حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، عن ابي ذر ، قال: قلت: يا رسول الله، اي مسجد وضع في الارض اول؟ قال:" المسجد الحرام"، قال: قلت: ثم اي؟ قال:" ثم المسجد الاقصى"، قال ابو معاوية يعني بيت المقدس، قال: قلت: كم بينهما؟ قال: " اربعون سنة، واينما ادركتك الصلاة فصل فإنه مسجد" ، وابن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، قال: سمعت إبراهيم التيمي ، فذكر معناه.حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلُ؟ قَالَ:" الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ"، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ؟ قَالَ:" ثُمَّ الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى"، قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ يَعْنِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ، قَالَ: قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: " أَرْبَعُونَ سَنَةً، وَأَيْنَمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فَصَلِّ فَإِنَّهُ مَسْجِدٌ" ، وَابْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيَّ ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلی مسجد کون سی بنائی گئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسجد حرام، میں نے پوچھا پھر کون سی؟ فرمایا مسجد اقصیٰ میں نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا وفقہ تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چالیس سال میں نے پوچھا پھر کون سی مسجد؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تمہیں جہاں بھی نماز مل جائے وہیں پڑھ لو کیونکہ روئے زمین مسجد ہے۔
حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن ابي العالية البراء ، قال: اخر ابن زياد الصلاة، فاتاني عبد الله بن الصامت ، فالقيت له كرسيا فجلس عليه، فذكرت له صنيع ابن زياد، فعض على شفته، وضرب فخذي، وقال: إني سالت ابا ذر كما سالتني فضرب فخذي كما ضربت فخذك، وقال: إني سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني، فضرب فخذي كما ضربت فخذك، فقال: " صل الصلاة لوقتها، فإن ادركتك معهم فصل، ولا تقل إني قد صليت فلا اصلي" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ ، قَالَ: أَخَّرَ ابْنُ زِيَادٍ الصَّلَاةَ، فَأَتَانِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّامِتِ ، فَأَلْقَيْتُ لَهُ كُرْسِيًّا فَجَلَسَ عَلَيْهِ، فَذَكَرْتُ لَهُ صَنِيعَ ابْنِ زِيَادٍ، فَعَضَّ عَلَى شَفَتِهِ، وَضَرَبَ فَخِذِي، وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ كَمَا سَأَلْتَنِي فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذِكَ، وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَكَ، فَقَالَ: " صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ أَدْرَكَتْكَ مَعَهُمْ فَصَلِّ، وَلَا تَقُلْ إِنِّي قَدْ صَلَّيْتُ فَلَا أُصَلِّي" .
ابوالعالیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبیداللہ بن زیاد نے کسی نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کردیا میں نے عبداللہ بن صامت رحمہ اللہ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے میری ران پر ہاتھ مار کر کہا کہ یہی سوال میں نے اپنے دوست حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا تو انہوں نے میری ران پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ یہی سوال میں نے اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ نماز تو اپنے وقت پر پڑھ لیا کرو اگر ان لوگوں کے ساتھ شریک ہونا پڑے تو دوبارہ ان کے ساتھ (نفل کی نیت سے) نماز پڑھ لیا کرو یہ نہ کہا کرو کہ میں تو نماز پڑھ چکا ہوں لہٰذا اب نہیں پڑھتا۔
حدثنا إسماعيل ، عن يونس ، عن حميد بن هلال ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا احدكم قام يصلي فإنه يستره إذا كان بين يديه مثل آخرة الرحل، فإن لم يكن بين يديه مثل آخرة الرحل، فإنه يقطع صلاته الحمار والمراة والكلب الاسود"، قال: فقلت: يا ابا ذر، ما بال الكلب الاسود من الكلب الاحمر من الكلب الاصفر؟ فقال: يا ابن اخي سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني، فقال:" الكلب الاسود شيطان" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَحَدُكُمْ قَامَ يُصَلِّي فَإِنَّهُ يَسْتُرُهُ إِذَا كَانَ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ، فَإِنَّهُ يَقْطَعُ صَلَاتَهُ الْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ"، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا بَالُ الْكَلْبِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْكَلْبِ الْأَحْمَرِ مِنَ الْكَلْبِ الْأَصْفَرِ؟ فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ:" الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر انسان کے سامنے کجاوے کا پچھلا حصہ بھی نہ ہو تو اس کی نماز عورت، گدھے یا کالے کتے کے اس کے آگے سے گذرنے پر ٹوٹ جائے گی، راوی نے پوچھا کہ کالے اور سرخ کتے میں کیا فرق ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بھیتجے! میں نے بھی اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا تھا جیسے تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔
