حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان پر غسل واجب ہوگیا وہ اسی حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے پانی منگوایا انہوں نے پردے کے پیچھے غسل کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا پاک مٹی مسلمان کے لئے وضو ہے اگرچہ اس دس سال تک پانی نہ ملے جب پانی مل جائے تو اسے جسم پر بہا لے کہ یہ اس کے حق میں بہتر ہے۔
حدثنا مؤمل ، حدثنا حماد ، حدثنا حجاج الاسود ، قال مؤمل ، وكان رجلا صالحا، قال: سمعت ابا الصديق يحدث ثابتا البناني، عن رجل ، عن ابي ذر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إنكم في زمان علماؤه كثير خطباؤه قليل، من ترك فيه عشير ما يعلم هوى، او قال هلك، وسياتي على الناس زمان يقل علماؤه ويكثر خطباؤه، من تمسك فيه بعشير ما يعلم نجا" .حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ الْأَسْوَدُ ، قَالَ مُؤَمَّلٌ ، وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الصِّدِّيقِ يُحَدِّثُ ثَابِتًا الْبُنَانِيَّ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّكُمْ فِي زَمَانٍ عُلَمَاؤُهُ كَثِيرٌ خُطَبَاؤُهُ قَلِيلٌ، مَنْ تَرَكَ فِيهِ عُشَيْرَ مَا يَعْلَمُ هَوَى، أَوْ قَالَ هَلَكَ، وَسَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَقِلُّ عُلَمَاؤُهُ وَيَكْثُرُ خُطَبَاؤُهُ، مَنْ تَمَسَّكَ فِيهِ بِعُشَيْرِ مَا يَعْلَمُ نَجَا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگ ایک ایسے زمانے میں ہو جس میں علماء کثیر تعداد میں ہیں اور خطباء بہت کم ہیں جو شخص اس زمانے میں اپنے علم کے دسویں حصے پر بھی عمل چھوڑے گا وہ ہلاک ہوجائے گا اور عنقریب لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جس میں علماء کم اور خطباء زیادہ ہوجائیں گے اس زمانے میں جو شخص اپنے علم کے دسویں حصے پر بھی عمل کرلے گا وہ نجات پاجائے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، مؤمل سيئ الحفظ، والراوي عن أبى ذر مبهم
حدثنا إسحاق بن عيسى ، حدثني يحيى بن سليم ، عن عبد الله بن عثمان ، عن مجاهد ، عن إبراهيم بن الاشتر ، عن ابيه ، عن ام ذر، قالت: لما حضرت ابا ذر الوفاة، قالت: بكيت، فقال: ما يبكيك؟ قالت: وما لي لا ابكي وانت تموت بفلاة من الارض ولا يد لي بدفنك، وليس عندي ثوب يسعك فاكفنك فيه، قال: فلا تبكي وابشري، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا يموت بين امراين مسلمين ولدان، او ثلاثة فيصبران ويحتسبان فيردان النار ابدا"، وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ليموتن رجل منكم بفلاة من الارض يشهده عصابة من المؤمنين" وليس من اولئك النفر احد إلا وقد مات في قرية او جماعة، وإني انا الذي اموت بفلاة، والله ما كذبت ولا كذبت .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْأَشْتَرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أُمِّ ذَرٍّ، قَالَتْ: لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا ذَرٍّ الْوَفَاةُ، قَالَتْ: بَكَيْتُ، فَقَالَ: مَا يُبْكِيكِ؟ قَالَتْ: وَمَا لِي لَا أَبْكِي وَأَنْتَ تَمُوتُ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ وَلَا يَدَ لِي بِدَفْنِكَ، وَلَيْسَ عِنْدِي ثَوْبٌ يَسَعُكَ فَأُكَفِّنَكَ فِيهِ، قَالَ: فَلَا تَبْكِي وَأَبْشِرِي، فإني سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَمُوتُ بَيْنَ امْرَأَيْنِ مُسْلِمَيْنِ وَلَدَانِ، أَوْ ثَلَاثَةٌ فَيَصْبِرَانِ وَيَحْتَسِبَانِ فَيَرِدَانِ النَّارَ أَبَدًا"، وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَيَمُوتَنَّ رَجُلٌ مِنْكُمْ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ يَشْهَدُهُ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ" وَلَيْسَ مِنْ أُولَئِكَ النَّفَرِ أَحَدٌ إِلَّا وَقَدْ مَاتَ فِي قَرْيَةٍ أَوْ جَمَاعَةٍ، وَإِنِّي أَنَا الَّذِي أَمُوتُ بِفَلَاةٍ، وَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ وَلَا كُذِبْتُ .
حضرت ام ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں رونے لگی انہوں نے پوچھا کہ کیوں روتی ہو؟ میں نے کہا روؤں کیوں نہ؟ جبکہ آپ ایک جنگل میں اس طرح جان دے رہے ہیں کہ میرے پاس آپ کو دفن کرنے کا بھی کوئی سبب نہیں ہے اور نہ ہی اتنا کپڑا ہے جس میں آپ کو کفن دے سکوں، انہوں نے فرمایا تم مت رو اور خوشخبری سنو کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو آدمی دو یا تین مسلمان بچوں کے درمیان فوت ہوتا ہے اور وہ ثواب کی نیت سے اپنے بچوں کی وفات پر صبر کرتا ہے تو وہ جہنم کی آگ کبھی نہیں دیکھے گا۔
اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے ایک آدمی ضرور کسی جنگل میں فوت ہوگا جس کے پاس مؤمنین کی ایک جماعت حاضر ہوگی اب ان لوگوں میں سے تو ہر ایک کا انتقال کسی نہ کسی شہر یا جماعت میں ہوا ہے اور میں ہی وہ آدمی ہوں جو جنگل میں فوت ہو رہا ہے واللہ نہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا ہے۔
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ابن لهيعة ، عن يزيد بن عمرو ، عن يزيد بن نعيم ، قال: سمعت ابا ذر الغفاري وهو على المنبر بالفسطاط، يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " من تقرب إلى الله شبرا، تقرب إليه ذراعا، ومن تقرب إلى الله ذراعا، تقرب إليه باعا، ومن اقبل على الله ماشيا، اقبل الله إليه مهرولا، والله اعلى واجل، والله اعلى واجل، والله اعلى واجل" .حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ نُعَيْمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ الْغِفَارِيَّ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ بِالْفُسْطَاطِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ تَقَرَّبَ إِلَى اللَّهِ شِبْرًا، تَقَرَّبَ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَى اللَّهِ ذِرَاعًا، تَقَرَّبَ إِلَيْهِ بَاعًا، وَمَنْ أَقْبَلَ عَلَى اللَّهِ مَاشِيًا، أَقْبَلَ اللَّهُ إِلَيْهِ مُهَرْوِلًا، وَاللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ، وَاللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ، وَاللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص ایک بالشت کے برابر میرے قریب آتا ہے میں ایک ہاتھ کے برابر اس کے قریب آتا ہوں اور جو ایک ہاتھ کے برابر قریب آتا ہے میں ایک گز اس کے قریب ہوجاتا ہوں اور جو میری طرف چل کر آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں اور اللہ تعالیٰ بزرگ و برتر ہے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کسی باندی پر بدکاری کا الزام لگائے جسے اس نے خود بدکاری کرتے ہوئے نہ دیکھا ہو تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے آگ کے کوڑے مارے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، الحمصي وأبو طالب مجهولان
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، عن مهاجر ابي الحسن ، قال: سمعت زيد بن وهب ، قال: جئنا من جنازة، فمررنا بابي ذر ، فقال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فاراد المؤذن ان يؤذن للظهر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ابرد" ثم اراد ان يؤذن، فقال له:" ابرد" والثالثة، اكبر علمي شعبة، قال له حتى راينا فيء التلول، قال:" قال: إن شدة الحر من فيح جهنم، فإذا اشتد الحر فابردوا بالصلاة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُهَاجِرٍ أَبِي الْحَسَنِ ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ ، قَالَ: جِئْنَا مِنْ جَنَازَةٍ، فَمَرَرْنَا بِأَبِي ذَرٍّ ، فَقَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَرَادَ الْمُؤَذِّنُ أَنْ يُؤَذِّنَ لِلظُّهْرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَبْرِدْ" ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَهُ:" أَبْرِدْ" وَالثَّالِثَةَ، أَكْبَرُ عِلْمِي شُعْبَةُ، قَالَ لَهُ حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ، قَالَ:" قَالَ: إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلَاةِ" .
