اعمش نے ثابت بن عبید سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی، کہا: رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”مجھے مسجد میں سے جائے نماز پکڑا دو۔“ کہا: میں نے عرض کی: میں حائضہ ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تمہار ا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے۔“
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا جبکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے، مجھے جائے نماز پکڑا دو، میں نے عرض کیا، میں حائضہ ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے۔“
حجاج اور ابن ابی غنیہ نے ثابت سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے، انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں مسجدسے آپ کو جائے نماز پکڑا دوں، میں نےعرض کی: میں حائضہ ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”حیض تمہارےہاتھ میں نہیں ہے۔“
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے حکم دیا کہ آپ کو جائے نماز پکڑاؤں، میں نے عرض کیا، میں نے عرض کیا، میں حائضہ ہوں، آپ نے فرمایا: اسے لے آ، حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے۔حدیث حاشیہ: 'A'isha reported: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم ) ordered me that I should get him the mat from the mosque. I said: I am menstruating. He (the Holy Prophet) said: Do get me that, for menstruation is not in your hand.حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حضرت ابو ہریرہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے، انہو ں نے کہا: ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں موجود تھے تو آپ نے فرمایا:”اے عائشہ! مجھے (نماز کا) کپڑا پکڑا دو۔“ تو انہوں نے کہا: میں حائضہ ہوں۔ آپ نے فرمایا:”تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ “ چنانچہ انہوں نے آپ کو کپڑا پکڑا دیا۔حدیث حاشیہ: اعمش نے ثابت بن عبید سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی، کہا: رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:”مجھے مسجد میں سے جائے نماز پکڑا دو۔“ کہا: میں نے عرض کی: میں حائضہ ہوں۔ آپ نے فرمایا:”تمہار ا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ “حدیث حاشیہ: حجاج اور ابن ابی غنیہ نے ثابت سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے، انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں مسجدسے آپ کو جائے نماز پکڑا دوں، میں نےعرض کی: میں حائضہ ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”حیض تمہارےہاتھ میں نہیں ہے۔ “ حدیث حاشیہ: حضرت ابو ہریرہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے، انہو ں نے کہا: ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں موجود تھے تو آپ نے فرمایا:”اے عائشہ! مجھے (نماز کا) کپڑا پکڑا دو۔“ تو انہوں نے کہا: میں حائضہ ہوں۔ آپ نے فرمایا:”تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ “ چنانچہ انہوں نے آپ کو کپڑا پکڑا دیا۔ حدیث حاشیہ: حجاج اور ابن ابی غنیہ نے ثابت سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے، انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں مسجدسے آپ کو جائے نماز پکڑا دوں، میں نےعرض کی: میں حائضہ ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”حیض تمہارےہاتھ میں نہیں ہے۔ “حدیث حاشیہ: رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر) ١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم707٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)298.01٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)451٤. ترقيم فؤاد عبد الباقي (برنامج الكتب التسعة)ترقیم فواد عبد الباقی (کتب تسعہ پروگرام)298.01٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)659٧. ترقيم دار إحیاء الکتب العربیة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم دار احیاء الکتب العربیہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)298.01٨. ترقيم دار السلامترقیم دار السلام690 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × حیض: وہ خون ہے جو بلوغت سے لے کر سن یاس تک عورت کو تقریبا چار ہفتے کے وقفے سے ہر ماہ آتا ہے اور دوران حمل اور عموما رضاعت کے زمانے میں بند ہو جاتا ہے۔ ایک حیض سے لے کر دوسرے حیض تک کے عرصے کو شریعت میں ”طُهْر“ کہتے ہیں۔ اسلام سے پہلے زیادہ تر انسانی معاشرے اس حوالے سے جہالت اور توہمات کا شکار تھے۔ یہودان ایام میں عورت کو انتہائی نجس اور غلیظ سمجھتے۔ جس چیز کو اس کا ہاتھ لگتا اسے بھی پلید سمجھتے۔ اسے سونے کے کمروں اور باورچی خانے وغیرہ سے دور رہنا پڑتا۔ نصاریٰ بھی مذہبی طور پر یہودیوں سے متفق تھے۔ ان کے ہاں بھی حیض کے دوران میں عورت انتہائی نجس تھی اور جو کوئی اس کو چھو لیتا وہ بھی نجس سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ان کی اکثریت عملا عہد نامہ قدیم کے احکامات پرعمل نہ کرتی تھی بلکہ وہ دوسری انتہا پر تھی۔ عام عیسائی اس دوران میں بھی عورتوں سے مقاربت کر لیتے تھے۔ صحابہ کرام نے اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ اس کے جواب میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:﴿ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾ ”اور (لوگ) آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ بتا دیجیے یہ اذیت (کا زمانہ ہے)، اس لیے محیض (زمانہ حیض یا جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے اس مقام میں) عورتوں سے(جماع کرنے سے) دور رہو اور ان سے مقاربت نہ کرو یہاں تک کہ وہ حالت طہر میں آجائیں (حیض کے ایام ختم ہو جائیں)، پھر جب وہ پاک صاف ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ، جہاں سے اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے، اللہ (اپنی طرف) رجوع کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“((البقرۃ 222:2) اس آیت میں اللہ تعالی نے محیض کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یہ مصدر بھی ہے اور اسم ظرف بھی۔ مصدر ہو تو وہی معنی ہیں جو حیض کے ہیں، لیکن مخصوص ایام میں عورتوں کو خون آنا، یعنی اس کے دوران احتراز کرو۔ اسم ظرف ہو تو ظرف زمانی کی حیثیت سے معنی ہوں گے: حیض کا زمانہ مفہوم یہ ہو گا کہ حیض کے دنوں میں بیویوں کے ساتھ جنسی مقاربت ممنوع ہے۔ ظرف مکان کی حیثیت سےمحیض سے مراد وہ جگہ ہوگی جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے۔ ظرف مکان مراد لیتے ہوئے لسان العرب میں اس آیت کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے:ان المحيض فى هذاالاية الماتى من المراة لانه موضع الحيض فكانه قال:اعتزلوا النساءفى موضع الحيض،لاتجامعوهن فى ذلك المكان. اس آیت میں محیض سے عورت کے جسم)کا وہ حصہ مراد ہے جہاں مجامعت کی جاتی ہے کیونکہ یہی حیض (کے اخراج کی (بھی) جگہ ہے۔ گویا یہ فرمایا: حیض (کے اخراج) کی جگہ میں عورتوں(کے ساتھ مباشرت) سے دور رہو، اس جگہ ان کے ساتھ جماع نہ کرو۔“ حیض کا جو بھی معنی میں مفہوم یہی ہے کہ ان دنوں میں بیویوں سے صنفی تعلقات سے پرہیز کیا جائے لیکن، اس باب کی احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو ساتھ رکھا جائے، ان کی طرف التفات اور توجہ کو برقرار رکھا جائے۔ قرآن نے عورتوں کی اس فطری حالت کے بارے میں تمام جاہلانہ افکار کی تردید کر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فطری معاملہ ہونے کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا: «هذا شيء كتبه الله على بنات آدم)(صحيح البخارى،الحيض،باب كيف كان بدءالحيض،قبل الحديث:294)یہ ایسی چیز ہے کہ آدم کی بیٹیوں کے بارے میں اللہ نے اس کا فیصلہ فرمایا ہے۔“ قرآن کے الفاظ(و هو اذی)کے معنی ہیں: یہ ادنی اذیت (کم درجے کی تکلیف کا زمانہ)ہے۔ عورت کو یہ اذیت جسمانی تبدیلیوں، نفسیاتی کیفیت، ناپاک خون اور اس کی بدبو کی وجہ سے پہنچتی ہے۔ اسلام نے اس فطری تکلیف کے زمانے میں عورتوں کو سہولت دیتے ہوئے نماز معاف کر دی اور رمضان کے روزے کے لیے وہی سہولت دی جو مریض کو دی جاتی ہے۔ یعنی ان دنوں میں وہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں اپنے روزے پورے کر لے۔ موجودہ میڈیکل سائنس نے بھی اب اسی بات کی شہادت مہیا کر دی ہے کہ ان دنوں میں خواتین بے آرامی، اضطراب اور ہلکی تکلیف کا شکار رہتی ہیں۔ سنجیدہ قسم کے فرائض ادا کرنے میں انھیں دقت پیش آتی ہے، اس لیے جہاں وہ ملازمت کرتی ہیں ان اداروں کا فرض ہے کہ ان ایام میں عورتوں کے فرائض کی ادائیگی میں سہولت مہیا کریں۔ وہ سہولت کیا ہو؟ روشن خیالی اور حقوق نسواں کا لحاظ کرنے کے دعووں کے باوجود مغربی تہذیب ابھی تک ایسی کسی سہولت کے بارے میں سوچنے سے معذور ہے جبکہ اسلام نے، جودین فطرت ہے، پہلے ہی ان کے فرائض میں تخفیف کر دی۔ تکلیف اور اضطراب کی اس حالت میں گھر کے دوسرے افراد بالخصوص خاوند کی طرف سے کراہت اور نفرت کا اظہار نفسیاتی طور پر عورت کے لیے شدید تکلیف اور پریشانی کا باعث بن جاتا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے خلاف یہودیوں اور دیگر جاہل معاشروں کے ظالمانہ رویے کا ازالہ کیا اور یہ اہتمام فرمایا کہ خاوند کے ساتھ اس کے جنسی تعلقات تو منقطع ہو جائیں، کیونکہ وہ عورت کے لیے مزید تکلیف کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن عورت اس دوران میں باقی معاملات میں گھر والوں بالخصوص خاوند کی بھر پور توجہ اور محبت کا مرکز رہے۔ صحیح مسلم کی کتاب الحیض کے آغاز کے ابواب میں اس اہتمام کی تفصیلات مذکور ہیں۔ آگے کے ابواب میں مردوں اور عورتوں کے نجی زندگی کے مختلف احوال کے دوران میں عبادت کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ عورتوں کے خصوصی ایام کے ساتھ متصل یا ملتی جلتی بعض بیماریوں اور ولادت کے عرصے کے دوران میں طہارت کے مسائل بھی کتاب الحیض کا حصہ ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے، انہو ں نے کہا: ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں موجود تھے تو آپ نے فرمایا: ”اے عائشہ! مجھے (نماز کا) کپڑا پکڑا دو۔“ تو انہوں نے کہا: میں حائضہ ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے۔“ چنانچہ انہوں نے آپ کو کپڑا پکڑا دیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں موجود تھے، اس اثنا میں آپ نے فرمایا:”اے عائشہ! مجھے کپڑا پکڑاؤ، تو میں نے کہا، میں حائضہ ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا حیض، تیرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑا پکڑا دیا۔“
ابو بکر بن ابی شیبہ اور زہیر بن حرب نے کہا: ہمیں وکیع نے مسعر اور سفیان سے حدیث بیان کی، انہوں نے مقدام بن شریح سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں ایام مخصوصہ کے دوران میں پانی پی کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑا دیتی تو آپ اپنا منہ میرے منہ کی جگہ پر رکھ کر پانی پی لیتے، اور میں دانتوں کےساتھ ہڈی سےگوشت نوچتی جبکہ میرے مخصوص ایام ہوتے، پھر وہ (ہڈی) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتی تو آپ میرے منہ والی جگہ پر اپنا منہ رکھتے (اور بوٹی توڑتے۔) زہیر نے فیشرب (پانی پینے) کا لفظ ذکر نہیں کیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ میں حیض کی حالت میں پانی پی کر، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑا دیتی، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنا منہ، میرے منہ کی جگہ پر رکھ کر پانی پیتے، اور میں ہڈی سے گوشت چونڈتی جبکہ میں حائضہ ہوتی، پھر اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم میرے منہ والی جگہ پر اپنا منہ رکھتے، زہیر نے فَیَشْرَبُ کا لفظ بیان نہیں کیا۔