حدثنا إسماعيل ، عن الجريري ، عن ابي العلاء بن الشخير ، عن الاحنف بن قيس ، قال: قدمت المدينة فبينا انا في حلقة فيها ملا من قريش إذ جاء رجل، فذكر الحديث، فاتبعته حتى جلس إلى سارية، فقلت: ما رايت هؤلاء إلا كرهوا ما قلت لهم، فقال: إن خليلي ابا القاسم صلى الله عليه وسلم دعاني، فقال: " يا ابا ذر" فاجبته، فقال:" هل ترى احدا؟" فنظرت ما علا من الشمس وانا اظنه يبعثني في حاجة، فقلت: اراه، قال:" ما يسرني ان لي مثله ذهبا انفقه كله إلا ثلاثة الدنانير" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَبَيْنَا أَنَا فِي حَلَقَةٍ فِيهَا مَلَأٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَاتَّبَعْتُهُ حَتَّى جَلَسَ إِلَى سَارِيَةٍ، فَقُلْتُ: مَا رَأَيْتُ هَؤُلَاءِ إِلَّا كَرِهُوا مَا قُلْتَ لَهُمْ، فَقَالَ: إِنَّ خَلِيلِي أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانِي، فَقَالَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ" فَأَجَبْتُهُ، فَقَالَ:" هَلْ تَرَى أُحُدًا؟" فَنَظَرْتُ مَا عَلاَ مِنَ الشَّمْسِ وَأَنَا أَظُنُّهُ يَبْعَثُنِي فِي حَاجَةٍ، فَقُلْتُ: أَرَاهُ، قَالَ:" مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي مِثْلَهُ ذَهَبًا أُنْفِقُهُ كُلَّهُ إِلَّا ثَلَاثَةَ الدَّنَانِيرِ" .
احنف بن قیس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ میں حاضر ہوا میں ایک حلقے میں " جس میں قریش کے کچھ لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے " شریک تھا کہ ایک آدمی آیا (اس نے ان کے قریب آکر کہا کہ مال و دولت جمع کرنے والوں کو خوشخبری ہو اس داغ کی جو ان کی پشت کی طرف سے داغا جائے گا اور ان کے پیٹ سے نکل جائے گا اور گدی کی جانب سے ایک داغ کی جو ان کی پیشانی سے نکل جائے گا پھر وہ ایک طرف چلا گیا میں اس کے پیچھے چل پڑا یہاں تک کہ وہ ایک ستون کے قریب جا کر بیٹھ گیا میں نے اس سے کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ آپ کی بات سے خوش نہیں ہوئے؟ اس نے کہا کہ ایک مرتبہ میرے خلیل ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا اے ابوذر! میں نے لبیک کہا، انہوں نے فرمایا احد پہاڑ دیکھ رہے ہو؟ میں نے اوپر نگاہ اٹھا کر سورج کو دیکھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ مجھے کسی کام سے بھیجیں گے سو میں نے عرض کیا کہ دیکھ رہا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ اس پہاڑ کے برابر میرے پاس سونا ہو، میں اس سارے کو خرچ کردوں گا سوائے تین دنانیر کے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال: سمعت سويد بن الحارث ، قال: سمعت ابا ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما احب ان لي مثل احد ذهبا، قال شعبة، او قال: ما احب ان لي احدا ذهبا، ادع منه يوم اموت دينارا او نصف دينار إلا لغريم" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُوَيْدَ بْنَ الْحَارِثِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، قَالَ شُعْبَةُ، أَوْ قَالَ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي أُحُدًا ذَهَبًا، أَدَعُ مِنْهُ يَوْمَ أَمُوتُ دِينَارًا أَوْ نِصْفَ دِينَارٍ إِلَّا لِغَرِيمٍ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میرے لئے احد پہاڑ کو سونے کا بنادیا جائے اور جس دن میں دنیا سے رخصت ہو کر جاؤں تو اس میں سے ایک یا آدھا دینار بھی میرے پاس بچ گیا ہو الاّ یہ کہ میں اسے کسی قرض خواہ کے لئے رکھ لوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة سويد بن الحارث
