حدثنا ابو سعيد , قال: اخبرنا ابو يعقوب يعني إسحاق بن عثمان الكلابي , قال: سمعت خالد بن دريك , يحدث , عن ابي الدرداء , يرفع الحديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يجمع الله في جوف رجل غبارا في سبيل الله , ودخان جهنم , ومن اغبرت قدماه في سبيل الله , حرم الله سائر جسده على النار , ومن صام يوما في سبيل الله , باعد الله عنه النار مسيرة الف سنة للراكب المستعجل , ومن جرح جراحة في سبيل الله , ختم له بخاتم الشهداء , له نور يوم القيامة , لونها مثل لون الزعفران , وريحها مثل ريح المسك , يعرفه بها الاولون والآخرون , يقولون: فلان عليه طابع الشهداء , ومن قاتل في سبيل الله فواق ناقة , وجبت له الجنة" .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ , قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْقُوبَ يَعْنِي إِسْحَاقَ بْنَ عُثْمَانَ الْكِلَابِيَّ , قَالَ: سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ دُرَيْكٍ , يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , يَرْفَعُ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَجْمَعُ اللَّهُ فِي جَوْفِ رَجُلٍ غُبَارًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ , وَدُخَانَ جَهَنَّمَ , وَمَنْ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , حَرَّمَ اللَّهُ سَائِرَ جَسَدِهِ عَلَى النَّارِ , وَمَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ , بَاعَدَ اللَّهُ عَنْهُ النَّارَ مَسِيرَةَ أَلْفِ سَنَةٍ لِلرَّاكِبِ الْمُسْتَعْجِلِ , وَمَنْ جُرِحَ جِرَاحَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ , خَتَمَ لَهُ بِخَاتَمِ الشُّهَدَاءِ , لَهُ نُورٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , لَوْنُهَا مِثْلُ لَوْنِ الزَّعْفَرَانِ , وَرِيحُهَا مِثْلُ رِيحِ الْمِسْكِ , يَعْرِفُهُ بِهَا الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ , يَقُولُونَ: فُلَانٌ عَلَيْهِ طَابَعُ الشُّهَدَاءِ , وَمَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فُوَاقَ نَاقَةٍ , وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایک آدمی کے پیٹ میں جہاد فی سبیل اللہ کا غبار اور جہنم کا دھواں جمع نہیں فرمائے گا، جس شخص کے قدم راہ اللہ میں غبار آلود ہوجائیں، اللہ اس کے سارے جسم کو آگ پر حرام قرار دے دے گا، جو شخص راہ اللہ میں ایک دن کا روزہ رکھ لے، اللہ اس سے جہنم کو ایک ہزار سال کے فاصلے پر دور کردیتا ہے جو ایک تیز رفتار سوار طے کرسکے، جس شخص کو راہ اللہ میں کوئی زخم لگ جائے یا تکلیف پہنچ جائے تو قیامت کے دن اس سے بھی زیادہ رستا ہوا آئے گا لیکن اس دن اس کا رنگ زعفران جیسا اور مہک مشک جیسی ہوگی اور جس شخص کو راہ اللہ میں کوئی زخم لگ جائے تو اس پر شہدا کی مہر لگ جاتی ہے، اولین و آخرین اسے اس کے ذریعے پہچان کر کہیں گے کہ فلاں آدمی پر شہدا کی مہر اور جو مسلمان آدمی راہ اللہ میں اونٹنی کے تھنوں میں دودھ اترنے کے وقفے برابر قتال کرے، اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده دون قوله: "ألف سنة للراكب المستعجل.." وقوله: يعرفه بها الأولون...الشهداء، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، خالد بن دريك لم يدرك أبا الدرداء
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کے ہمراہ کسی سفر میں تھے اور گرمی کی شدت سے اپنے سر پر اپنا ہاتھ رکھتے جاتے تھے اور اس موقع پر نبی اور حضرت عبداللہ بن رواحہ کے علاوہ ہم میں سے کسی کا روزہ نہ تھا۔
