حدثنا يحيى بن ايوب ، وسريج بن يونس ، وقتيبة بن سعيد ، وعلي بن حجر جميعا، عن إسماعيل بن جعفر ، قال ابن ايوب، حدثنا إسماعيل، اخبرني العلاء ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، اتى المقبرة، فقال: السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون، وددت انا قد راينا إخواننا، قالوا: اولسنا إخوانك يا رسول الله؟ قال: انتم اصحابي، وإخواننا الذين لم ياتوا بعد، فقالوا: كيف تعرف من لم يات بعد من امتك يا رسول الله؟ فقال: ارايت لو ان رجلا له خيل غر، محجلة بين ظهري خيل دهم بهم، الا يعرف خيله؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: فإنهم ياتون غرا، محجلين من الوضوء، وانا فرطهم على الحوض، الا ليذادن رجال عن حوضي، كما يذاد البعير الضال اناديهم، الا هلم؟ فيقال: إنهم قد بدلوا بعدك، فاقول: سحقا، سحقا ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَسُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ جميعا، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَتَى الْمَقْبُرَةَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَيْنَا إِخْوَانَنَا، قَالُوا: أَوَلَسْنَا إِخْوَانَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: أَنْتُمْ أَصْحَابِي، وَإِخْوَانُنَا الَّذِينَ لَمْ يَأْتُوا بَعْدُ، فَقَالُوا: كَيْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ يَأْتِ بَعْدُ مِنْ أُمَّتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا لَهُ خَيْلٌ غُرٌّ، مُحَجَّلَةٌ بَيْنَ ظَهْرَيْ خَيْلٍ دُهْمٍ بُهْمٍ، أَلَا يَعْرِفُ خَيْلَهُ؟ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّهُمْ يَأْتُونَ غُرًّا، مُحَجَّلِينَ مِنَ الْوُضُوءِ، وَأَنَا فَرَطُهُمْ عَلَى الْحَوْضِ، أَلَا لَيُذَادَنَّ رِجَالٌ عَنْ حَوْضِي، كَمَا يُذَادُ الْبَعِيرُ الضَّالُّ أُنَادِيهِمْ، أَلَا هَلُمَّ؟ فَيُقَالُ: إِنَّهُمْ قَدْ بَدَّلُوا بَعْدَكَ، فَأَقُولُ: سُحْقًا، سُحْقًا ".
اسماعیل (بن جعفر) نے علاء سے، انہوں نے اپنے والد سےاور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں آئے اور فرمایا: ”اے ایمان والی قوم کے گھرانے! تم سب پر سلامتی ہو اور ہم بھی ان شاء اللہ تمہیں ساتھ ملنے والے ہیں، میری خواہش ہے کہ ہم نے اپنے بھائیوں کو (بھی) دیکھا ہوتا۔“ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں؟ آپ نے جواب دیا: ”تم میرے ساتھی ہو اور ہمارے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی تک (دنیا میں) نہیں آئے۔“ اس پر انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو، جو ابھی (دنیامیں) نہیں آئے، کیسے پہچانیں گے؟ تو آپ نے فرمایا: ”بتاؤ! اگر کالے سیاہ گھوڑوں کے درمیان کسی کے سفید چہرے (اور) سفید پاؤں والے گھوڑے ہوں تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو نہیں پہچانے گا؟“ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کےرسول! آپ نے فرمایا: ”وہ وضو کی بناپر روشن چہروں، سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے اور میں حوض پر ان کا پیشروہوں گا، خبردار! کچھ لوگ یقیناً میرے حوض سے پرے ہٹا ئے جائیں گے، جیسے (کہیں اور کا) بھٹکا ہوا اونٹ (جوگلے کا حصہ نہیں ہوتا) پرے ہٹا دیا جاتا ہے، میں ان کی آوازدوں گا، دیکھو! ادھر آ جاؤ۔ تو کہاجائے گا، انہوں نے آپ کے بعد (اپنے قول و عمل کو) بدل لیا تھا۔ تو میں کہوں گا: دور ہو جاؤ، دور ہو جاؤ۔“
