معمر نے ثابت سے خبر دی، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کسی ایسے شخص پر قیامت قائم نہ ہو گی جو اللہ اللہ کہتا ہو گا۔“
حضرت ابن عمر ؓ کی مرفوع روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کا آغاز غربت میں ہوا اور ابتدا کی طرح آخر میں غریب ٹھہرے گا، اور وہ دونوں مسجدوں کے درمیان سمٹ آئے گا جیسا کہ سانپ اپنے بل میں آ جاتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (7430)»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” بلاشبہ ایمان مدینہ کی جانب یوں سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنے بل کی جانب سمٹ آتا ہے۔“
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان مدینہ میں لوٹ آئے گا جیسا کہ سانپ اپنے بِل کی طرف لوٹ آتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في فضائل المدينة، باب: الايمان يارز الی المدينة برقم (1876) وابن ماجه في ((سننه)) في المناسك، باب: فضل المدينة برقم (3111) انظر ((التحفة)) برقم (12266)»
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، اخبرنا ثابت ، عن انس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا تقوم الساعة، حتى لا يقال في الارض: الله الله ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لا تَقُومُ السَّاعَةُ، حَتَّى لَا يُقَالَ فِي الأَرْضِ: اللَّهُ اللَّهُ ".
حماد نے کہا: ہمیں ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ (وہ وقت آ جائے گا جب) زمین میں اللہ اللہ نہیں کہا جارہا ہو گا۔“
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ زمین پر اللہ اللہ کی آواز بھی نہیں آئے گی۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (344)»
معمر نے ثابت سے خبر دی، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کسی ایسے شخص پر قیامت قائم نہ ہو گی جو اللہ اللہ کہتا ہو گا۔“
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی ایسے انسان پر قیامت قائم نہیں ہو گی جو اللہ اللہ کہتا ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (474)»
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن عبد الله بن نمير ، وابو كريب ، اللفظ لابي كريب، قالوا: حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن شقيق ، عن حذيفة ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: احصوا لي كم يلفظ الإسلام؟ قال: فقلنا: يا رسول الله، اتخاف علينا ونحن ما بين الست مائة إلى السبع مائة؟ قال: " إنكم لا تدرون لعلكم ان تبتلوا، قال: فابتلينا حتى جعل الرجل منا لا يصلي إلا سرا ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، اللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَال: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَحْصُوا لِي كَمْ يَلْفِظُ الإِسْلَامَ؟ قَالَ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَخَافُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ مَا بَيْنَ السِّتِّ مِائَةِ إِلَى السَّبْعِ مِائَةِ؟ قَالَ: " إِنَّكُمْ لَا تَدْرُونَ لَعَلَّكُمْ أَنْ تُبْتَلَوْا، قَالَ: فَابْتُلِيَنَا حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ مِنَّا لَا يُصَلِّي إِلَّا سِرًّا ".
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، انہوں نے کہا: ہم رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے فرمایا: ” میرے لیے شمار کرو کہ کتنے (لوگ) اسلام کے الفاظ بولتے ہیں (اسلام کا کلمہ پڑھتے ہیں؟)“ حذیفہ نے کہا: تب ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کو ہم پر (کوئی مصیبت نازل ہو جانے کا) خوف ہے جبکہ ہم چھ سات سال سو کے درمیان ہیں؟ آپ نے فرمایا: ” تم نہیں جانتے، ہو سکتا ہے تم کسی آزمائش میں ڈال دیے جاؤ۔“ پھر ہم آزمائش میں ڈال دیے گئے یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی شخص پوشیدہ رہے بغیر نماز بھی نہیں پڑھ سکتا تھا۔
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اسلام کے نام لیوا لوگوں کی تعداد گن کر بتاؤ۔“ تو ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا آپ کو ہمارے بارے میں اندیشہ ہے؟ اور ہماری تعداد چھ سات سو کے درمیان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمھیں پتہ نہیں شاید تم آزمائش میں ڈال دیے جاؤ۔“ پھر ہم آزمائش میں مبتلا ہو گئے، یہاں تک کہ ہم میں بعض لوگ نماز بھی چھپ کر پڑھتے تھے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الجهاد، باب: كتابة الامام الناس برقم (3060 و 3061) وابن ماجه في ((سننه)) في الفتن، باب: الصبر علی البلاء برقم (4029) انظر ((التحفة)) برقم (3338)»
68. باب: کمزور ایمان والے کی تالیف قلبی کرنا، اور بغیر دلیل کے کسی کو قطعی مومن کہنے کی ممانعت۔
Chapter: Being kind to one for whose faith there is concern because it is weak; Prohibition of attributing Faith to someone without definitive evidence
حدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عامر بن سعد ، عن ابيه ، قال: قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم قسما، فقلت: يا رسول الله، اعط فلانا فإنه مؤمن، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: او مسلم، اقولها ثلاثا، ويرددها علي ثلاثا، او مسلم، ثم قال: " إني لاعطي الرجل وغيره احب إلي منه، مخافة ان يكبه الله في النار ".حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسْمًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطِ فُلَانًا فَإِنَّهُ مُؤْمِنٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: أَوْ مُسْلِمٌ، أَقُولُهَا ثَلَاثًا، وَيُرَدِّدُهَا عَلَيَّ ثَلَاثًا، أَوْ مُسْلِمٌ، ثُمَّ قَالَ: " إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ، مَخَافَةَ أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ فِي النَّارِ ".
