حدثنا الحكم بن نافع ابو اليمان ، اخبرنا إسماعيل بن عياش ، عن عبد الله بن ابي حسين ، عن شهر بن حوشب ، عن عبد الرحمن بن غنم ، عن ابي ذر ، قال: كنت اخدم النبي صلى الله عليه وسلم، ثم آتي المسجد إذا انا فرغت من عملي، فاضطجع فيه، فاتاني النبي صلى الله عليه وسلم يوما وانا مضطجع، فغمزني برجله، فاستويت جالسا فقال لي:" يا ابا ذر، كيف تصنع إذا اخرجت منها؟" فقلت: ارجع إلى مسجد النبي صلى الله عليه وسلم وإلى بيتي، قال:" فكيف تصنع إذا اخرجت منها؟" فقلت: إذا آخذ بسيفي، فاضرب به من يخرجني، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يده على منكبي، فقال:" غفرا يا ابا ذر ثلاثا، بل تنقاد معهم حيث قادوك، وتنساق معهم حيث ساقوك ولو عبدا اسود"، قال ابو ذر: فلما نفيت إلى الربذة اقيمت الصلاة، فتقدم رجل اسود كان فيها على نعم الصدقة، فلما رآني اخذ ليرجع وليقدمني، فقلت: كما انت، بل انقاد لامر رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كُنْتُ أَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ آتِي الْمَسْجِدَ إِذَا أَنَا فَرَغْتُ مِنْ عَمَلِي، فَأَضْطَجِعُ فِيهِ، فَأَتَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَأَنَا مُضْطَجِعٌ، فَغَمَزَنِي بِرِجْلِهِ، فَاسْتَوَيْتُ جَالِسًا فَقَالَ لِي:" يَا أَبَا ذَرٍّ، كَيْفَ تَصْنَعُ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْهَا؟" فَقُلْتُ: أَرْجِعُ إِلَى مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى بَيْتِي، قَالَ:" فَكَيْفَ تَصْنَعُ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْهَا؟" فَقُلْتُ: إِذًا آخُذَ بِسَيْفِي، فَأَضْرِبَ بِهِ مَنْ يُخْرِجُنِي، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى مَنْكِبِي، فَقَالَ:" غَفْرًا يَا أَبَا ذَرٍّ ثَلَاثًا، بَلْ تَنْقَادُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَادُوكَ، وَتَنْسَاقُ مَعَهُمْ حَيْثُ سَاقُوكَ وَلَوْ عَبْدًا أَسْوَدَ"، قَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَلَمَّا نُفِيتُ إِلَى الرَّبَذَةِ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ، فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ أَسْوَدُ كَانَ فِيهَا عَلَى نَعَمْ الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا رَآنِي أَخَذَ لِيَرْجِعَ وَلِيُقَدِّمَنِي، فَقُلْتُ: كَمَا أَنْتَ، بَلْ أَنْقَادُ لِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا جب اپنے کام سے فارغ ہوتا تو مسجد میں آکر لیٹ جاتا، ایک دن میں لیٹا ہوا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور مجھے اپنے مبارک پاؤں سے ہلایا، میں سیدھاہو کر اٹھ بیٹھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! تم اس وقت کیا کرو گے جب تم مدینہ سے نکال دیئے جاؤ گے؟ عرض کیا میں مسجد نبوی اور اپنے گھر لوٹ جاؤں گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور جب تمہیں یہاں سے بھی نکال دیا جائے گا تو کیا کرو گے؟ میں نے عرض کیا کہ اس وقت میں اپنی تلوار پکڑوں گا اور جو مجھے نکالنے کی کوشش کرے گا اسے اپنی تلوار سے ماروں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اپنا دست مبارک میرے کندھے پر رکھا اور تین مرتبہ فرمایا ابوذر! درگذر سے کام لو وہ تمہیں جہاں لے جائیں وہاں چلے جانا اگرچہ تمہارا حکمران کوئی حبشی غلام ہی ہو، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب مجھے ربذہ کی طرف جلا وطن کیا گیا اور نماز کھڑی ہوئی تو ایک سیاہ فام آدمی نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھا جو وہاں زکوٰۃ کے جانوروں پر مامور تھا اس نے مجھے دیکھ کر پیچھے ہٹنا اور مجھے آگے کرنا چاہا تو میں نے اس سے کہا کہ تم اپنی جگہ ہی رہو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کروں گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، إسماعيل بن عياش ضعيف فى روايته عن غير أهل بلده، وهذه منها ، وشهر بن حوشب ضعيف، وقد اختلف عليه فى إسناده
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو آدمی ایک سے تین دو سے اور چار تین سے بہتر ہیں اس لئے تم پر جماعت کے ساتھ چمٹے رہنا لازم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ میری امت کو ہدایت کے علاوہ کسی اور نکتے پر کبھی متفق نہیں کرسکتا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، البختري بن عبيد متروك الحديث وأبوه مجهول
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے کسی ساتھی سے محبت کرتا ہو تو اسے چاہئے کہ اس کے گھر جائے اور اسے بتائے کہ وہ اس سے اللہ کے لئے محبت کرتا ہے اور اے ابوذر! میں اسی وجہ سے تمہارے گھر آیا ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، يزيد بن أبى حبيب إن كان ثقة لكنه قد كان يرسل، ولم يبين هنا عمن رواه، وابن الهيعة سيئ الحفظ، وقد تفرد فى هذا الحديث بقوله: فليأته فى منزله
