حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن سليمان بن عمرو بن الاحوص ، عن امه انها شهدت النبي صلى الله عليه وسلم عند جمرة العقبة، والناس يرمون، فقال:" يا ايها الناس، لا تقتلوا، او لا تهلكوا انفسكم، وارموا الجمرة او الجمرات بمثل حصى الخذف" , واشار شعبة بطرف إصبعه السبابة.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ ، عَنْ أُمِّهِ أَنَّهَا شَهِدَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ، وَالنَّاسُ يَرْمُونَ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، لَا تَقْتُلُوا، أَوْ لَا تُهْلِكُوا أَنْفُسَكُمْ، وَارْمُوا الْجَمْرَةَ أَوْ الْجَمَرَاتِ بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ" , وَأَشَارَ شُعْبَةُ بِطَرَفِ إِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ.
حضرت ام سلیمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے دس ذی الحجہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بطن وادی سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا لوگ بھی اس وقت رمی کر رہے تھے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا، ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچانا اور جب جمرات کی رمی کرو تو اس کے لئے ٹھیکری کی کنکریاں استعمال کرو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد ولجهالة حال سليمان بن عمرو
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پڑوسی خاتون سے مروی ہے کہ وہ طلوع صبح صادق کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنتی تھیں اے اللہ! میں قبر کے عذاب اور قبر کی آزمائش سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔
سعدی رحمہ اللہ اپنے والد یا چچا سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا اندازہ لگایا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدے میں اتنی دیر رکتے تھے جس میں تین مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہا جاسکے۔
حدثنا ابو النضر ، حدثنا ابو جعفر ، عن يحيى البكاء ، عن ابي رافع ، قال: كنت اصوغ لازواج النبي صلى الله عليه وسلم فحدثنني , انهن لسمعن رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، وزنا بوزن، فمن زاد او استزاد فقد اربى" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ ، عَنْ يَحْيَى الْبَكَّاءِ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، قَالَ: كُنْتُ أَصُوغُ لِأَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْنَنِي , أَنَّهُنَّ لَسَمِعْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، وَزْنًا بِوَزْنٍ، فَمَنْ زَادَ أَوْ اسْتَزَادَ فَقَدْ أَرْبَى" .
ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا سنار تھا انہوں نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سونا سونے کے بدلے اور چاندی چاندی کے بدلے برابر وزن کے ساتھ بیچی جائے جو شخص اس میں اضافہ کرے یا اضافے کی درخواست کرے تو اس نے سودی معاملہ کیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، أبو جعفر سيئ الحفظ، ويحيى البكاء متروك، لكن متن الحديث صحيح
حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا محمد يعني ابن عمرو عن ابن حرملة ، عن خالته ، قالت: خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عاصب إصبعه من لدغة عقرب، فقال: " إنكم تقولون: لا عدو، وإنكم لا تزالون تقاتلون عدوا حتى ياتي ياجوج وماجوج، عراض الوجوه، صغار العيون، شهب الشعاف، من كل حدب ينسلون، كان وجوههم المجان المطرقة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو عَنِ ابْنِ حَرْمَلَةَ ، عَنْ خَالَتِهِ ، قَالَتْ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَاصِبٌ إِصْبَعَهُ مِنْ لَدْغَةِ عَقْرَبٍ، فَقَالَ: " إِنَّكُمْ تَقُولُونَ: لَا عَدُوَّ، وَإِنَّكُمْ لَا تَزَالُونَ تُقَاتِلُونَ عَدُوًّا حَتَّى يَأْتِيَ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ، عِرَاضُ الْوُجُوهِ، صِغَارُ الْعُيُونِ، شُهْبُ الشِّعَافِ، مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ، كَأَنَّ وُجُوهَهُمْ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ" .
