حدثنا الوليد بن مسلم ، ومحمد بن مصعب القرقساني ، قال الوليد: حدثني الاوزاعي ، وقال محمد: حدثنا الاوزاعي ، ان الزهري حدثه، عن عبيد الله بن عبد الله ، عن ابن عباس ، انه تمارى هو والحر بن قيس بن حصن الفزاري في صاحب موسى الذي سال السبيل إلى لقيه، فقال ابن عباس هو خضر، إذ مر بهما ابي بن كعب ، فناداه ابن عباس، فقال: إني تماريت انا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سال السبيل إلى لقيه، فهل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شانه؟ قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " بينا موسى عليه السلام في ملإ من بني إسرائيل، إذ قام إليه رجل، فقال: هل تعلم احدا اعلم منك؟ قال: لا، قال: فاوحى الله إليه عبدنا خضر، فسال موسى السبيل إلى لقيه، وجعل الله له الحوت آية، فقيل له: إذا فقدت الحوت، فارجع، فإنك ستلقاه"..حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ الْقُرْقُسَانِيُّ ، قَالَ الْوَلِيدُ: حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ ، وَقَالَ مُحَمَّدٌ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، أَنَّ الزُّهْرِيّ حَدَّثَهُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ هُوَ خَضِرٌ، إِذْ مَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، فَنَادَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، فَهَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " بَيْنَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِذْ قَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ عَبْدُنَا خَضِرٌ، فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، وَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً، فَقِيلَ لَهُ: إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ، فَارْجِعْ، فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ"..
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کا اور حر بن قیس فزاری کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس رفیق کے متعلق اختلاف رائے ہوگیا جس کی طرف سفر کر کے جانے کی بارگاہ الہٰی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخواست کی تھی، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے یہ تھی کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام تھے اسی دوران وہاں سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا گذر ہوا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں پکار کر کہا کہ میرا اور میرے اس ساتھی کا اس بات میں اختلاف ہوگیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ ساتھی کون تھا جس کی طرف سفر کر کے ملنے کی درخواست انہوں نے کی تھی؟ کیا آپ نے اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے کسی اجتماع سے خطاب فرما رہے تھے کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر ان سے پوچھا کہ آپ کے علم میں اپنے سے بڑا عالم بھی ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی آئی کہ ہمارا ایک بندہ خضر تم سے بڑا عالم ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملنے کا طریقہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان کی لئے نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو واپس آجانا کیونکہ وہیں پر تمہاری ان سے ملاقات ہوجائے گی، حضرت موسیٰ علیہ السلام سفر پر روانہ ہوئے تو ایک منزل پر پڑاؤ کیا اور اپنے خادم سے کہنے لگے ہمارا ناشتہ لاؤ اس سفر میں تو ہمیں بڑی مشقت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی کو غائب پایا تو دونوں اپنے نشانات قدم پر چلتے ہوئے واپس لوٹے اور پھر وہ قصہ پیش آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
قال ابن مصعب في حديثه:" فنزل منزلا، فقال موسى: لفتاه آتنا غداءنا، لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا، فعند ذلك فقد الحوت، فارتدا على آثارهما قصصا، فجعل موسى يتبع اثر الحوت في البحر، قال: فكان من شانهما ما قص الله في كتابه" .قَالَ ابْنُ مُصْعَبٍ فِي حَدِيثِهِ:" فَنَزَلَ مَنْزِلًا، فَقَالَ مُوسَى: لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا، لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، فَعِنْدَ ذَلِكَ فَقَدَ الْحُوتَ، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، فَجَعَلَ مُوسَى يَتْبَعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، قَالَ: فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا مَا قَصَّ اللَّهُ فِي كِتَابهِ" .