مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 21113
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله، حدثني محمد بن ابي بكر ، حدثنا بشر بن عمر ، حدثنا شعبة ، عن علي بن زيد ، عن يوسف المكي ، عن ابن عباس ، عن ابي ، قال: آخر آية نزلت لقد جاءكم رسول من انفسكم سورة التوبة آية 128 .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ يُوسُفَ الْمَكِّيِّ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أُبِيٍّ ، قَالَ: آخِرُ آيَةٍ نَزَلَتْ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ سورة التوبة آية 128 .
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ قرآن کریم کی سب سے آخری آیت جو نازل ہوئی وہ یہ تھی " لقدجاء کم رسول میں انفسکم۔۔۔۔۔۔۔۔ "

حكم دارالسلام: أثر حسن، وهذا إسناد ضعيف، على بن زيد ضعيف، ونسبة يوسف: المكي خطأ، وإنما هو البصري
حدیث نمبر: 21114
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله، حدثني ابو عثمان عمرو بن محمد بن بكير الناقد ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عمرو يعني ابن دينار ، عن سعيد بن جبير ، قال: قلت لابن عباس ، إن نوفا الشامي يزعم، او يقول: ليس موسى صاحب خضر موسى بني إسرائيل، قال: كذب نوف عدو الله، حدثني ابي بن كعب ، عن النبي صلى الله عليه وسلم،" ان موسى قام في بني إسرائيل خطيبا، فقالوا له: من اعلم الناس؟ قال: انا، فاوحى الله إليه ان لي عبدا اعلم منك، قال: رب فارنيه، قال: قيل: تاخذ حوتا، فتجعله في مكتل، فحيثما فقدته، فهو ثم، قال: فاخذ حوتا، فجعله في مكتل، وجعل هو وصاحبه يمشيان على الساحل، حتى اتيا الصخرة، فرقد موسى، واضطرب الحوت في المكتل، فوقع في البحر، فحبس الله عليه جرية الماء فاضطرب الماء، فاستيقظ موسى، فقال: لفتاه آتنا غداءنا، لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا، ولم يصب النصب حتى جاوز الذي امره الله به، قال: فقال: ارايت إذ اوينا إلى الصخرة، فإني نسيت الحوت، وما انسانيه إلا الشيطان، فارتدا على آثارهما قصصا، فجعلا يقصان آثارهما، واتخذ سبيله في البحر سربا، قال: امسك عنه جرية الماء، فصار عليه مثل الطاق، فكان للحوت سربا، وكان لموسى عجبا، حتى انتهيا إلى الصخرة، فإذا رجل مسجى، عليه ثوب، فسلم موسى عليه، فقال: وانى بارضك السلام؟ قال: انا موسى، قال موسى بني إسرائيل؟ قال: نعم، اتبعك على ان تعلمني مما علمت رشدا، قال: يا موسى، إني على علم من الله لا تعلمه، وانت على علم من الله علمكه الله، فانطلقا يمشيان على الساحل، فمرت سفينة، فعرفوا الخضر، فحمل بغير نول، فلم يعجبه، ونظر في السفينة، فاخذ القدوم يريد ان يكسر منها لوحا، فقال: حملنا بغير نول وتريد ان تخرقها لتغرق اهلها؟ قال: الم اقل إنك لن تستطيع معي صبرا؟! قال: إني نسيت، وجاء عصفور فنقر في البحر، قال: الخضر ما ينقص علمي ولا علمك من علم الله إلا كما ينقص هذا العصفور من هذا البحر، فانطلقا حتى إذا اتيا اهل قرية، استطعما اهلها، فابوا ان يضيفوهما، فراى غلاما فاخذ راسه، فانتزعه، فقال: اقتلت نفسا زكية بغير نفس؟! لقد جئت شيئا نكرا، قال: الم اقل لك، إنك لن تستطيع معي صبرا؟! قال سفيان: قال عمرو: وهذه اشد من الاولى، قال: فانطلقا، فإذا جدار يريد ان ينقض، فاقامه، وارانا سفيان بيديه، فرفع يديه هكذا رفعا، فوضع راحتيه، فرفعهما ببطن كفيه رفعا، فقال: لو شئت لتخذت عليه اجرا، قال: هذا فراق بيني وبينك، قال ابن عباس: كانت الاولى نسيانا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يرحم الله موسى، لو كان صبر حتى يقص علينا من امره" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الله، حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُكَيْرٍ النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ ، إِنَّ نَوْفًا الشَّامِيَّ يَزْعُمُ، أَو يَقُولُ: لَيْسَ مُوسَى صَاحِبَ خَضِرٍ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ: كَذَبَ نَوْفٌ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّ مُوسَى قَامَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ خَطِيبًا، فَقَالُوا لَهُ: مَنْ أَعْلَمُ النَّاسِ؟ قَالَ: أَنَا، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ لِي عَبْدًا أَعْلَمَ مِنْكَ، قَالَ: رَبِّ فَأَرِنِيهِ، قَالَ: قِيلَ: تَأْخُذُ حُوتًا، فَتَجْعَلُهُ فِي مِكْتَلٍ، فَحَيْثُمَا فَقَدْتَهُ، فَهُوَ ثَمَّ، قَالَ: فَأَخَذَ حُوتًا، فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ، وَجَعَلَ هُوَ وَصَاحِبُهُ يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ، حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ، فَرَقَدَ مُوسَى، وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ، فَوَقَعَ فِي الْبَحْرِ، فَحَبَسَ اللَّهُ عَلَيْهِ جِرْيَةَ الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ الْمَاءُ، فَاسْتَيْقَظَ مُوسَى، فَقَالَ: لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا، لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، وَلَمْ يُصِبْ النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ الَّذِي أَمَرَهُ اللَّهُ بِهِ، قَالَ: فَقَالَ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ، وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، فَجَعَلَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا، وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا، قَالَ: أَمْسَكَ عَنْهُ جِرْيَةَ الْمَاءِ، فَصَارَ عَلَيْهِ مِثْلُ الطَّاقِ، فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا، وَكَانَ لِمُوسَى عَجَبًا، حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى، عَلَيْهِ ثَوْبٌ، فَسَلَّمَ مُوسَى عَلَيْهِ، فَقَالَ: وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا، قَالَ: يَا مُوسَى، إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنَ اللَّهِ لَا تَعْلَمُهُ، وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ مِنَ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ، فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ، فَمَرَّتْ سَفِينَةٌ، فَعَرَفُوا الْخَضِرَ، فَحُمِلَ بِغَيْرِ نَوْلٍ، فَلَمْ يُعْجِبْهُ، وَنَظَرَ فِي السَّفِينَةِ، فَأَخَذَ الْقَدُومَ يُرِيدُ أَنْ يَكْسِرَ مِنْهَا لَوْحًا، فَقَالَ: حُمِلْنَا بِغَيْرِ نَوْلٍ وَتُرِيدُ أَنْ تَخْرُقَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا؟ قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا؟! قَالَ: إِنِّي نَسِيتُ، وَجَاءَ عُصْفُورٌ فَنَقَرَ فِي الْبَحْرِ، قَالَ: الْخَضِرُ مَا يُنْقِصُ عِلْمِي وَلَا عِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَمَا يُنْقِصُ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْ هَذَا الْبَحْرِ، فَانْطَلَقَا حَتَّى إذا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ، اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا، فَرَأَى غُلَامًا فَأَخَذَ رَأْسَهُ، فَانْتَزَعَهُ، فَقَالَ: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ؟! لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ، إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا؟! قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ عَمْرٌو: وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنَ الْأُولَى، قَالَ: فَانْطَلَقَا، فَإِذَا جِدَارٌ يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ، فَأَقَامَهُ، وَأَرَانَا سُفْيَانُ بِيَدَيْهِ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ هَكَذَا رَفْعًا، فَوَضَعَ رَاحَتَيْهِ، فَرَفَعَهُمَا بِبَطْنِ كَفَّيْهِ رَفْعًا، فَقَالَ: لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَانَتْ الْأُولَى نِسْيَانًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى، لَوْ كَانَ صَبَرَ حَتَّى يَقُصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِ" ..
حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا خیال ہے کہ (حضرت خضر علیہ السلام والے) موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے دشمن اللہ جھوٹ بولتا ہے مجھ سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے تھے تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں سب سے بڑا عالم ہوں خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا الہٰی اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو (اور سفر کو چل دو) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک مچھلی لے کر زنبیل میں ڈالی اور چل دیئے اور اپنے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون کو بھی لیتے گئے چلتے چلتے جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں (رک گئے اور) حضرت موسیٰ علیہ السلام اس پتھر پر سر رکھ کر سو گئے اتنے میں مچھلی زنبیل سے پھڑک کر نکلی اور دریا میں سرنگ بناتی ہوئی اپنی راہ چلی گئی حضرت موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے فرمایا ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے اب کھانا لے آؤ اور موسیٰ کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہ ہوئی تھی جب تک کہ مقام مقررہ سے آگے نہ بڑھے تھے بلکہ اس وقت تھکان معلوم ہونے لگی جب مقام مقررہ سے آگے بڑھ گئے خادم کہنے لگا کیا بتاؤں جب ہم اس پتھر کے پاس پہنچے تو میں مچھلی وہاں بھول گیا (اور آپ سے میں نے اس کا تذکرہ نہ کیا) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسی جگہ کی تو ہم کو تلاش تھی چنانچہ الٹے پاؤں قدم پر قدم ڈالتے واپس لوٹے۔ پتھر تک پہنچے ہی تھے کہ ایک آدمی کپڑے سے سر لپیٹے ہوئے نظر آیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سلام کیا خضر بولے تمہارے ملک میں سلام کا رواج کہاں ہے (یہ تم نے سلام کیسے کیا؟) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں موسیٰ ہوں خضر بولے کیا بنی اسرائیل والے موسیٰ میں نے کہا جی ہاں اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا میں آپ کے ہمراہ اس شرط پر چل سکتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ نے جو علم آپ کو عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ حصہ کی مجھے بھی تعلیم دیجئے حضرت خضر علیہ السلام بولے آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکیں گے (درمیان میں بول اٹھیں گے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کا مجھے وہ حصہ عطا فرمایا ہے جو آپ کو نہیں دیا اور آپ کو وہ علم دیا جس سے میں ناواقف ہوں (حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ان شاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے میں آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا) آخرکار دونوں دریا کے کنارے کنارے چل دیئے کہ کشتی موجود نہ تھی اتنے میں ادھر سے ایک کشتی کا گزر ہوا انہوں نے کشتی والوں سے سوار ہونے کے متعلق کچھ بات چیت کی حضرت خضر علیہ السلام کو لوگوں نے پہچان لیا اس لئے کشتی والوں نے دونوں کو بغیر کرایہ کے سوار کرلیا اس کے بعدخضر علیہ السلام نے کشتی کو اچھی طرح دیکھ کر بسولا نکال کر کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم نے یہ کیا کیا؟ ان لوگوں نے تو بغیر کرایہ کے ہم کو سوار کرلیا اور تم نے ان کی کشتی توڑ کر سب کو ڈبونا چاہا تم نے یہ عجیب بات کی؟ خضر علیہ السلام بولے میں نے تم سے نہیں کہہ دیا تھا کہ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا بھول چوک پر میری گرفت نہ کیجئے اور مجھ پر میرے کام میں دشواری نہ ڈالیے اسی دوران ایک چڑیا نے آکر سمندر میں اپنی چونچ ڈالی حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا میرا اور تمہارا علم اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں کرسکتا جتنی کمی اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی میں کی ہے۔ پھر یہ دونوں حضرات کشتی سے نکل کر چل دیئے راستہ میں ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا خضر علیہ السلام نے اس کا سرپکڑ کر اپنے ہاتھ سے گردن اکھاڑ دی حضرت موسیٰ علیہ السلام بولے تم نے جو ایک معصوم جان کو بلا قصور مار ڈالا یہ تم نے بہت برا کام کیا خضر علیہ السلام بولے کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر ضبط نہ کرسکو گے موسیٰ نے کہا اچھا اب اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ دریافت کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھنا آپ نے میرا عذر بہت مان لیا آخر کار پھر دونوں چل دیئے چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے گاؤں والوں سے کھانا مانگا انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کردیا ان کو وہاں ایک دیوار نظر آئی جو گرنے کے قریب تھی، حضرت خضر علیہ السلام نے ہاتھ کا اشارہ کر کے اس کو سیدھا کردیا حضرت

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 122، م: 2380
حدیث نمبر: 21115
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله، حدثنا عمرو الناقد ، حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، عن ابي بن كعب ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لو شئت لاتخذت عليه اجرا"..حَدَّثَنَا عَبْدُ الله، حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا"..

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2380
حدیث نمبر: 21116
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله، حدثنا عمرو الناقد ، حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، عن ابي بن كعب ، عن النبي صلى الله عليه وسلم" فإذا الجدار يريد ان ينقض فاقامه"، قال بيديه فرفعهما رفعا..حَدَّثَنَا عَبْدُ الله، حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَإِذَا الجِدَارُ يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ"، قَالَ بِيَدِيْهِ فَرَفَعَهُمَا رَفْعًا..

