حدثنا علي بن عاصم , حدثني ابو ريحانة , قال ابي: وسماه علي عبد الله بن مطر , قال: اخبرني سفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " كان يوضئه المد , ويغسله الصاع من الجنابة" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ , حَدَّثَنِي أَبُو رَيْحَانَةَ , قَالَ أَبِي: وَسَمَّاهُ عَلِيٌّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَطَرٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي سَفِينَةُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يُوَضِّئُهُ الْمُدُّ , وَيَغْسِلُهُ الصَّاعُ مِنَ الْجَنَابَةِ" .
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے لئے ایک مد پانی رکھتے تھے اور غسل جنابت کے لئے ایک صاع پانی رکھتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، م: 326، وهذا إسناد ضعيف من أجل على بن عاصم، وقد توبع
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم , حدثنا ابو ريحانة , عن سفينة صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يغتسل بالصاع , ويتطهر بالمد" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , حَدَّثَنَا أَبُو رَيْحَانَةَ , عَنْ سَفِينَةَ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ , وَيَتَطَهَّرُ بِالْمُدِّ" .
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع پانی سے غسل اور ایک مد پانی سے وضو فرما لیا کرتے تھے۔
حدثنا بهز , حدثنا حماد بن سلمة , عن سعيد بن جمهان , عن سفينة , قال: كنا في سفر , قال: فكان كلما اعيا رجل القى علي ثيابه ترسا , او سيفا , حتى حملت من ذلك شيئا كثيرا , قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" انت سفينة" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ , عَنْ سَفِينَةَ , قَالَ: كُنَّا فِي سَفَرٍ , قَالَ: فَكَانَ كُلَّمَا أَعْيَا رَجُلٌ أَلْقَى عَلَيَّ ثِيَابَهُ تُرْسًا , أَوْ سَيْفًا , حَتَّى حَمَلْتُ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا كَثِيرًا , قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْتَ سَفِينَةُ" .
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے جب کوئی آدمی تھک جاتا تو وہ اپنی تلوار، ڈھال اور نیزہ مجھے پکڑا دیتا، اس طرح میں نے بہت ساری چیزیں اٹھا لیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج تو تم سفینہ (کشتی) کا کام دے رہے ہو۔
حدثنا بهز , حدثنا حماد , اخبرنا سعيد بن جمهان , حدثنا سفينة , ان رجلا ضاف عليا رضي الله عنه , فصنع له طعاما , فقالت فاطمة لعلي: لو دعوت النبي صلى الله عليه وسلم فاكل معنا , فدعوناه فجاء , فاخذ بعضادتي الباب وقد ضربنا قراما في ناحية البيت , فلما رآه رجع , قالت فاطمة لعلي: الحقه فانظر ما رجعه؟ قال: ما ردك يا نبي الله؟ قال: " ليس لنبي ان يدخل بيتا مزوقا" ..حَدَّثَنَا بَهْزٌ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , أخبرَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ , حَدَّثَنِا سَفِينَةُ , أَنَّ رَجُلًا ضَافَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , فَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا , فَقَالَتْ فَاطِمَةُ لِعَلِيٍّ: لَوْ دَعَوْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَ مَعَنَا , فَدَعَوْنَاهُ فَجَاءَ , فَأَخَذَ بِعِضَادَتَيْ الْبَابِ وَقَدْ ضَرَبْنَا قِرَامًا فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ , فَلَمَّا رَآهُ رَجَعَ , قَالَتْ فَاطِمَةُ لِعَلِيٍّ: الْحَقْهُ فَانْظُرْ مَا رَجَعَهُ؟ قَالَ: مَا رَدَّكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ: " لَيْسَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتًا مُزَوَّقًا" ..
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہاں ایک آدمی مہمان بن کر آیا انہوں نے اس کے لئے کھانا تیار کیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کہنے لگیں کہ اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لیتے تو وہ بھی ہمارے ساتھ کھانا کھالیتے، چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دروازے کے کو اڑوں کو پکڑا تو دیکھا کہ گھر کے ایک کونے میں ایک پردہ لٹک رہا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھتے ہی واپس چلے گئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ان کے پیچھے جائیے اور واپس جانے کی وجہ پوچھئے حضرت علی رضی اللہ عنہ پیچھے پیچھے گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ واپس کیوں آگئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے لئے یا کسی نبی کے لئے ایسے گھر میں داخل ہونا " جو آراستہ و منقش ہو " مناسب نہیں ہے۔
حدثنا ابو كامل بمعناه , قال:" إنه ليس لي , او قال: ليس لنبي ان يدخل بيتا مزوقا".حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ بِمَعْنَاهُ , قَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ لِي , أَوْ قَالَ: لَيْسَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتًا مُزَوَّقًا".
حدثنا يعلى بن عبيد , حدثنا محمد يعني ابن إسحاق , عن يعقوب بن عبد الله بن الاشج , عن ابي امامة بن سهل , عن سعيد بن سعد بن عبادة , قال: كان بين ابياتنا إنسان مخدج ضعيف , لم يرع اهل الدار إلا وهو على امة من إماء الدار يخبث بها , وكان مسلما , فرفع شانه سعد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " اضربوه حده" , قالوا: يا رسول الله , إنه اضعف من ذلك , إن ضربناه مائة قتلناه , قال:" فخذوا له عثكالا فيه مائة شمراخ , فاضربوه به ضربة واحدة وخلوا سبيله" .حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ , عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ , قَالَ: كَانَ بَيْنَ أَبْيَاتِنَا إِنْسَانٌ مُخْدَجٌ ضَعِيفٌ , لَمْ يُرَعْ أَهْلُ الدَّارِ إِلَّا وَهُوَ عَلَى أَمَةٍ مِنْ إِمَاءِ الدَّارِ يَخْبُثُ بِهَا , وَكَانَ مُسْلِمًا , فَرَفَعَ شَأْنَهُ سَعْدٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " اضْرِبُوهُ حَدَّهُ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّهُ أَضْعَفُ مِنْ ذَلِكَ , إِنْ ضَرَبْنَاهُ مِائَةً قَتَلْنَاهُ , قَالَ:" فَخُذُوا لَهُ عِثْكَالًا فِيهِ مِائَةُ شِمْرَاخٍ , فَاضْرِبُوهُ بِهِ ضَرْبَةً وَاحِدَةً وَخَلُّوا سَبِيلَهُ" .
حضرت سعید بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمارے گھروں میں ایک آدمی رہتا تھا جو ناقص الخلقت اور انتہائی کمزور تھا ایک مرتبہ اس نے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا کہ وہ گھر کی ایک لونڈی کے ساتھ " خباثت " کرتا ہوا پکڑا گیا، تھا وہ مسلمان حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے یہ معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر حد جاری کردو، لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ تو اتنا کمزور ہے کہ اگر ہم نے اسے سو کوڑے مارے تو یہ تو مرجائے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر سو ٹہنیوں کا ایک گچھا لو اور اس سے ایک ضرب اسے لگادو اور پھر اس کا راستہ چھوڑ دو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لعنعنة ابن إسحاق، لكن روي الحديث من غير وجه عن أبى أمامة، واختلف عليه فى وصله وإرساله، وأصح هذه الأوجه عنه المرسل، و إرساله لايضر
حدثنا سفيان بن عيينة , عن الزهري , عن سعيد , قال: مر عمر رضي الله عنه بحسان وهو ينشد في المسجد , فلحظ إليه , قال: كنت انشد وفيه من هو خير منك , ثم التفت إلى ابي هريرة , فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " اجب عني , اللهم ايده بروح القدس" , قال: نعم .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ سَعِيدٍ , قَالَ: مَرَّ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِحَسَّانَ وَهُوَ يُنْشِدُ فِي الْمَسْجِدِ , فَلَحَظَ إِلَيْهِ , قَالَ: كُنْتُ أُنْشِدُ وَفِيهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ , ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ , فَقَالَ: سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَجِبْ عَنِّي , اللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ" , قَالَ: نَعَمْ .
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے جو کہ مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کن اکھیوں سے گھورا تو وہ کہنے لگے کہ میں اس مسجد میں اس وقت اشعار پڑھا کرتا تھا جب یہاں تم سے بہتر ذات موجود تھی۔
حدثنا يعلى , حدثنا محمد بن عمرو , عن يحيى بن عبد الرحمن , قال: مر عمر رضي الله عنه , على حسان وهو ينشد الشعر في المسجد , فقال: في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم تنشد الشعر؟ قال: " كنت انشد وفيه من هو خير منك , او كنت انشد فيه وفيه من هو خير منك" .حَدَّثَنَا يَعْلَى , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو , عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , قَالَ: مَرَّ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , عَلَى حَسَّانَ وَهُوَ يُنْشِدُ الشِّعْرَ فِي الْمَسْجِدِ , فَقَالَ: فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُنْشِدُ الشِّعْرَ؟ قَالَ: " كُنْتُ أُنْشِدُ وَفِيهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ , أَوْ كُنْتُ أُنْشِدُ فِيهِ وَفِيهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ" .
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے جو کہ مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کن اکھیوں سے گھورا تو وہ کہنے لگے کہ میں اس مسجد میں اس وقت اشعار پڑھا کرتا تھا جب یہاں تم سے بہتر ذات موجود تھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3212، م: 2485، وهذا إسناد منقطع، يحيى بن عبدالرحمن لم يشهد القصة
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے جو کہ مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کن اکھیوں سے گھورا تو وہ کہنے لگے کہ میں اس مسجد میں اس وقت اشعار پڑھا کرتا تھا جب یہاں تم سے بہتر ذات موجود تھی پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے گئے کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ ان کی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا معمر , عن الزهري , عن ابن المسيب , قال: انشد حسان بن ثابت وهو في المسجد , فمر عمر به فلحظه , فقال حسان : " والله لقد انشدت فيه من هو خير منك" , فخشي ان يرميه برسول الله صلى الله عليه وسلم فجاز , وتركه .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أخبرَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ , قَالَ: أَنْشَدَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ , فَمَرَّ عُمَرُ بِهِ فَلَحَظَهُ , فَقَالَ حَسَّانُ : " وَاللَّهِ لَقَدْ أَنْشَدْتُ فِيهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ" , فَخَشِيَ أَنْ يَرْمِيَهُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَازَ , وَتَرَكَهُ .
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے جو کہ مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کن اکھیوں سے گھورا تو وہ کہنے لگے کہ میں اس مسجد میں اس وقت اشعار پڑھا کرتا تھا جب یہاں تم سے بہتر ذات موجود تھی، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