حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا ابو إسحاق ، عن عبد الرحمن بن عياش بن ابي ربيعة ، عن سليمان بن موسى ، عن ابي سلام، عن ابي امامة ، عن عبادة بن الصامت ، قال: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم فشهدت معه بدرا، فالتقى الناس فهزم الله تبارك وتعالى العدو، فانطلقت طائفة في آثارهم يهزمون ويقتلون، فاكبت طائفة على العسكر يحوونه ويجمعونه، واحدقت طائفة برسول الله صلى الله عليه وسلم لا يصيب العدو منه غرة، حتى إذا كان الليل، وفاء الناس بعضهم إلى بعض، قال الذين جمعوا الغنائم: نحن حويناها وجمعناها، فليس لاحد فيها نصيب، وقال الذين خرجوا في طلب العدو: لستم باحق بها منا، نحن نفينا عنها العدو وهزمناهم، وقال الذين احدقوا برسول الله صلى الله عليه وسلم: لستم باحق بها منا، نحن احدقنا برسول الله صلى الله عليه وسلم , وخفنا ان يصيب العدو منه غرة واشتغلنا به، فنزلت: يسالونك عن الانفال قل الانفال لله والرسول فاتقوا الله واصلحوا ذات بينكم سورة الانفال آية 1 , فقسمها رسول الله صلى الله عليه وسلم على فواق بين المسلمين، قال:" وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اغار في ارض العدو نفل الربع، وإذا اقبل راجعا وكل الناس، نفل الثلث، وكان يكره الانفال، ويقول:" ليرد قوي المؤمنين على ضعيفهم" .حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَهِدْتُ مَعَهُ بَدْرًا، فَالْتَقَى النَّاسُ فَهَزَمَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْعَدُوَّ، فَانْطَلَقَتْ طَائِفَةٌ فِي آثَارِهِمْ يَهْزِمُونَ وَيَقْتُلُونَ، فَأَكَبَّتْ طَائِفَةٌ عَلَى الْعَسْكَرِ يَحْوُونَهُ وَيَجْمَعُونَهُ، وَأَحْدَقَتْ طَائِفَةٌ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُصِيبُ الْعَدُوُّ مِنْهُ غِرَّةً، حَتَّى إِذَا كَانَ اللَّيْلُ، وَفَاءَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، قَالَ الَّذِينَ جَمَعُوا الْغَنَائِمَ: نَحْنُ حَوَيْنَاهَا وَجَمَعْنَاهَا، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ فِيهَا نَصِيبٌ، وَقَالَ الَّذِينَ خَرَجُوا فِي طَلَبِ الْعَدُوِّ: لَسْتُمْ بِأَحَقَّ بِهَا مِنَّا، نَحْنُ نَفَيْنَا عَنْهَا الْعَدُوَّ وَهَزَمْنَاهُمْ، وَقَالَ الَّذِينَ أَحْدَقُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَسْتُمْ بِأَحَقَّ بِهَا مِنَّا، نَحْنُ أَحْدَقْنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَخِفْنَا أَنْ يُصِيبَ الْعَدُوُّ مِنْهُ غِرَّةً وَاشْتَغَلْنَا بِهِ، فَنَزَلَتْ: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ سورة الأنفال آية 1 , فَقَسَمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَوَاقٍ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ:" وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَغَارَ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ نَفَلَ الرُّبُعَ، وَإِذَا أَقْبَلَ رَاجِعًا وَكُلَّ النَّاسِ، نَفَلَ الثُّلُثَ، وَكَانَ يَكْرَهُ الْأَنْفَالَ، وَيَقُولُ:" لِيَرُدَّ قَوِيُّ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى ضَعِيفِهِمْ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے میں غزوہ بدر میں شریک تھا فریقین کا آمنا سامنا ہوا تو اللہ نے دشمن کو شکت سے دوچار کردیا مسلمانوں کا ایک دستہ انہیں شکت دیتا ہوا قتل کرتا ہوا ان کے تعاقب میں چلا گیا اور ایک گروہ ان کے کیمپوں کی طرف متوجہ ہوا اور مال غنیمت جمع کرنے لگا اور ایک گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتا رہا تاکہ دشمن اچانک حملہ کر کے انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔
جب رات ہوئی اور لوگ واپس آنے لگے تو مال غنیمت جمع کرنے والے کہنے لگے کہ یہ تو ہم نے جمع کیا ہے لہٰذا اس میں کسی کا حصہ نہیں ہے دشمن کی تلاش میں جانے والے کہنے لگے کہ تمہارا اس پر ہم سے زیادہ حق نہیں ہے ہم نے دشمن کو بھگا کر شکست سے دوچار کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنے والے کہنے لگے کہ تمہارا اس پر ہم سے زیادہ حق نہیں ہے ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی ہے کیونکہ ہمیں اندیشہ تھا کہ کہیں دشمن اچانک دھوکے سے ان پر حملہ نہ کر دے اور ہم غفلت میں پڑے رہ جائیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی، " یسألونک عن الأنفال۔۔۔۔ " چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تمام مسلمانوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کردیا۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب دشمن کے علاقے پر حملہ فرماتے تھے تو چوتھائی حصہ انعام میں دے دیتے تھے اور جب وہاں سے واپس ہوتے تو تمام لوگوں میں ایک تہائی حصہ انعام میں تقسیم کردیتے تھے اس کے علاوہ انفال کو آپ نامناسب سمجھتے تھے اور فرماتے تھے طاقتور مسلمان کو کمزور کی مدد کرنی چاہیے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وإسناد هذا الحديث قد اختلف فيه على عبدالرحمن بن الحارث، وهذا ليس بذاك القوي
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شب قدر کے متعلق سوال کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ماہ رمضان میں ہوتی ہے اسے ماہ رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو کہ وہ اس کی طاق راتوں ٢١، ٢٣، ٣٥، ٢٧، ٢٩ ویں یا آخری رات میں ہوتی ہے اور جو شخص اس رات کو حاصل کرنے کے لئے ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرے اور اسے یہ رات مل بھی جائے تو اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف ہوگئے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن دون قوله: أو فى آخر ليلة ، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالله بن محمد، ولجهالة عمر بن عبدالرحمن
حدثنا حيوة بن شريح , ويزيد بن عبد ربه , قالا: حدثنا بقية ، حدثني بحير بن سعد ، عن خالد بن معدان ، عن عمرو بن الاسود ، عن جنادة بن ابي امية انه حدثهم، عن عبادة بن الصامت , انه قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إني قد حدثتكم عن الدجال حتى خشيت ان لا تعقلوا، إن مسيح الدجال رجل قصير افحج، جعد اعور، مطموس العين ليس بناتئة ولا حجراء، فإن البس عليكم، قال يزيد: ربكم فاعلموا ان ربكم تبارك وتعالى ليس باعور، وانكم لن ترون ربكم تبارك وتعالى حتى تموتوا" , قال يزيد:" تروا ربكم حتى تموتوا".حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ , وَيَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ , قَالَا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنِّي قَدْ حَدَّثْتُكُمْ عَنِ الدَّجَّالِ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ لَا تَعْقِلُوا، إِنَّ مَسِيحَ الدَّجَّالِ رَجُلٌ قَصِيرٌ أَفْحَجُ، جَعْدٌ أَعْوَرُ، مَطْمُوسُ الْعَيْنِ لَيْسَ بِنَاتِئَةٍ وَلَا حَجْراءَ، فَإِنْ أَلْبَسَ عَلَيْكُمْ، قَالَ يَزِيدُ: رَبَّكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَيْسَ بِأَعْوَرَ، وَأَنَّكُمْ لَنْ تَرَوْنَ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَتَّى تَمُوتُوا" , قَالَ يَزِيدُ:" تَرَوْا رَبَّكُمْ حَتَّى تَمُوتُوا".