سفیان نے زہری سے حدیث بیان کی، انہوں نے عامر بن سعد (بن ابی وقاص) سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیم کا کچھ مال بانٹا تو میں نے عرض کی، اللہ کے رسول! فلاں کو بھی دیجیے کیونکہ وہ مومن ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یامسلمان ہے۔“ میں تین بار یہ بات کہتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین بار میرے سامنے یہی الفاظ دہراتے ہیں ”یامسلمان ہے۔“ پھر آپ نے فرمایا: ” میں ایک آدمی کو دیتا ہوں جبکہ دوسرا مجھے اس سے زیادہ پیارا ہوتا ہے، اس ڈر سے کہ کہیں اللہ اس کو اندھے منہ آگ میں (نہ) ڈال دے۔“
عامر بن سعدؒ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال تقسیم کیا تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! فلاں کو بھی دیجیے وہ مومن ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا مسلمان ہے“ میں نے تین دفعہ گزارش کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تینوں دفعہ یہی جواب دیا: ”یا مسلمان۔“ پھر آپؐ نے فرمایا: ”میں ایک آدمی کو دیتا ہوں حالانکہ اس کے مقابلے میں دوسرا آدمی مجھے زیادہ پسند ہوتا ہے، کہ کہیں اللہ اس کو اوندھے منھ جہنم میں نہ ڈال دے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الايمان، باب: اذا لم يكن الاسلام على الحقيقة، وكان الاستسلام أو الخوف من القتل لقوله تعالى: ﴿ قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا... الآية ﴾ برقم (27) وفى الزكاة، باب: قول الله تعالى ﴿ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ﴾ وكم الغنى... الخ برقم (1478) والمولف [مسلم] في الزكاة، باب: اعطاء من يخاف علی ایمانه برقم (2430 و 2431) وابوداؤد في ((سننه))، باب: الدليل على زيادة الايمان ونقصانه برقم (4683 و 4685) والنسائي في ((المجتبى)) 104/8 في الايمان، باب: تاویل قوله عز وجل ﴿ قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا... الآية ﴾ - انظر ((التحفة)) برقم (3890)»
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه ، قال: اخبرني عامر بن سعد بن ابي وقاص ، عن ابيه سعد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، اعطى رهطا، وسعد جالس فيهم، قال سعد: فترك رسول الله صلى الله عليه وسلم، منهم من لم يعطه وهو اعجبهم إلي، فقلت: يا رسول الله، ما لك عن فلان، فوالله إني لاراه مؤمنا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: او مسلما، قال: فسكت قليلا، ثم غلبني ما اعلم منه، فقلت: يا رسول الله، ما لك عن فلان، فوالله إني لاراه مؤمنا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: او مسلما، قال: فسكت قليلا، ثم غلبني ما علمت منه، فقلت: يا رسول الله، ما لك عن فلان، فوالله إني لاراه مؤمنا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " او مسلما، إني لاعطي الرجل وغيره احب إلي منه، خشية ان يكب في النار على وجهه ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَعْطَى رَهْطًا، وَسَعْدٌ جَالِسٌ فِيهِمْ، قَالَ سَعْدٌ: فَتَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ مَنْ لَمْ يُعْطِهِ وَهُوَ أَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْ مُسْلِمًا، قَالَ: فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْ مُسْلِمًا، قَالَ: فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا عَلِمْتُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَوْ مُسْلِمًا، إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ، خَشْيَةَ أَنْ يُكَبَّ فِي النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ ".
