محمد بن مسلم طائفی نے عمرو بن دینار سے، انہوں نے آل سائب کے آزاد کردہ غلام سعید بن حویرث سے روایت کی کہ اس نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو (یہ) کہتے ہوئے سنا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے، جب آپ آئے تو آپ کو کھانا پیش کیا گیا، آپ سے عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول! کیا آپ وضو نہیں فرمائیں گئے؟ آپ نے جواب دیا: ”کس لیے؟ کیا نماز کے لیے؟“
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے تو جب واپس آئے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے حضور کھانا پیش کیا گیا، اور کہا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپصلی اللہ علیہ وسلم وضو نہیں فرمائیں گے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”کس وجہ؟ کیا نماز کے لیے؟“
830. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت الخلاء والی ضرورت پوری کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھانا لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا تناول فرمایا اور پانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور ابن جریج کا قول ہے کہ مجھے عمروبن دینار نے سعید بن حویرث سے چیز زائد بتائی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو نہیں فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”میں نے نماز پڑھنے کا ارادہ نہیں کیا، کہ وضو کروں“ اور عمرو کا قول ہے اس نے سعید بن حویرث سے سنا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت الخلاء والی ضرورت پوری کی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھانا لایا گیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا تناول فرمایا اور پانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور ابن جریج کا قول ہے کہ مجھے عمروبن دینار نے سعید بن حویرث سے چیز زائد بتائی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وضو نہیں فرمایا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”میں نے نماز پڑھنے کا ارادہ نہیں کیا، کہ وضو کروں“ اور عمرو کا قول ہے اس نے سعید بن حویرث سے سنا ہے۔
حدثنا يحيى بن يحيى : اخبرنا حماد بن زيد ، وقال يحيى ايضا: اخبرنا هشيم كلاهما، عن عبد العزيز بن صهيب ، عن انس ، في حديث حماد، " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء، وفي حديث هشيم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، كان إذا دخل الكنيف، قال: اللهم إني اعوذ بك من الخبث والخبائث ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، وَقَالَ يَحْيَى أَيْضًا: أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ كِلَاهُمَا، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، فِي حَدِيثِ حَمَّادٍ، " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْخَلَاءَ، وَفِي حَدِيثِ هُشَيْمٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ إِذَا دَخَلَ الْكَنِيفَ، قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ ".
یحییٰ بن یحییٰ نے حماد بن زید اور ہشیم سے، ان دونوں نے عبد العزیز بن صہیب سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی (حماد کی حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے اور ہشیم کے الفاظ ہیں: جب کسی اوٹ والی جگہ میں داخل ہوتے) تو فرماتے: ”اے اللہ! میں نر اور مادہ دونوں قسم کی خبیث مخلوق سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔“
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے حماد کے الفاظ ہیں: کَانَ رَسُوْلُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا دَخَلَ الخَلَاءَ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے، اور ہشیم کے الفاظ ہیں: أَنَّ رَسُولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا دَخَلَ الْکَنِیْفَ، بے شک جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تھے تو فرماتے: اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ اے اللہ! میں مذکر اور مؤنث جنات سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
اسماعیل بن علیہ نے اسی مذکورہ بالا سند کے ساتھ عبد العزیز سے روایت بیان کی اور (دعا کے) یہ الفاظ بیان کیے: أعوذ باللہ من الخبث والخبائث ”میں نر اور مادہ دونوں قسم کی خبیث مخلوق سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔“
ہمیں ابوبکر بن ابی شیبہ اور زہیر بن حرب دونوں نے اسماعیل (جو علیہ کا بیٹا ہے) کے واسطہ سے عبدالعزیز سے اوپر والی سند سے روایت بیان کی اور دعا کے یہ الفاظ بیان کیے: أَعُوذُ بِاللہ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ
اسماعیل بن علیہ اور عبد الوارث دونوں نے عبد العزیز سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: نماز کے لیے تکبیر کہہ دی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی سے بہت قریب ہو کر آہستہ آہستہ بات کر رہے تھے۔ (عبد الوارث کی روایت میں ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نجی لرجل کے بجائے ونبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یناجی الرجل آپ ایک آدمی سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے ہے۔ مفہوم ایک ہے) تو آپ نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ لوگ (بیٹھےبیٹھے) سو گئے۔
حضرت انس رضی االہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نماز کے لیے تکبیر کہ دی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان سے سرگوشی میں مصروف تھے اور عبدالوارث کی روایت میں نجی الرجل کی بجائے يُنَاجِي الرَّجُلَ ہے، ایک انسان سے آہستہ آہستہ بات چیت فرما رہے تھے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف نہیں لائے حتیٰ کہ لوگ سو گئے۔
شعبہ نے عبد العزیز بن صہیب سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: نماز کے لیے تکبیر کہہ دی گئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی سے شرگوشی فرما رہے تھے۔ آپ اس سے سرگوشی فرماتے رہے یہاں تک کہ آپ کے ساتھی (بیٹھے بیٹھے) سو گئے، اس کےبعد آپ آئے اور انہیں نماز پڑھائی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نماز کے لیے تکبیر کہ دی گئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی سے سرگوشی فرما رہے تھے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم سرگوشی فرماتے رہے، یہاں تک کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی سو گئے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر نماز پڑھائی۔
شعبہ نے قتادہ سے روایت کی، کہا: میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ (بیٹھے بیٹھے) سو جاتے تھے، پھر وضو کیے بغیر نماز پڑھ لیتے۔ (شعبہ کہتے ہیں:) میں نے (قتادہ سے) پوچھا: آپ نے یہ حدیث انس رضی اللہ عنہ سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! اللہ کی قسم!
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سو جاتے تھے، پھر وضو کیے بغیر نماز پڑھ لیتے، میں نے قتادہ سے پوچھا، آپ نے یہ حدیث انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے سنی ہے؟ اس نے کہا، اللّٰہ کی قسم!
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: عشاء کی نماز کے لیے اقامت کہہ دی گئی تو ایک آدمی نے (رسول اللہ سے) کہا: میرا ایک کام ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر اس سے سرگوشی کرنے لگے حتیٰ کہ لوگ یا کچھ لوگ (بیٹھے بیٹھے) سو گئے، پھر سب نے نماز پڑھی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عشاء کی نماز کے لیے اقامت کہ دی گئی تو ایک آدمی نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہا، مجھے ایک ضرورت ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر اس سے سرگوشی کرنے لگے حتیٰ کہ لوگ سو گئے یا کچھ لوگ سو گئے، پھر سب نے نماز پڑھی۔