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں پہنچے اور فرمایا: ”اے مومنوں کے گروہ! تم پر سلامتی ہو اور ہم بھی ان شاء اللہ تمھارے ساتھ ملنے والے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ہم نے اپنے بھائیوں کو دیکھا ہوتا۔“ صحابہ ؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”تم میرے ساتھی ہو اور ہمارے بھائی، وہ لوگ ہیں جو ابھی تک دنیا میں نہیں آئے۔“ تو انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! آپ کی امت کے وہ لوگ جو ابھی پیدا نہیں ہوئے، آپ ان کو کیسے پہچانیں گے؟ تو آپ نے فرمایا: ”بتائیے! اگر کسی کے روشن چہرہ، روشن ہاتھ پاؤں والے گھوڑے (یعنی پانچ کلیان) ایسے گھوڑوں میں ہوں جو خالص سیاہ ہوں، تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو پہچان نہیں لے گا؟“ انھوں نے کہا: کیوں نہیں! اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ وضو کی بناء پر، روشن رو، روشن ہاتھ پاؤں آئیں گے، اور میں حوض پر ان کا پیش رو ہوں گا۔ خبردار! کچھ لوگ یقیناً میرے حوض سے ہٹائے جائیں گے جیسے بھٹکا ہوا اونٹ دور ہٹایا جاتا ہے، میں ان کو آواز دوں گا: خبردار! ادھر آؤ! تو کہا جائے گا: انھوں نے آپ کے بعد اپنے آپ کو بدل لیا تھا۔ (آپ کے راستہ یا طرزِ عمل میں آمیزش کردی تھی) تو میں کہوں گا: ”دور دور ہو جاؤ!“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14008)»
اسماعیل کے بجائے) عبدالعزیز دراوردی اور مالک نے علاء سے، انہوں نے اپنےوالد عبد الرحمن سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان کی طرف تشریف لے گئے اور فرمایا: ”اے ایمان والی قوم کے دیار! تم سب پر سلامتی ہو، ہم بھی اگر اللہ نےچاہا تو تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔“ اس کے بعد اسماعیل بن جعفر کی روایت کی طرح ہے۔ ہاں مالک کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: ” تو کچھ لوگوں کو میرے حوض سے ہٹایا جائے گا۔“(الا، یعنی خبردار کے بجائے ف، یعنی ’تو، کا لفظ ہے۔)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان کی طرف تشریف لے گئے، اور فرمایا: ”اے مومنوں کے گھروں کے باسیو! تم پر سلامتی ہو! اور جب اللہ کو منظور ہو گا، تو ہم بھی تمھارے ساتھ مل جائیں گے۔“ امام مالک کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: ”کچھ لوگوں کو میرے حوض سے ہٹایا جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد في ((سننه)) في الجنائز، باب: ما يقول اذا زار القبور او مربها برقم (3237) والنسائي في ((المجتبي)) 93/1 في الطهارة، باب: حلية الوضوء - انظر ((التحفة)) برقم (14086)»
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا خلف يعني ابن خليفة ، عن ابي مالك الاشجعي ، عن ابي حازم ، قال: " كنت خلف ابي هريرة وهو يتوضا للصلاة، فكان يمد يده حتى تبلغ إبطه، فقلت له: يا ابا هريرة، ما هذا الوضوء؟ فقال: يا بني فروخ، انتم هاهنا، لو علمت انكم هاهنا ما توضات هذا الوضوء، سمعت خليلي صلى الله عليه وسلم، يقول: " تبلغ الحلية من المؤمن، حيث يبلغ الوضوء ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا خَلَفٌ يَعْنِي ابْنَ خَلِيفَةَ ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، قَالَ: " كُنْتُ خَلْفَ أَبِي هُرَيْرَةَ وَهُوَ يَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ، فَكَانَ يَمُدُّ يَدَهُ حَتَّى تَبْلُغَ إِبْطَهُ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا هَذَا الْوُضُوءُ؟ فَقَالَ: يَا بَنِي فَرُّوخَ، أَنْتُمْ هَاهُنَا، لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكُمْ هَاهُنَا مَا تَوَضَّأْتُ هَذَا الْوُضُوءَ، سَمِعْتُ خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " تَبْلُغُ الْحِلْيَةُ مِنَ الْمُؤْمِنِ، حَيْثُ يَبْلُغُ الْوَضُوءُ ".
