حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنی اونٹنی کو ایک تیز دھار لکڑی سے ذبح کرلیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم دریافت کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے کی اجازت دے دی۔
حكم دارالسلام: إسناده معضل ضعيف، يحيى لم يدرك سفينة، بينهما راويان مجهولان
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ چونکہ وہ بہت سا بوجھ اٹھا لیا کرتے تھے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہہ دیا کہ تم تو سفینہ (کشتی) ہو۔
حدثنا ابو كامل , حدثنا حماد يعني ابن سلمة , عن سعيد بن جمهان , قال: سمعت سفينة يحدث , ان رجلا ضاف علي بن ابي طالب , فصنعوا له طعاما , فقالت فاطمة رضي الله عنها: لو دعونا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاكل معنا , فارسلوا إليه فجاء , فاخذ بعضادتي الباب , فإذا قرام قد ضرب به في ناحية البيت , فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم رجع , فقالت فاطمة لعلي: اتبعه , فقل له: ما رجعك؟ قال: فتبعه , فقال: ما رجعك يا رسول الله؟ قال: " إنه ليس لي , او ليس لنبي ان يدخل بيتا مزوقا" ..حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ , قَالَ: سَمِعْتُ سَفِينَةَ يُحَدِّثُ , أَنَّ رَجُلًا ضَافَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ , فَصَنَعُوا لَهُ طَعَامًا , فَقَالَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: لَوْ دَعْونَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَ مَعَنَا , فَأَرْسَلُوا إِلَيْهِ فَجَاءَ , فَأَخَذَ بِعِضَادَتَيْ الْبَابِ , فَإِذَا قِرَامٌ قَدْ ضُرِبَ بِهِ فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ , فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَعَ , فَقَالَتْ فَاطِمَةُ لِعَلِيٍّ: اتْبَعْهُ , فَقُلْ لَهُ: مَا رَجَعَكَ؟ قَالَ: فَتَبِعَهُ , فَقَالَ: مَا رَجَعَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " إِنَّهُ لَيْسَ لِي , أَوْ لَيْسَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتًا مُزَوَّقًا" ..
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہاں ایک آدمی مہمان بن کر آیا انہوں نے اس کے لئے کھانا تیار کیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کہنے لگیں کہ اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لیتے تو وہ بھی ہمارے ساتھ کھانا کھالیتے، چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دروازے کے کو اڑوں کو پکڑا تو دیکھا کہ گھر کے ایک کونے میں ایک پردہ لٹک رہا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھتے ہی واپس چلے گئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ان کے پیچھے جائیے اور واپس جانے کی وجہ پوچھئے حضرت علی رضی اللہ عنہ پیچھے پیچھے گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ واپس کیوں آگئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے لئے یا کسی نبی کے لئے ایسے گھر میں داخل ہونا ”جو آراستہ و منقش ہو“ مناسب نہیں ہے۔
حدثنا اسود بن عامر , حدثنا شريك , عن عمران النخلي , عن مولى لام سلمة , قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر , فانتهينا إلى واد , قال: فجعلت اعبر الناس او احملهم , قال: فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما كنت اليوم إلا سفينة , او ما انت إلا سفينة" , قيل لشريك: هو سفينة مولى ام سلمة رضي الله عنها؟.حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ , حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ عِمْرَانَ النَّخْلِيِّ , عَنْ مَوْلًى لِأُمِّ سَلَمَةَ , قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ , فَانْتَهَيْنَا إِلَى وَادٍ , قَالَ: فَجَعَلْتُ أَعْبُرُ النَّاسَ أَوْ أَحْمِلُهُمْ , قَالَ: فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا كُنْتَ الْيَوْمَ إِلَّا سَفِينَةً , أَوْ مَا أَنْتَ إِلَّا سَفِينَةٌ" , قِيلَ لِشَرِيكٍ: هُوَ سَفِينَةُ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا؟.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے ایک آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھا ہم ایک وادی میں پہنچے، میں لوگوں کا سامان اٹھا کر اسے عبور کرنے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج تو تم سفینہ (کشتی) کا کام دے رہے ہو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، شريك سيئ الحفظ
حدثنا عفان , اخبرنا حماد بن سلمة , اخبرنا سعيد بن جمهان , عن سفينة , قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر , فكلما اعيا بعض القوم القى علي سيفه , وترسه , ورمحه , حتى حملت من ذلك شيئا كثيرا , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" انت سفينة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , أخبرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , أخبرَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ , عَنْ سَفِينَةَ , قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ , فَكُلَّمَا أَعْيَا بَعْضُ الْقَوْمِ أَلْقَى عَلَيَّ سَيْفَهُ , وَتُرْسَهُ , وَرُمْحَهُ , حَتَّى حَمَلْتُ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا كَثِيرًا , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْتَ سَفِينَةُ" .
