مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر

مسند احمد
932. حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا
حدیث نمبر: 21114
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله، حدثني ابو عثمان عمرو بن محمد بن بكير الناقد ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عمرو يعني ابن دينار ، عن سعيد بن جبير ، قال: قلت لابن عباس ، إن نوفا الشامي يزعم، او يقول: ليس موسى صاحب خضر موسى بني إسرائيل، قال: كذب نوف عدو الله، حدثني ابي بن كعب ، عن النبي صلى الله عليه وسلم،" ان موسى قام في بني إسرائيل خطيبا، فقالوا له: من اعلم الناس؟ قال: انا، فاوحى الله إليه ان لي عبدا اعلم منك، قال: رب فارنيه، قال: قيل: تاخذ حوتا، فتجعله في مكتل، فحيثما فقدته، فهو ثم، قال: فاخذ حوتا، فجعله في مكتل، وجعل هو وصاحبه يمشيان على الساحل، حتى اتيا الصخرة، فرقد موسى، واضطرب الحوت في المكتل، فوقع في البحر، فحبس الله عليه جرية الماء فاضطرب الماء، فاستيقظ موسى، فقال: لفتاه آتنا غداءنا، لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا، ولم يصب النصب حتى جاوز الذي امره الله به، قال: فقال: ارايت إذ اوينا إلى الصخرة، فإني نسيت الحوت، وما انسانيه إلا الشيطان، فارتدا على آثارهما قصصا، فجعلا يقصان آثارهما، واتخذ سبيله في البحر سربا، قال: امسك عنه جرية الماء، فصار عليه مثل الطاق، فكان للحوت سربا، وكان لموسى عجبا، حتى انتهيا إلى الصخرة، فإذا رجل مسجى، عليه ثوب، فسلم موسى عليه، فقال: وانى بارضك السلام؟ قال: انا موسى، قال موسى بني إسرائيل؟ قال: نعم، اتبعك على ان تعلمني مما علمت رشدا، قال: يا موسى، إني على علم من الله لا تعلمه، وانت على علم من الله علمكه الله، فانطلقا يمشيان على الساحل، فمرت سفينة، فعرفوا الخضر، فحمل بغير نول، فلم يعجبه، ونظر في السفينة، فاخذ القدوم يريد ان يكسر منها لوحا، فقال: حملنا بغير نول وتريد ان تخرقها لتغرق اهلها؟ قال: الم اقل إنك لن تستطيع معي صبرا؟! قال: إني نسيت، وجاء عصفور فنقر في البحر، قال: الخضر ما ينقص علمي ولا علمك من علم الله إلا كما ينقص هذا العصفور من هذا البحر، فانطلقا حتى إذا اتيا اهل قرية، استطعما اهلها، فابوا ان يضيفوهما، فراى غلاما فاخذ راسه، فانتزعه، فقال: اقتلت نفسا زكية بغير نفس؟! لقد جئت شيئا نكرا، قال: الم اقل لك، إنك لن تستطيع معي صبرا؟! قال سفيان: قال عمرو: وهذه اشد من الاولى، قال: فانطلقا، فإذا جدار يريد ان ينقض، فاقامه، وارانا سفيان بيديه، فرفع يديه هكذا رفعا، فوضع راحتيه، فرفعهما ببطن كفيه رفعا، فقال: لو شئت لتخذت عليه اجرا، قال: هذا فراق بيني وبينك، قال ابن عباس: كانت الاولى نسيانا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يرحم الله موسى، لو كان صبر حتى يقص علينا من امره" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الله، حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُكَيْرٍ النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ ، إِنَّ نَوْفًا الشَّامِيَّ يَزْعُمُ، أَو يَقُولُ: لَيْسَ مُوسَى صَاحِبَ خَضِرٍ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ: كَذَبَ نَوْفٌ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّ مُوسَى قَامَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ خَطِيبًا، فَقَالُوا لَهُ: مَنْ أَعْلَمُ النَّاسِ؟ قَالَ: أَنَا، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ لِي عَبْدًا أَعْلَمَ مِنْكَ، قَالَ: رَبِّ فَأَرِنِيهِ، قَالَ: قِيلَ: تَأْخُذُ حُوتًا، فَتَجْعَلُهُ فِي مِكْتَلٍ، فَحَيْثُمَا فَقَدْتَهُ، فَهُوَ ثَمَّ، قَالَ: فَأَخَذَ حُوتًا، فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ، وَجَعَلَ هُوَ وَصَاحِبُهُ يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ، حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ، فَرَقَدَ مُوسَى، وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ، فَوَقَعَ فِي الْبَحْرِ، فَحَبَسَ اللَّهُ عَلَيْهِ جِرْيَةَ الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ الْمَاءُ، فَاسْتَيْقَظَ مُوسَى، فَقَالَ: لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا، لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، وَلَمْ يُصِبْ النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ الَّذِي أَمَرَهُ اللَّهُ بِهِ، قَالَ: فَقَالَ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ، وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، فَجَعَلَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا، وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا، قَالَ: أَمْسَكَ عَنْهُ جِرْيَةَ الْمَاءِ، فَصَارَ عَلَيْهِ مِثْلُ الطَّاقِ، فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا، وَكَانَ لِمُوسَى عَجَبًا، حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى، عَلَيْهِ ثَوْبٌ، فَسَلَّمَ مُوسَى عَلَيْهِ، فَقَالَ: وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا، قَالَ: يَا مُوسَى، إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنَ اللَّهِ لَا تَعْلَمُهُ، وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ مِنَ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ، فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ، فَمَرَّتْ سَفِينَةٌ، فَعَرَفُوا الْخَضِرَ، فَحُمِلَ بِغَيْرِ نَوْلٍ، فَلَمْ يُعْجِبْهُ، وَنَظَرَ فِي السَّفِينَةِ، فَأَخَذَ الْقَدُومَ يُرِيدُ أَنْ يَكْسِرَ مِنْهَا لَوْحًا، فَقَالَ: حُمِلْنَا بِغَيْرِ نَوْلٍ وَتُرِيدُ أَنْ تَخْرُقَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا؟ قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا؟! قَالَ: إِنِّي نَسِيتُ، وَجَاءَ عُصْفُورٌ فَنَقَرَ فِي الْبَحْرِ، قَالَ: الْخَضِرُ مَا يُنْقِصُ عِلْمِي وَلَا عِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَمَا يُنْقِصُ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْ هَذَا الْبَحْرِ، فَانْطَلَقَا حَتَّى إذا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ، اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا، فَرَأَى غُلَامًا فَأَخَذَ رَأْسَهُ، فَانْتَزَعَهُ، فَقَالَ: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ؟! لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ، إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا؟! قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ عَمْرٌو: وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنَ الْأُولَى، قَالَ: فَانْطَلَقَا، فَإِذَا جِدَارٌ يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ، فَأَقَامَهُ، وَأَرَانَا سُفْيَانُ بِيَدَيْهِ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ هَكَذَا رَفْعًا، فَوَضَعَ رَاحَتَيْهِ، فَرَفَعَهُمَا بِبَطْنِ كَفَّيْهِ رَفْعًا، فَقَالَ: لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَانَتْ الْأُولَى نِسْيَانًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى، لَوْ كَانَ صَبَرَ حَتَّى يَقُصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِ" ..
حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا خیال ہے کہ (حضرت خضر علیہ السلام والے) موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے دشمن اللہ جھوٹ بولتا ہے مجھ سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے تھے تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں سب سے بڑا عالم ہوں خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا الہٰی اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو (اور سفر کو چل دو) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک مچھلی لے کر زنبیل میں ڈالی اور چل دیئے اور اپنے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون کو بھی لیتے گئے چلتے چلتے جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں (رک گئے اور) حضرت موسیٰ علیہ السلام اس پتھر پر سر رکھ کر سو گئے اتنے میں مچھلی زنبیل سے پھڑک کر نکلی اور دریا میں سرنگ بناتی ہوئی اپنی راہ چلی گئی حضرت موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے فرمایا ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے اب کھانا لے آؤ اور موسیٰ کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہ ہوئی تھی جب تک کہ مقام مقررہ سے آگے نہ بڑھے تھے بلکہ اس وقت تھکان معلوم ہونے لگی جب مقام مقررہ سے آگے بڑھ گئے خادم کہنے لگا کیا بتاؤں جب ہم اس پتھر کے پاس پہنچے تو میں مچھلی وہاں بھول گیا (اور آپ سے میں نے اس کا تذکرہ نہ کیا) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسی جگہ کی تو ہم کو تلاش تھی چنانچہ الٹے پاؤں قدم پر قدم ڈالتے واپس لوٹے۔ پتھر تک پہنچے ہی تھے کہ ایک آدمی کپڑے سے سر لپیٹے ہوئے نظر آیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سلام کیا خضر بولے تمہارے ملک میں سلام کا رواج کہاں ہے (یہ تم نے سلام کیسے کیا؟) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں موسیٰ ہوں خضر بولے کیا بنی اسرائیل والے موسیٰ میں نے کہا جی ہاں اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا میں آپ کے ہمراہ اس شرط پر چل سکتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ نے جو علم آپ کو عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ حصہ کی مجھے بھی تعلیم دیجئے حضرت خضر علیہ السلام بولے آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکیں گے (درمیان میں بول اٹھیں گے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کا مجھے وہ حصہ عطا فرمایا ہے جو آپ کو نہیں دیا اور آپ کو وہ علم دیا جس سے میں ناواقف ہوں (حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ان شاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے میں آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا) آخرکار دونوں دریا کے کنارے کنارے چل دیئے کہ کشتی موجود نہ تھی اتنے میں ادھر سے ایک کشتی کا گزر ہوا انہوں نے کشتی والوں سے سوار ہونے کے متعلق کچھ بات چیت کی حضرت خضر علیہ السلام کو لوگوں نے پہچان لیا اس لئے کشتی والوں نے دونوں کو بغیر کرایہ کے سوار کرلیا اس کے بعدخضر علیہ السلام نے کشتی کو اچھی طرح دیکھ کر بسولا نکال کر کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم نے یہ کیا کیا؟ ان لوگوں نے تو بغیر کرایہ کے ہم کو سوار کرلیا اور تم نے ان کی کشتی توڑ کر سب کو ڈبونا چاہا تم نے یہ عجیب بات کی؟ خضر علیہ السلام بولے میں نے تم سے نہیں کہہ دیا تھا کہ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا بھول چوک پر میری گرفت نہ کیجئے اور مجھ پر میرے کام میں دشواری نہ ڈالیے اسی دوران ایک چڑیا نے آکر سمندر میں اپنی چونچ ڈالی حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا میرا اور تمہارا علم اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں کرسکتا جتنی کمی اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی میں کی ہے۔ پھر یہ دونوں حضرات کشتی سے نکل کر چل دیئے راستہ میں ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا خضر علیہ السلام نے اس کا سرپکڑ کر اپنے ہاتھ سے گردن اکھاڑ دی حضرت موسیٰ علیہ السلام بولے تم نے جو ایک معصوم جان کو بلا قصور مار ڈالا یہ تم نے بہت برا کام کیا خضر علیہ السلام بولے کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر ضبط نہ کرسکو گے موسیٰ نے کہا اچھا اب اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ دریافت کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھنا آپ نے میرا عذر بہت مان لیا آخر کار پھر دونوں چل دیئے چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے گاؤں والوں سے کھانا مانگا انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کردیا ان کو وہاں ایک دیوار نظر آئی جو گرنے کے قریب تھی، حضرت خضر علیہ السلام نے ہاتھ کا اشارہ کر کے اس کو سیدھا کردیا حضرت

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 122، م: 2380


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.