حدثنا عبد الله، حدثنا خلف بن هشام البزار وابو بكر بن ابي شيبة ، قال: حدثنا ابو الاحوص ، عن ابي إسحاق ، عن العيزار بن حريث ، عن ابي بصير ، قال: قال ابي صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الفجر، فلما قضى الصلاة، راى من اهل المسجد قلة، فقال:" شاهد فلان؟" قلنا: نعم، حتى عد ثلاثة نفر، فقال: " إنه ليس من صلاة اثقل على المنافقين من صلاة العشاء الآخرة، ومن صلاة الفجر"، وذكر الحديث بطوله .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ الْبَزَّارُ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ الْعَيْزَارِ بْنِ حُرَيْثٍ ، عَنْ أَبِي بَصِيرٍ ، قَالَ: قَالَ أُبَيٌّ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، رَأَى مِنْ أَهْلِ الْمَسْجِدِ قِلَّةً، فَقَالَ:" شَاهِدٌ فُلَانٌ؟" قُلْنَا: نَعَمْ، حَتَّى عَدَّ ثَلَاثَةَ نَفَرٍ، فَقَالَ: " إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ صَلَاةٍ أَثْقَلُ عَلَى الْمُنَافِقِينَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ، وَمِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ"، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ .
حكم دارالسلام: حديث حسن، وقد تفرد أبو الأحوص عن أبى إسحاق بذكر العيزار بن حريث
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی تو نماز کے بعد ہماری طرف متوجہ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دونوں نمازیں (عشاء اور فجر) منافقین پر سب سے زیادہ بھاری ہوتی ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حباب القطعي
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص سورت اخلاص پڑھ لے یہ ایسے ہے جیسے اس نے ایک تہائی قرآن کی تلاوت کی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وقد اختلف فى هذا الإسناد على هلال بن يساف
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنا سنت سے ثابت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ہم اس طرح کرتے تھے لیکن کوئی ہمیں اس پر طعنہ نہیں دیتا تھا یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ حکم اس وقت تھا جب لوگوں کے پاس کپڑوں کی قلت ہوتی تھی اب جب اللہ نے وسعت دے دی ہے تو دو کپڑوں میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، أبو نضرة لم يدرك هذه القصة ، و إنما سمعها من أبى سعيد الخدري
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے ایک سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر تھے اس لئے اعتکاف نہیں کرسکے چنانچہ جب اگلا سال آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ قرآن کریم میں سب سے عظیم آیت کون سی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال کئی مرتبہ دہرایا تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہہ دیا آیت الکرسی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا ابوالمنذر! تمہیں علم مبارک ہو، اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے عرش کے پائے کے پاس یہ اللہ کی پاکیزگی بیان کرتی ہوگی اور اس کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے۔
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني عبد الله بن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم ، عن يحيى بن عبد الله بن عبد الرحمن بن سعد بن زرارة ، عن عمارة بن عمرو بن حزم ، عن ابي بن كعب ، قال:" بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم مصدقا على بلي وعذرة وجميع بني سعد بن هذيم بن قضاعة، وقال يعقوب في موضع آخر من قضاعة، قال: فصدقتهم، حتى مررت بآخر رجل منهم، وكان منزله وبلده من اقرب منازلهم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة، قال: فلما جمع إلي ماله لم اجد عليه فيها إلا ابنة مخاض يعني فاخبرته انها صدقته، قال: فقال: ذاك ما لا لبن فيه ولا ظهر، وايم الله ما قام في مالي رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا رسول له قط قبلك، وما كنت لاقرض الله تبارك وتعالى من مالي ما لا لبن فيه ولا ظهر، ولكن هذه ناقة فتية سمينة فخذها"، قال: فقلت له: ما انا بآخذ ما لم اومر به، فهذا رسول الله صلى الله عليه وسلم منك قريب، فإن احببت ان تاتيه فتعرض عليه ما عرضت علي فافعل، فإن قبله منك قبله، وإن رده عليك رده، قال: فإني فاعل، قال: فخرج معي وخرج بالناقة التي عرض علي حتى قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فقال له: يا نبي الله اتاني رسولك لياخذ مني صدقة مالي، وايم الله ما قام في مالي رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا رسول له قط قبله، فجمعت له مالي، فزعم ان ما علي فيه ابنة مخاض، وذلك ما لا لبن فيه ولا ظهر، وقد عرضت عليه ناقة فتية سمينة لياخذها فابى علي ذلك، وقال: ها هي هذه قد جئتك بها يا رسول الله خذها، قال: فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ذلك الذي عليك، فإن تطوعت بخير قبلناه منك، وآجرك الله فيه"، قال: فها هي ذه يا رسول الله قد جئتك بها فخذها، قال: فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقبضها، ودعا له في ماله بالبركة ..حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ:" بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصَدِّقًا عَلَى بَلِيٍّ وَعُذْرَةَ وَجَمِيعِ بَنِي سَعْدٍ بْنِ هُذَيْمِ بْنِ قُضَاعَةَ، وَقَالَ يَعْقُوبُ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ مِنْ قُضَاعَةَ، قَالَ: فَصَدَّقْتُهُمْ، حَتَّى مَرَرْتُ بِآخِرِ رَجُلٍ مِنْهُمْ، وَكَانَ مَنْزِلُهُ وَبَلَدُهُ مِنْ أَقْرَبِ مَنَازِلِهِمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، قَالَ: فَلَمَّا جَمَعَ إِلَيَّ مَالَهُ لَمْ أَجِدْ عَلَيْهِ فِيهَا إِلَّا ابْنَةَ مَخَاضٍ يَعْنِي فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّهَا صَدَقَتُهُ، قَالَ: فَقَالَ: ذَاكَ مَا لَا لَبَنَ فِيهِ وَلَا ظَهْرَ، وَايْمُ اللَّهِ مَا قَامَ فِي مَالِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا رَسُولٌ لَهُ قَطُّ قَبْلَكَ، وَمَا كُنْتُ لِأُقْرِضَ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مِنْ مَالِي مَا لَا لَبَنَ فِيهِ وَلَا ظَهْرَ، وَلَكِنْ هَذِهِ نَاقَةٌ فَتِيَّةٌ سَمِينَةٌ فَخُذْهَا"، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: مَا أَنَا بِآخِذٍ مَا لَمْ أُومَرْ بِهِ، فَهَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكَ قَرِيبٌ، فَإِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَأْتِيَهُ فَتَعْرِضَ عَلَيْهِ مَا عَرَضْتَ عَلَيَّ فَافْعَلْ، فَإِنْ قَبِلَهُ مِنْكَ قَبِلَهُ، وَإِنْ رَدَّهُ عَلَيْكَ رَدَّهُ، قَالَ: فَإِنِّي فَاعِلٌ، قَالَ: فَخَرَجَ مَعِي وَخَرَجَ بِالنَّاقَةِ الَّتِي عَرَضَ عَلَيَّ حَتَّى قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَتَانِي رَسُولُكَ لِيَأْخُذَ مِنِّي صَدَقَةَ مَالِي، وَايْمُ اللَّهِ مَا قَامَ فِي مَالِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا رَسُولٌ لَهُ قَطُّ قَبْلَهُ، فَجَمَعْتُ لَهُ مَالِي، فَزَعَمَ أَنَّ مَا عَلَيَّ فِيهِ ابْنَةَ مَخَاضٍ، وَذَلِكَ مَا لَا لَبَنَ فِيهِ وَلَا ظَهْرَ، وَقَدْ عَرَضْتُ عَلَيْهِ نَاقَةً فَتِيَّةً سَمِينَةً لِيَأْخُذَهَا فَأَبَى عَلَيَّ ذَلِكَ، وَقَالَ: هَا هِيَ هَذِهِ قَدْ جِئْتُكَ بِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ خُذْهَا، قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ذَلِكَ الَّذِي عَلَيْكَ، فَإِنْ تَطَوَّعْتَ بِخَيْرٍ قَبِلْنَاهُ مِنْكَ، وَآجَرَكَ اللَّهُ فِيهِ"، قَالَ: فَهَا هِيَ ذِهْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ جِئْتُكَ بِهَا فَخُذْهَا، قَالَ: فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْضِهَا، وَدَعَا لَهُ فِي مَالِهِ بِالْبَرَكَةِ ..
