حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی تو میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کے کان میں اذان دی۔
حدثنا خلف بن الوليد ، قال: حدثنا ابو جعفر يعني الرازي ، عن شرحبيل ، عن ابي رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: اهديت له شاة، فجعلها في القدر، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ما هذا يا ابا رافع؟" , فقال: شاة اهديت لنا يا رسول الله، فطبختها في القدر، فقال:" ناولني الذراع يا ابا رافع"، فناولته الذراع، ثم قال:" ناولني الذراع الآخر" , فناولته الذراع الآخر، ثم قال:" ناولني الذراع الآخر" , فقال: يا رسول الله، إنما للشاة ذراعان، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما إنك لو سكت، لناولتني ذراعا فذراعا ما سكت"، ثم دعا بماء فمضمض فاه، وغسل اطراف اصابعه، ثم قام فصلى، ثم عاد إليهم، فوجد عندهم لحما باردا، فاكل، ثم دخل المسجد، فصلى، ولم يمس ماء .حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ يَعْنِي الرَّازِيَّ ، عَنْ شُرَحْبِيلَ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أُهْدِيَتْ لَهُ شَاةٌ، فَجَعَلَهَا فِي الْقِدْرِ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَا هَذَا يَا أَبَا رَافِعٍ؟" , فَقَالَ: شَاةٌ أُهْدِيَتْ لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَطَبَخْتُهَا فِي الْقِدْرِ، فَقَالَ:" نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ يَا أَبَا رَافِعٍ"، فَنَاوَلْتُهُ الذِّرَاعَ، ثُمَّ قَالَ:" نَاوِلنِي الذِّرَاعَ الْآخَرَ" , فَنَاوَلْتُهُ الذِّرَاعَ الْآخَرَ، ثُمَّ قَالَ:" نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ الْآخَرَ" , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا لِلشَّاةِ ذِرَاعَانِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَكَتَّ، لَنَاوَلْتَنِي ذِرَاعًا فَذِرَاعًا مَا سَكَتَّ"، ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَمَضْمَضَ فَاهُ، وَغَسَلَ أَطْرَافَ أَصَابِعِهِ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى، ثُمَّ عَادَ إِلَيْهِمْ، فَوَجَدَ عِنْدَهُمْ لَحْمًا بَارِدًا، فَأَكَلَ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَصَلَّى، وَلَمْ يَمَسَّ مَاءً .
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک ہنڈیا میں گوشت پکایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس کی دستی نکال کر دو“، چنانچہ میں نے نکال دی، تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری دستی طلب فرمائی، میں نے وہ بھی دے دی، تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دستی طلب فرمائی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! ایک بکری کی کتنی دستیاں ہوتی ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، اگر تم خاموش رہتے تو اس ہنڈیا سے اس وقت تک دستیاں نکلتی رہتیں جب تک میں تم سے مانگتا رہتا“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر کلی کی، انگلیوں کے پورے دھوئے اور کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے پھر دوبارہ ان کے پاس آئے تو کچھ ٹھنڈا گوشت پڑا ہوا پایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی تناول فرمایا اور مسجد میں داخل ہو کر پانی کو ہاتھ لگائے بغیر نماز پڑھ لی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره فى قصة مناولة الذراع، وهذا إسناد ضعيف لضعف شرحبيل بن سعد، وأبو جعفر الرازي مختلف فيه، وقد اختلف عنه فى هذا الإسناد
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی تو ان کی والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دو مینڈھوں سے ان کا عقیقہ کرنا چاہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی اس کا عقیقہ نہ کرو بلکہ اس کے سر کے بال منڈوا کر اس کے وزن کے برابر چاندی اللہ کے راستے میں صدقہ کر دو، پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی پیدائش پر بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا (اور عقیقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا)۔
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح بھی غیر محرم ہونے کی صورت میں کیا تھا اور ان کے ساتھ تخلیہ بھی غیر محرم ہونے کی حالت میں کیا تھا اور میں ان دونوں کے درمیان قاصد تھا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وقد اختلف على ربيعة بن أبى عبد الرحمن فى وصله وإرساله
حدثنا حسين بن محمد ، قال: حدثنا الفضيل يعني ابن سليمان ، قال: حدثنا محمد بن ابي يحيى ، عن ابي اسماء مولى بني جعفر، عن ابي رافع , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لعلي بن ابي طالب: " إنه سيكون بينك وبين عائشة امر"، قال: انا يا رسول الله، قال:" نعم" , قال: انا، قال:" نعم"، قال: فانا اشقاهم يا رسول الله؟ قال:" لا، ولكن إذا كان ذلك، فارددها إلى مامنها" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَحْيَى ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ مَوْلَى بَنِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: " إِنَّهُ سَيَكُونُ بَيْنَكَ وَبَيْنَ عَائِشَةَ أَمْرٌ"، قَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" نَعَمْ" , قَالَ: أَنَا، قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: فَأَنَا أَشْقَاهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" لَا، وَلَكِنْ إِذَا كَانَ ذَلِكَ، فَارْدُدْهَا إِلَى مَأْمَنِهَا" .