حدثنا وكيع , قال: حدثنا سفيان , عن الاعمش , عن ثابت , او عن ابي ثابت , ان رجلا دخل مسجد دمشق , فقال: اللهم آنس وحشتي , وارحم غربتي , وارزقني جليسا حبيبا صالحا , فسمعه ابو الدرداء , فقال: لئن كنت صادقا , لانا اسعد بما قلت منك , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " فمنهم ظالم لنفسه سورة فاطر آية 32 , قال: الظالم يؤخذ منه في مقامه , فذلك الهم والحزن , ومنهم مقتصد سورة فاطر آية 32 , يحاسب حسابا يسيرا , ومنهم سابق بالخيرات سورة فاطر آية 32 , فذلك الذين يدخلون الجنة بغير حساب" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنِ ثَابِتٍ , أَوْ عَنْ أَبِي ثَابِتٍ , أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ مَسْجِدَ دِمَشْقَ , فَقَالَ: اللَّهُمَّ آنِسْ وَحْشَتِي , وَارْحَمْ غُرْبَتِي , وَارْزُقْنِي جَلِيسًا حَبِيبًا صَالِحًا , فَسَمِعَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ , فَقَالَ: لَئِنْ كُنْتَ صَادِقًا , لَأَنَا أَسْعَدُ بِمَا قُلْتَ مِنْكَ , سمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ سورة فاطر آية 32 , قَالَ: الظَّالِمُ يُؤْخَذُ مِنْهُ فِي مَقَامِهِ , فَذَلِكَ الْهَمُّ وَالْحَزَنُ , وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ سورة فاطر آية 32 , يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا , وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ سورة فاطر آية 32 , فَذَلِكَ الَّذِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ" .
ثاقب یا ابوثاقب سے مروی ہے کہ ایک آدمی مسجد دمشق میں داخل ہوا اور یہ دعاء کی کہ اے اللہ! مجھے تنہائی میں کوئی مونس عطاء فرما، میری اجنبیت پر ترس کھا اور مجھے اچھا رفیق عطاء فرما، حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ نے اس کی یہ دعاء سن لی اور فرمایا کہ اگر تم یہ دعاء صدقے دل سے کر رہے ہو تو اس دعاء کا میں تم سے زیادہ سعادت یافتہ ہوں، میں نے نبی کو قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر میں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ظالم سے اس کے اعمال کا حساب کتاب اسی مقام پر لیا جائے گا اور یہی غم و اندازہ ہوگا یعنی کچھ لوگ درمیانے درجے کے ہوں گے، ان کا آسان حساب لیا جائے گا یہ وہ لوگ ہوں گے جو جنت میں بلا حساب کتاب داخل ہوجائیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ثابت أو أبو ثابت غير منسوب، وقد اختلف فى إسناده على الأعمش
حدثنا علي بن بحر , قال: حدثنا بقية , قال: حدثنا ثابت بن عجلان , قال: حدثني القاسم مولى بني يزيد , عن ابي الدرداء , ان رجلا مر به وهو يغرس غرسا بدمشق , فقال له: اتفعل هذا وانت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم؟! فقال: لا تعجل علي , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " من غرس غرسا لم ياكل منه آدمي , ولا خلق من خلق الله عز وجل , إلا كان له صدقة" , قال عبد الله , قال ابي , قال الاشجعي , يعني عن سفيان , عن الاعمش , عن ابي زياد: دخلت مسجد دمشق.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ عَجْلَانَ , قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ مَوْلَى بَنِي يَزِيدَ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , أَنَّ رَجُلًا مَرَّ بِهِ وَهُوَ يَغْرِسُ غَرْسًا بِدِمَشْقَ , فَقَالَ لَهُ: أَتَفْعَلُ هَذَا وَأَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! فَقَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " مَنْ غَرَسَ غَرْسًا لَمْ يَأْكُلْ مِنْهُ آدَمِيٌّ , وَلَا خَلْقٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , إِلَّا كَانَ لَهُ صَدَقَةً" , قَالَ عَبْد اللَّهِ , قَالَ أَبِي , قَالَ الْأَشْجَعِيُ , يَعْنِي عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي زِيَادٍ: دَخَلْتُ مَسْجِدَ دِمَشْقَ.