حدثنا يونس ، وعفان ، المعنى، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، عن برد ابي العلاء قال عفان : قال: اخبرنا برد ابو العلاء ، عن عبادة بن نسي ، عن غضيف بن الحارث ، انه مر بعمر بن الخطاب، فقال: نعم الفتى غضيف، فلقيه ابو ذر ، فقال: اي اخي استغفر لي، قال: انت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانت احق ان تستغفر لي! فقال: إني سمعت عمر بن الخطاب، يقول: نعم الفتى غضيف، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله عز وجل ضرب بالحق على لسان عمر وقلبه"، قال عفان:" على لسان عمر يقول به" .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، وَعَفَّانُ ، المعنى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ بُرْدٍ أَبِي الْعَلَاءِ قَالَ عَفَّانُ : قَالَ: أَخْبَرَنَا بُرْدٌ أَبُو الْعَلَاءِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ ، عَنْ غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ ، أَنَّهُ مَرَّ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: نِعْمَ الْفَتَى غُضَيْفٌ، فَلَقِيَهُ أَبُو ذَرٍّ ، فَقَالَ: أَيْ أُخَيَّ اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ أَحَقُّ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لِي! فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: نِعْمَ الْفَتَى غُضَيْفٌ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ضَرَبَ بِالْحَقِّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ"، قَالَ عَفَّانُ:" عَلَى لِسَانِ عُمَرَ يَقُولُ بِهِ" .
غضیف بن حارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا غضیف بہترین نوجوان ہے پھر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ بھائی! میرے لئے بخشش کی دعاء کرو غضیف نے کہا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ میرے لئے بخشش کی دعاء کریں انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ غضیف بہترین نوجوان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق کو جاری کردیا ہے۔
حدثنا يحيى بن إسحاق ، اخبرنا ابن لهيعة ، عن عبد الله بن هبيرة ، اخبرني ابو تميم الجيشاني ، قال: اخبرني ابو ذر ، قال: كنت امشي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " لغير الدجال اخوفني على امتي"، قالها: ثلاثا، قال: قلت: يا رسول الله، ما هذا الذي غير الدجال اخوفك على امتك؟ قال:" ائمة مضلين" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هُبَيْرَةَ ، أَخْبَرَنِي أَبُو تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيُّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو ذَرٍّ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " لَغَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَى أُمَّتِي"، قَالَهَا: ثَلَاثًا، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا هَذَا الَّذِي غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قَالَ:" أَئِمَّةً مُضِلِّينَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چہل قدمی کر رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دجال کے علاوہ ایک اور چیز ہے جس سے مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا میں نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کون سی چیز ہے جس سے آپ کو اپنی امت پر سب سے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے اور وہ دجال کے علاوہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گمراہ کن ائمہ۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة
حدثنا موسى بن داود ، اخبرنا ابن لهيعة ، عن ابن هبيرة ، عن ابي تميم الجيشاني ، قال: سمعت ابا ذر ، يقول: كنت مخاصر النبي صلى الله عليه وسلم يوما إلى منزله، فسمعته يقول: " غير الدجال اخوف على امتي من الدجال" فلما خشيت ان يدخل، قلت: يا رسول الله، اي شيء اخوف على امتك من الدجال؟ قال:" الائمة المضلين" .حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةُ ، عَنِ ابْنِ هُبَيْرَةَ ، عَنْ أَبِي تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ ، يَقُولُ: كُنْتُ مُخَاصِرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا إِلَى مَنْزِلِهِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُ عَلَى أُمَّتِي مِنَ الدَّجَّالِ" فَلَمَّا خَشِيتُ أَنْ يَدْخُلَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ شَيْءٍ أَخْوَفُ عَلَى أُمَّتِكَ مِنَ الدَّجَّالِ؟ قَالَ:" الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چہل قدمی کر رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دجال کے علاوہ ایک اور چیز ہے جس سے مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا میں نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کون سی چیز ہے جس سے آپ کو اپنی امت پر سب سے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے اور وہ دجال کے علاوہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گمراہ کن ائمہ۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے ابوذر! کیا جنت میں کے ایک خزانے کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کروں؟ لاحول ولاقوۃ الا باللہ کہا کرو۔
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني سليمان الاعمش ، عن مجاهد بن جبر ابي الحجاج ، عن عبيد بن عمير الليثي ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اوتيت خمسا لم يؤتهن نبي كان قبلي نصرت بالرعب، فيرعب مني العدو عن مسيرة شهر، وجعلت لي الارض مسجدا وطهورا، واحلت لي الغنائم ولم تحل لاحد كان قبلي، وبعثت إلى الاحمر والاسود، وقيل لي: سل تعطه، فاختباتها شفاعة لامتي، وهي نائلة منكم إن شاء الله، من لقي الله لا يشرك به شيئا"، قال الاعمش فكان مجاهد يرى ان الاحمر الإنس، والاسود الجن .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ جَبْرٍ أَبِي الْحَجَّاجِ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُوتِيتُ خَمْسًا لَمْ يُؤْتَهُنَّ نَبِيٌّ كَانَ قَبْلِي نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، فَيُرْعَبُ مِنِّي الْعَدُوُّ عَنْ مَسِيرَةِ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، وَأُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ كَانَ قَبْلِي، وَبُعِثْتُ إِلَى الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ، وَقِيلَ لِي: سَلْ تُعْطَهْ، فَاخْتَبَأْتُهَا شَفَاعَةً لِأُمَّتِي، وَهِيَ نَائِلَةٌ مِنْكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا"، قَالَ الْأَعْمَشُ فَكَانَ مُجَاهِدٌ يَرَى أَنَّ الْأَحْمَرَ الْإِنْسُ، وَالْأَسْوَدَ الْجِنُّ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ ایسی خصوصیات دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں چنانچہ رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے اور ایک مہینے کی مسافت پر ہی دشمن مجھ سے مرعوب ہوجاتا ہے، روئے زمین کو میرے لئے سجدہ گاہ اور باعث طہارت قرار دے دیا گیا ہے میرے لئے مال غنیمت کو حلال کردیا گیا ہے جو کہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوا مجھے ہر سرخ و سیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہے اور مجھ سے کہا گیا کہ مانگیے آپ کو دیا جائے گا تو میں نے اپنا یہ حق اپنی امت کی سفارش کے لئے محفوظ کرلیا ہے اور یہ شفاعت تم میں سے ہر اس شخص کو مل کر رہے گی جو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔
حدثنا حدثنا مؤمل ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، حدثنا يونس ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، عن ابي ذر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " تغيب الشمس تحت العرش، فيؤذن لها فترجع، فإذا كانت تلك الليلة التي تطلع صبيحتها من المغرب، لم يؤذن لها، فإذا اصبحت قيل لها: اطلعي من مكانك"، ثم قرا هل ينظرون إلا ان تاتيهم الملائكة او ياتي ربك او ياتي بعض آيات ربك سورة الانعام آية 158 .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تَغِيبُ الشَّمْسُ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَيُؤْذَنُ لَهَا فَتَرْجِعُ، فَإِذَا كَانَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةُ الَّتِي تَطْلُعُ صَبِيحَتَهَا مِنَ الْمَغْرِبِ، لَمْ يُؤْذَنْ لَهَا، فَإِذَا أَصْبَحَتْ قِيلَ لَهَا: اطْلُعِي مِنْ مَكَانِكِ"، ثُمَّ قَرَأَ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ سورة الأنعام آية 158 .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سورج عرش کے نیچے غائب ہوتا ہے اسے اجازت ملتی ہے تو واپس آجاتا ہے جب وہ رات آجائے گی جس کی صبح کو سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے اجازت نہیں ملے گی اور جب صبح ہوگی تو اس سے کہا جائے گا کہ اسی جگہ سے طلوع ہو جہاں سے غروب ہوا تھا پھر یہ آیت تلاوت فرمائی " یہ لوگ کسی اور چیز کا انتظار نہیں کر رہے سوائے اس کے کہ ان کے پاس فرشتے آجائیں یا آپ کا رب آجائے یا آپ کے رب کی کوئی نشانی آجائے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3199، م: 159، وهذا إسناد ضعيف لضعف مؤمل، وقد خولف