ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہو ں نے عبد اللہ بن ابی قتادہ سے، انہوں نے اپنے باپ (ابو قتادہ رضی اللہ عنہ) سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی بیت الخلا میں داخل ہو تو اپنا عضو خاص اپنے دائیں ہاتھ سے نہ چھوئے
عبداللہ بن ابی قتادہ اپنے باپ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء میں داخل ہو، تو اپنا عضو مخصوص اپنے دائیں ہاتھ سے نہ چھوئے (اس کو ہاتھ نہ لگائے)۔“
ایوب نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی قتادہ سے، انہو ننے (اپنے والد) حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاکہ کوئی برتن میں سانس لے یا اپنی شرم گاہ کو اپنا دائیاں ہاتھ لگائے یا اپنے دائیں ہاتھ سے استنجا کرے۔
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے: ”کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، کہ کوئی برتن میں سانس لے، یا یہ کہ اپنے ذکر کو اپنا دایاں ہاتھ لگائے، یا یہ کہ اپنے دائیں ہاتھ سے استنجا کرے۔“
ابو احوص نے اشعث سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو فرماتے تو وضو میں، جب آپ کنگھی کرتے تو کنگھی کرنے میں اور جب آپ جوتا پہنتے تو جوتا پہننے میں دائیں طرف سے آغاز کرنا پسند فرماتے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے: ”کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو میں جب وضو فرماتے، کنگھی کرنے میں جب کنگھی کرتے، اور جوتا پہننے میں جب جوتا پہنتے، دائیں طرف سے آغاز کرنا پسند فرماتے تھے۔“
اشعث کے ایک دوسرے شاگرد شعبہ نے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام معاملات میں، اپنے جوتے پہننے، اپنی کنگھی کرنے اور اپنے وضو کرنے میں دائیں طرف سے ابتدا کرنا پسند فرماتے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے: ”کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام کاموں میں دائیں طرف سے ابتدا کرنا پسند فرماتے تھے، اپنے جوتے پہننے میں، اپنی کنگھی کرنے میں اور اپنے وضو کرنے میں۔“
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دو سخت لعنت والے کاموں سے بچو۔“ صحابہ کرام نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!سخت لعنت والے وہ دو کام کون سے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”جو انسان لوگوں کی گزرگاہ میں یا ان کی سایہ دار جگہ میں (جہاں وہ آرام کرتے ہیں) قضائے حاجت کرتا ہے (لوگ ان دونوں کاموں پر اس کو سخت برا بھلا کہتے ہیں۔)“
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لعنت کا باعث بننے والے دو کاموں سے بچو!“ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! لعنت کا سبب بنے والے دو کام کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو انسان لوگوں کی گزرگاہ یا ان کے سایہ میں قضائے حاجت کرتا ہے (لوگ اس کو برا بھلا کہیں گے)۔“
خالد (ھذاء) نے عطاء بن ابی میمونہ سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک احاطے میں داخل ہوئے اور آپ کے پیچھے ایک لڑکا بھی چلا گیا جس کے پاس وضو کا برتن تھا، وہ ہم میں سب سے چھوٹا تھا، اس نے اسے ایک بیری کےدرخت کے پاس رکھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کی اور پانی سے استنجا کر کے ہمارے پاس تشریف لائے۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے: ”کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے، اور آپ کے پیچھے ایک لڑکا بھی چلا گیا، جس کے پاس وضو کا برتن تھا، اور وہ ہم سب سے چھوٹا تھا، تو اس نے اسے ایک بیری کے درخت کے پاس رکھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کی اور پانی سے استنجا کرکے ہمارے پاس تشریف لائے۔“
دو مختلف سندوں سے شعبہ سے روایت ہے، انہوں نے عطاء بن ابی میمونہ سے اور انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے خالی جگہ جاتے تو میں اور میرے جیسا ایک لڑکا پانی کا برتن اور ایک نیزہ اٹھاتے (اور دور تک آپ کا ساتھ دیتے) اور آپ پانی سے استنجا کرتے۔
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے خالی جگہ جاتے، تو میں اور میرے جیسا لڑکا، پانی کا برتن اور نیزہ اٹھاتے تو آپ پانی سے استنجا کرتے۔“
(شعبہ کے بجائے) روح بن قاسم کی سند سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کےلیے کھلی جگہ تشریف لے جاتے تو میں آپ کے لیے پانی لے جاتا، آپ اس سے استنجا کرتے
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے: ”کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے کھلی جگہ تشریف لے جاتے اور میں آپ کے لیے پانی لاتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے استنجا کرتے۔“
ابو معاویہ نے اعمش سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہون نے ہمام سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت جریر (بن عبد اللہ البجلی) رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا تو ان سے کہاگیا: آپ یہ کرتے ہیں؟ انہوں نےجواب دیا: ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ اعمش نے کہا: ابراہیم نے بتایا کہ لوگوں (ابن مسعود رضی اللہ عنہ کےشاگردوں) کو یہ حدیث بہت پسند تھی کیونکہ جریر رضی اللہ عنہ سورہ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔ (سورہ مائدہ میں آیت وضو نازل ہوئی تھی۔ اور آپ کا یہ عمل اس کے بعد کا تھا جو آیت سے منسوخ نہیں ہوا تھا0)
ہمام بیان کرتے ہیں: حضرت جریرہ ؓ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، تو ان سے کہا گیا: آپ یہ کام کرتے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا: ہاں! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔“ ابراہیم بیان کرتے ہیں: لوگوں کو یہ حدیث بہت پسند تھی، کیونکہ جریرہ ؓ سورہٴ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔
(ابو معاویہ کے بجائے) اعمش کے دیگر متعدد شاگردوں عیسیٰ بن یونس، سفیان اور ابن مسہر نے بھی ابو معاویہ سے حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی، البتہ عیسیٰ اور سفیان کی حدیث میں ہے، (ابراہیم نخعی نے) کہا: عبد اللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) کے شاگردوں کو یہ حدیث بہت پسندتھی کیونکہ جریر رضی اللہ عنہ سورۂ مائدہ کے اترنے کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔
امام صاحب مختلف اساتذہ سے روایت بیان کرتے ہیں: ”کہ عبد الّٰلہ ؓ کے شاگردوں کو یہ حدیث بہت پسند تھی، کیونکہ جریرؓ سورہٴ مائدہ کے اترنے کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔“