حدثنا ابو اليمان ، اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، قال سهل بن سعد الانصاري : وكان قد راى النبي صلى الله عليه وسلم، وسمع منه، وذكر انه ابن خمس عشرة سنة، ثم توفي النبي صلى الله عليه وسلم حدثني ابي بن كعب، ان الفتيا التي كانوا يفتون بها، رخصة كان النبي صلى الله عليه وسلم رخص فيها في اول الإسلام، ثم امرنا بالاغتسال بعد .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ : وَكَانَ قَدْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعَ مِنْهُ، وَذَكَرَ أَنَّهُ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، ثُمَّ تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، أَنَّ الْفُتْيَا الَّتِي كَانُوا يُفْتُونَ بِهَا، رُخْصَةٌ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِيهَا فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ، ثُمَّ أَمَرَنَا بِالِاغْتِسَالِ بَعْدُ .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا تھا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں پندرہ سال کے تھے سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ لوگ جس فتوے کا ذکر کرتے ہیں کہ انزال پر غسل واجب ہوتا ہے وہ ایک رخصت تھی جو ابتداء اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غسل کا حکم دے دیا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد صحيح متصل إن كان ابن شهاب الزهري قد سمعه من سهل بن سعد
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا تھا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں پندرہ سال کے تھے سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ لوگ جس فتوے کا ذکر کرتے ہیں کہ انزال پر غسل واجب ہوتا ہے وہ ایک رخصت تھی جو ابتداء اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غسل کا حکم دے دیا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: لقلة ثيابهم، وهذا إسناد ضعيف من أجل رشيدين، لكنه قد توبع
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے اس مسجد کے متعلق سوال کیا جس کی بنیاد تقوٰی پر رکھی گئی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد میری مسجد ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، فيه عبدالله بن عامر متفق على ضعفه
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ کسی شخص نے اس مسجد کے متعلق سوال کیا جس کی بنیاد تقوٰی پر رکھی گئی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد میری مسجد ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا ضعيف لضعف عبدالله بن عامر
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آیت قرآنی واولات الاحمال اجلہن ان یضعن حملہن کا حکم اس عورت کے لئے ہے جسے تین طلاقیں دے دی گئی ہیں یا اس کے لئے جس کا شوہر فوت ہوگیا ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ حکم دونوں کے لئے ہے۔
حدثنا الوليد بن مسلم ، ومحمد بن مصعب القرقساني ، قال الوليد: حدثني الاوزاعي ، وقال محمد: حدثنا الاوزاعي ، ان الزهري حدثه، عن عبيد الله بن عبد الله ، عن ابن عباس ، انه تمارى هو والحر بن قيس بن حصن الفزاري في صاحب موسى الذي سال السبيل إلى لقيه، فقال ابن عباس هو خضر، إذ مر بهما ابي بن كعب ، فناداه ابن عباس، فقال: إني تماريت انا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سال السبيل إلى لقيه، فهل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شانه؟ قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " بينا موسى عليه السلام في ملإ من بني إسرائيل، إذ قام إليه رجل، فقال: هل تعلم احدا اعلم منك؟ قال: لا، قال: فاوحى الله إليه عبدنا خضر، فسال موسى السبيل إلى لقيه، وجعل الله له الحوت آية، فقيل له: إذا فقدت الحوت، فارجع، فإنك ستلقاه"..حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ الْقُرْقُسَانِيُّ ، قَالَ الْوَلِيدُ: حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ ، وَقَالَ مُحَمَّدٌ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، أَنَّ الزُّهْرِيّ حَدَّثَهُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ هُوَ خَضِرٌ، إِذْ مَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، فَنَادَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، فَهَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " بَيْنَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِذْ قَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ عَبْدُنَا خَضِرٌ، فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، وَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً، فَقِيلَ لَهُ: إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ، فَارْجِعْ، فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ"..
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کا اور حر بن قیس فزاری کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس رفیق کے متعلق اختلاف رائے ہوگیا جس کی طرف سفر کر کے جانے کی بارگاہ الہٰی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخواست کی تھی، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے یہ تھی کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام تھے اسی دوران وہاں سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا گذر ہوا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں پکار کر کہا کہ میرا اور میرے اس ساتھی کا اس بات میں اختلاف ہوگیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ ساتھی کون تھا جس کی طرف سفر کر کے ملنے کی درخواست انہوں نے کی تھی؟ کیا آپ نے اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے کسی اجتماع سے خطاب فرما رہے تھے کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر ان سے پوچھا کہ آپ کے علم میں اپنے سے بڑا عالم بھی ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی آئی کہ ہمارا ایک بندہ خضر تم سے بڑا عالم ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملنے کا طریقہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان کی لئے نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو واپس آجانا کیونکہ وہیں پر تمہاری ان سے ملاقات ہوجائے گی، حضرت موسیٰ علیہ السلام سفر پر روانہ ہوئے تو ایک منزل پر پڑاؤ کیا اور اپنے خادم سے کہنے لگے ہمارا ناشتہ لاؤ اس سفر میں تو ہمیں بڑی مشقت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی کو غائب پایا تو دونوں اپنے نشانات قدم پر چلتے ہوئے واپس لوٹے اور پھر وہ قصہ پیش آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
قال ابن مصعب في حديثه:" فنزل منزلا، فقال موسى: لفتاه آتنا غداءنا، لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا، فعند ذلك فقد الحوت، فارتدا على آثارهما قصصا، فجعل موسى يتبع اثر الحوت في البحر، قال: فكان من شانهما ما قص الله في كتابه" .قَالَ ابْنُ مُصْعَبٍ فِي حَدِيثِهِ:" فَنَزَلَ مَنْزِلًا، فَقَالَ مُوسَى: لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا، لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، فَعِنْدَ ذَلِكَ فَقَدَ الْحُوتَ، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، فَجَعَلَ مُوسَى يَتْبَعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، قَالَ: فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا مَا قَصَّ اللَّهُ فِي كِتَابهِ" .
حدثنا حدثنا محمد بن بشر العبدي ، حدثنا مسعر ، عن مصعب بن شيبة ، عن ابي حبيب بن يعلى بن امية ، عن ابن عباس ، قال: جاء رجل إلى عمر، قال مسعر يعني السنة، قال: فساله عمر ممن انت؟ فما زال ينسبه حتى عرفه، فإذا هو موسر، فقال عمر: " لو ان لامرئ واديا او واديين، لابتغى إليهما ثالثا"، فقال ابن عباس:" ولا يملا جوف ابن آدم إلا التراب، ثم يتوب الله على من تاب"، فقال عمر لابن عباس ممن سمعت هذا؟ قال من ابي . قال: فإذا كان بالغداة، فاغد علي، قال: فرجع إلى ام الفضل، فذكر ذلك لها، فقالت: وما لك وللكلام عند عمر! وخشي ابن عباس ان يكون ابي نسي، فقالت امه إن ابيا عسى ان لا يكون نسي، فغدا إلى عمر ومعه الدرة، فانطلقنا إلى ابي، فخرج ابي عليهما وقد توضا، فقال: إنه اصابني مذي، فغسلت ذكري او فرجي، مسعر شك، فقال عمر: اويجزئ ذلك؟ قال: نعم، قال: سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، قال: وساله عما قال ابن عباس، فصدقه .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ ، عَنْ أَبِي حَبِيبِ بْنِ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ، قَالَ مِسْعَرٌ يَعْنِي السَّنَةَ، قَالَ: فَسَأَلَهُ عُمَرُ مِمَّنْ أَنْتَ؟ فَمَا زَالَ يَنْسُبُهُ حَتَّى عَرَفَهُ، فَإِذَا هُوَ مُوسَر، فَقَالَ عُمَرُ: " لَوْ أَنَّ لِامْرِئٍ وَادِيًا أَوْ وَادِيَيْنِ، لَابْتَغَى إِلَيْهِمَا ثَالِثًا"، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ"، فَقَالَ عُمَرُ لِابْنِ عَبَّاسٍ مِمَّنْ سَمِعْتَ هَذَا؟ قَالَ مِنْ أُبَيٍّ . قَالَ: فَإِذَا كَانَ بِالْغَدَاةِ، فَاغْدُ عَلَيَّ، قَالَ: فَرَجَعَ إِلَى أُمِّ الْفَضْلِ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهَا، فَقَالَتْ: وَمَا لَكَ وَلِلْكَلَامِ عِنْدَ عُمَرَ! وَخَشِيَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَنْ يَكُونَ أُبَيٌّ نَسِيَ، فَقَالَتْ أُمُّهُ إِنَّ أُبَيًّا عَسَى أَنْ لَا يَكُونَ نَسِيَ، فَغَدَا إِلَى عُمَرَ وَمَعَهُ الدِّرَّةُ، فَانْطَلَقْنَا إِلَى أُبَيٍّ، فَخَرَجَ أُبَيٌّ عَلَيْهِمَا وَقَدْ تَوَضَّأَ، فَقَالَ: إِنَّهُ أَصَابَنِي مَذْيٌ، فَغَسَلْتُ ذَكَرِي أَوْ فَرْجِي، مِسْعَرٌ شَكَّ، فَقَالَ عُمَرُ: أَوَيُجْزِئُ ذَلِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَسَأَلَهُ عَمَّا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَصَدَّقَهُ .
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہمیں قحط سالی نے کھالیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلے سے ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلسل اس کے نسب نامے کو کریدتے رہے یہاں تک کہ اسے شناخت کرلیا اور پتہ یہ چلا کہ وہ تو مالی طور پر وسعت رکھتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر کسی شخص کے پاس (مال و دولت کی ایک دو وادیاں بھی ہوں تب بھی وہ تیسری کی تلاش میں ہوگا اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ اضافہ کردیا کہ ابن آدم کا پیٹ تو صرف مٹی ہی بھر سکتی ہے پھر اللہ اس پر متوجہ ہوجاتا ہے جو توبہ کرتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ تم نے یہ کس سے سنا؟ انہوں نے بتایا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کل میرے پاس آنا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جب اپنی والدہ حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو ان سے اس واقعے کا تذکرہ کیا انہوں نے فرمایا کہ تمہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بولنے کی کیا ضرورت تھی؟ اب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ اندیشہ پیدا ہوگیا کہ کہیں حضرت ابی رضی اللہ عنہ اسے بھول ہی نہ گئے ہوں لیکن ان کی والدہ نے انہیں تسلی دی کہ امید ہے کہ وہ اس بات کو نہیں بھولے ہوں گے۔
چنانچہ اگلے دن جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو ان کے پاس کوڑا پڑا ہوا تھا ہم دونوں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی طرف چل پڑے حضرت ابی رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے تو انہوں نے تازہ وضو کیا ہوا تھا وہ کہنے لگے کہ مجھے " مذی " لاحق ہوگئی تھی اس لئے میں نے فقط شرمگاہ کو دھولیا (اور وضو کرلیا) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا یہ جائز ہے؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا آپ نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کی بھی تصدیق کی۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف من أجل مصعب بن شيبة ، وأبو حبيب بن يعلي مجهول، لكنهما قد توبعا
حدثنا ابو معاوية ، عن ابي إسحاق الشيباني ، عن يزيد بن الاصم ، عن ابن عباس ، قال: جاء رجل إلى عمر يساله، فجعل عمر ينظر إلى راسه مرة، وإلى رجليه اخرى، هل يرى عليه من البؤس شيئا؟ ثم قال له عمر: كم مالك؟ قال: اربعون من الإبل، قال ابن عباس، فقلت: صدق الله ورسوله " لو كان لابن آدم واديان من ذهب لابتغى الثالث، ولا يملا جوف ابن آدم إلا التراب، ويتوب الله على من تاب"، فقال عمر ما هذا؟ فقلت: هكذا اقرانيها ابي، قال: فمر بنا إليه، قال: فجاء إلى ابي، فقال: ما يقول هذا؟ قال ابي: هكذا اقرانيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: افاثبتها؟ قال: نعم، فاثبتها .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ يَسْأَلُهُ، فَجَعَلَ عُمَرُ يَنْظُرُ إِلَى رَأْسِهِ مَرَّةً، وَإِلَى رِجْلَيْهِ أُخْرَى، هَلْ يَرَى عَلَيْهِ مِنَ الْبُؤْسِ شَيْئًا؟ ثُمَّ قَالَ لَهُ عُمَرُ: كَمْ مَالُكَ؟ قَالَ: أَرْبَعُونَ مِنَ الْإِبِلِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقُلْتُ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ " لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ ذَهَبً لَابْتَغَى الثَّالِثَ، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ"، فَقَالَ عُمَرُ مَا هَذَا؟ فَقُلْتُ: هَكَذَا أَقْرَأَنِيهَا أُبَيٌّ، قَالَ: فَمَرَّ بِنَا إِلَيْهِ، قَالَ: فَجَاءَ إِلَى أُبَيٍّ، فَقَالَ: مَا يَقُولُ هَذَا؟ قَالَ أُبَيٌّ: هَكَذَا أَقْرَأَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَفَأُثْبِتُهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَثْبَتَهَا .
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہمیں قحط سالی نے کھالیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلے سے ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلسل اس کے نسب نامے کو کریدتے رہے یہاں تک کہ اسے شناخت کرلیا اور پتہ یہ چلا کہ وہ تو مالی طور پر وسعت رکھتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر کسی شخص کے پاس (مال و دولت کی
ایک دو وادیاں بھی ہوں تب بھی وہ تیسری کی تلاش میں ہوگا اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ اضافہ کردیا کہ ابن آدم کا پیٹ تو صرف مٹی ہی بھرسکتی ہے پھر اللہ اس پر متوجہ ہوجاتا ہے جو توبہ کرتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ تم نے یہ کس سے سنا؟ انہوں نے بتایا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کل میرے پاس آنا چنانچہ اگلے دن وہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی طرف چل پڑے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا یہ ابن عباس کیا کہتا ہے؟ انہوں نے فرمایا مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح پڑھایا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا میں اسے لکھ لوں؟ انہوں نے فرمایا ہاں چنانچہ انہوں نے اسے لکھ لیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا امیرالمؤمنین! میں نے قرآن کریم اس ذات سے تازہ بتازہ حاصل کیا ہے جس نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے اسے حاصل کیا تھا۔