ابن حرملہ اپنی خالہ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بچھو نے ڈنک مارا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زخم پر پٹی باندھی ہوئی تھی اور خطبہ دیتے ہوئے فرما رہے تھے تم لوگ کہتے ہو کہ اب تمہارا کوئی دشمن نہیں رہا حالانکہ تم خروج یاجوج ماجوج تک اپنے دشمنوں سے لڑتے رہو گے جن کے چہرے چوڑے آنکھیں چھوٹی اور سرخی مائل سفید بال ہوں گے اور وہ ہر بلندی سے پھسلتے ہوئے محسوس ہوں گے اور ان کے چہرے چپٹی ہوئی کمانوں کی طرح لگیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن حرملة فيه لين حرملة فيه لين. والأوصاف المذكورة فى الحديث فى الترك، وليس فى يأجوج و مأجوج، وخالة ابن حرملة لا تعرف
حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث ، حدثنا رافع بن سلمة الاشجعي ، حدثني حشرج بن زياد الاشجعي ، عن جدته ام ابيه ، انها قالت: خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة خيبر وانا سادس ست نسوة، فبلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم ان معه نساء، فارسل إلينا، فقال: " ما اخرجكن وبامر من خرجتن؟" فقلنا: خرجنا نناول السهام، ونسقي الناس السويق، ومعنا ما نداوي به الجرحى، ونغزل الشعر، ونعين به في سبيل الله , قال: قمن فانصرفن" , فلما فتح الله عليه خيبر، اخرج لنا سهاما كسهام الرجل" , قلت: يا جدة، ما اخرجكن؟ قالت: تمرا.حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا رَافِعُ بْنُ سَلَمَةَ الْأَشْجَعِيُّ ، حَدَّثَنِي حَشْرَجُ بْنُ زِيَادٍ الْأَشْجَعِيُّ ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ أَبِيهِ ، أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةِ خَيْبَرَ وَأَنَا سَادِسُ سِتِّ نِسْوَةٍ، فَبَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ مَعَهُ نِسَاءً، فَأَرْسَلَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: " مَا أَخْرَجَكُنَّ وَبِأَمْرِ مَنْ خَرَجْتُنَّ؟" فَقُلْنَا: خَرَجْنَا نُنَاوِلُ السِّهَامَ، وَنَسْقِي النَّاسَ السَّوِيقَ، وَمَعَنَا مَا نُدَاوِي بِهِ الْجَرْحَى، وَنَغْزِلُ الشَّعْرَ، وَنُعِينُ بِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , قَالَ: قُمْنَ فَانْصَرِفْنَ" , فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ خَيْبَرَ، أَخْرَجَ لَنَا سِهَامًا كَسِهَامِ الرَّجُلِ" , قُلْتُ: يَا جَدَّةُ، مَا أَخْرَجََكُنَّ؟ قَالَتْ: تَمْرًا.
حشرج بن زیاد اپنی دادی سے نقل کرتے ہیں کہ میں غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکلی میں اس وقت چھ میں سے چھٹی عورت تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ ان کے ہمراہ خواتین بھی ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے پاس پیغام بھیجا کہ تم کیوں نکلی ہو اور کس کی اجازت سے نکلی ہو؟ ہم نے جواب دیا کہ ہم لوگ اس لئے نکلے ہیں تاکہ ہمیں بھی حصہ ملے ہم لوگوں کو ستو گھول کر پلا سکیں ہمارے پاس مریضوں کے علاج کا سامان بھی ہے ہم بالوں کو کات لیں گی اور اللہ کے راستہ میں اس کے ذریعے ان کی مدد کریں گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ واپس چلی جاؤ جب اللہ نے خیبر کو فتح کردیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھی مردوں کی طرح حصہ مرحمت فرمایا میں نے اپنی دادی سے پوچھا کہ دادی جان! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کیا حصہ دیا؟ انہوں نے جواب دیا کھجوریں۔
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا ابان ، حدثنا ابو عمران ، حدثنا زهير بن عبد الله وكان عاملا على توج، واثنى عليه خيرا، عن بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " من نام على إجار ليس عليه ما يدفع قدميه فخر، فقد برئت منه الذمة، ومن ركب البحر إذا ارتج، فقد برئت منه الذمة" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَكَانَ عَامِلًا عَلَى تَوَّجَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ خَيْرًا، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ نَامَ عَلَى إِجَّارٍ لَيْسَ عَلَيْهِ مَا يَدْفَعُ قَدَمَيْهِ فَخَرَّ، فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ، وَمَنْ رَكِبَ الْبَحْرَ إِذَا ارْتَجَّ، فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ" .
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ایسے گھر کی چھت پر سوئے جس کی کوئی منڈیر نہ ہو اور وہ اس سے نیچے گر کر مرجائے تو کسی پر اس کی ذمہ داری نہیں ہے اور جو شخص ایسے وقت میں سمندری سفر روانہ ہو جب سمندر میں طغیانی آئی ہوئی ہو اور مرجائے تو اس کی ذمہ داری بھی کسی پر نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة زهير بن عبدالله، ولاضطراب فى إسناده
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نو ذی الحجہ، دس محرم اور ہر مہینے کے تین دنوں کا روزہ رکھتے تھے۔
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن يحيى بن ابي كثير ، عن ابي همام الشعباني ، قال: حدثني رجل من خثعم، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك، فوقف ذات ليلة، واجتمع عليه اصحابه، فقال: " إن الله اعطاني الليلة الكنزين كنز فارس , والروم، وامدني بالملوك ملوك حمير الاحمرين , ولا ملك إلا لله، ياتون ياخذون من مال الله، ويقاتلون في سبيل الله" قالها ثلاثا.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي هَمَّامٍ الشَّعْبَانِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ خَثْعَمَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَوَقَفَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، وَاجْتَمَعَ عَلَيْهِ أَصْحَابُهُ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ أَعْطَانِي اللَّيْلَةَ الْكَنْزَيْنِ كَنْزَ فَارِسَ , وَالرُّومِ، وَأَمَدَّنِي بِالْمُلُوكِ مُلُوكِ حِمْيَرَ الْأَحْمَرَيْنِ , وَلَا مُلْكَ إِلَّا لِلَّهِ، يَأْتُونَ يَأْخُذُونَ مِنْ مَالِ اللَّهِ، وَيُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ" قَالَهَا ثَلَاثًا.
قبیلہ خثعم کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ غزوہ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں ٹھہرے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج رات اللہ تعالیٰ نے مجھے دو خزانے عطاء فرمائے ہیں ایران اور روم کے خزانے اور قبیلہ حمیر کے بادشاہوں سے اس میں اضافہ فرمایا ہے اور اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی بادشاہ نہیں وہ آکر اللہ کے مال میں سے لیں گے اور اللہ کے راستہ میں جہاد کریں گے یہ جملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ دہرایا۔
حدثنا علي بن عاصم ، حدثنا حصين ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن رجل من قومه، قال: دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم وعلي خاتم من ذهب، فاخذ جريدة فضرب بها كفي، وقال: " اطرحه" , قال: فخرجت فطرحته، ثم عدت إليه، فقال:" ما فعل الخاتم؟" , قال: قلت: طرحته , قال:" إنما امرتك ان تستمتع به ولا تطرحه" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيَّ خَاتَمٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَأَخَذَ جَرِيدَةً فَضَرَبَ بِهَا كَفِّي، وَقَالَ: " اطْرَحْهُ" , قَالَ: فَخَرَجْتُ فَطَرَحْتُهُ، ثُمَّ عُدْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ:" مَا فَعَلَ الْخَاتَمُ؟" , قَالَ: قُلْتُ: طَرَحْتُهُ , قَالَ:" إِنَّمَا أَمَرْتُكَ أَنْ تَسْتَمْتِعَ بِهِ وَلَا تَطْرَحَهُ" .
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے سونے کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ٹہنی لے کر میرے ہاتھ پر ماری اور مجھے حکم دیا کہ اسے اتاروں چنانچہ میں نے اسے باہر جاکر پھینک دیا اور دوبارہ حاضر خدمت ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ انگوٹھی کیا ہوئی؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے پھینک دی میں نے تمہیں یہ حکم دیا تھا کہ اس سے کسی اور طرح فائدہ اٹھالو اسے پھینکو مت۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن عاصم