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں دجال کے متعلق اتنی باتیں بتادی ہیں کہ مجھے خطرہ ہے کہیں تم بات سمجھے نہ ہو مسیح دجال ایک ٹھنگنے قد کا آدمی ہوگا، اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان میں غیر معمولی فاصلہ ہوگا اس کے بال گھنگھریالے ہوں گے وہ کانا ہوگا اس کی ایک آنکھ پونچھ دی گئی ہوگی، جو ابھری ہوگی اور نہ دھنسی ہوئی اگر تم پر اس کا معاملہ مشتبہ ہوجائے تو بس اتنی بات یاد رکھنا کہ تمہارا رب کانا نہیں ہے اور یہ کہ تم مرنے سے پہلے اپنے رب کو دیکھ نہیں سکتے۔
حدثنا حيوة بن شريح ، حدثنا بقية ، حدثني بحير بن سعد ، عن خالد بن معدان ، عن عبادة بن الصامت ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ليلة القدر في العشر البواقي، من قامهن ابتغاء حسبتهن، فإن الله تبارك وتعالى يغفر له ما تقدم من ذنبه وما تاخر، وهي ليلة وتر تسع او سبع او خامسة او ثالثة او آخر ليلة" . وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن امارة ليلة القدر انها صافية بلجة، كان فيها قمرا ساطعا ساكنة ساجية، لا برد فيها ولا حر، ولا يحل لكوكب ان يرمى به فيها حتى تصبح، وإن امارتها ان الشمس صبيحتها تخرج مستوية ليس لها شعاع مثل القمر ليلة البدر، ولا يحل للشيطان ان يخرج معها يومئذ" .حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيْلَةُ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْبَوَاقِي، مَنْ قَامَهُنَّ ابْتِغَاءَ حِسْبَتِهِنَّ، فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَغْفِرُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، وَهِيَ لَيْلَةُ وِتْرٍ تِسْعٍ أَوْ سَبْعٍ أَوْ خَامِسَةٍ أَوْ ثَالِثَةٍ أَوْ آخِرِ لَيْلَةٍ" . وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَمَارَةَ لَيْلَةِ الْقَدْرِ أَنَّهَا صَافِيَةٌ بَلْجَةٌ، كَأَنَّ فِيهَا قَمَرًا سَاطِعًا سَاكِنَةٌ سَاجِيَةٌ، لَا بَرْدَ فِيهَا وَلَا حَرَّ، وَلَا يَحِلُّ لِكَوْكَبٍ أَنْ يُرْمَى بِهِ فِيهَا حَتَّى تُصْبِحَ، وَإِنَّ أَمَارَتَهَا أَنَّ الشَّمْسَ صَبِيحَتَهَا تَخْرُجُ مُسْتَوِيَةً لَيْسَ لَهَا شُعَاعٌ مِثْلَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، وَلَا يَحِلُّ لِلشَّيْطَانِ أَنْ يَخْرُجَ مَعَهَا يَوْمَئِذٍ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب قدر ماہ رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے جو شخص اس کا ثواب حاصل کرنے کے لئے ان میں قیام کرے تو اللہ اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرما دے گا اور یہ طاق راتوں میں ہوتی ہے یعنی عشرہ اخیرہ کے نویں " ساتویں " پانچویں " تیسری یا آخری رات " نیز فرمایا کہ شب قدر کی علامت یہ ہے کہ وہ رات روشن اور چمکدار ہوتی ہے اس میں چاند کی روشنی بھی خوب اجلی ہوتی ہے وہ رات پرسکون اور گہری ہوتی ہے اس رات میں صبح تک ستارے توڑ کر نہیں مارے جاتے نیز اس کی علامت یہ ہے کہ اس کی صبح کو جب سورج روشن ہوتا ہے تو وہ سیدھا برابر نکلتا ہے جیسے چودھویں کا چاند ہوتا ہے اور اس کی کوئی شعاع نہیں ہوتی اور اس دن شیطان کے لئے سورج کے ساتھ نکلنا ممنوع ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: الشطر الأول من الحديث حسن، وأما الشطر الثاني فمحتمل للتحسين لشواهده، وإسناد هذا الحديث ضعيف، بقية يدلس تدليس التسوية، وخالد بن معدان لم من عبادة
حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا بشر بن عبد الله يعني ابن يسار السلمي ، قال: حدثني عبادة بن نسي ، عن جنادة بن ابي امية ، عن عبادة بن الصامت ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يشغل، فإذا قدم رجل مهاجر على رسول الله صلى الله عليه وسلم دفعه إلى رجل منا يعلمه القرآن، فدفع إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا، وكان معي في البيت اعشيه عشاء اهل البيت، فكنت اقرئه القرآن، فانصرف انصرافة إلى اهله، فراى ان عليه حقا، فاهدى إلي قوسا لم ار اجود منها عودا، ولا احسن منها عطفا، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: ما ترى يا رسول الله فيها؟ قال: " جمرة بين كتفيك تقلدتها او تعلقتها" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ يَسَارٍ السُّلَمِيَّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ نُسَيٍّ ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشْغَلُ، فَإِذَا قَدِمَ رَجُلٌ مُهَاجِرٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَفَعَهُ إِلَى رَجُلٍ مِنَّا يُعَلِّمُهُ الْقُرْآنَ، فَدَفَعَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا، وَكَانَ مَعِي فِي الْبَيْتِ أُعَشِّيهِ عَشَاءَ أَهْلِ الْبَيْتِ، فَكُنْتُ أُقْرِئُهُ الْقُرْآنَ، فَانْصَرَفَ انْصِرَافَةً إِلَى أَهْلِهِ، فَرَأَى أَنَّ عَلَيْهِ حَقًّا، فَأَهْدَى إِلَيَّ قَوْسًا لَمْ أَرَ أَجْوَدَ مِنْهَا عُودًا، وَلَا أَحْسَنَ مِنْهَا عِطْفًا، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: مَا تَرَى يَا رَسُولَ اللَّهِ فِيهَا؟ قَالَ: " جَمْرَةٌ بَيْنَ كَتِفَيْكَ تَقَلَّدْتَهَا أَوْ تَعَلَّقْتَهَا" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیات زیادہ تھیں اس لئے مہاجرین میں سے کوئی آدمی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے قرآن سکھانے کے لئے ہم میں سے کسی کے حوالے کردیتے تھے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو میرے حوالے کردیا وہ میرے ساتھ میرے گھر میں رہتا تھا اور میں اسے اپنے گھر والوں کے کھانے میں شریک کرتا تھا اور قرآن بھی پڑھاتا تھا جب وہ اپنے گھر واپس جانے لگا تو اس کے دل میں خیال آیا کہ اس پر میرا کچھ حق بنتا ہے چنانچہ اس نے مجھے ایک کمان ہدیئے میں پیش کی جس سے عمدہ لکڑی اور نرمی میں اس سے بہترین کمان میں نے پہلے نہیں دیکھی تھی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کے متعلق پوچھا یا رسول اللہ! آپ کی کیا رائے ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہارے کندھوں کے درمیان ایک انگارہ ہے جو تم نے لٹکا لیا ہے۔
حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا صفوان ، حدثني حميد بن عبد الرحمن اليزني ، ان رجلا سال عبادة بن الصامت عن قول الله: لهم البشرى في الحياة الدنيا سورة يونس آية 64 , فقال عبادة: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" لقد سالتني عن امر ما سالني عنه احد من امتي، تلك الرؤيا الصالحة يراها المؤمن او ترى له" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْيَزَنِيُّ ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ: لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا سورة يونس آية 64 , فَقَالَ عُبَادَةُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ أَمْرٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي، تِلْكَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْمُؤْمِنُ أَوْ تُرَى لَهُ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ارشادباری تعالیٰ " لہم البشری فی الحیاۃ الدنیا وفی الآخرہ " میں بشری کی تفسیر پوچھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد اچھے خواب ہیں جو خود کوئی مسلمان دیکھے یا کوئی دوسرا مسلمان اس کے متعلق دیکھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن إن صح سماع حميد من عبادة