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي البختري ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه ذكر اشياء يؤجر فيها الرجل حتى ذكر لي غشيان اهله، فقالوا: يا رسول الله، ايؤجر في شهوته يصيبها؟! قال: " ارايت لو كان آثما، اليس كان يكون عليه الوزر؟!" فقالوا: نعم، قال:" فكذلك يؤجر" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ ذَكَرَ أَشْيَاءَ يُؤْجَرُ فِيهَا الرَّجُلُ حَتَّى ذَكَرَ لِي غَشَيَانَ أَهْلِهِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُؤْجَرُ فِي شَهْوَتِهِ يُصِيبُهَا؟! قَالَ: " أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ آثِمًا، أَلَيْسَ كَانَ يَكُونُ عَلَيْهِ الْوِزْرُ؟!" فَقَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" فَكَذَلِكَ يُؤْجَرُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ایسی چیزوں کا تذکرہ فرمایا جن پر انسان کو ثواب ملتا ہے اور ان میں اپنی بیوی کے " پاس آنے " کو بھی ذکر فرمایا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا انسان کو اپنی خواہش کی تکمیل پر بھی ثواب ملتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بتاؤ کہ اگر وہ گناہگار ہوتا تو اسے اس پر عذاب نہ ہوتا؟ لوگوں نے کہا جی ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس طرح عذاب ہوتا ہے اس طرح ثواب ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1006، وسنده منقطع، أبوالبختري لم يدرك أبا ذر
حدثنا محمد بن جعفر ، وحجاج ، قالا: حدثنا شعبة ، عن ابي عمران ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: اوصاني خليلي صلى الله عليه وسلم بثلاثة " اسمع واطع ولو لعبد مجدع الاطراف، وإذا صنعت مرقة فاكثر ماءها، ثم انظر اهل بيت من جيرانك فاصبهم منه بمعروف، وصل الصلاة لوقتها، إذا وجدت الإمام قد صلى فقد احرزت صلاتك، وإلا فهي نافلة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثَةٍ " اسْمَعْ وَأَطِعْ وَلَوْ لِعَبْدٍ مُجَدَّعِ الْأَطْرَافِ، وَإِذَا صَنَعْتَ مَرَقَةً فَأَكْثِرْ مَاءَهَا، ثُمَّ انْظُرْ أَهْلَ بَيْتٍ مِنْ جِيرَانِكَ فَأَصِبْهُمْ مِنْهُ بِمَعْرُوفٍ، وَصَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، إِذَا وَجَدْتَ الْإِمَامَ قَدْ صَلَّى فَقَدْ أَحْرَزْتَ صَلَاتَكَ، وَإِلَّا فَهِيَ نَافِلَةٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے (١) بات سنو اور اطاعت کرو اگرچہ کٹے ہوئے اعضاء والے غلام حکمران کی ہو (٢) جب سالن بناؤ تو اس کا پانی بڑھالیا کرو پھر اپنے ہمسائے میں رہنے والوں کو دیکھو اور بھلے طریقے سے ان تک بھی اسے پہنچاؤ (٣) اور نماز کو وقت مقررہ پر ادا کیا کرو اور جب تم امام کو نماز پڑھ کر فارغ دیکھو تو تم اپنی نماز پڑھ ہی چکے ہوگے ورنہ وہ نفلی نماز ہوجائے گی۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، وحجاج ، قال: سمعت شعبة ، عن ابي مسعود ، عن ابي عبد الله الجسري ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، عن نبي الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " إن احب الكلام إلى الله ان يقول العبد: سبحان الله وبحمده" ، قال حجاج: إنه سال النبي صلى الله عليه وسلم عن احب العمل إلى الله، او قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن احب الكلام إلى الله سبحان الله وبحمده".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَسْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ أَحَبَّ الْكَلَامِ إِلَى اللَّهِ أَنْ يَقُولَ الْعَبْدُ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ" ، قَالَ حَجَّاجٌ: إِنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَحَبِّ الْعَمَلِ إِلَى اللَّهِ، أَوْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَحَبَّ الْكَلَامِ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ".
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا کلام سب سے افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہی جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے منتخب کیا ہے یعنی سبحان اللہ وبحمدہ۔
حدثنا محمد بن جعفر ، وحجاج ، قالا: حدثنا شعبة ، عن حميد بن هلال ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " يقطع الصلاة إذا لم يكن بين يدي الرجل مثل آخرة الرحل المراة والحمار والكلب الاسود" فقلت ما بال الاسود في الاحمر؟! فقال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني، فقال:" إن الاسود شيطان" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " يَقْطَعُ الصَّلَاةَ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْ الرَّجُلِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ" فَقُلْتُ مَا بَالُ الْأَسْوَدِ فِي الْأَحْمَرِ؟! فَقَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ:" إِنَّ الْأَسْوَدَ شَيْطَانٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر انسان کے سامنے کجاوے کا پچھلاحصہ بھی نہ ہو تو اس کی نماز عورت، گدھے یا کالے کتے کے اس کے آگے سے گذرنے پر ٹوٹ جائے گی، راوی نے پوچھا کہ کالے اور سرخ کتے میں کیا فرق ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بھیتجے! میں نے بھی اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا تھا جیسے تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