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلی، عذرہ اور تمام بنو سعد بن ہذیم کی طرف زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا میں نے ان سے زکوٰۃ وصول کی اور سب سے آخری آدمی کے پاس آگیا اس کا گھر اور علاقہ مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے دوسروں کی نسبت سب سے زیادہ قریب تھا جب اس نے اپنا سارا مال میرے سامنے پیش کیا تو اس کی زکوٰۃ صرف ایک بنت مخاض بنتی تھی میں نے اسے بتادیا کہ اس کی زکوٰۃ اتنی بنتی ہے اس نے کہا کہ اس اونٹنی میں تو دودھ ہے اور نہ ہی یہ سواری کے قابل ہے بخدا! اس سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا ان کا کوئی قاصد کبھی میرے مال میں آکر کھڑا نہیں ہوا اب میں اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کو ایسا جانور قرض نہیں دے سکتا جس میں دودھ ہو اور نہ ہی وہ سواری کے قابل ہو البتہ یہ جوان اور صحت مند اونٹنی موجود ہے اسے لے لو میں نے کہا کہ میں تو ایسی چیز نہیں لے سکتا جس کی مجھے اجازت نہ ہو البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے قریب ہی ہیں اگر تم چاہو تو ان کے پاس چل کر وہی پیش کش کردو جو تم نے میرے سامنے رکھی ہے اگر انہوں نے قبول کرلیا تو بہت اچھا ورنہ وہ تمہیں واپس کردیں گے اس نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا۔
چنانچہ وہ میرے ساتھ نکل پڑا اور اپنے ساتھ وہ اونٹنی بھی لے لی جو اس نے مجھے پیش کی تھی یہاں تک کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! میرے پاس آپ کا قاصد میرے مال کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے آیا اللہ کی قسم اس سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا ان کا کوئی قاصد کبھی میرے مال میں آکر کھڑا نہیں ہوا سو میں نے اپنا سارا مال اکٹھا کیا قاصد کا خیال یہ تھا کہ اس مال میں مجھ پر ایک بنت مخاض واجب ہوتی ہے لیکن وہ اونٹنی ایسی تھی کہ جس میں دودھ تھا اور نہ ہی وہ سواری کے قابل تھی اس لئے میں نے اس کے سامنے ایک جوان اور صحت مند اونٹنی پیش کی لیکن انہوں نے لینے سے انکار کردیا اب یا رسول اللہ! یہ سب آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا ہوں آپ اسے قبول فرما لیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر زکوٰۃ تو اتنی ہی بنتی تھی البتہ اگر تم خود سے نیکی کرنا چاہتے ہو تو ہم قبول کرلیتے ہیں اللہ تمہیں اس کا اجر دے گا اس نے وہ اونٹنی پیش کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لینے کا حکم دیا اور اس کے مال میں برکت کی دعاء فرمائی۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ لوگوں کو نماز پڑھاتے ہوئے دوران تلاوت ایک آیت چھوڑ دی نماز کے بعد فرمایا تم میں سے کس نے میری قرأت میں نئی چیز محسوس کی ہے؟ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے فلاں فلاں آیت چھوڑ دی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے معلوم تھا کہ اگر کسی نے اس چیز کو محسوس کیا ہوگا تو وہ تم ہی ہوگے۔
حدثنا سفيان بن عيينة ، عن إسماعيل بن امية ، عمن حدثه، عن ام ولد ابي بن كعب ، عن ابي بن كعب ، انه دخل على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" متى عهدك بام ملدم؟" وهو حر بين الجلد واللحم، قال: إن ذلك لوجع ما اصابني قط، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مثل المؤمن مثل الخامة تحمر مرة وتصفر اخرى" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنْ أُمِّ وَلَدِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَتَى عَهْدُكَ بِأُمِّ مِلْدَمٍ؟" وَهُوَ حَرٌّ بَيْنَ الْجِلْدِ وَاللَّحْمِ، قَالَ: إِنَّ ذَلِكَ لَوَجَعٌ مَا أَصَابَنِي قَطُّ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَثَلُ الْمُؤْمِنِ مَثَلُ الْخَامَةِ تَحْمَرُّ مَرَّةً وَتَصْفَرُّ أُخْرَى" .
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا ام ملدم (بخار) کو ختم ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے یہ تکلیف کبھی نہیں ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان کی مثال اس دانے کی سی ہے جو کبھی سرخ ہوتا ہے اور کبھی زرد۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الرجل الذى حدث عنه إسماعيل بن أمية ولابهام أم ولد أبى بن كعب