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ ایک دن دمشق میں ایک پودا لگا رہے تھے کہ ایک آدمی ان کے پاس سے گذرا اور کہنے لگا کہ آپ نبی کے صحابی ہو کر یہ کام کر رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا جلد بازی سے کام نہ لو، میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کوئی پودا لگائے، اسے جو انسان یا اللہ کی کوئی مخلوق کھائے، وہ اس کے لئے صدقہ بن جاتا ہے۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف من أجل بقية ، وهو يدلس تدليس التسوية
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابودرداء دوسری راتوں کو چھوڑ کر صرف شب جمعہ کو قیام کے لئے اور دوسرے دنوں کو چھوڑ کر صرف جمعہ کے دن کو روزے کے لئے مخصوص نہ کیا کرو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، محمد بن سيرين لم يسمع من أبى الدرداء، واختلف فيه على محمد بن سيرين
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں نماز، روزہ اور زکوٰۃ سے افضل درجے کا عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن لوگوں میں جدائیگی ہوگئی ہو، ان میں صلح کروانا، جبکہ ایسے لوگوں میں پھوٹ اور فساد ڈالنا مونڈنے والی چیز ہے (جو دین کو مونڈ کر رکھ دیتی ہے)۔
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی آدمی کی کوئی بات سنے اور وہ یہ نہ چاہتا ہو کہ اس بات کو اس کے حوالے سے ذکر کیا جائے تو وہ امانت ہے، اگرچہ وہ سے مخفی رکھنے کے لئے نہ کہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالله بن الوليد، وعبدالله بن عبيد لم يسمع من أبى الدرداء
حدثنا عبد الرزاق , قال: اخبرنا سفيان , عن الاعمش , عن ذكوان , عن رجل , عن ابي الدرداء , عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله عز وجل لهم البشرى في الحياة الدنيا وفي الآخرة سورة يونس آية 64 , قال: " الرؤيا الصالحة يراها المسلم او ترى له" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ , عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنْ ذَكْوَانَ , عَنْ رَجُلٍ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة يونس آية 64 , قَالَ: " الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرَى لَهُ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت قرآنی لھم البشری فی الحیاۃ الدنیا میں بشری کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد اچھے خواب ہیں جو کوئی مسلمان دیکھے یا اس کے حق میں کوئی دوسرا دیکھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن أبى الدرداء، وقد اختلف فى إسناده
حدثنا عبد الرزاق , قال: اخبرنا سفيان , عن عطاء بن السائب , عن ابي عبد الرحمن السلمي , قال: كان فينا رجل لم تزل به امه ان يتزوج حتى تزوج , ثم امرته ان يفارقها , فرحل إلى ابي الدرداء بالشام , فقال: إن امي لم تزل بي حتى تزوجت , ثم امرتني ان افارق , قال: ما انا بالذي آمرك ان تفارق , وما انا بالذي آمرك ان تمسك , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " الوالد اوسط ابواب الجنة" , فاضع ذلك الباب , او احفظه , قال: فرجع وقد فارقها.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ , عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ , قَالَ: كَانَ فِينَا رَجُلٌ لَمْ تَزَلْ بِهِ أُمُّهُ أَنْ يَتَزَوَّجَ حَتَّى تَزَوَّجَ , ثُمَّ أَمَرَتْهُ أَنْ يُفَارِقَهَا , فَرَحَلَ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ بِالشَّامِ , فَقَالَ: إِنَّ أُمِّي لَمْ تَزَلْ بِي حَتَّى تَزَوَّجْتُ , ثُمَّ أَمَرَتْنِي أَنْ أُفَارِقَ , قَالَ: مَا أَنَا بِالَّذِي آمُرُكَ أَنْ تُفَارِقَ , وَمَا أَنَا بِالَّذِي آمُرُكَ أَنْ تُمْسِكَ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ" , فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ , أَوْ احْفَظْهُ , قَالَ: فَرَجَعَ وَقَدْ فَارَقَهَا.
