حدثنا سفيان بن عيينة , حدثنا عمرو يعني ابن دينار , عن ابي صالح , قال: سمعت ابا سعيد يقول: " الذهب بالذهب وزنا بوزن" . قال: قال: فلقيت ابن عباس , فقلت: ارايت ما تقول اشيء وجدته في كتاب الله , او سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: ليس بشيء وجدته في كتاب الله , او سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم , ولكن اخبرني اسامة بن زيد , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الربا في النسيئة" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , حَدَّثَنَا عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , قَال: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ يَقُولُ: " الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَزْنًا بِوَزْنٍ" . قَالَ: قَالَ: فَلَقِيتُ ابْنَ عَبَّاسٍ , فَقُلْتُ: أَرَأَيْتَ مَا تَقُولُ أَشَيءً وَجَدْتَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ , أَوْ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَيْسَ بِشَيْءٍ وَجَدْتُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ , أَوْ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَلَكِنْ أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ" .
ابوصالح کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سونے کو سونے کے بدلے برابر وزن کے ساتھ بیچاجائے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ جو بات کہتے ہیں یہ بتائیے کہ اس کا ثبوت آپ کو قرآن میں ملتا ہے یا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ چیز نہ تو مجھے کتاب اللہ میں ملی ہے اور نہ ہی میں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے البتہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سود کا تعلق ادھار سے ہوتا ہے۔
حدثنا سفيان , عن عمرو , عن عامر بن سعد , قال: جاء رجل يسال سعدا عن الطاعون , فقال اسامة بن زيد : انا احدثك عنه , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن هذا عذاب , او كذا ارسله الله على ناس قبلكم , او طائفة من بني إسرائيل , فهو يجيء احيانا ويذهب احيانا , فإذا وقع بارض فلا تدخلوا عليه , وإذا وقع بارض فلا تخرجوا فرارا منه" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَمْرٍو , عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ , قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ يَسْأَلُ سَعْدًا عَنِ الطَّاعُونِ , فَقَالَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ : أَنَا أُحَدِّثُكَ عَنْهُ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ هَذَا عَذَابٌ , أَوْ كَذَا أَرْسَلَهُ اللَّهُ عَلَى نَاسٍ قَبْلَكُمْ , أَوْ طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ , فَهُوَ يَجِيءُ أَحْيَانًا وَيَذْهَبُ أَحْيَانًا , فَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوا عَلَيْهِ , وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ" .
عامر بن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس طاعون کے حوالے سے سوال پوچھنے کے لئے آیا تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کے متعلق میں تمہیں بتاتا ہوں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طاعون ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) پر مسلط کیا تھا، کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے لہٰذا جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کل ہم ان شاء اللہ کہاں پڑاؤ کریں گے؟ یہ فتح مکہ کے موقع کی بات ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا عقیل نے ہمارے لئے بھی کوئی گھر چھوڑا ہے؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی مسلمان کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي , حدثنا ثابت بن قيس ابو غصن , حدثني ابو سعيد المقبري , حدثني اسامة بن زيد , قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم الايام يسرد حتى يقال: لا يفطر , ويفطر الايام , حتى لا يكاد ان يصوم إلا يومين من الجمعة , إن كانا في صيامه وإلا صامهما , ولم يكن يصوم من شهر من الشهور ما يصوم من شعبان , فقلت: يا رسول الله , إنك تصوم لا تكاد ان تفطر , وتفطر حتى لا تكاد ان تصوم , إلا يومين إن دخلا في صيامك وإلا صمتهما , قال:" اي يومين؟" , قال: قلت: يوم الاثنين ويوم الخميس , قال: " ذانك يومان تعرض فيهما الاعمال على رب العالمين , واحب ان يعرض عملي وانا صائم" , قال: قلت: ولم ارك تصوم من شهر من الشهور ما تصوم من شعبان , قال:" ذاك شهر يغفل الناس عنه بين رجب ورمضان , وهو شهر يرفع فيه الاعمال إلى رب العالمين , فاحب ان ترفع عملي وانا صائم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ أَبُو غُصْنٍ , حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ , حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ الْأَيَّامَ يَسْرُدُ حَتَّى يُقَالَ: لَا يُفْطِرُ , وَيُفْطِرُ الْأَيَّامَ , حَتَّى لَا يَكَادَ أَنْ يَصُومَ إِلَّا يَوْمَيْنِ مِنَ الْجُمُعَةِ , إِنْ كَانَا فِي صِيَامِهِ وَإِلَّا صَامَهُمَا , وَلَمْ يَكُنْ يَصُومُ مِنْ شَهْرٍ مِنَ الشُّهُورِ مَا يَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّكَ تَصُومُ لَا تَكَادُ أَنْ تُفْطِرَ , وَتُفْطِرَ حَتَّى لَا تَكَادَ أَنْ تَصُومَ , إِلَّا يَوْمَيْنِ إِنْ دَخَلَا فِي صِيَامِكَ وَإِلَّا صُمْتَهُمَا , قَالَ:" أَيُّ يَوْمَيْنِ؟" , قَالَ: قُلْتُ: يَوْمُ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمُ الْخَمِيسِ , قَالَ: " ذَانِكَ يَوْمَانِ تُعْرَضُ فِيهِمَا الْأَعْمَالُ عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ , وَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ" , قَالَ: قُلْتُ: وَلَمْ أَرَكَ تَصُومُ مِنْ شَهْرٍ مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ , قَالَ:" ذَاكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ , وَهُوَ شَهْرٌ يُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ , فَأُحِبُّ أَنْ ترْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ" .