حدثنا ابو اليمان ، حدثنا ابن عياش ، عن عقيل بن مدرك السلمي ، عن لقمان بن عامر ، عن ابي راشد الحبراني ، عن عبادة بن الصامت ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من عبد الله لا يشرك به شيئا فاقام الصلاة، وآتى الزكاة، وسمع واطاع، فإن الله تعالى يدخله من اي ابواب الجنة شاء، ولها ثمانية ابواب، ومن عبد الله لا يشرك به شيئا، واقام الصلاة، وآتى الزكاة، وسمع وعصى، فإن الله تعالى من امره بالخيار، إن شاء رحمه، وإن شاء عذبه" .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَقِيلِ بْنِ مُدْرِكٍ السُّلَمِيِّ ، عَنْ لُقْمَانَ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ أَبِي رَاشِدٍ الْحُبْرَانِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ عَبَدَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، وَآتَى الزَّكَاةَ، وَسَمِعَ وَأَطَاعَ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُدْخِلُهُ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شَاءَ، وَلَهَا ثَمَانِيَةُ أَبْوَابٍ، وَمَنْ عَبَدَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَأَقَامَ الصَّلَاةَ، وَآتَى الزَّكَاةَ، وَسَمِعَ وَعَصَى، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى مِنْ أَمْرِهِ بِالْخِيَارِ، إِنْ شَاءَ رَحِمَهُ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ کی عبادت اس طرح کرے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے " نماز قائم کرے " زکوٰۃ ادا کرے " بات سنے اور مانے " تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے داخل ہونے کا اختیار دیدے گا اور جو شخص اللہ کی عبادت تو اس طرح کرے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائے نماز بھی قائم کرے اور زکوٰۃ بھی ادا کرے اور بات بھی سنے لیکن نافرمانی کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے متعلق اختیار ہے کہ اگر چاہے تو اس پر رحم کر دے اور چاہے تو اسے سزا دے دے۔
حدثنا الحكم بن نافع ابو اليمان ، حدثنا إسماعيل بن عياش ، عن عبد الله بن عثمان بن خثيم ، حدثني إسماعيل بن عبيد الانصاري ، فذكر الحديث، فقال عبادة لابي هريرة: يا ابا هريرة، إنك لم تكن معنا إذ بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، إنا" بايعناه على السمع والطاعة في النشاط والكسل، وعلى النفقة في اليسر والعسر، وعلى الامر بالمعروف والنهي عن المنكر، وعلى ان نقول في الله تبارك وتعالى ولا نخاف لومة لائم فيه، وعلى ان ننصر النبي صلى الله عليه وسلم إذا قدم علينا يثرب، فنمنعه مما نمنع منه انفسنا وازواجنا وابناءنا ولنا الجنة، فهذه بيعة رسول الله صلى الله عليه وسلم التي بايعنا عليها، فمن نكث فإنما ينكث على نفسه، ومن اوفى بما بايع رسول الله، وفى الله تبارك وتعالى بما بايع عليه نبيه صلى الله عليه وسلم , فكتب معاوية إلى عثمان بن عفان: ان عبادة بن الصامت قد افسد علي الشام واهله، فإما تكن إليك عبادة، وإما اخلي بينه وبين الشام، فكتب إليه ان رحل عبادة حتى ترجعه إلى داره من المدينة، فبعث بعبادة حتى قدم المدينة، فدخل على عثمان في الدار، وليس في الدار غير رجل من السابقين او من التابعين، قد ادرك القوم، فلم يفجا عثمان إلا وهو قاعد في جنب الدار، فالتفت إليه، فقال: يا عبادة بن الصامت، ما لنا ولك؟ فقام عبادة بين ظهري الناس، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا القاسم محمدا صلى الله عليه وسلم، يقول:" إنه سيلي اموركم بعدي رجال يعرفونكم ما تنكرون، وينكرون عليكم ما تعرفون، فلا طاعة لمن عصى الله تبارك وتعالى، فلا تعتلوا بربكم" .حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو الْيَمَانِ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُبَيْدٍ الْأَنْصَارِيُّ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ عُبَادَةُ لِأَبِي هُرَيْرَةَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، إِنَّكَ لَمْ تَكُنْ مَعَنَا إِذْ بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّا" بَايَعْنَاهُ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي النَّشَاطِ وَالْكَسَلِ، وَعَلَى النَّفَقَةِ فِي الْيُسْرِ وَالْعُسْرِ، وَعَلَى الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَعَلَى أَنْ نَقُولَ فِي اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَلَا نَخَافَ لَوْمَةَ لَائِمٍ فِيهِ، وَعَلَى أَنْ نَنْصُرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ عَلَيْنَا يَثْرِبَ، فَنَمْنَعُهُ مِمَّا نَمْنَعُ مِنْهُ أَنْفُسَنَا وَأَزْوَاجَنَا وَأَبْنَاءَنَا وَلَنَا الْجَنَّةُ، فَهَذِهِ بَيْعَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي بَايَعْنَا عَلَيْهَا، فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَى نَفْسِهِ، وَمَنْ أَوْفَى بِمَا بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ، وَفَّى اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِمَا بَايَعَ عَلَيْهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَكَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ قَدْ أَفْسَدَ عَلَيَّ الشَّامَ وَأَهْلَهُ، فَإِمَّا تُكِنُّ إِلَيْكَ عُبَادَةَ، وَإِمَّا أُخَلِّي بَيْنَهُ وَبَيْنَ الشَّامِ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ أَنْ رَحِّلْ عُبَادَةَ حَتَّى تُرْجِعَهُ إِلَى دَارِهِ مِنَ الْمَدِينَةِ، فَبَعَثَ بِعُبَادَةَ حَتَّى قَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَدَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ فِي الدَّارِ، وَلَيْسَ فِي الدَّارِ غَيْرُ رَجُلٍ مِنَ السَّابِقِينَ أَوْ مِنَ التَّابِعِينَ، قَدْ أَدْرَكَ الْقَوْمَ، فَلَمْ يَفْجَأْ عُثْمَانُ إِلَّا وَهُوَ قَاعِدٌ فِي جَنْبِ الدَّارِ، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، مَا لَنَا وَلَكَ؟ فَقَامَ عُبَادَةُ بَيْنَ ظَهْرَيْ النَّاسِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا الْقَاسِمِ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّهُ سَيَلِي أُمُورَكُمْ بَعْدِي رِجَالٌ يُعَرِّفُونَكُمْ مَا تُنْكِرُونَ، وَيُنْكِرُونَ عَلَيْكُمْ مَا تَعْرِفُونَ، فَلَا طَاعَةَ لِمَنْ عَصَى اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، فَلَا تَعْتَلُّوا بِرَبِّكُمْ" .
اسماعیل بن عبید انصاری رحمہ اللہ ایک حدیث ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ! آپ اس وقت ہمارے ساتھ نہ تھے جب ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر رہے تھے ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چستی اور سستی ہر حال میں بات سننے اور ماننے " کشادگی اور تنگی میں خرچ کرنے " امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے " اللہ کے متعلق صحیح بات کہنے اور اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ کرنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ تشریف آوری پر ان کی مدد کرنے اور اپنی جان اور بیوی بچوں کی طرح ان کی حفاظت کرنے کی شرط پر بیعت کی تھی جس کے عوض ہم سے جنت کا وعدہ ہوا یہ ہے وہ بیعت جو ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہے اب جو اسے توڑتا ہے وہ اپنا نقصان کرتا ہے اور جو اس بیعت کی پاسداری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کیا ہوا وعدہ پورا کرے گا۔
ادھرامیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی وجہ سے شام اور اہل شام میرے خلاف شورش برپا کر رہے ہیں اب یا تو آپ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلا لیجئے یا پھر میں ان کے اور شام کے درمیان سے ہٹ جاتا ہوں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس خط کے جواب میں انہیں لکھا کہ آپ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کو مکمل احترام کے ساتھ سوار کروا کر مدینہ منورہ میں ان کے گھر کی طرف روانہ کردو چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں روانہ کردیا اور وہ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔
وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے گھر چلے گئے جہاں سوائے ایک آدمی کے اگلے پچھلے لوگوں میں سے کوئی نہ تھا اس نے جماعت صحابہ رضی اللہ عنہ کو پایا تھا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب آئے تو وہ مکان کے ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا عبادہ! تمہارا اور ہمارا کیا معاملہ ہے؟ وہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر کہنے لگے۔
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعد ایسے لوگ تمہارے حکمران ہوں گے جو تمہیں ایسے کاموں کی پہچان کرائیں گے جنہیں تم ناپسند سمجھتے ہوگے اور ایسے کاموں کو ناپسند کریں گے جنہیں تم اچھا سمجھتے ہو گے سو جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے اس کی اطاعت ضروری نہیں اور تم اپنے رب سے نہ ہٹنا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن عياش ضعيف فى روايته عن غير أهل بلده، وهذا منها، وإسماعيل بن عبيد مجهول، وقد اختلف فى إسناده
حدثنا الحكم بن نافع ، حدثنا إسماعيل بن عياش ، عن يزيد بن سعيد ، عن ابي عطاء يزيد بن عطاء السكسكي ، عن معاذ بن سعد السكسكي ، عن جنادة بن ابي امية ، انه سمع عبادة بن الصامت يذكر , ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ما مدة امتك من الرخاء؟ فلم يرد عليه شيئا، حتى ساله ثلاث مرار كل ذلك لا يجيبه، ثم انصرف الرجل، ثم إن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" اين السائل؟" فردوه عليه، فقال:" لقد سالتني عن شيء ما سالني عنه احد من امتي، مدة امتي من الرخاء مائة سنة" , قالها مرتين او ثلاثا، فقال الرجل: يا رسول الله، فهل لذلك من امارة او علامة او آية؟ فقال:" نعم، الخسف والرجف وإرسال الشياطين المجلبة على الناس" .حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي عَطَاءٍ يَزيدُ بْنُ عَطَاءُ السَّكْسَكِيِّ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ سَعْدٍ السَّكْسَكِيِّ ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ يَذْكُرُ , أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا مُدَّةُ أُمَّتِكَ مِنَ الرَّخَاءِ؟ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئًا، حَتَّى سَأَلَهُ ثَلَاثَ مِرَارٍ كُلُّ ذَلِكَ لَا يُجِيبُهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ الرَّجُلُ، ثُمَّ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ؟" فَرَدُّوهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ شَيْءٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي، مُدَّةُ أُمَّتِي مِنَ الرَّخَاءِ مِائَةُ سَنَةٍ" , قَالَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَهَلْ لِذَلِكَ مِنْ أَمَارَةٍ أَوْ عَلَامَةٍ أَوْ آيَةٍ؟ فَقَالَ:" نَعَمْ، الْخَسْفُ وَالرَّجْفُ وَإِرْسَالُ الشَّيَاطِينِ الْمُجَلِّبَةِ عَلَى النَّاسِ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! آپ کی امت پر آسانی کی مدت کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک مرتبہ بھی جواب نہ دیا یہاں تک کہ وہ واپس چلا گیا تھوڑی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ سائل کہاں ہے؟ لوگ اسے بلا لائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا تم نے مجھ سے ایسا سوال پوچھا ہے جو میری امت میں سے کسی نے نہیں پوچھا میری امت پر آسانی کی مدت سو سال ہے دو تین مرتبہ یہ بات دہرائی اس نے پوچھا کہ اس کے ختم ہونے کی کوئی علامت یا نشانی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! زمین میں دھنسنا زلزلے آنا اور شیاطین کو لوگوں پر مسلط کر دینا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى عطاء السكسكي ومعاذ بن سعد
حدثنا حدثنا الحكم بن نافع ، حدثنا إسماعيل بن عياش ، عن راشد بن داود الصنعاني ، عن عبد الرحمن بن حسان ، عن روح بن زنباع ، عن عبادة بن الصامت ، قال: فقد النبي صلى الله عليه وسلم ليلة اصحابه، وكانوا إذا نزلوا انزلوه اوسطهم، ففزعوا وظنوا ان الله تبارك وتعالى اختار له اصحابا غيرهم، فإذا هم بخيال النبي صلى الله عليه وسلم، فكبروا حين راوه، وقالوا: يا رسول الله، اشفقنا ان يكون الله تبارك وتعالى اختار لك اصحابا غيرنا! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا، بل انتم اصحابي في الدنيا والآخرة، إن الله تعالى ايقظني، فقال: يا محمد، إني لم ابعث نبيا ولا رسولا إلا وقد سالني مسالة اعطيتها إياه، فاسال يا محمد تعط، فقلت: مسالتي شفاعة لامتي يوم القيامة" , فقال ابو بكر: يا رسول الله، وما الشفاعة؟ قال:" اقول: يا رب، شفاعتي التي اختبات عندك، فيقول الرب تبارك وتعالى: نعم , فيخرج ربي تبارك وتعالى بقية امتي من النار، فينبذهم في الجنة" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ دَاوُدَ الصَّنْعَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ رَوْحِ بْنِ زِنْبَاعٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: فَقَدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً أَصْحَابُهُ، وَكَانُوا إِذَا نَزَلُوا أَنْزَلُوهُ أَوْسَطَهُمْ، فَفَزِعُوا وَظَنُّوا أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى اخْتَارَ لَهُ أَصْحَابًا غَيْرَهُمْ، فَإِذَا هُمْ بِخَيَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَبَّرُوا حِينَ رَأَوْهُ، وَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَشْفَقْنَا أَنْ يَكُونَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى اخْتَارَ لَكَ أَصْحَابًا غَيْرَنَا! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا، بَلْ أَنْتُمْ أَصْحَابِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَيْقَظَنِي، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ نَبِيًّا وَلَا رَسُولًا إِلَّا وَقَدْ سَأَلَنِي مَسْأَلَةً أَعْطَيْتُهَا إِيَّاهُ، فَاسْأَلْ يَا مُحَمَّدُ تُعْطَ، فَقُلْتُ: مَسْأَلَتِي شَفَاعَةٌ لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ" , فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الشَّفَاعَةُ؟ قَالَ:" أَقُولُ: يَا رَبِّ، شَفَاعَتِي الَّتِي اخْتَبَأْتُ عِنْدَكَ، فَيَقُولُ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: نَعَمْ , فَيُخْرِجُ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى بَقِيَّةَ أُمَّتِي مِنَ النَّارِ، فَيَنْبِذُهُمْ فِي الْجَنَّةِ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ ملے حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول تھا کہ جب کسی جگہ پڑاؤ کرتے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے درمیان رکھتے تھے لوگ گھبرا گئے اور یہ گمان کرنے لگے کہ شاید اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ہمارے علاوہ کچھ اور ساتھیوں کا انتخاب فرما لیا ہے ابھی وہ انہی تفکرات میں غلطاں و بیچاں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آتے ہوئے دکھائی دیئے لوگوں نے خوشی سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور عرض کیا یا رسول اللہ! ہم تو ڈر ہی گئے تھے کہ کہیں اللہ نے ہمارے علاوہ آپ کے لئے کچھ اور ساتھیوں کا انتخاب نہ فرما لیا ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسی بات نہیں ہے بلکہ تم دنیا و آخرت میں میرے ساتھی ہو بات در اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جگا کر فرمایا اے محمد! میں نے جو بھی نبی یا رسول بھیجا اس نے ایک سوال کیا جو میں نے پورا کردیا اس لئے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی مجھ سے مانگئے آپ کو بھی دیا جائے گا میں نے عرض کیا کہ میری درخواست یہ ہے کہ قیامت کے دن میری امت کے حق میں مجھے سفارش کی اجازت دی جائے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ! اس شفاعت کا ثمرہ کیا ہوگا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بارگاہ الٰہی میں عرض کروں گا کہ پروردگار! میری وہ سفارش جو میں نے آپ کے پاس محفوظ کروائی تھی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہاں! پھر میرا پروردگار میری بقیہ امت کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، راشد بن داود لين الحديث