قرات على عبد الرحمن : مالك ، عن ابي حازم بن دينار ، عن سهل بن سعد , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ذهب إلى بني عمرو بن عوف ليصلح بينهم فذكر الحديث، قال: فاشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ان امكث مكانك، فرفع ابو بكر يديه إلى السماء، فحمد الله على ما امره به رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك، ثم استاخر ابو بكر حتى استوى في الصف، وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى، فذكر مثل معنى حديث حماد بن سلمة.قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَهَبَ إِلَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ امْكُثْ مَكَانَكَ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى اسْتَوَى فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى، فَذَكَرَ مِثْلَ مَعْنَى حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ انصاری لوگوں کے درمیان کچھ رنجش ہوگئی تھی جن کے درمیان صلح کرانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے فرمایا کہ اپنی ہی جگہ رہو لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے آگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھا دی۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
حدثنا حجاج ، حدثنا ليث بن سعد ، حدثني عقيل بن خالد ، عن ابن شهاب ، عن سهل ، انه قال: إن رجلا من الانصار جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله , ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا، ايقتله؟ قال: فانزل الله عز وجل في شانه ما ذكر في القرآن من التلاعن، فقال:" قد قضي فيك وفي امراتك" , قال: فتلاعنا وانا شاهد، ثم فارقها عند رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَهْلٍ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ؟ قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي شَأْنِهِ مَا ذُكِرَ فِي الْقُرْآنِ مِنَ التَّلَاعُنِ، فَقَالَ:" قَدْ قُضِيَ فِيكَ وَفِي امْرَأَتِكَ" , قَالَ: فَتَلَاعَنَا وَأَنَا شَاهِدٌ، ثُمَّ فَارَقَهَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری صحابی بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! اگر ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی اور آدمی کو پائے اور اسے قتل کر دے تو کیا بدلے میں اسے بھی قتل کردیا جائے گا یا اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟
اس پر اللہ نے لعان کا حکم نازل کردیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق اپنا حکم نازل کردیا ہے چنانچہ میرے سامنے ان دونوں نے لعان کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جدا کردیا۔
حدثنا حماد بن خالد ، حدثنا عبد الله يعني ابن عمر ، عن العباس بن سهل الساعدي ، عن ابيه , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يستند إلى جذع، فقال:" قد كثر الناس ولو كان لي شيء" , يعني: اقعد عليه , قال عباس: فذهب ابي فقطع عيدان المنبر من الغابة، قال: فما ادري عملها ابي او استعملها؟.حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ السَّاعِدِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسْتَنِدُ إِلَى جِذْعٍ، فَقَالَ:" قَدْ كَثُرَ النَّاسُ وَلَوْ كَانَ لِي شَيْءٌ" , يَعْنِي: أَقْعُدُ عَلَيْهِ , قَالَ عَبَّاسٌ: فَذَهَبَ أَبِي فَقَطَعَ عِيدَانَ الْمِنْبَرِ مِنَ الْغَابَةِ، قَالَ: فَمَا أَدْرِي عَمِلَهَا أَبِي أَوْ اسْتَعْمَلَهَا؟.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے ایک تنے کے ساتھ ٹیک لگایا کرتے تھے ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کی تعداد اب زیادہ ہوگئی ہے اگر کوئی چیز ہوتی تو میں اس پر بیٹھ جایا کرتا حضرت سہل رضی اللہ عنہ کے بیٹھے عباس کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب گئے اور غابہ نامی جگہ سے منبر کے لئے لکڑیاں کاٹیں اب مجھے یاد نہیں کہ اسے والد صاحب نے خود بنایا تھا یا کسی سے مزدوری پر بنوایا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالله بن عمر العمري
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر یا کسی اور جگہ ہاتھ پھیلا کر دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی دعاء فرماتے تو اپنے ہاتھ کندھوں کے سامنے برابر رکھتے اور انگلی سے اشارہ فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالرحمن بن معاوية
حدثنا هاشم ، حدثنا عبد العزيز يعني ابن ابي سلمة ، عن الزهري ، عن سهل بن سعد الساعدي ، عن عاصم بن عدي ، قال: جاءه عويمر رجل من بني عجلان، فقال: يا عاصم، ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا ايقتله فيقتلونه، ام كيف يصنع؟ سل لي يا عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم , فسال عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسائل وعابها، حتى كبر على عاصم ما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر معنى حديث مالك، إلا انه قال: فطلقها قبل ان يامره النبي صلى الله عليه وسلم , قال: فكان فراقه إياها سنة في المتلاعنين.حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ ، قَالَ: جَاءَهُ عُوَيْمِرٌ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَجْلَانَ، فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَيَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ مَالِكٍ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: فَطَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَكَانَ فِرَاقُهُ إِيَّاهَا سُنَّةً فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھئے کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی اور آدمی کو پائے اور اسے قتل کر دے تو کیا بدلے میں اسے بھی قتل کردیا جائے گا یا اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کو اچھا نہیں سمجھا۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی اپنی بیوی کو جدا کردیا (طلاق دے دی) اور یہ چیز لعان کرنے والوں کے درمیان رائج ہوگئی۔
حدثنا يونس ، حدثنا العطاف بن خالد ، حدثنا ابو حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول: " غدوة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها، وروحة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها، وموضع سوط في الجنة خير من الدنيا وما فيها" ..حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا الْعَطَّافُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ: " غَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَرَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَمَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا" ..
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ! نے ارشاد فرمایا اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام کے لئے نکلنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور جنت میں کسی شخص کے کوڑے کی جگہ دنیا وما فیہا سے بہتر ہے۔
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت اس وقت تک خیر پر قائم رہے گی جب تک وہ افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی۔
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں غزوہ خندق کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑی کدال پکڑی اور خندق کھودنے لگے اچانک ایک پتھر سامنے آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے کسی نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا میں ان لوگوں پر ہنس رہا ہوں جنہیں مشرق کی جانب سے بیڑیوں میں جکڑ کر لایا گیا اور جنت کی طرف ہانک دیا گیا۔