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنے تسلسل کے ساتھ روزے رکھتے کہ لوگ کہتے اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناغہ نہیں کریں گے اور بعض اوقات اتنے تسلسل کے ساتھ ناغہ فرماتے کہ یوں محسوس ہوتا کہ اب روزہ رکھیں گے ہی نہیں، البتہ ہفتہ میں دو دن ایسے تھے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں روزے سے ہوتے تو بہت اچھا، ورنہ ان کا روزہ رکھ لیتے تھے اور کسی مہینے میں نفلی روزے اتنی کثرت سے نہیں رکھتے تھے جتنی کثرت سے ماہ شعبان میں رکھتے تھے یہ دیکھ کر ایک دن میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ بعض اوقات اتنے روزے رکھتے ہیں کہ افطار کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے اور بعض اوقات اتنے ناغے کرتے ہیں کہ روزے رکھتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے، البتہ دو دن ایسے ہیں کہ اگر آپ کے روزوں میں آجائیں تو بہتر ورنہ آپ ان کا روزہ ضرور رکھتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون سے دو دن؟ میں نے عرض کی پیر اور جمعرات، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دو دنوں میں رب العالمین کے سامنے تمام اعمال پیش کئے جاتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں۔ پھر میں نے عرض کیا کہ جتنی کثرت سے میں آپ کو ماہ شعبان کے نفلی روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں، کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رجب اور رمضان کے درمیان اس مہینے کی اہمیت سے لوگ غافل ہوتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں رب العالمین کے سامنے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں۔
حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا ابن جريج , قال: قلت لعطاء : اسمعت ابن عباس , فذكر قصة , ولكني سمعته يقول: اخبرني اسامة بن زيد , ان النبي صلى الله عليه وسلم لما دخل البيت دعا في نواحيه كلها , ولم يصل فيه حتى خرج , فلما خرج ركع ركعتين في قبل الكعبة , وقال:" هذه القبلة" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخبرنا ابْنُ جُرَيْجٍ , قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ : أَسَمِعْتَ ابْنَ عَبَّاسٍ , فَذَكَرَ قِصَّةً , وَلَكِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَخَلَ الْبَيْتَ دَعَا فِي نَوَاحِيهِ كُلِّهَا , وَلَمْ يُصَلِّ فِيهِ حَتَّى خَرَجَ , فَلَمَّا خَرَجَ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي قِبَلِ الْكَعْبَةِ , وَقَالَ:" هَذِهِ الْقِبْلَةُ" .
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس کے سارے کونوں میں دعاء فرمائی لیکن وہاں نماز نہیں پڑھی بلکہ باہر آکر خانہ کعبہ کی جانب رخ کر کے دو رکعتیں پڑھیں اور فرمایا یہ ہے قبلہ۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب مرض الوفات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت بوجھل ہوئی تو میں اور میرے ساتھ کچھ لوگ مدینہ منورہ آگئے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش تھے اور کسی سے بات نہیں کر رہے تھے، مجھے دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور مجھ پر پھیر دیئے میں سمجھ گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے دعاء فرما رہے تھے۔
حدثنا عفان , حدثنا حماد بن سلمة , اخبرنا قيس بن سعد , عن عطاء , عن ابن عباس , عن اسامة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم افاض من عرفة , ورديفه اسامة , فجعل يكبح راحلته حتى ان ذفراها لتكاد ان تمس , وربما قال حماد: ان تصيب قادمة الرحل , وهو يقول:" يا ايها الناس عليكم بالسكينة والوقار , فإن البر ليس في إيضاع الإبل" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , أَخبرنا قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , عَنْ أُسَامَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَاضَ مِنْ عَرَفَةَ , وَرَدِيفُهُ أُسَامَةُ , فَجَعَلَ يَكْبَحُ رَاحِلَتَهُ حَتَّى أَنَّ ذِفْرَاهَا لَتَكَادُ أَنْ تَمَسَّ , وَرُبَّمَا قَالَ حَمَّادٌ: أَنْ تُصِيبَ قَادِمَةَ الرَّحْلِ , وَهُوَ يَقُولُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ وَالْوَقَارِ , فَإِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ فِي إِيضَاعِ الْإِبِلِ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے روانہ ہوئے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو لگام سے پکڑ کر کھینچنے لگے حتٰی کہ اس کے کان کجاوے کے اگلے حصے کے قریب آگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جا رہے تھے لوگو! اپنے اوپر سکون اور وقار کو لازم پکڑو، اونٹوں کو تیز دوڑانے میں کوئی نیکی نہیں ہے۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی کی عیادت کرنے کے لئے گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا میں تمہیں یہودیوں سے محبت کرنے سے منع کرتا تھا وہ کہنے لگا کہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے ان سے نفرت کرلی (بس وہی کافی ہے) یہ کہہ کر کچھ عرصے بعد وہ مرگیا۔