صفیہ بنت شیبہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: میں حیض کی حالت میں ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود کو تکیہ بناتے اور قرآن پڑھتے
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں ٹیک لگاتے، جبکہ میں حائضہ ہوتی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھتے۔
وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت ، عن انس ، " ان اليهود، كانوا إذا حاضت المراة فيهم، لم يؤاكلوها، ولم يجامعوهن في البيوت، فسال اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، النبي صلى الله عليه وسلم، فانزل الله تعالى ويسالونك عن المحيض قل هو اذى فاعتزلوا النساء في المحيض سورة البقرة آية 222 إلى آخر الآية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اصنعوا كل شيء، إلا النكاح، فبلغ ذلك اليهود، فقالوا: ما يريد هذا الرجل، ان يدع من امرنا شيئا، إلا خالفنا فيه، فجاء اسيد بن حضير، وعباد بن بشر، فقالا: يا رسول الله، إن اليهود، تقول: كذا وكذا، فلا نجامعهن، فتغير وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى ظننا ان قد وجد عليهما، فخرجا، فاستقبلهما هدية من لبن إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فارسل في آثارهما، فسقاهما فعرفا ان لم يجد عليهما ".وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، " أَنَّ الْيَهُودَ، كَانُوا إِذَا حَاضَتِ الْمَرْأَةُ فِيهِمْ، لَمْ يُؤَاكِلُوهَا، وَلَمْ يُجَامِعُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ، فَسَأَلَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ سورة البقرة آية 222 إِلَى آخِرِ الآيَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اصْنَعُوا كُلَّ شَيْءٍ، إِلَّا النِّكَاحَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ الْيَهُودَ، فَقَالُوا: مَا يُرِيدُ هَذَا الرَّجُلُ، أَنْ يَدَعَ مِنْ أَمْرِنَا شَيْئًا، إِلَّا خَالَفَنَا فِيهِ، فَجَاءَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ، وَعَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ، فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْيَهُودَ، تَقُولُ: كَذَا وَكَذَا، فَلَا نُجَامِعُهُنَّ، فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنْ قَدْ وَجَدَ عَلَيْهِمَا، فَخَرَجَا، فَاسْتَقْبَلَهُمَا هَدِيَّةٌ مِنْ لَبَنٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ فِي آثَارِهِمَا، فَسَقَاهُمَا فَعَرَفَا أَنْ لَمْ يَجِدْ عَلَيْهِمَا ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ یہودی، جب ان کی کوئی عورت حائضہ ہوتی تو نہ وہ اس کے ساتھ کھانا کھاتے اور نہ اس کے ساتھ گھر ہی میں اکٹھے رہتے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپ سے اس بارے میں پوچھا، اس پر اللہ تعالیٰ نےآیت تاری: ”یہ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ فرما دیجیے، یہ اذیت (کاوقت) ہے، اس لیے محیض (مقام حیض) میں عورتوں (کے ساتھ مجامعت) سے دور ہو“ آخر تک۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جماع کے سوا سب کچھ کرو۔“ یہودیوں تک یہ بات پہنچی تو کہنے لگے: یہ آدمی ہمارے دین کی ہر بات کی مخالفت ہی کرنا چاہتا ہے۔ (یہ سن کر) اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دونوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہود اس اس طرح کہتے ہیں تو یکا ہم ان (عورتوں) سے جماع بھی نہ کر لیا کریں؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا حتی کہ ہم نے سمجھا کہ آپ دونوں سے ناراض ہو گئے ہیں۔ وہ دونوں نکل گئے، آگے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ کا ہدیہ آرہا تھا، آپ نے کسی کو ان کے پیچھے بھیجا اور ان کو (بلواکر) دودھ پلایا، وہ سمجھ گئے کہ آپ ان سے ناراض نہیں ہوئے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ یہودی جب ان کی کوئی عورت حائضہ ہوتی، تو وہ نہ اس کے ساتھ کھانا کھاتے اور نہ ان کے ساتھ ان کے گھروں میں اکٹھے رہتے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت اتاری ”یہ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ فرما دیجیے حیض پلیدی ہے، تو حیض کے دنوں میں ان سے الگ رہو۔