ابو عبد الرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ ہم میں ایک آدمی تھا، اس کی والدہ اس کے پیچھے پڑی رہتی تھی کہ شادی کرلو، جب اس نے شادی کرلی تب اس کی ماں نے اسے حکم دیا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے (اس نے انکار کردیا) پھر وہ آدمی حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا میں تمہیں اسے طلاق دینے کا مشورہ دیتا ہوں اور نہ ہی اپنے پاس رکھنے کا، البتہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ باپ جنت کا درمیانہ دروازہ ہے، اب تمہاری مرضی ہے کہ اس کی حفاظت کرو یا اسے چھوڑ دو، وہ آدمی چلا گیا اور اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔
حدثنا علي بن عاصم , حدثنا سهيل بن ابي صالح , عن عبد الله بن يزيد السعدي , قال: امرني ناس من قومي ان اسال سعيد بن المسيب , عن سنان, يحددونه ويركزونه في الارض , فيصبح وقد قتل الضبع , اتراه ذكاته؟ قال: فجلست إلى سعيد بن المسيب , فإذا عنده شيخ ابيض الراس واللحية من اهل الشام , فسالته عن ذلك؟ فقال لي: وإنك لتاكل الضبع؟ قال: قلت: ما اكلتها قط , وإن ناسا من قومي لياكلونها , قال: فقال: إن اكلها لا يحل , قال: فقال الشيخ : يا عبد الله , الا احدثك بحديث سمعته من ابي الدرداء , يرويه عن النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: قلت: بلى , قال: فإني سمعت ابا الدرداء , يقول: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن " كل ذي خطفة , وعن كل نهبة , وعن كل مجثمة , وعن كل ذي ناب من السباع" , قال: فقال سعيد بن المسيب: صدق.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ , حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ السَّعْدِيِّ , قَالَ: أَمَرَنِي نَاسٌ مِنْ قَوْمِي أَنْ أَسْأَلَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ , عَنْ سِنَانٍ, يُحَدِّدُونَهُ وَيُرَكِّزُونَهُ فِي الْأَرْضِ , فَيُصْبِحُ وَقَدْ قَتَلَ الضَّبُعَ , أَتُرَاهُ ذَكَاتَهُ؟ قَالَ: فَجَلَسْتُ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ , فَإِذَا عِنْدَهُ شَيْخٌ أَبْيَضُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ , فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَ لِي: وَإِنَّكَ لَتَأْكُلُ الضَّبُعَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مَا أَكَلْتُهَا قَطُّ , وَإِنَّ نَاسًا مِنْ قَوْمِي لَيَأْكُلُونَهَا , قَالَ: فَقَالَ: إِنَّ أَكْلَهَا لَا يَحِلُّ , قَالَ: فَقَال َ الشَّيْخُ : يَا عَبْدَ اللَّهِ , أَلَا أُحَدِّثُكَ بِحَدِيثٍ سَمِعْتُه ُ مِنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , يَرْوِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى , قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ , يَقُولُ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ " كُلِّ ذِي خِطْفَةٍ , وَعَنْ كُلِّ نُهْبَةٍ , وَعَنْ كُلِّ مُجَثَّمَةٍ , وَعَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ" , قَالَ: فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ: صَدَقَ.
عبداللہ بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسًیب سے گوہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اسے مکروہ قرار دیا، میں نے ان سے کہا کہ آپ کی قوم تو اسے کھاتی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ انہیں معلوم نہیں ہوگا، اس پر وہاں موجود ایک آدمی نے کہا کہ میں نے حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس جانور سے منع فرمایا ہے جو لوٹ مار سے حاصل ہو، جسے اچک لیا گیا ہو یا ہر وہ درندہ جو اپنے کچلی والے دانتوں سے شکار کرتا ہو، حضرت سعید بن مسیًب نے اس کی تصدیق فرمائی۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن يزيد