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرما دیا تھا کہ تمہارے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان کچھ شکر نجی ہو جائے گی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں ایسا کروں گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں!“ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر تو میں سب سے زیادہ شقی ہوں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، البتہ جب ایسا ہو جائے تو تم انہیں ان کی پناہ گاہ میں واپس پہنچا دینا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، وهذا من منكرات الفضيل بن سليمان، وقد اضطرب فى إسناده، وأبو أسماء انفرد به
عدیسہ بنت وھبان کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے گھر بھی آئے اور گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر سلام کیا، والد صاحب نے انہیں جواب دیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: ابومسلم! آپ کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا: خیریت سے ہوں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ میرے ساتھ ان لوگوں کی طرف نکل کر میری مدد کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا کہ میرے خلیل اور آپ کے چچازاد بھائی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ جب مسلمانوں میں فتنے رونما ہونے لگیں تو میں لکڑی کی تلوار بنا لوں، یہ میری تلوار حاضر ہے، اگر آپ چاہتے ہیں تو میں یہ لے کر آپ کے ساتھ نکلنے کو تیار ہوں اور وہ یہ لٹکی ہوئی ہے۔
حكم دارالسلام: حسن بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبد الكبير بن الحكم، وقد توبع ، ولجهالة حال عديسة
حدثنا مؤمل ، قال: حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، قال: حدثنا شيخ يقال له ابو عمرو ، عن ابنة لاهبان بن صيفي ، عن ابيها وكانت له صحبة , ان عليا لما قدم البصرة بعث إليه، فقال: ما يمنعك ان تتبعني، فقال: اوصاني خليلي وابن عمك، فقال: " إنه سيكون فرقة واختلاف , فاكسر سيفك، واتخذ سيفا من خشب، واقعد في بيتك حتى تاتيك يد خاطئة , او منية قاضية"، ففعلت ما امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن استطعت يا علي ان لا تكون تلك اليد الخاطئة، فافعل .حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْخٌ يُقَالُ لَهُ أَبُو عَمْرٍو ، عَنْ ابْنَةٍ لِأُهْبَانَ بْنِ صَيْفِيٍّ ، عَنْ أَبِيهَا وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ , أَنَّ عَلِيًّا لَمَّا قَدِمَ الْبَصْرَةَ بَعَثَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَتْبَعَنِي، فَقَالَ: أَوْصَانِي خَلِيلِي وَابْنُ عَمِّكَ، فَقَالَ: " إِنَّهُ سَيَكُونُ فُرْقَةٌ وَاخْتِلَافٌ , فَاكْسِرْ سَيْفَكَ، وَاتَّخِذْ سَيْفًا مِنْ خَشَبٍ، وَاقْعُدْ فِي بَيْتِكَ حَتَّى تَأْتِيَكَ يَدٌ خَاطِئَةٌ , أَوْ مَنِيَّةٌ قَاضِيَةٌ"، فَفَعَلْتُ مَا أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ اسْتَطَعْتَ يَا عَلِيُّ أَنْ لَا تَكُونَ تِلْكَ الْيَدَ الْخَاطِئَةَ، فَافْعَلْ .
عدیسہ بنت وھبان کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے گھر بھی آئے اور گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر سلام کیا، والد صاحب نے انہیں جواب دیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: ابومسلم! آپ کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا: خیریت سے ہوں، حضرت علی نے فرمایا: آپ میرے ساتھ ان لوگوں کی طرف نکل کر میری مدد کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا کہ میرے خلیل اور آپ کے چچا زاد بھائی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا، جب مسلمانوں میں فتنے رونما ہونے لگیں تو میں لکڑی کی تلوار بنا لوں، یہ میری تلوار حاضر ہے، اگر آپ چاہتے ہیں تو میں یہ لے کر آپ کے ساتھ نکلنے کو تیار ہوں اور وہ یہ لٹکی ہوئی ہے۔
حكم دارالسلام: حسن بطرقه وشواهده، أبو عمرو القسملي: يحتمل أنه عبدالله بن عبيد الحميري البصري وإلا فإن أبا عمرو هذا لا يعرف، لكنه توبع، ومؤمل ضعيف
حدثنا سفيان ، عن إبراهيم بن ميسرة ، عن ابن قارب ، عن ابيه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " اللهم اغفر للمحلقين"، قال رجل: والمقصرين؟ قال في الرابعة:" والمقصرين" , يقلله سفيان بيده، قال سفيان: وقال في تيك، كانه يوسع يده.حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنِ ابْنِ قَارِبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ"، قَالَ رَجُلٌ: وَالْمُقَصِّرِينَ؟ قَالَ فِي الرَّابِعَةِ:" وَالْمُقَصِّرِينَ" , يُقَلِّلُهُ سُفْيَانُ بِيَدِهِ، قَالَ سُفْيَانُ: وَقَالَ فِي تِيكَ، كَأَنَّهُ يُوَسِّعُ يَدَهُ.
حضرت قارب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! حلق کرانے والوں کی بخشش فرما۔“ ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! قصر کرانے والوں کے لئے بھی دعا کیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایا: ”اے اللہ! حلق کرانے والوں کی مغفرت فرما“، چوتھی مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قصر کرانے والوں کو بھی اپنی دعاء میں شامل فرما لیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد اختلف فيه على سفيان بن عيينة