ابن شہاب (زہری) کے بھتیجے نے اپنے چچا سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے عامر بن سعد بن ابی وقاص نےاپنے والد سعد رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو کچھ عطا فرمایا، سعد رضی اللہ عنہ بھی ان میں بیٹھے تھے، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک کو چھوڑ دیا، اسے کچھ عطانہ فرمایا، حالانکہ ان سب سے وہی مجھ زیادہ اچھا لگتا تھا، چنانچہ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ نے فلاں سے اعراض کیوں فرمایا؟ اللہ کی قسم! میں اسے مومن سمجھتا ہوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” یا مسلمان۔“ سعد نے کہا: پھر میں تھوڑی دیر کے لیے چپ ہو گیا، پھر مجھ پر اس بات کا غلبہ ہوا جو میں اس کے بارے میں جانتا تھا تو میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!فلاں سے آپ نے اعراض کیوں فرمایا؟ اللہ کی قسم!میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” یامسلمان۔“ تو میں تھوڑی دیر کے لیے چپ ہو گیا، پھر مجھ پر اس بات کاغلبہ ہوا جو میں اس کے بارے میں جانتا تھا، چنانچہ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! فلاں سے آپ نے اعراض کیوں فرمایا؟ کیونکہ اللہ کی قسم! میں نے اسے مومن سمجھتا ہوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا مسلمان۔ بلا شبہ میں ایک آدمی کو (عطیہ) دیتا ہوں۔ حالانکہ دوسرا مجھے اس سے زیادہ پیارا ہوتا ہے، اس بات سے ڈرتےہوئے کہ اسے منہ کے بل آگ میں ڈال دیا جائے گا۔“
عامر بن سعد بن ابی وقاصؒ اپنے باپ سعد ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ کو کچھ مال دیا اور سعدؓ بھی ان میں بیٹھے ہوئے تھے، تو آپ نے ان میں سے ایک آدمی کو چھوڑ دیا، اس کو کچھ نہ دیا حالانکہ وہ مجھے اُن سب سے اچھا لگتا تھا، تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! فلاں سے اعراض کی وجہ کیا ہے؟۔ (آپؐ نے اس کو کیوں نہیں دیا) میں تو اللہ کی قسم اس کو مومن سمجھتا ہوں، تو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(مومن) یا مسلمان۔“ تو میں کچھ دیر کے لیے چپ ہو گیا۔ پھر میں اس کے بارے میں جو کچھ جانتا تھا، اس کا مجھ پر غلبہ ہوا تو میں نے دوبارہ عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! آپ نے فلاں کو کیوں چھوڑ دیا؟ اللہ کی قسم! میں تو اس کو مومن جانتا ہوں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا مسلمان۔“ تو پھر کچھ وقت خاموش رہا، پھر میں اس کے بارے میں جو علم رکھتا تھا اس نے غلبہ کیا، میں نے تیسری بار عرض کیا: (پہلی بات دہرائی) کہ اے اللہ کے رسولؐ! آپ نے فلاں کو کیوں نظر انداز فرمایا؟ اللہ کی قسم! میں تو اس کو مومن سمجھتا ہوں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا مسلمان، میں ایک آدمی کو دیتا ہوں حالانکہ دوسرا مجھے زیادہ پسند ہوتا ہے اس اندیشہ سے کہ اللہ اس کو اوندھے منہ آگ میں نہ ڈال دے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (376)»
صالح نے ابن شہاب سے روایت کی، انہوں نے کہا: مجھے عامر بن سعد نے اپنے والد (حضرت) سعد رضی اللہ عنہ سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو (عطیہ) دیا اورمیں ان میں بیٹھا تھا ..... آگے ابن شہاب کے بھتیجے کی اپنے چچا سے روایت کی طرح ہے اور اتنا اضافہ ہے: ”میں اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور سرگوشی کرتے ہوئے آپ سے عرض کی: فلاں سے آپ نے اعراض کیوں فرمایاا
عامر بن سعیدؒ اپنے باپ سے بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال دیا اور میں بھی ان میں بیٹھا ہوا تھا۔ اوپر کی روایت میں اتنا اضافہ ہے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر آپؐ سے سرگوشی کی، اور عرض کیا: فلاں سے آپؐ نے اعراض کیوں فرمایا؟۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (376)»