“ آخر تک (سورة بقرة:۲۲۲) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جماع کے سوا (ہر چیز) سب کچھ کرو۔“ یہودیوں تک یہ بات پہنچی تو کہنے لگے، یہ شخص ہر بات میں ہماری مخالفت کرنا چاہتا ہے (یہ سن کر) اسید بن حضیر اور عباس بن بشر رضی اللہ تعالی عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! یہود ایسا ایسا کہتے ہیں، تو کیا ہم ان سے جماع بھی نہ کریں؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا، حتیٰ کہ ہم نے سمجھا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم دونوں پر ناراض ہوگئے ہیں، تو وہ دونوں نکل گئے، آگے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ کا تحفہ آ رہا تھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے ایلچی بھیجا (اور ان کو بلوا کر) دونوں کو دودھ پلایا، تو وہ سمجھ گئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم ان پر ناراض نہیں ہیں۔
وکیع، ابو معاویہ اور ہشیم نے اعمش سے حدیث بیان کی، انہوں نے منذر بن یعلیٰ سے (جن کی کنیت ابو یعلیٰ ہے) انہوں نے ابن حنفیہ سے، انہوں نے (اپنے والد) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: مجھے مذی (منی سے مختلف رطوبت جو اسی راستے سے خارج ہوتی ہے) زیادہ آتی تھی اور میں آپ کی بیٹی کے (ساتھ) رشتے کی وجہ سے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے میں شرم محسوس کرتا تھا۔ میں نے مقداد بن اسود سے کہا، انہوں نےآپ سے پوچھا، آپ نے فرمایا: ”(اس میں متبلا آدمی) اپنا عضو مخصوص دھوئے اور وضو کر لے۔“
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ مجھے بہت مذی آتی تھی، اور میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر کے اپنی بیوی ہونے کے باعث، آپصلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست پوچھنے سے شرماتا تھا، تو میں نے مقداد بن اسود کو کہا، اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس میں مبتلا آدمی)”اپنا عضو دھو لے اور وضو کر لے۔“
شعبہ نے سلیمان اعمش سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: میں نے حضرت فاطمہ ؓ (کے ساتھ رشتے) کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذی کےبارے میں پوچھنے میں شرم محسوس کی تو میں نے مقداد کو کہا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، آپ نے فرمایا: ”اس سے وضو (کرنا پڑتا) ہے۔“
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے باعث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذی کے بارے میں پوچھنے سے شرم محسوس کی، تو میں نے مقداد کو کہا، اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے وضو کرنا ہو گا۔“
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، انہوں نے آپ سے مذی کے بارے میں پوچھا جو انسان (کے عضو مخصوص) سے خارج ہوتی ہے کہ وہ اس کا کیا کرے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کرو اور شرم گاہ کو دھو لو۔“(ترتیب میں پہلے دھونا، پھر وضو کرنا ہے جس طرح حدیث: 695میں ہے۔)
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے مقداد بن اسود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، تو اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے انسان سے نکلنے والی مذی کے بارے میں پوچھا کہ وہ اس کا کیا کرے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کر اور شرم گاہ کو دھو لے۔“
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے، قضائے حاجت کی، پھر اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے، پھر سو گئے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے اور قضائے حاجت کی، پھر اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے، پھر سو گئے۔