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے جب کوئی آدمی تھک جاتا تو وہ اپنی تلوار، ڈھال اور نیزہ مجھے پکڑا دیتا، اس طرح میں نے بہت ساری چیزیں اٹھالیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج تو تم سفینہ (کشتی) کا کام دے رہے ہو۔
حدثنا عفان , حدثنا حماد بن سلمة , حدثنا سعيد بن جمهان , حدثنا سفينة ابو عبد الرحمن , ان رجلا اضافه علي بن ابي طالب رضي الله عنه , فصنع له طعاما , فقالت فاطمة: لو دعونا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فذكر نحو حديث ابي كامل , فدعوه فجاء , فوضع يده على عضادتي الباب , فراى قراما في ناحية البيت , فرجع , فقالت فاطمة لعلي: الحقه , فقل له: لم رجعت يا رسول الله؟ فقال: " إنه ليس لي ان ادخل بيتا مزوقا" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ , حَدَّثَنَا سَفِينَةُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ , أَنَّ رَجُلًا أَضَافَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , فَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا , فَقَالَتْ فَاطِمَةُ: لَوْ دَعَوْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذَكَرَ نَحْو حَدِيثِ أَبِي كَامِلٍ , فَدَعَوْهُ فَجَاءَ , فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى عِضَادَتَيْ الْبَابِ , فَرَأَى قِرَامًا فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ , فَرَجَعَ , فَقَالَتْ فَاطِمَةُ لِعَلِيٍّ: الْحَقْهُ , فَقُلْ لَهُ: لِمَ رَجَعْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: " إِنَّهُ لَيْسَ لِي أَنْ أَدْخُلَ بَيْتًا مُزَوَّقًا" .
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہاں ایک آدمی مہمان بن کر آیا انہوں نے اس کے لئے کھانا تیار کیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کہنے لگیں کہ اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لیتے تو وہ بھی ہمارے ساتھ کھانا کھالیتے، چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دروازے کے کو اڑوں کو پکڑا تو دیکھا کہ گھر کے ایک کونے میں ایک پردہ لٹک رہا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھتے ہی واپس چلے گئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ان کے پیچھے جائیے اور واپس جانے کی وجہ پوچھئے حضرت علی رضی اللہ عنہ پیچھے پیچھے گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ واپس کیوں آگئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے لئے یا کسی نبی کے لئے ایسے گھر میں داخل ہونا " جو آراستہ ومنقش ہو " مناسب نہیں ہے۔
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے مجھے آزاد کردیا اور یہ شرط لگا دی کہ تا حیات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا رہوں گا۔
حدثنا ابو النضر , حدثنا حشرج ابن نباتة العبسي كوفي , حدثنا سعيد بن جمهان , حدثني سفينة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الخلافة في امتي ثلاثون سنة , ثم ملكا بعد ذلك" , ثم قال لي سفينة: امسك خلافة ابي بكر , وخلافة عمر , وخلافة عثمان , وامسك خلافة علي رضي الله تعالى عنهم , قال: فوجدناها ثلاثين سنة , ثم نظرت بعد ذلك في الخلفاء فلم اجده يتفق لهم ثلاثون , فقلت لسعيد: اين لقيت سفينة؟ قال: لقيته ببطن نخل في زمن الحجاج , فاقمت عنده ثمان ليال اساله عن احاديث رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: قلت له: ما اسمك؟ قال: ما انا بمخبرك , سماني رسول الله صلى الله عليه وسلم سفينة , قلت: ولم سماك سفينة؟ قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه اصحابه , فثقل عليهم متاعهم , فقال لي:" ابسط كساءك" , فبسطته , فجعلوا فيه متاعهم , ثم حملوه علي , فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" احمل , فإنما انت سفينة" , فلو حملت يومئذ وقر بعير , او بعيرين , او ثلاثة , او اربعة , او خمسة , او ستة , او سبعة , ما ثقل علي إلا ان يجفوا .