(عامر بن سعد کے بھائی) محمد بن سعد یہ حدیث بیان کرتے ہیں، انہوں نے اپنی حدیث میں کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی) گردن اور کندھے کے درمیان اپناہاتھ مار، پھر فرمایا: ” کیا لڑائی کر رہے ہو سعد؟ کہ میں ایک آدمی کو دیتا ہوں .....“
محمد بن سعدؒ نے اپنی حدیث میں یہ الفاظ کہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گردن اور کندھے کے درمیان اپنا ہاتھ مارا، پھر فرمایا: ”اے سعد! کیا لڑائی کرو گے؟ میں ایک آدمی کو دیتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الزكاة، باب: قول الله تعالی ﴿ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ﴾ برقم (1478) والمولف [مسلم] في الزكاة، باب: اعطاء من يخاف علی ايمانه برقم (2432) انظر (((التحفة)) برقم (3921)»
وحدثني حرملة بن يحيى ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن وسعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " نحن احق بالشك من إبراهيم عليه السلام، إذ قال: رب ارني كيف تحيي الموتى قال اولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي سورة البقرة آية 260، قال: ويرحم الله لوطا، لقد كان ياوي إلى ركن شديد، ولو لبثت في السجن طول، لبث يوسف لاجبت الداعي.وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلامُ، إِذْ قَالَ: رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي سورة البقرة آية 260، قَالَ: وَيَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا، لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ، وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ، لَبْثِ يُوسُفَ لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ.
یونس نے ابن شہاب زہری سے خبر دی، انہوں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن اور سعید بن مسیب سے روایت کی، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ہم ابراہیم سے زیادہ شک کرنے کا حق رکھتے ہیں، جب انہوں نے کہا تھا: ” اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تمہیں یقین نہیں؟ کہا: کیوں نہیں! لیکن (میں اس لیے جاننا چاہتا ہوں) تاکہ میرا دل مطمئن ہو جائے۔“ آپ نے فرمایا: ” اور اللہ لوط رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے، (وہ کسی سہارے کی تمنا کر رہے تھے) حالانکہ انہوں نے ایک مضبوط سہارے کی پناہ لی ہوئی تھی۔ اور اگر میں قید خانے میں یوسف رضی اللہ عنہ جتنا طویل عرصہ ٹھہرتا تو (ہوسکتا ہے) بلانے والے کی بات مان لیتا۔“(عملاً آپ نے دوسرے انبیاء سے بڑھ کر ہی صبر و تحمل سے کام لیا۔)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم ابراہیم ؑ سے شک کرنے کے زیادہ مستحق ہیں، جب انھوں نے کہا تھا: ”اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ ابراہیم ؑ نے جواب دیا: کیوں نہیں (مجھے یقین ہے) لیکن میں چاہتا ہوں میرا دل (مشاہدہ سے) اور زیادہ مطمئن ہو جائے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ لوط ؑ پر رحم فرمائے! وہ ایک مضبوط ستون کی پناہ چاہتے تھے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر قید خانہ میں، میں یوسف علیہ السلام جتنا طویل عرصہ ٹھہرتا تو بلانے والے کے بلاوے پر فوراً عمل کرتا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التفسير، باب: ﴿ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ﴾ برقم (4537) وفي باب: ﴿ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ..... ﴾ برقم (4694) والمؤلف (مسلم) في الفضائل، باب: من فضائل ابراهيم الخليل عليه السلام برقم (6094) وابن ماجه في ((سننه)) في الفتن، باب: الصبر على البلاء برقم (4026) انظر ((التحفة)) برقم (13325 و 15313)»