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21117
Save to word اعراب
حدثنا بهز بن اسد ، حدثني سفيان بن عيينة إملاء علي، عن عمرو ، عن سعيد بن جبير ، قال: قلت لابن عباس ، قال عبد الله، قال ابي: كتبته عن بهز وابن عيينة، حتى ان نوفا يزعم ان موسى ليس بصاحب الخضر، قال: فقال: كذب عدو الله، حدثنا ابي بن كعب ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" قام موسى خطيبا في بني إسرائيل، فسئل اي الناس اعلم؟ قال: انا، فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه، قال: بل عبد لي عند مجمع البحرين هو اعلم منك، قال: اي رب فكيف لي به؟ قال: خذ حوتا، فاجعله في مكتل، ثم انطلق، فحيثما فقدته، فهو ثم، فانطلق موسى ومعه فتاه يمشيان، حتى انتهيا إلى الصخرة، فرقد موسى، واضطرب الحوت في المكتل، فخرج، فوقع في البحر، فامسك الله عنه جرية الماء مثل الطاق، وكان للحوت سربا، وقال سفيان: فعقد الإبهام والسبابة، وفرج بينهما، قال: فانطلقا حتى إذا كان من الغد، قال موسى: لفتاه آتنا غداءنا، لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا، قال: ولم يجد النصب حتى جاوز حيث امر، قال: ذلك ما كنا نبغي، فارتدا على آثارهما قصصا، يقصان آثارهما، قال: وكان لموسى اثر الحوت عجبا، وللحوت سربا"، فذكر الحديث.حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنِي سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ إِمْلَاءً عَلَيَّ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ عَبْدُ الله، قَالَ أَبِي: كَتَبْتُهُ عَنْ بَهْزٍ وَابْنِ عُيَيْنَةَ، حتى أن نوفا يزعم أن موسى ليس بصاحب الخضر، قَالَ: فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" قَامَ مُوسَى خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ قَالَ: أَنَا، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، قَالَ: بَلْ عَبْدٌ لِي عِنْدَ مَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ: أَيْ رَبِّ فَكَيْفَ لِي بِهِ؟ قَالَ: خُذْ حُوتًا، فَاجْعَلْهُ فِي مِكْتَلٍ، ثُمَّ انْطَلِقْ، فَحَيْثُمَا فَقَدْتَهُ، فَهُوَ ثَمَّ، فَانْطَلَقَ مُوسَى وَمَعَهُ فَتَاهُ يَمْشِيَانِ، حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَرَقَدَ مُوسَى، وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ، فَخَرَجَ، فَوَقَعَ فِي الْبَحْرِ، فَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْمَاءِ مِثْلَ الطَّاقِ، وَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا، وَقَالَ سُفْيَانُ: فَعَقَدَ الْإِبْهَامَ وَالسَّبَّابَةَ، وَفَرَّجَ بَيْنَهُمَا، قَالَ: فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ، قَالَ مُوسَى: لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا، لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، قَالَ: وَلَمْ يَجِدْ النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ حَيْثُ أُمِرَ، قَالَ: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا، قَالَ: وَكَانَ لِمُوسَى أَثَرُ الْحُوتِ عَجَبًا، وَلِلْحُوتِ سَرَبًا"، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 74، م: 2380
حدیث نمبر: 21118
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله، حدثني ابو بكر عبد الله بن محمد بن ابي شيبة ، حدثنا عبيد الله بن موسى ، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: كنا عنده، فقال القوم إن نوفا الشامي يزعم ان الذي ذهب يطلب العلم ليس موسى بني إسرائيل، وكان ابن عباس متكئا، فاستوى جالسا، فقال: كذلك يا سعيد؟ قلت: نعم، انا سمعته، يقول: ذاك، فقال ابن عباس كذب نوف، حدثني ابي بن كعب، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " رحمة الله علينا وعلى صالح، رحمة الله علينا وعلى اخي عاد"، ثم قال:" إن موسى بينا هو يخطب قومه ذات يوم، إذ قال لهم: ما في الارض احد اعلم مني، واوحى الله إليه ان في الارض من هو اعلم منك، وآية ذلك ان تزود حوتا مالحا، فإذا فقدته، فهو حيث تفقده، فتزود حوتا مالحا، فانطلق هو وفتاه، حتى إذا بلغ المكان الذي امروا به، فلما انتهوا إلى الصخرة، انطلق موسى يطلب، ووضع فتاه الحوت على الصخرة، واضطرب، فاتخذ سبيله في البحر سربا، قال: فتاه إذا جاء نبي الله حدثته، فانساه الشيطان، فانطلقا، فاصابهم ما يصيب المسافر من النصب والكلال، ولم يكن يصيبه ما يصيب المسافر من النصب والكلال، حتى جاوز ما امر به، فقال موسى لفتاه آتنا غداءنا، لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا، قال له: فتاه يا نبي الله، ارايت إذ اوينا إلى الصخرة، فإني نسيت ان احدثك، وما انسانيه إلا الشيطان، فاتخذ سبيله في البحر سربا، قال: ذلك ما كنا نبغي، فرجعا على آثارهما قصصا، يقصان الاثر، حتى إذا انتهيا إلى الصخرة، فاطاف بها، فإذا هو مسجى بثوب له، فسلم عليه، فرفع راسه، فقال له: من انت؟ قال موسى قال من موسى؟ قال موسى بني إسرائيل، قال: اخبرت ان عندك علما، فاردت ان اصحبك، قال: إنك لن تستطيع معي صبرا، قال: ستجدني إن شاء الله صابرا، ولا اعصي لك امرا، قال: فكيف تصبر على ما لم تحط به خبرا؟! قال: قد امرت ان افعله، قال: ستجدني إن شاء الله صابرا، قال: فإن اتبعتني، فلا تسالني عن شيء حتى احدث لك منه ذكرا، فانطلقا حتى إذا ركبا في السفينة، خرج من كان فيها، وتخلف ليخرقها، قال: فقال له موسى تخرقها لتغرق اهلها، لقد جئت شيئا إمرا، قال: الم اقل إنك لن تستطيع معي صبرا؟ قال: لا تؤاخذني بما نسيت، ولا ترهقني من امري عسرا، فانطلقا حتى إذا اتوا على غلمان يلعبون على ساحل البحر، وفيهم غلام ليس في الغلمان غلام انظف يعني منه، فاخذه فقتله، فنفر موسى عند ذلك، وقال: اقتلت نفسا زكية بغير نفس؟ لقد جئت شيئا نكرا، قال: الم اقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا؟ قال: فاخذته ذمامة من صاحبه، واستحيا، فقال: إن سالتك عن شيء بعدها، فلا تصاحبني، قد بلغت من لدني عذرا، فانطلقا حتى إذا اتيا اهل قرية لئاما، استطعما اهلها، وقد اصاب موسى جهد، فلم يضيفوهما، فوجدا فيها جدارا يريد ان ينقض، فاقامه، قال له موسى مما نزل بهم من الجهد لو شئت لاتخذت عليه اجرا، قال: هذا فراق بيني وبينك، فاخذ موسى بطرف ثوبه، فقال: حدثني، فقال: اما السفينة، فكانت لمساكين يعملون في البحر، وكان وراءهم ملك ياخذ كل سفينة غصبا، فإذا مر عليها، فرآها منخرقة تركها، ورقعها اهلها بقطعة خشبة، فانتفعوا بها، واما الغلام فإنه كان طبع يوم طبع كافرا، وكان قد القي عليه محبة من ابويه، ولو اطاعاه لارهقهما طغيانا وكفرا، فاردنا ان يبدلهما ربهما خيرا منه زكاة واقرب رحما، ووقع ابوه على امه فعلقت، فولدت منه خيرا منه زكاة واقرب رحما، واما الجدار فكان لغلامين يتيمين في المدينة وكان تحته كنز لهما وكان ابوهما صالحا، فاراد ربك ان يبلغا اشدهما ويستخرجا كنزهما رحمة من ربك، وما فعلته عن امري ذلك تاويل ما لم تسطع عليه صبرا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الله، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَهُ، فَقَالَ الْقَوْمُ إِنَّ نَوْفًا الشَّامِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ الَّذِي ذَهَبَ يَطْلُبُ الْعِلْمَ لَيْسَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ مُتَّكِئًا، فَاسْتَوَى جَالِسًا، فَقَالَ: كَذَلِكَ يَا سَعِيدُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، أَنَا سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: ذَاكَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَذَبَ نَوْفٌ، حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى صَالِحٍ، رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى أَخِي عَادٍ"، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ مُوسَى بَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ قَوْمَهُ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ قَالَ لَهُمْ: مَا فِي الْأَرْضِ أَحَدٌ أَعْلَمُ مِنِّي، وَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ فِي الْأَرْضِ مَنْ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنْ تُزَوَّدَ حُوتًا مَالِحًا، فَإِذَا فَقَدْتَهُ، فَهُوَ حَيْثُ تَفْقِدُهُ، فَتَزَوَّدَ حُوتًا مَالِحًا، فَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ، حَتَّى إِذَا بَلَغَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرُوا بِهِ، فَلَمَّا انْتَهَوْا إِلَى الصَّخْرَةِ، انْطَلَقَ مُوسَى يَطْلُبُ، وَوَضَعَ فَتَاهُ الْحُوتَ عَلَى الصَّخْرَةِ، وَاضْطَرَبَ، فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا، قَالَ: فَتَاهُ إِذَا جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ حَدَّثْتُهُ، فَأَنْسَاهُ الشَّيْطَانُ، فَانْطَلَقَا، فَأَصَابَهُمْ مَا يُصِيبُ الْمُسَافِرَ مِنَ النَّصَبِ وَالْكَلَالِ، وَلَمْ يَكُنْ يُصِيبُهُ مَا يُصِيبُ الْمُسَافِرَ مِنَ النَّصَبِ وَالْكَلَالِ، حَتَّى جَاوَزَ مَا أُمِرَ بِهِ، فَقَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا، لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، قَالَ لَهُ: فَتَاهُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ أَنْ أُحَدِّثَكَ، وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ، فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا، قَالَ: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَرَجَعَا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، يَقُصَّانِ الْأَثَرَ، حَتَّى إِذَا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَأَطَافَ بِهَا، فَإِذَا هُوَ مُسَجًّى بِثَوْبٍ لَهُ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ لَهُ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ مُوسَى قَالَ مَنْ مُوسَى؟ قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّ عِنْدَكَ عِلْمًا، فَأَرَدْتُ أَنْ أَصْحَبَكَ، قَالَ: إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، قَالَ: سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا، وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا، قَالَ: فَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا؟! قَالَ: قَدْ أُمِرْتُ أَنْ أَفْعَلَهُ، قَالَ: سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا، قَالَ: فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي، فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا، فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ، خَرَجَ مَنْ كَانَ فِيهَا، وَتَخَلَّفَ لِيَخْرِقَهَا، قَالَ: فَقَالَ لَهُ مُوسَى تَخْرِقُهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا، لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا؟ قَالَ: لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ، وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا، فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَوْا عَلَى غِلْمَانٍ يَلْعَبُونَ عَلَى سَاحِل الْبَحْرِ، وَفِيهِمْ غُلَامٌ لَيْسَ فِي الْغِلْمَانِ غُلَامٌ أَنْظَفَ يَعْنِي مِنْهُ، فَأَخَذَهُ فَقَتَلَهُ، فَنَفَرَ مُوسَى عِنْدَ ذَلِكَ، وَقَالَ: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ؟ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا؟ قَالَ: فَأَخَذَتْهُ ذَمَامَةٌ مِنْ صَاحِبِهِ، وَاسْتَحَيَا، فَقَالَ: إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا، فَلَا تُصَاحِبْنِي، قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا، فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ لِئَامًا، اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا، وَقَدْ أَصَابَ مُوسَى جَهْدٌ، فَلَمْ يُضَيِّفُوهُمَا، فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ، فَأَقَامَهُ، قَالَ لَهُ مُوسَى مِمَّا نَزَلَ بِهِمْ مِنَ الْجَهْدِ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ، فَأَخَذَ مُوسَى بِطَرَفِ ثَوْبِهِ، فَقَالَ: حَدِّثْنِي، فَقَالَ: أَمَّا السَّفِينَةُ، فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ، وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا، فَإِذَا مَرَّ عَلَيْهَا، فَرَآهَا مُنْخَرِقَةً تَرَكَهَا، وَرَقَّعَهَا أَهْلُهَا بِقِطْعَةِ خَشَبَةٍ، فَانْتَفَعُوا بِهَا، وَأَمَّا الْغُلَامُ فَإِنَّهُ كَانَ طُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ كَافِرًا، وَكَانَ قَدْ أُلْقِيَ عَلَيْهِ مَحَبَّةٌ مِنْ أَبَوَيْهِ، وَلَوْ أَطَاعَاهُ لَأَرْهَقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا، فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا، وَوَقَعَ أَبُوهُ عَلَى أُمِّهِ فَعَلِقَتْ، فَوَلَدَتْ مِنْهُ خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا، وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا، فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ، وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا" .
حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا خیال ہے کہ (حضرت خضر علیہ السلام والے) موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے دشمن اللہ جھوٹ بولتا ہے مجھ سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے تھے تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں سب سے بڑا عالم ہوں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا الہٰی اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو (اور سفر کو چل دو) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک مچھلی لے کر زنبیل میں ڈالی اور چل دیئے اور اپنے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون کو بھی لیتے گئے چلتے چلتے جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں (رک گئے اور) حضرت موسیٰ علیہ السلام اس پتھر پر سر رکھ کر سوگئے اتنے میں مچھلی زنبیل سے پھڑک کر نکلی اور دریا میں سرنگ بناتی ہوئی اپنی راہ چلی گئی حضرت موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے فرمایا ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے اب کھانا لے آؤ اور موسیٰ کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہ ہوئی تھی جب تک کہ مقام مقررہ سے آگے نہ بڑھے تھے بلکہ اس وقت تھکان معلوم ہونے لگی جب مقام مقررہ سے آگے بڑھ گئے خادم کہنے لگا کیا بتاؤں جب ہم اس پتھرکے پاس پہنچے تو میں مچھلی وہاں بھول گیا (اور آپ سے میں نے اس کا تذکرہ نہ کیا) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسی جگہ کی تو ہم کو تلاش تھی چنانچہ الٹے پاؤں قدم پر قدم ڈالتے واپس لوٹے۔ پتھر تک پہنچے ہی تھے کہ ایک آدمی کپڑے سے سر لپیٹے ہوئے نظر آیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سلام کیا خضر بولے تمہارے ملک میں سلام کا رواج کہاں ہے (یہ تم نے سلام کیسے کیا؟) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں موسیٰ ہوں خضربولے کیا بنی اسرائیل والے موسیٰ میں نے کہا جی ہاں اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا میں آپ کے ہمراہ اس شرط پر چل سکتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ نے جو علم آپ کو عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ حصہ کی مجھے بھی تعلیم دیجئے حضرت خضر علیہ السلام بولے آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکیں گے (درمیان میں بول اٹھیں گے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کا مجھے وہ حصہ عطا فرمایا ہے جو آپ کو نہیں دیا اور آپ کو وہ علم دیا جس سے میں ناواقف ہوں (حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ان شاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے میں آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا) آخرکار دونوں دریا کے کنارے کنارے چل دیئے کہ کشتی موجود نہ تھی اتنے میں ادھر سے ایک کشتی کا گزر ہوا انہوں نے کشتی والوں سے سوار ہونے کے متعلق کچھ بات چیت کی حضرت خضر علیہ السلام کو لوگوں نے پہچان لیا اس لئے کشتی والوں نے دونوں کو بغیر کرایہ کے سوار کرلیا اس کے بعد خضر علیہ السلام نے کشتی کو اچھی طرح دیکھ کر بسولا نکال کر کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم نے یہ کیا کیا؟ ان لوگوں نے تو بغیر کرایہ کے ہم کو سوار کرلیا اور تم نے ان کی کشتی توڑ کر سب کو ڈبونا چاہا تم نے یہ عجیب بات کی؟ خضر علیہ السلام بولے میں نے تم سے نہیں کہہ دیا تھا کہ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا بھول چوک پر میری گرفت نہ کیجئے اور مجھ پر میرے کام میں دشواری نہ ڈالیے اسی دوران ایک چڑیا نے آکر سمندر میں اپنی چونچ ڈالی حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا میرا اور تمہارا علم اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں کرسکتا جتنی کمی اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی میں کی ہے۔ پھر یہ دونوں حضرات کشتی سے نکل کر چل دیئے ساحل سمندر پر ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑ کر اپنے ہاتھ سے گردن اکھاڑ دی حضرت موسیٰ علیہ السلام بولے تم نے جو ایک معصوم جان کو بلا قصور مار ڈالا یہ تم نے بہت برا کام کیا خضر علیہ السلام بولے کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر ضبط نہ کرسکو گے موسیٰ نے کہا اچھا اب اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ دریافت کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھنا آپ نے میرا عذر بہت مان لیا آخر کار پھر دونوں چل دیئے چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے گاؤں والوں سے کھانا مانگا انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کردیا ان کو وہاں ایک دیوار نظر آئی جو گرنے کے قریب تھی، حضرت خضر علیہ السلام نے ہاتھ کا اشارہ کر کے اس کو سیدھا کردیا

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 74، م: 2380
حدیث نمبر: 21119
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله، حدثنا عبد الله بن إبراهيم المروزي ، حدثني هشام بن يوسف في تفسير ابن جريج الذي املاه عليهم اخبرني يعلى بن مسلم ، وعمرو بن دينار ، عن سعيد بن جبير ، يزيد احدهما على الآخر وغيرهما، قال: قد سمعت يحدثه، عن سعيد بن جبير، قال: إنا لعند عبد الله بن عباس في بيته، إذ قال: سلوني، فقلت: ابا عباس جعلني الله فداءك بالكوفة رجل قاص يقال له نوف، يزعم انه ليس موسى بني إسرائيل! اما عمرو بن دينار، فقال: كذب عدو الله، واما يعلى بن مسلم، فقال: قال ابن عباس، حدثني ابي بن كعب ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن موسى رسول الله ذكر الناس يوما، حتى إذا فاضت العيون، ورقت القلوب، ولى فادركه رجل، فقال: يا رسول الله، هل في الارض احد اعلم منك؟، قال: لا، قال: فعتب عليه، إذ لم يرد العلم إلى الله، فاوحى الله إليه إن لي عبدا اعلم منك، قال: اي رب، وانى؟ قال: مجمع البحرين، قال: اي رب، اجعل لي علما اعلم ذلك به، قال: لي عمرو، وقال: حيث يفارقك الحوت، وقال: يعلى خذ حوتا ميتا حيث ينفخ فيه الروح، فاخذ حوتا فجعله في مكتل، قال: لفتاه لا اكلفك إلا ان تخبرني حيث يفارقك الحوت، قال: ما كلفتني كثيرا، فذلك قوله تبارك وتعالى إذ قال موسى لفتاه سورة الكهف آية 60 يوشع بن نون، ليست عن سعيد بن جبير، قال: فبينا هو في ظل صخرة في مكان ثريان، إذ تضرب الحوت وموسى نائم، قال: فتاه لا اوقظه، حتى إذا استيقظ، نسي ان يخبره، وتضرب الحوت حتى دخل البحر، فامسك الله عليه جرية البحر، حتى كان اثره في حجر، فقال لي عمرو وكان اثره في حجر، وحلق إبهاميه واللتين تليانهما، لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا، قال: قد قطع الله عنك النصب، ليست هذه عن سعيد بن جبير فاخبره، فرجعا فوجدا خضرا، فقال لي عثمان بن ابي سليمان على طنفسة خضراء على كبد البحر، قال سعيد بن جبير: مسجى ثوبه، قد جعل طرفه تحت رجليه، وطرفه تحت راسه فسلم عليه موسى، فكشف عن وجهه، وقال: هل بارضك من سلام؟ من انت؟ قال: انا موسى، قال موسى بني إسرائيل؟ قال: نعم، قال: فما شانك؟ قال: جئت لتعلمني مما علمت رشدا، قال: اما يكفيك ان انباء التوراة بيدك، وان الوحي ياتيك، يا موسى، إن لي علما لا ينبغي ان تعلمه، وإن لك علما لا ينبغي ان اعلمه، فجاء طائر، فاخذ بمنقاره، فقال: والله ما علمي وعلمك في علم الله إلا كما اخذ هذا الطائر بمنقاره من البحر، حتى إذا ركبا في السفينة وجدا معابر صغارا تحمل اهل هذا الساحل إلى هذا الساحل عرفوه، فقالوا: عبد الله الصالح، فقلنا لسعيد خضر؟ قال: نعم، لا يحملونه باجر فخرقها، ووتد فيها وتدا، قال موسى: اخرقتها لتغرق اهلها لقد جئت شيئا إمرا، قال مجاهد نكرا، قال: الم اقل إنك لن تستطيع معي صبرا، وكانت الاولى نسيانا، والثانية شرطا، والثالثة عمدا، قال: لا تؤاخذني بما نسيت، ولا ترهقني من امري عسرا، فلقيا غلاما فقتله، قال يعلى بن مسلم، قال سعيد بن جبير: وجدا غلمانا يلعبون، فاخذ غلاما كافرا كان ظريفا، فاضجعه، ثم ذبحه بالسكين، قال: اقتلت نفسا زكية لم تعمل بالحنث؟! فانطلقا، فوجدا جدارا يريد ان ينقض، فاقامه، قال سعيد بيده هكذا، ورفع يده، فاستقام، قال يعلى فحسبت ان سعيدا، قال: فمسحه بيده، فاستقام، قال: لو شئت لاتخذت عليه اجرا، قال سعيد: اجرا ناكله"، قال: وكان يقرؤها وكان وراءهم سورة الكهف آية 79 وكان ابن عباس يقرؤها وكان امامهم ملك، يزعمون عن غير سعيد، انه قال: هذا الغلام المقتول يزعمون ان اسمه جيسور، قال: ياخذ كل سفينة غصبا، واراد إذا مرت به ان يدعها لعيبها، فإذا جاوزوا، اصلحوها، فانتفعوا بها بعد، منهم من يقول سدوها بقارورة، ومنهم من يقول: بالقار، وكان ابواه مؤمنين، وكان كافرا، فخشينا ان يرهقهما طغيانا وكفرا، فيحملهما حبه على ان يتابعاه على دينه، فاردنا ان يبدلهما ربهما خيرا منه زكاة، واقرب رحما هما به ارحم منهما بالاول الذي قتله خضر، وزعم غير سعيد، انهما ابدلا جارية، واما داود بن ابي عاصم، فقال: عن غير واحد إنها جارية، وبلغني عن سعيد بن جبير انها جارية، ووجدته في كتاب ابي، عن يحيى بن معين، عن هشام بن يوسف، مثله .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَرْوَزِيُّ ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ فِي تَفْسِيرِ ابْنِ جُرَيْجٍ الَّذِي أَمْلَاهُ عَلَيْهِمْ أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى الْآخِرِ وَغَيْرُهُمَا، قَالَ: قَدْ سَمِعْتُ يُحَدِّثُهُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: إِنَّا لَعِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ فِي بَيْتِهِ، إِذْ قَالَ: سَلُونِي، فَقُلْتُ: أَبَا عَبَّاسٍ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ بِالْكُوفَةِ رَجُلٌ قَاصٌّ يُقَالُ لَهُ نَوْفٌ، يَزْعُمُ أَنَّهُ لَيْسَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ! أَمَّا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، وَأَمَّا يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ، فَقَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مُوسَى رَسُولَ اللَّهِ ذَكَّرَ النَّاسَ يَوْمًا، حَتَّى إِذَا فَاضَتْ الْعُيُونُ، وَرَقَّتْ الْقُلُوبُ، وَلَّى فَأَدْرَكَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ فِي الْأَرْضِ أَحَدٌ أَعْلَمُ مِنْكَ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَعُتِبَ عَلَيْهِ، إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ إِنَّ لِي عَبْدًا أَعْلَمَ مِنْكَ، قَالَ: أَيْ رَبِّ، وَأَنَّى؟ قَالَ: مَجْمَعُ الْبَحْرَيْنِ، قَالَ: أَيْ رَبِّ، اجْعَلْ لِي عَلَمًا أَعْلَمُ ذَلِكَ بِهِ، قَالَ: لِي عَمْرٌو، وقَالَ: حَيْثُ يُفَارِقُكَ الْحُوتُ، وَقَالَ: يَعْلَى خُذْ حُوتًا مَيْتًا حَيْثُ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ، قَالَ: لِفَتَاهُ لَا أُكَلِّفُكَ إِلَّا أَنْ تُخْبِرَنِي حَيْثُ يُفَارِقُكَ الْحُوتُ، قَالَ: مَا كَلَّفْتَنِي كَثِيرًا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ سورة الكهف آية 60 يُوشَعَ بْنِ نُونَ، لَيْسَتْ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: فَبَيْنَا هُوَ فِي ظِلِّ صَخْرَةٍ فِي مَكَانٍ ثَرْيَانٍ، إِذْ تَضَرَّبَ الْحُوتُ وَمُوسَى نَائِمٌ، قَالَ: فَتَاهُ لَا أُوقِظُهُ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْقَظَ، نَسِيَ أَنْ يُخْبِرَهُ، وَتَضَرَّبَ الْحَوْتُ حَتَّى دَخَلَ الْبَحْرَ، فَأَمْسَكَ اللَّهُ عَلَيْهِ جِرْيَةَ الْبَحْرِ، حَتَّى كَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ، فَقَالَ لِي عَمْرٌو وَكَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ، وَحَلَّقَ إِبْهَامَيْهِ وَاللَّتَيْنِ تَلِيَانِهِمَا، لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، قَالَ: قَدْ قَطَعَ اللَّهُ عَنْكَ النَّصَبَ، لَيْسَتْ هَذِهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ فَأَخْبَرَهُ، فَرَجَعَا فَوَجَدَا خَضِرًا، فَقَالَ لِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَلَى طِنْفِسَةٍ خَضْرَاءَ عَلَى كَبِدِ الْبَحْرِ، قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: مُسَجًّى ثَوْبَهُ، قَدْ جَعَلَ طَرَفَهُ تَحْتَ رِجْلَيْهِ، وَطَرَفَهُ تَحْتَ رَأْسِهِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى، فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ، وَقَالَ: هَلْ بِأَرْضِكَ مِنْ سَلَامٍ؟ مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: جِئْتُ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا، قَالَ: أَمَا يَكْفِيكَ أَنَّ أَنْبَاءَ التَّوْرَاةِ بِيَدِكَ، وَأَنَّ الْوَحْيَ يَأْتِيكَ، يَا مُوسَى، إِنَّ لِي عِلْمًا لَا يَنْبَغِي أَنْ تَعْلَمَهُ، وَإِنَّ لَكَ عِلْمًا لَا يَنْبَغِي أَنْ أَعْلَمَهُ، فَجَاءَ طَائِرٌ، فَأَخَذَ بِمِنْقَارِهِ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا عِلْمِي وَعِلْمُكَ فِي عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَمَا أَخَذَ هَذَا الطَّائِرُ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ، حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ وَجَدَا مَعَابِرَ صِغَارًا تَحْمِلُ أَهْلَ هَذَا السَّاحِلِ إِلَى هَذَا السَّاحِلِ عَرَفُوهُ، فَقَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ الصَّالِحُ، فَقُلْنَا لِسَعِيدٍ خَضِرٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَا يَحْمِلُونَهُ بِأَجْرٍ فَخَرَقَهَا، وَوَتَدَ فِيهَا وَتِدًا، قَالَ مُوسَى: أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا، قَالَ مُجَاهِدٌ نُكْرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، وَكَانَتْ الْأُولَى نِسْيَانًا، وَالثَّانِيَةُ شَرْطًا، وَالثَّالِثَةُ عَمْدًا، قَالَ: لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ، وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا، فَلَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ، قَالَ يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: وَجَدَا غِلْمَانًا يَلْعَبُونَ، فَأَخَذَ غُلَامًا كَافِرًا كَانَ ظَرِيفًا، فَأَضْجَعَهُ، ثُمَّ ذَبَحَهُ بِالسِّكِّينِ، قَالَ: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً لَمْ تَعْمَلْ بِالْحِنْثِ؟! فَانْطَلَقَا، فَوَجَدَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ، فَأَقَامَهُ، قَالَ سَعِيدٌ بِيَدِهِ هَكَذَا، وَرَفَعَ يَدَهُ، فَاسْتَقَامَ، قَالَ يَعْلَى فَحَسِبْتُ أَنَّ سَعِيدًا، قَالَ: فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ، فَاسْتَقَامَ، قَالَ: لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ سَعِيدٌ: أَجْرًا نَأْكُلُهُ"، قَالَ: وَكَانَ يَقْرَؤُهَا وَكَانَ وَرَاءَهُمْ سورة الكهف آية 79 وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقْرَؤُهَا وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ، يَزْعُمُونَ عَنْ غَيْرِ سَعِيدٍ، أَنَّهُ قَالَ: هَذَا الْغُلَامُ الْمَقْتُولُ يَزْعُمُونَ أَنَّ اسْمَهُ جَيْسُورُ، قَالَ: يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا، وَأَرَادَ إِذَا مَرَّتْ بِهِ أَنْ يَدَعَهَا لِعَيْبِهَا، فَإِذَا جَاوَزُوا، أَصْلَحُوهَا، فَانْتَفَعُوا بِهَا بَعْدُ، مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ سَدُّوهَا بِقَارُورَةٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: بِالْقَارِ، وَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ، وَكَانَ كَافِرًا، فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا، فَيَحْمِلُهُمَا حُبُّهُ عَلَى أَنْ يُتَابِعَاهُ عَلَى دِينِهِ، فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً، وَأَقْرَبَ رُحْمًا هُمَا بِهِ أَرْحَمُ مِنْهُمَا بِالْأَوَّلِ الَّذِي قَتَلَهُ خَضِرٌ، وَزَعَمَ غَيْرُ سَعِيدٍ، أَنَّهُمَا أُبْدِلا جَارِيَةٌ، وَأَمَّا دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَاصِمٍ، فَقَالَ: عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ إِنَّهَا جَارِيَةٌ، وَبَلَغَنِي عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّهَا جَارِيَةٌ، وَوَجَدْتُهُ فِي كِتَابِ أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ يُوسُفَ، مِثْلَهُ .
حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا خیال ہے کہ (حضرت خضر علیہ السلام والے) موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے دشمن اللہ جھوٹ بولتا ہے مجھ سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے تھے تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں سب سے بڑا عالم ہوں خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا الہٰی اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو (اور سفر کو چل دو) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک مچھلی لے کر زنبیل میں ڈالی اور چل دیئے اور اپنے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون کو بھی لیتے گئے چلتے چلتے جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں (رک گئے اور) حضرت موسیٰ علیہ السلام اس پتھر پر سر رکھ کر سو گئے اتنے میں مچھلی زنبیل سے پھڑک کر نکلی اور دریا میں سرنگ بناتی ہوئی اپنی راہ چلی گئی حضرت موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے فرمایا ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے اب کھانا لے آؤ اور موسیٰ کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہ ہوئی تھی جب تک کہ مقام مقررہ سے آگے نہ بڑھے تھے بلکہ اس وقت تھکان معلوم ہونے لگی جب مقام مقررہ سے آگے بڑھ گئے خادم کہنے لگا کیا بتاؤں جب ہم اس پتھر کے پاس پہنچے تو میں مچھلی وہاں بھول گیا (اور آپ سے میں نے اس کا تذکرہ نہ کیا) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسی جگہ کی تو ہم کو تلاش تھی چنانچہ الٹے پاؤں قدم پر قدم ڈالتے واپس لوٹے۔ پتھر تک پہنچے ہی تھے کہ ایک آدمی کپڑے سے سر لپیٹے ہوئے نظر آیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سلام کیا خضر بولے تمہارے ملک میں سلام کا رواج کہاں ہے (یہ تم نے سلام کیسے کیا؟) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں موسیٰ ہوں خضر بولے کیا بنی اسرائیل والے موسیٰ میں نے کہا جی ہاں اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا میں آپ کے ہمراہ اس شرط پر چل سکتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ نے جو علم آپ کو عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ حصہ کی مجھے بھی تعلیم دیجئے حضرت خضر علیہ السلام بولے آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکیں گے (درمیان میں بول اٹھیں گے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کا مجھے وہ حصہ عطا فرمایا ہے جو آپ کو نہیں دیا اور آپ کو وہ علم دیا جس سے میں ناواقف ہوں (حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ان شاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے میں آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا) آخرکار دونوں دریا کے کنارے کنارے چل دیئے کہ کشتی موجود نہ تھی اتنے میں ادھر سے ایک کشتی کا گزر ہوا انہوں نے کشتی والوں سے سوار ہونے کے متعلق کچھ بات چیت کی حضرت خضر علیہ السلام کو لوگوں نے پہچان لیا اس لئے کشتی والوں نے دونوں کو بغیر کرایہ کے سوار کرلیا اس کے بعدخضر علیہ السلام نے کشتی کو اچھی طرح دیکھ کر بسولا نکال کر کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم نے یہ کیا کیا؟ ان لوگوں نے تو بغیر کرایہ کے ہم کو سوار کرلیا اور تم نے ان کی کشتی توڑ کر سب کو ڈبونا چاہا تم نے یہ عجیب بات کی؟ خضر علیہ السلام بولے میں نے تم سے نہیں کہہ دیا تھا کہ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا بھول چوک پر میری گرفت نہ کیجئے اور مجھ پر میرے کام میں دشواری نہ ڈالیے اسی دوران ایک چڑیا نے آکر سمندر میں اپنی چونچ ڈالی حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا میرا اور تمہارا علم اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں کرسکتا جتنی کمی اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی میں کی ہے۔ پھر یہ دونوں حضرات کشتی سے نکل کر چل دیئے راستہ میں ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا خضر علیہ السلام نے اس کا سرپکڑ کر اپنے ہاتھ سے گردن اکھاڑ دی حضرت موسیٰ علیہ السلام بولے تم نے جو ایک معصوم جان کو بلا قصور مار ڈالا یہ تم نے بہت برا کام کیا خضر علیہ السلام بولے کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر ضبط نہ کرسکو گے موسیٰ نے کہا اچھا اب اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ دریافت کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھنا آپ نے میرا عذر بہت مان لیا آخر کار پھر دونوں چل دیئے چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے گاؤں والوں سے کھانا مانگا انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کردیا ان کو وہاں ایک دیوار نظر آئی جو گرنے کے قریب تھی، حضرت خضر علیہ السلام نے ہاتھ کا اشارہ کر کے اس کو سیدھا کردیا حضرت

حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 74، م: 2380، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل محمد بن يعقوب الرباني، لكنه توبع
حدیث نمبر: 21120
