حضرت ام مالک بہزیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”فتنہ کے زمانے میں لوگوں میں سب سے بہترین آدمی وہ ہو گا جو اپنے مال کے ساتھ الگ تھلگ رہ کر اپنے رب کی عبادت کرتا ہو اور اس کا حق ادا کرتا ہو اور دوسرا وہ آدمی جو راہ اللہ میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑ کر نکلے، وہ دشمن کو خوف زدہ کرے اور دشمن اسے خوفزدہ کرے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث بن أبى سليم، وقد اختلف فيه على طاووس
حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لائے اور ان کے ہاں شانے کا گوشت ہڈی سے نوچ کر تناول فرمایا، پھر نماز ادا فرمائی اور تازہ وضو نہیں کیا۔
حكم دارالسلام: ترك الوضوء مما مست النار صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على قتادة
حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لائے اور ان کے ہاں شانے کا گوشت ہڈی سے نوچ کر تناول فرمایا، پھر نماز ادا فرمائی اور تازہ وضو نہیں کیا۔
حكم دارالسلام: ترك الوضوء مما مست النار صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على قتادة
حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مر تبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لائے اور ان کے یہاں شانے کا گوشت ہڈی سے نوچ کر تناول فرمایا، پھر نماز ادا فرمائی اور تازہ وضو نہیں کیا۔
حكم دارالسلام: ترك الوضوء مما مست النار صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على قتادة
حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لائے اور ان کے یہاں شانے کا گوشت ہڈی سے نوچ کر تناول فرمایا، پھر نماز ادا فرمائی اور تازہ وضو نہیں کیا۔
حكم دارالسلام: ترك الوضوء مما مست النار صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على قتادة
حضرت ضباعہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ان کے پاس آئے اور فرمایا: ”تم حج کا احرام باندھ لو اور یہ نیت کر لو کہ اے اللہ! جہاں تو مجھے روک دے گا وہی جگہ میرے احرام کھل جانے کی ہو گی۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد خولف فيه يحيى بن أبى كثير
حضرت ضباعہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ عرض کیا: یا رسول اللہ! میں حج کرنا چاہتی ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم حج کا احرام باندھ لو اور یہ نیت کر لو کہ اے اللہ! جہاں تو مجھے روک دے گا وہی جگہ میرے احرام کھل جانے کی ہو گی۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، شيخ عبدالكريم الجزري المبهم فى الإسناد هو عكرمة مولي ابن عباس
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور دمِ حیض کے مستقل جاری رہنے کی شکایت کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ تو ایک رگ کا خون ہے اس لئے یہ دیکھ لیا کرو کہ جب تمہارے ایام حیض کا وقت آ جائے تو نماز نہ پڑھا کرو اور جب وہ زمانہ گزر جائے تو اپنے آپ کو پاک سمجھ کر طہارت حاصل کیا کرو اور اگلے ایام تک نماز پڑھتی رہا کرو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لجهالة المنذر بن المغيرة، وقد اختلف فيه على عروة بن الزبير
حدثنا ابن نمير , قال: حدثنا الاعمش , عن ابي سفيان , قال: سمعت جابرا , قال: حدثتني ام مبشر امراة زيد بن حارثة , قالت: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم في حائط , فقال:" لك هذا؟" , فقلت: نعم , فقال:" من غرسه مسلم او كافر؟" , قلت: مسلم , قال: " ما من مسلم يزرع او يغرس غرسا , فياكل منه طائر , او إنسان , او سبع او شيء , إلا كان له صدقة" , قال ابي: ولم يكن في النسخة , سمعت جابرا , فقال ابن نمير: سمعت جابرا.حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا , قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ مُبَشِّرٍ امْرَأَةِ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ , قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ , فَقَالَ:" لَكِ هَذَا؟" , فَقُلْتُ: نَعَمْ , فَقَالَ:" مَنْ غَرَسَهُ مُسْلِمٌ أَوْ كَافِرٌ؟" , قُلْتُ: مُسْلِمٌ , قَالَ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَزْرَعُ أَوْ يَغْرِسُ غَرْسًا , فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَائِرٌ , أَوْ إِنْسَانٌ , أَوْ سَبُعٌ أَوْ شَيْءٌ , إِلَّا كَانَ لَهُ صَدَقَةً" , قَالَ أَبِي: وَلَمْ يَكُنْ فِي النُّسْخَةِ , سَمِعْتُ جَابِرًا , فَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: سَمِعْتَ جابرًا.
حضرت ام مبشر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں کسی باغ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا یہ تمہارا ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اس کے پودے کسی مسلمان نے لگائے ہیں یا کافر نے؟“ میں نے عرض کیا: مسلمان نے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو مسلمان کوئی پودہ لگائے یا کوئی فصل اگائے اور اس سے انسان، پرندے، درندے یا چوپائے کھائیں تو وہ اس کے لئے باعث صدقہ ہے۔“
حدثنا حجاج , قال: اخبرني ابن جريج , قال: اخبرني ابو الزبير , انه سمع جابرا , قال: حدثتني ام مبشر , انها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم عند حفصة , يقول: " لا يدخل النار إن شاء الله من اصحاب الشجرة احد , الذين بايعوا تحتها" , فقالت: بلى , يا رسول الله , فانتهرها , فقالت حفصة: وإن منكم إلا واردها سورة مريم آية 71 فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" قد قال الله عز وجل ثم ننجي الذين اتقوا ونذر الظالمين فيها جثيا سورة مريم آية 72" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ , أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا , قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ مُبَشِّرٍ , أَنَّها سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ حَفْصَةَ , يَقُولُ: " لَا يَدْخُلُ النَّارَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَحَدٌ , الَّذِينَ بَايَعُوا تَحْتَهَا" , فَقَالَتْ: بَلَى , يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَانْتَهَرَهَا , فَقَالَتْ حفْصَةُ: وَإِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا سورة مريم آية 71 فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا سورة مريم آية 72" .
حضرت ام مبشر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ارشاد فرمایا: ”مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ غزوہ بدر اور حدیبیہ میں شریک ہونے والا کوئی آدمی جہنم میں داخل نہ ہو گا“، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نہیں فرماتا کہ «وَإِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا»”تم میں سے ہر شخص اس میں وارد ہو گا۔“ تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: «ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا»”پھر ہم متقی لوگوں کو نجات دے دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پڑا رہنے کے لئے چھوڑ دیں گے۔“