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا حَشْرَجُ ابْنُ نُبَاتَةَ الْعَبْسِيُّ كُوفِيٌّ , حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ , حَدَّثَنِي سَفِينَةُ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْخِلَافَةُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً , ثُمَّ مُلْكًا بَعْدَ ذَلِكَ" , ثُمَّ قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ خِلَافَةَ أَبِي بَكْرٍ , وَخِلَافَةَ عُمَرَ , وَخِلَافَةَ عُثْمَانَ , وَأَمْسِكْ خِلَافَةَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ , قَالَ: فَوَجَدْنَاهَا ثَلَاثِينَ سَنَةً , ثُمَّ نَظَرْتُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْخُلَفَاءِ فَلَمْ أَجِدْهُ يَتَّفِقُ لَهُمْ ثَلَاثُونَ , فَقُلْتُ لِسَعِيدٍ: أَيْنَ لَقِيتَ سَفِينَةَ؟ قَالَ: لَقِيتُهُ بِبَطْنِ نَخْلٍ فِي زَمَنِ الْحَجَّاجِ , فَأَقَمْتُ عِنْدَهُ ثَمَانِ لَيَالٍ أَسْأَلُهُ عَنْ أَحَادِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: قُلْتُ لَهُ: مَا اسْمُكَ؟ قَالَ: مَا أَنَا بِمُخْبِرِكَ , سَمَّانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَفِينَةَ , قُلْتُ: وَلِمَ سَمَّاكَ سَفِينَةَ؟ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ أَصْحَابُهُ , فَثَقُلَ عَلَيْهِمْ مَتَاعُهُمْ , فَقَالَ لِي:" ابْسُطْ كِسَاءَكَ" , فَبَسَطْتُهُ , فَجَعَلُوا فِيهِ مَتَاعَهُمْ , ثُمَّ حَمَلُوهُ عَلَيَّ , فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" احْمِلْ , فَإِنَّمَا أَنْتَ سَفِينَةُ" , فَلَوْ حَمَلْتُ يَوْمَئِذٍ وِقْرَ بَعِيرٍ , أَوْ بَعِيرَيْنِ , أَوْ ثَلَاثَةٍ , أَوْ أَرْبَعَةٍ , أَوْ خَمْسَةٍ , أَوْ سِتَّةٍ , أَوْ سَبْعَةٍ , مَا ثَقُلَ عَلَيَّ إِلَّا أَنْ يَجْفُوا .
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خلافت تیس سال تک رہے گی اس کے بعد بادشاہت آجائے گی حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ اسے یوں شمار کراتے ہیں کہ دو سال حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ہوئے دس سال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارہ سال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اور چھ سال حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے (کل تیس سال ہوگئے)
راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جمہان سے پوچھا کہ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے آپ کی ملاقات کہاں ہوئی تھی؟ انہوں نے کہا حجاج بن یوسف کے زمانے میں بطن نخلہ میں میری ان سے ملاقات ہوئی تھی اور میں آٹھ راتیں ان کے یہاں مقیم رہا تھا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پوچھتا رہا تھا، میں نے ان سے ان کا نام بھی پوچھا لیکن انہوں نے فرمایا کہ یہ میں نہیں بتاسکتا، بس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام سفینہ ہی رکھا تھا، میں نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام سفینہ کیوں رکھا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوئے، ان کا سامان اس رکھا اور وہ گٹھڑی میرے اوپر لاد دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اسے اٹھا لو کہ تم نے سفینہ (کشتی) ہی ہو اس دن اگر مجھ پر ایک دو نہیں، سات اونٹوں کا بوجھ بھی لاد دیا جاتا تو مجھے کچھ بوجھ محسوس نہ ہوتا الاّ یہ کہ وہ مجھ پر زیادتی کرتے۔