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله، قال: حدثني محمد بن يعقوب ابو الهيثم الربالي ، حدثنا معتمر بن سليمان ، قال: سمعت ابي ، حدثنا رقبة ، عن ابي إسحاق ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، حدثنا ابي بن كعب ، قال: سمعت نبي الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " بينما موسى في قومه يذكرهم بايام الله، وايام الله نعمه وبلاؤه، إذ قال: ما اعلم في الارض رجلا خيرا مني، او اعلم مني! قال: فاوحى الله إليه إني اعلم بالخير من هو او عند من هو، إن في الارض رجلا هو اعلم منك، قال: يا رب، فدلني عليه، فقيل له: تزود حوتا مالحا، ففعل، ثم خرج، فلقي الخضر، فكان من امرهما ما كان، حتى كان آخر ذلك مروا بالقرية اللئام اهلها، فطافا في المجالس، فاستطعما، فابوا ان يضيفوهما، ثم قص عليه النبا نبا السفينة، وانه إنما خرقها ليتجوزها الملك، فلا يريدها، واما الغلام، فطبع يوم طبع كافرا، كان ابواه عطفا عليه، فلو انه ادرك، ارهقهما طغيانا وكفرا، واما الجدار، فكان لغلامين يتيمين في المدينة" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ أَبُو الْهَيْثَمِ الرُّبَالِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، حَدَّثَنَا رَقَبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " بَيْنَمَا مُوسَى فِي قَوْمِهِ يُذَكِّرُهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ، وَأَيَّامُ اللَّهِ نِعَمُهُ وَبَلَاؤُهُ، إِذْ قَالَ: مَا أَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ رَجُلًا خَيْرًا مِنِّي، أَوْ أَعْلَمَ مِنِّي! قَالَ: فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ إِنِّي أَعْلَمُ بِالْخَيْرِ مَنْ هُوَ أَوْ عِنْدَ مَنْ هُوَ، إِنَّ فِي الْأَرْضِ رَجُلًا هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ: يَا رَبِّ، فَدُلَّنِي عَلَيْهِ، فَقِيلَ لَهُ: تَزَوَّدْ حُوتًا مَالِحًا، فَفَعَلَ، ثُمَّ خَرَجَ، فَلَقِيَ الْخَضِرَ، فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِمَا مَا كَانَ، حَتَّى كَانَ آخِرُ ذَلِكَ مَرُّوا بِالْقَرْيَةِ اللِّئَامِ أَهْلُهَا، فَطَافَا فِي الْمَجَالِسِ، فَاسْتَطْعَمَا، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا، ثُمَّ قَصَّ عَلَيْهِ النَّبَأَ نَبَأَ السَّفِينَةِ، وَأَنَّهُ إِنَّمَا خَرَقَهَا لِيَتَجَوَّزَهَا الْمَلِكُ، فَلَا يُرِيدُهَا، وَأَمَّا الْغُلَامُ، فَطُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ كَافِرًا، كَانَ أَبَوَاهُ عَطَفَا عَلَيْهِ، فَلَوْ أَنَّهُ أَدْرَكَ، أَرْهَقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا، وَأَمَّا الْجِدَارُ، فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ" .
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے تھے تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں سب سے بڑا عالم ہوں اللہ تعالیٰ کو یہ بات ناگوار ہوئی کہ موسیٰ نے علم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا الہٰی اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو (اور سفر کو چل دو) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک مچھلی لے کر زنبیل میں ڈالی اور چل دیئے اور وہ قصہ پیش آیا جو اللہ نے بیان کیا ہے حتٰی کہ سب سے آخر میں چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے گاؤں والوں سے کھانا مانگا انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کردیا پھر حضرت خضر علیہ السلام نے ان کے سامنے کشتی والے واقعے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسے بادشاہ کی وجہ سے توڑا تھا تاکہ وہ وہاں سے گذرے اس سے کوئی تعرض نہ کرے اور رہا لڑکا تو فطری طور پر وہ کافر تھا اس کے والدین اس پر بہت شفیق تھے اگر وہ زندہ رہتا تو انہیں سرکشی اور نافرمانی میں مبتلا کردیتا اور رہی دیوار تو وہ شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 74، م: 2380، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل محمد بن يعقوب الرباني، لكنه توبع
حدیث نمبر: 21121
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله، حدثنا ابو الربيع العتكي سليمان بن داود الزهراني ، حدثنا المعتمر بن سليمان ، قال: سمعت ابي يذكر، عن رقبة . ح وحدثنا عبد الله، قال: وحدثني محمد بن ابي بكر المقدمي ، حدثنا معتمر ، عن ابيه ، عن رقبة . ح وحدثنا عبد الله، قال: وحدثني سويد بن سعيد . ح وحدثنا عبد الله، قال وحدثني محمد بن احمد بن خالد الواسطي ، قالا: حدثنا معتمر ، عن ابيه ، عن رقبة ، وقالوا: جميعا، عن ابي إسحاق ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، عن ابي بن كعب ، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " الغلام الذي قتله الخضر طبع كافرا" زاد ابو الربيع في حديثه" ولو ادرك، لارهق ابويه طغيانا وكفرا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُ، عَنْ رَقَبَةَ . ح وحَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، قَالَ: وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ رَقَبَةَ . ح وحَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، قَالَ: وحَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ . ح وحَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، قَالَ وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ خَالِدٍ الْوَاسِطِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ رَقَبَةَ ، وَقَالُوا: جَمِيعًا، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْغُلَامُ الَّذِي قَتَلَهُ الْخَضِرُ طُبِعَ كَافِرًا" زَادَ أَبُو الرَّبِيعِ فِي حَدِيثِهِ" وَلَوْ أَدْرَكَ، لَأَرْهَقَ أَبَوَيْهِ طُغْيَانًا وَكُفْرًا" .
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت خضر علیہ السلام نے جس لڑکے کو قتل کیا تھا وہ طبعاً کافر تھا (اگر وہ زندگی پاتا تو اپنے والدین کو بھی سرکشی اور کفر کے قریب پہنچا دیتا)

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2661، ولعبدالله بن أحمد فيه عدة شيوخ، منهم: سويد بن سعيد الهروي، وهو ضعيف، ومحمد بن أحمد الواسطى، وهو مجهول، لكنهما متابعان
حدیث نمبر: 21122
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله، حدثنا سريج بن يونس ، وابو الربيع الزهراني ، قالا: حدثنا سلم بن قتيبة ، حدثنا عبد الجبار بن عباس الهمداني، عن ابي إسحاق ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، عن ابي بن كعب ، عن النبي صلى الله عليه وسلم " الغلام الذي قتله صاحب موسى طبع يوم طبع كافرا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، وَأَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عَبَّاسٍ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " الْغُلَامُ الَّذِي قَتَلَهُ صَاحِبُ مُوسَى طُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ كَافِرًا" .
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت خضر علیہ السلام نے جس لڑکے کو قتل کیا تھا وہ طبعاً کافر تھا (اگر وہ زندگی پاتا تو اپنے والدین کو بھی سرکشی اور کفر کے قریب پہنچا دیتا)

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.