم 0 تنزیل﴾ (السجدہ) کی قراءت کے بقدر لگایا اور اس کی آخری دو رکعتوں کے قیام کا اندازہ اس سے نصف کے بقدر لگایا اور ہم نے عصر کی پہلی دو رکعتوں کے قیام کا اندازہ لگایا کہ وہ ظہر کی آخری دو رکعتوں کے برابر تھا اور عصر کی دو رکعتوں کا قیام اس سے آدھا تھا۔ امام مسلم رضی اللہ عنہ کے استادہ ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنی روایت میں ﴿الم 0 تنزیل﴾ (کا نام) ذکر نہیں کیا، انہوں نے کہا: تیس آیات کےبقدر
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم ظہر اور عصر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کا اندازہ لگاتے تھے تو ہم نے ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں قیام کا اندازہ ﴿المٓ تَنْزِيْل﴾ (السجدہ) کی قرأت کے بقدر لگایا، اور اس کی آخری دو رکعتوں کے قیام کا اندازہ اس سے نصف کے بقدر کیا، اور ہم نے عصر کی پہلی دو رکعتوں کے قیام کا اندازہ لگایا کہ وہ ظہر کی آخری دو رکعتوں کے برابر تھا، اور عصر کی آخری دو رکعتوں کا قیام، اس سے آدھا تھا، ابو بکر نے اپنی روایت میں ﴿المٓ تَنْزِيْل﴾ کا نام نہیں لیا اور کہا تیس آیات کے بقدر۔
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا ابو عوانة ، عن منصور ، عن الوليد ابي بشر ، عن ابي الصديق الناجي ، عن ابي سعيد الخدري ،" ان النبي صلى الله عليه وسلم، كان يقرا في صلاة الظهر في الركعتين الاوليين، في كل ركعة، قدر ثلاثين آية، وفي الاخريين، قدر خمس عشرة آية، او قال: نصف ذلك، وفي العصر، في الركعتين الاوليين، في كل ركعة، قدر قراءة خمس عشرة آية، وفي الاخريين قدر نصف ذلك".حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْوَلِيدِ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقْرَأُ فِي صَلَاةِ الظُّهْرِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ، فِي كُلِّ رَكْعَةٍ، قَدْرَ ثَلَاثِينَ آيَةً، وَفِي الأُخْرَيَيْنِ، قَدْرَ خَمْسَ عَشْرَةَ آيَةً، أَوَ قَالَ: نِصْفَ ذَلِكَ، وَفِي الْعَصْرِ، فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ، فِي كُلِّ رَكْعَةٍ، قَدْرَ قِرَاءَةِ خَمْسَ عَشْرَةَ آيَةً، وَفِي الأُخْرَيَيْنِ قَدْرَ نِصْفِ ذَلِك".
۔ ابو عوانہ نے منصور سے باقی ماندہ سابقہ سند سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز میں پہلی دو رکعتوں میں سے ہر رکعت میں تیس آیات کے بقدر قراءت فرماتے تھے اور آخری دو میں پندرہ آیتوں کے بقدر یا یہ کہا: اس (پہلی دو) سے نصف۔ اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سے ہر رکعت میں پندرہ آیتوں کے برابر اور آخری دو میں اس سے نصف۔
ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز میں پہلی دو رکعتوں میں سے ہر رکعت میں تیس آیات کے بقدر قرأت فرماتے تھے، اور آخری دو میں پندرہ آیتوں کے بقدر یا یہ کہا کہ پہلی دو سے نصف اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ہر رکعت میں پندرہ آیتوں کے برابر آخری دو میں اس سے نصف۔
حدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا هشيم ، عن عبد الملك بن عمير ، عن جابر بن سمرة : " ان اهل الكوفة، شكوا سعدا إلى عمر بن الخطاب، فذكروا من صلاته، فارسل إليه عمر، فقدم عليه، فذكر له ما عابوه به من امر الصلاة، فقال: إني لاصلي بهم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما اخرم عنها، إني لاركد بهم في الاوليين، واحذف في الاخريين، فقال: ذاك الظن بك ابا إسحاق "،حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ : " أَنَّ أَهْلَ الْكُوفَةِ، شَكَوْا سَعْدًا إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَذَكَرُوا مِنْ صَلَاتِهِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ عُمَرُ، فَقَدِمَ عَلَيْهِ، فَذَكَرَ لَهُ مَا عَابُوهُ بِهِ مِنْ أَمْرِ الصَّلَاةِ، فَقَالَ: إِنِّي لَأُصَلِّي بِهِمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَخْرِمُ عَنْهَا، إِنِّي لَأَرْكُدُ بِهِمْ فِي الأُولَيَيْنِ، وَأَحْذِفُ فِي الأُخْرَيَيْنِ، فَقَالَ: ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ أَبَا إِسْحَاق "،
ہشیم نے عبد الملک بن عمیر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ کوفہ والوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حضرت حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی اور (اس میں) ان کی نماز کا بھی ذکر کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف پیغام بھیجا، وہ آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے، کوفہ والوں نے ان کی نماز پر جو اعتراض کیا تھا، اس کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا: یقیناً میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی طرف نماز پڑھاتا ہوں، اس میں کمی نہیں کرتا۔ میں انہیں پہلی دو رکعتوں لمبی پڑھاتا ہوں اور آخری میں دو تخفیف کرتا ہوں۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابو اسحاق! آپ کے بارے میں گمان (بھی) یہی ہے۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ کوفہ والوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی شکایت کی، اور ان کی نماز پر اعتراض کیا، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں بلوایا تو وہ آئے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کوفہ والوں نے جو نماز کی شکایت کی تھی، اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے (سعد) کہا، میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھاتا ہوں، میں اس میں کمی نہیں کرتا، میں انہیں پہلی دو رکعتیں لمبی پڑھاتا ہوں اور آخری دو میں تخفیف کرتا ہوں، اس پر عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اے ابو اسحاق، تم سے یہی امید تھی (تمہارے بارے میں یہی گمان تھا)۔