ابو حازم سے روایت ہے، انہوں نےکہا: میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے کھڑا تھا اور وہ نماز کے لیے وضو کر رہے تھے، وہ اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے، یہاں تک کہ بغل تک پہنچ جاتا، میں نے ان سے پوچھا: اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ! یہ کس طرح کا وضو ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اے فروخ کی اولاد (اے بنی فارس)! تم یہاں ہو؟ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ تم لوگ یہاں کھڑے ہو تو میں اس طرح وضو نہ کرتا۔ میں نے ا پنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناتھا: ” مومن کازیور وہاں پہنچے گا جہاں اس کے وضو کا پانی پہنچے گا۔“
ابو حازم بیان کرتے ہیں: کہ میں ابو ہریرہ ؓ کے پیچھے کھڑا تھا، اور وہ نماز کے لیے وضو کر رہے تھے، تو وہ اپنا ہاتھ بڑھا کر بغلوں تک دھوتے تھے، تو میں نے ان سے پوچھا: اے ابو ہریرہ! یہ کس طرح کا وضو ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا: اے فروخ کے بیٹے! تم یہاں ہو؟ اگر مجھے یہ پتا ہوتا، کہ تم یہاں کھڑے ہو، میں اس طرح وضو نہ کرتا، میں نے اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”مومن کا زیور ِ نور وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک اس کے وضو کا پانی پہنچے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه النسائي في ((المجتبي)) 1/ 93 في الطهارة - باب حلية الوضوء انظر ((التحفة)) برقم (13398)»
حدثنا يحيى بن ايوب ، وقتيبة ، وابن حجر ، جميعا، عن إسماعيل بن جعفر ، قال ابن ايوب، حدثنا إسماعيل، اخبرني العلاء ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " الا ادلكم على ما يمحو الله به الخطايا، ويرفع به الدرجات؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: إسباغ الوضوء على المكاره، وكثرة الخطا إلى المساجد، وانتظار الصلاة بعد الصلاة، فذلكم الرباط ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، جَمِيعًا، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا، وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ؟ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ ".
اسماعیل نے بیان کیا کہ انہیں علاء نے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسی جیز سے آگاہ نہ کروں جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے او ر درجات بلند فرماتا ہے؟“ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ناگواریوں (کے) باوجود اچھی طرح وضو کرنا، مساجد تک زیادہ قدم چلنا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، سو یہی رباط (شیطان کے خلاف جنگ کی چھاؤنی) ہے۔“
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمھیں ایسی چیز سے آگاہ نہ کروں جس سے اللہ تعالیٰ تمھارے گناہ مٹا دے، اور اس سے درجات بلند فرمائے؟“ صحابہ ؓ نے عرض کیا: کیوں نہیں، ا ے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تکالیف کے باوجود مکمل وضو کرنا، زیادہ قدم چل کر مساجد میں پہنچنا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اور یہی اپنے آپ کو پابند بنانا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في الطهارة، باب: ما جاء في اسباغ الوضوء برقم (51) انظر ((التحفة)) برقم (13981)»
(بجائے اسماعیل کے) مالک اور شعبہ نے اسی سند کے ساتھ علاء بن عبدالرحمن سے روایت کی، شعبہ کی حدیث میں ”رباط“ کا تذکرہ نہیں ہے جبکہ مالک کی حدیث میں دوبارہ ہے: ”یہی رباط ہے، یہی رباط ہے۔“