زید بن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی جنازے سے واپس آرہے تھے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذر ہوا وہ کہنے لگے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے مؤذن نے جب ظہر کی اذان دینا چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا ٹھنڈا کر کے اذان دینا دو تین مرتبہ اسی طرح ہوا حتٰی کہ ہمیں ٹیلوں کا سایہ نظر آنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ گرمی کی شدت جہنم کی تپش کا اثر ہوتی ہے اس لئے جب گرمی زیادہ ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو۔
حدثنا حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن عاصم ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم الصادق المصدوق، يقول:" قال الله عز وجل: الحسنة عشر او ازيد، والسيئة واحدة او اغفرها، فمن لقيني، لا يشرك بي شيئا، بقراب الارض خطيئة جعلت له مثلها مغفرة" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّادِقَ الْمَصْدُوقَ، يَقُولُ:" قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: الْحَسَنَةُ عَشْرٌ أَوْ أَزِيدُ، وَالسَّيِّئَةُ وَاحِدَةٌ أَوْ أَغْفِرُهَا، فَمَنْ لَقِيَنِي، لَا يُشْرِكُ بِي شَيْئًا، بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطِيئَةً جَعَلْتُ لَهُ مِثْلَهَا مَغْفِرَةً" .
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بیان کیا ہے کہ ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہے جس میں میں اضافہ بھی کرسکتا ہوں اور ایک گناہ کا بدلہ اس کے برابر ہی ہے اور میں اسے معاف بھی کرسکتا ہوں اور اے ابن آدم! اگر تو زمین بھر کر گناہوں کے ساتھ مجھ سے ملے لیکن میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں زمین بھر کر بخشش کے ساتھ تجھ سے ملوں گا۔
حدثنا بهز ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا حميد ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: يقطع صلاة الرجل إذا لم يكن بين يديه مثل آخرة الرحل المراة والحمار والكلب الاسود، قال: قلت لابي ذر ما بال الكلب الاسود من الكلب الاحمر؟ قال: يا ابن اخي، سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني، فقال: " الكلب الاسود شيطان" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: يَقْطَعُ صَلَاةَ الرَّجُلِ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ مَا بَالُ الْكَلْبِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْكَلْبِ الْأَحْمَرِ؟ قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ: " الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر انسان کے سامنے کجاوے کا پچھلا حصہ بھی نہ ہو تو اس کی نماز عورت، گدھے یا کالے کتے کے اس کے آگے سے گذرنے پر ٹوٹ جائے گی، راوی نے پوچھا کہ کالے اور سرخ کتے میں کیا فرق ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بھیتجے! میں نے بھی اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا تھا جیسے تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔
حدثنا بهز ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن حميد ، عن عبد الله بن الصامت ، قال: قال ابو ذر ، قلت: يا رسول الله، الرجل يحب القوم لا يستطيع ان يعمل باعمالهم؟ قال: " انت يا ابا ذر مع من احببت"، قال: قلت: فإني احب الله ورسوله، يعيدها مرة او مرتين .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ يُحِبُّ الْقَوْمَ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَعْمَلَ بِأَعْمَالِهِمْ؟ قَالَ: " أَنْتَ يَا أَبَا ذَرٍّ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ"، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، يُعِيدُهَا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! ایک آدمی کسی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسے اعمال نہیں کرسکتا اس کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر رضی اللہ عنہ تم جس کے ساتھ محبت کرتے ہو اسی کے ساتھ ہوگے میں نے عرض کیا کہ پھر میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں یہ جملہ انہوں نے ایک دو مرتبہ دہرایا۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کوئی اچھا کام کرتا ہے لوگ اس کی تعریف وثناء بیان کرنے لگے ہیں (اس کا کیا حکم ہے؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ان سے فرمایا یہ تو مسلمان کے لئے فوری خوشخبری ہے۔