حدثنا ابو النضر , حدثنا حشرج , حدثني سعيد بن جمهان , عن سفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " الا إنه لم يكن نبي قبلي إلا قد حذر الدجال امته , هو اعور عينه اليسرى , بعينه اليمنى ظفرة غليظة , مكتوب بين عينيه كافر , يخرج معه واديان احدهما جنة , والآخر نار , فناره جنة وجنته نار , معه ملكان من الملائكة يشبهان نبيين من الانبياء , لو شئت سميتهما باسمائهما واسماء آبائهما , واحد منهما عن يمينه , والآخر عن شماله , وذلك فتنة , فيقول الدجال: الست بربكم , الست احي واميت؟ فيقول له احد الملكين: كذبت , ما يسمعه احد من الناس , إلا صاحبه , فيقول له: صدقت , فيسمعه الناس , فيظنون إنما يصدق الدجال , وذلك فتنة , ثم يسير حتى ياتي المدينة , فلا يؤذن له فيها , فيقول: هذه قرية ذلك الرجل , ثم يسير حتى ياتي الشام فيهلكه الله عز وجل عند عقبة افيق" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا حَشْرَجٌ , حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ , عَنْ سَفِينَةَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " أَلَا إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا قَدْ حَذَّرَ الدَّجَّالَ أُمَّتَهُ , هُوَ أَعْوَرُ عَيْنِهِ الْيُسْرَى , بِعَيْنِهِ الْيُمْنَى ظُفْرَةٌ غَلِيظَةٌ , مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ , يَخْرُجُ مَعَهُ وَادِيَانِ أَحَدُهُمَا جَنَّةٌ , وَالْآخَرُ نَارٌ , فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَجَنَّتُهُ نَارٌ , مَعَهُ مَلَكَانِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ يُشْبِهَانِ نَبِيَّيْنِ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ , لَوْ شِئْتُ سَمَّيْتُهُمَا بِأَسْمَائِهِمَا وَأَسْمَاءِ آبَائِهِمَا , وَاحِدٌ مِنْهُمَا عَنْ يَمِينِهِ , وَالْآخَرُ عَنْ شِمَالِهِ , وَذَلِكَ فِتْنَةٌ , فَيَقُولُ الدَّجَّالُ: أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ , أَلَسْتُ أُحْيِ وَأُمِيتُ؟ فَيَقُولُ لَهُ أَحَدُ الْمَلَكَيْنِ: كَذَبْتَ , مَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ , إِلَّا صَاحِبُهُ , فَيَقُولُ لَهُ: صَدَقْتَ , فَيَسْمَعُهُ النَّاسُ , فَيَظُنُّونَ إِنَّمَا يُصَدِّقُ الدَّجَّالَ , وَذَلِكَ فِتْنَةٌ , ثُمَّ يَسِيرُ حَتَّى يَأْتِيَ الْمَدِينَةَ , فَلَا يُؤْذَنُ لَهُ فِيهَا , فَيَقُولُ: هَذِهِ قَرْيَةُ ذَلِكَ الرَّجُلِ , ثُمَّ يَسِيرُ حَتَّى يَأْتِيَ الشَّامَ فَيُهْلِكُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عِنْدَ عَقَبَةِ أَفِيقَ" .
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گذرا جس نے اپنی امت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو یاد رکھو! اس کی بائیں آنکھ کانی ہوگی اور اس کی دائیں آنکھ پر ایک موٹی پھلی ہوگی، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا، اس کے پاس جنت اور جہنم کی تمثیلی دو وادیاں ہوں گے، اگر میں چاہوں تو ان دو نبیوں اور ان کے آباؤ اجداد کا نام بھی بتاسکتا ہوں، ان میں سے ایک اس کی دائیں جانب ہوگا اور دوسرا بائیں جانب اور یہ ایک آزمائش ہوگی۔
پھر دجال کہے گا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ کیا میں زندگی اور موت نہیں دیتا؟ ان میں سے ایک فرشتہ کہے گا تو جھوٹ بولتا ہے لیکن یہ بات اس کے ساتھی فرشتے کے علاوہ کوئی انسان نہ سن سکے گا، اس کا ساتھی اس سے کہے گا کہ تم نے سچ کہا، اس کی آواز لوگ سن لیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ وہ دجال کی تصدیق کر رہا ہے حالانکہ یہ ایک آزمائش ہوگی، پھر وہ روانہ ہوگا یہاں تک کہ مدینہ منورہ جا پہنچے گا لیکن اسے وہاں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملے گی اور وہ کہے گا کہ یہ اس آدمی کا شہر ہے پھر وہ وہاں سے چل کر شام پہنچے گا اور اللہ تعالیٰ اسے " افیق " نامی گھاٹی کے قریب ہلاک کروا دے گا۔
حكم دارالسلام: ضعيف بهذه السياقة، تفرد به حشرج بن نباتة ، عن ابن جمهان، وقد يقع لهما فى أحاديثهما غرائب ومناكير