(مالک اور شعبہ) نے علاء بن عبدالرحمٰن کی مذکورہ بالا سند سے روایت سنائی، شعبہ کی روایت میں ”رباط“ کا ذکر نہیں، اور مالک کی روایت میں: «فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ» دو دفعہ ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه النسائي في ((المجتبي)) 1 / 89 - 90 في الطهارة، باب: الفضل في ذلك انظر ((التحفة)) برقم (14087)»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میں مسلمانوں کو (زہیر کی روایت میں ہے: اپنی امت کو) مشقت میں ڈال دوں گا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔“
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا، کہ مومنوں کو مشقت ہو گی، (زہیر کی روایت میں ہے: ”میری امت پر مشقت پڑ جائے گی“) تو میں ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد في ((سننه)) في الطهارة، باب: السواك برقم (46) والنسائي في ((الجمتبى))266/1۔268 في الصلاة، باب: ما يستحب من تاخير العشاء وابن ماجه في ((سننه)) في الصلاة، باب: وقت العشاء برقم (690) ولم يذكر قصة السواك - انظر ((التحفة)) برقم (13673)»
مسعر نے مقدام بن شریح سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا، میں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر تشریف لاتے تو کس بات (کام) سے آغاز فرماتے تھے؟انہوں نے فرمایا: مسواک سے۔
مقدام بن شریح اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا: کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر تشریف لاتے، تو سب سے پہلے کیا کام کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: ”سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک فرماتے تھے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد في ((سننه)) فى الطهارة، باب: فى الرجل يستاك بسواك غيره برقم (51) والنسائي في ((المجتبى)) 13/1 فى الطهارة، باب: السواك في كل حين - وابن ماجه في ((سننه)) في الطهارة وسننها، باب: السواك برقم (290) انظر ((التحفة)) برقم (16144)»
سفیان نے مقدام بن شریح سے باقی ماندہ سابقہ سند سے حضرت عائشہ ؓؓؓؓؓؓؓؓؓؓؓؓؓؓسے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر تشریف لاتے تو مسواک سے آغاز فرماتے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے: ”کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر تشریف لاتے تو سب سے پہلے مسواک فرماتے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (589)»
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو مسواک کا ایک کنارا آپ کی زبان پر تھا۔
حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے: ”کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوا، کہ مسواک کا ایک کنارہ آپ کی زبان پر تھا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الوضوء، باب: السواك برقم (244) وابوداؤد في ((سننه)) في الطهارة، باب: كيف يستاك برقم (49) والنسائي في ((المجتبى)) 9/1 في الطهارة، باب: كيف يستاك انظر ((التحفة)) برقم (9123)»
ہشیم نے حصین سے، انہوں نے ابو وائل سے، انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنا دہن مبارک مسواک سے اچھی طرح صاف فرماتے۔
حضرت خذیفہ ؓ سے روایت ہے: ”کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز کے لیے بیدار ہوتے، تو اپنے منھ کو مسواک سے صاف فرماتے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الوضوء، باب: السواك برقم (245) وفي الصلاة، باب: الجمعة، باب: السواك يوم الجمعة برقم (889) وفى التهجد، باب: طول القيام في صلاة الليل برقم (1136) وابوداؤد فى ((سننه)) في الطهارة، باب: السواك لمن قام من الليل برقم (55) والنسائي في ((المجتبى من السنن)) 212/3 في قيام الليل وتطوع النهار، باب: ما يفعل اذا قام من الليل من السواك وفی 212/3 باب ذكر الاختلاف على أبي حصين عثمان بن عاصم في هذا الحديث بلفظ قريب منه۔ وابن ماجه في ((سننه)) في الطهارة، باب: السواك برقم (246) انظر ((التحفة)) برقم (3336)»