حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھے پڑوسی کے متعلق اتنی مرتبہ وصیت کی کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ وہ اسے وارث بھی قرار دے دیں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى الشواهد من أجل بقية
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے ابو امامہ! وہ شخص مومنین میں سے ہے کہ جس کا دل میرے لئے نرم ہوجائے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، تفرد به بقية ، وهو ضعيف عند التفرد
حدثنا ابو اليمان , حدثنا إسماعيل بن عياش , عن يزيد بن ابي مالك , عن لقمان بن عامر , عن ابي امامة , عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " ما من رجل يلي امر عشرة فما فوق ذلك , إلا اتى الله عز وجل مغلولا يوم القيامة يده إلى عنقه , فكه بره , او اوبقه إثمه , اولها ملامة , واوسطها ندامة , وآخرها خزي يوم القيامة" .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ , عَنْ لُقْمَانَ بْنِ عَامِرٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " مَا مِنْ رَجُلٍ يَلِي أَمْرَ عَشَرَةٍ فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ , إِلَّا أَتَى اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ مَغْلُولًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَدُهُ إِلَى عُنُقِهِ , فَكَّهُ بِرُّهُ , أَوْ أَوْبَقَهُ إِثْمُهُ , أَوَّلُهَا مَلَامَةٌ , وَأَوْسَطُهَا نَدَامَةٌ , وَآخِرُهَا خِزْيٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دس یا اس سے زیادہ لوگوں کے معاملات کا ذمہ دار بنتا ہے وہ قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس حال میں پیش ہوگا کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن سے بندھے ہوئے ہوں گے جنہیں اس کی نیکی ہی کھول سکے گی ورنہ اس کے گناہ اسے ہلاک کردیں گے حکومت کا آغاز ملامت سے ہوتا ہے درمیان ندامت سے اور اختتام قیامت کے دن رسوائی پر ہوگا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لاضطرب إسماعيل بن عياش فيه
حدثنا ابو المغيرة , حدثنا السري بن ينعم , حدثني عامر بن جشيب , عن خالد بن معدان , عن ابي امامة , قال: دعينا إلى وليمة وهو معنا , فلما شبع من الطعام , قام فقال: اما إني لست اقوم مقامي هذا خطيبا , كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا شبع من الطعام , قال: " الحمد لله كثيرا طيبا مباركا فيه , غير مكفي , ولا مستغنى عنه" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا السَّرِيُّ بْنُ يَنْعُمَ , حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ جَشِيبٍ , عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: دُعِينَا إِلَى وَلِيمَةٍ وَهُوَ مَعَنَا , فَلَمَّا شَبِعَ مِنَ الطَّعَامِ , قَامَ فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَسْتُ أَقُومُ مَقَامِي هَذَا خَطِيبًا , كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا شَبِعَ مِنَ الطَّعَامِ , قَالَ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ , غَيْرَ مَكْفِيٍّ , وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ" .
خالد بن معدان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ عبدالاعلیٰ بن بلال کی دعوت میں شریک تھے کھانے سے فراغت کے بعد حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ میں اس جگہ کھڑا تو ہوگیا ہوں لیکن میں خطیب ہوں اور نہ ہی تقریر کے ارادے سے کھڑا ہوا ہوں البتہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعاء پڑھتے ہوتے سنا ہے " الحمدللہ کثیرا طیبا مبارکا فیہ غیر مکفی ولامودع ولامستغنی عنہ " خالد کہتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات اتنی مرتبہ دہرائے کہ ہمیں حفظ ہوگئے۔
حدثنا ابو اليمان , حدثنا إسماعيل بن عياش , عن ابي بكر بن عبد الله يعني ابن ابي مريم , عن حبيب بن عبيد الرحبي , ان ابا امامة دخل على خالد بن يزيد , فالقى له وسادة , فظن ابو امامة انها حرير , فتنحى يمشي القهقرى حتى بلغ آخر السماط , وخالد يكلم رجلا , ثم التفت إلى ابي امامة , فقال له: يا اخي ما ظننت اظننت انها حرير؟ قال ابو امامة : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يستمتع بالحرير من يرجو ايام الله" , فقال له خالد: يا ابا امامة , انت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: اللهم غفرا , انت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ بل كنا في قوم ما كذبونا ولا كذبنا.حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ , عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي مَرْيَمَ , عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ الرَّحَبِيِّ , أَنَّ أَبَا أُمَامَةَ دَخَلَ عَلَى خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ , فَأَلْقَى لَهُ وَسَادَةً , فَظَنَّ أَبُو أُمَامَةَ أَنَّهَا حَرِيرٌ , فَتَنَحَّى يَمْشِي الْقَهْقَرَى حَتَّى بَلَغَ آخِرَ السِّمَاطِ , وَخَالِدٌ يُكَلِّمُ رَجُلًا , ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَبِي أُمَامَةَ , فَقَالَ لَهُ: يَا أَخِي مَا ظَنَنْتَ أَظَنَنْتَ أَنَّهَا حَرِيرٌ؟ قَالَ أَبُو أُمَامَةَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَسْتَمْتِعُ بِالْحَرِيرِ مَنْ يَرْجُو أَيَّامَ اللَّهِ" , فَقَالَ لَهُ خَالِدٌ: يَا أَبَا أُمَامَةَ , أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: اللَّهُمَّ غُفْرًا , أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ بَلْ كُنَّا فِي قَوْمٍ مَا كَذَبُونَا وَلَا كُذِّبْنَا.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ خالد بن یزید کے پاس گئے اس نے ان کے لئے تکیہ پیش کیا حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سمجھے کہ یہ ریشمی تکیہ ہے اس لئے وہ الٹے پاؤں واپس چلتے ہوئے صف کے آخر میں پہنچ گئے خالد ایک دوسرے آدمی سے محو گفتگو تھا کچھ دیر بعد اس نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو کہنے لگا بھائی جان! آپ کیا سمجھے؟ کیا آپ کا خیال ہے کہ یہ ریشمی تکیہ ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ شخص ریشم سے فائدہ نہیں اٹھاسکتا جو اللہ سے ملنے کی امید رکھتاہو خالد نے پوچھا اے ابو امامہ! کیا واقعی آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا اللہ معافی یہ سوال کہ کیا آپ نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، ہم ایک ایسی قوم میں رہتے تھے جو ہمارے ساتھ جھوٹ بولتے تھے اور نہ ہم ان کے ساتھ جھوٹ بولتے تھے۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى بكر الغساني
حدثنا ابو اليمان , حدثنا إسماعيل بن عياش , عن محمد بن زياد , عن ابي امامة , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " وعدني ربي عز وجل ان يدخل الجنة من امتي سبعين الفا بغير حساب ولا عذاب , مع كل الف سبعون الفا , وثلاث حثيات من حثيات ربي عز وجل" .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " وَعَدَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ وَلَا عَذَابٍ , مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا , وَثَلَاثَ حَثَيَاتٍ مِنْ حَثَيَاتِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میری امت کے ستر ہزار آدمیوں کو بلا حساب کتاب جنت میں داخل فرمائے گا، ہر ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار ہوں گے اور اس پر تین گنا کا مزید اضافہ ہوگا۔
حدثنا ابو اليمان , حدثنا إسماعيل بن عياش , عن يحيى بن الحارث الذماري , عن القاسم ابي عبد الرحمن , عن ابي امامة , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من مشى إلى صلاة مكتوبة وهو متطهر , كان له كاجر الحاج المحرم , ومن مشى إلى سبحة الضحى , كان له كاجر المعتمر , وصلاة على إثر صلاة لا لغو بينهما , كتاب في عليين" , وقال ابو امامة: الغدو والرواح إلى هذه المساجد من الجهاد في سبيل الله.حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ , عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ الذِّمَارِي , عَنِ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ مَشَى إِلَى صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ وَهُوَ مُتَطَهِّرٌ , كَانَ لَهُ كَأَجْرِ الْحَاجِّ الْمُحْرِمِ , وَمَنْ مَشَى إِلَى سُبْحَةِ الضُّحَى , كَانَ لَهُ كَأَجْرِ الْمُعْتَمِرِ , وَصَلَاةٌ عَلَى إِثْرِ صَلَاةٍ لَا لَغْوَ بَيْنَهُمَا , كِتَابٌ فِي عِلِّيِّينَ" , وقَالَ أَبُو أُمَامَةَ: الْغُدُوُّ وَالرَّوَاحُ إِلَى هَذِهِ الْمَسَاجِدِ مِنَ الْجِهَادِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص وضو کر کے فرض نماز کے لئے روانہ ہوتا ہے اسے احرام باندھنے والے حاجی کے برابر ثواب ملتا ہے جو شخص چاشت کی نماز کے لئے روانہ ہوتا ہے اسے عمرہ کرنے والے کے برابر ثواب ملتا ہے اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز اس طرح پڑھنا کہ درمیان میں کوئی لغو کام نہ ہو علیین میں لکھا جاتا ہے اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صبح و شام ان مساجد کی طرف جانا جہاد فی سبیل اللہ کا حصہ ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان سے صحابی رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آٹھ ذی الحجہ کے دن منٰی کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جانب حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس پر ایک کپڑا تھا اور وہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کئے ہوئے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، من أجل على بن يزيد، وعمان بن أبى العاتكة ضعيف
حدثنا هاشم بن القاسم , حدثنا بكر بن خنيس , عن ليث بن ابي سليم , عن زيد بن ارطاة , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما اذن لعبد في شيء افضل من ركعتين يصليهما , وإن البر ليذر فوق راس العبد ما دام في صلاته , وما تقرب العباد إلى الله تعالى بمثل ما خرج منه" يعني: القرآن.حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ , حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خُنَيْسٍ , عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْطَاةَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أُذِنَ لِعَبْدٍ فِي شَيْءٍ أَفْضَلَ مِنْ رَكْعَتَيْنِ يُصَلِّيهِمَا , وَإِنَّ الْبِرَّ لَيُذَرُّ فَوْقَ رَأْسِ الْعَبْدِ مَا دَامَ فِي صَلَاتِهِ , وَمَا تَقَرَّبَ الْعِبَادُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى بِمِثْلِ مَا خَرَجَ مِنْهُ" يَعْنِي: الْقُرْآنَ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی انسان کو کسی چیز کے متعلق اس سے افضل اجازت نہیں دی گئی جو دو رکعتوں کے متعلق دی گئی ہے جنہیں وہ ادا کرتا ہے اور انسان جب تک نماز میں مشغول رہتا ہے اس وقت تک نیکی اس کے سر پر بکھرتی رہتی ہے اور انسان کو اللہ کا اس جیسا قرب حاصل نہیں ہوتا جو اس سے نکلنے والے کلام یعنی قرآن کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف بكر بن خنيس وليث ، ولانقطاعه، زيد بن أرطاة حديثه عن أبى أمامة مرسل
حدثنا حدثنا الهاشم بن القاسم , حدثنا الفرج , حدثنا علي بن يزيد , عن القاسم ابي عبد الرحمن , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله بعثني رحمة للعالمين وهدى للعالمين , وامرني ربي عز وجل بمحق المعازف , والمزامير , والاوثان , والصلب , وامر الجاهلية , وحلف ربي عز وجل بعزته: لا يشرب عبد من عبيدي جرعة من خمر إلا سقيته من الصديد مثلها يوم القيامة , مغفورا له او معذبا , ولا يسقيها صبيا صغيرا ضعيفا مسلما إلا سقيته من الصديد مثلها يوم القيامة مغفورا له او معذبا , ولا يتركها من مخافتي إلا سقيته من حياض القدس يوم القيامة , ولا يحل بيعهن , ولا شراؤهن , ولا تعليمهن , ولا تجارة فيهن وثمنهن حرام" يعني: الضاربات.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ , حَدَّثَنَا الْفَرَجُ , حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ , عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ , وَأَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ بِمَحْقِ الْمَعَازِفِ , وَالْمَزَامِيرِ , وَالْأَوْثَانِ , وَالصُّلُبِ , وَأَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ , وَحَلَفَ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ بِعِزَّتِهِ: لَا يَشْرَبُ عَبْدٌ مِنْ عَبِيدِي جَرْعَةً مِنْ خَمْرٍ إِلَّا سَقَيْتُهُ مِنَ الصَّدِيدِ مِثْلَهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ , مَغْفُورًا لَهُ أَوْ مُعَذَّبًا , وَلَا يَسْقِيهَا صَبِيًّا صَغِيرًا ضَعِيفًا مُسْلِمًا إِلَّا سَقَيْتُهُ مِنَ الصَّدِيدِ مِثْلَهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَغْفُورًا لَهُ أَوْ مُعَذَّبًا , وَلَا يَتْرُكُهَا مِنْ مَخَافَتِي إِلَّا سَقَيْتُهُ مِنْ حِيَاضِ الْقُدُسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , وَلَا يَحِلُّ بَيْعُهُنَّ , وَلَا شِرَاؤُهُنَّ , وَلَا تَعْلِيمُهُنَّ , وَلَا تِجَارَةٌ فِيهِنَّ وَثَمَنُهُنَّ حَرَامٌ" يَعْنِي: الضَّارِبَاتِ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے جہاں والوں کے لئے باعث رحمت و ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ موسقی کے آلات، طبلے، آلات لہو ولعب اور ان تمام بتوں کو مٹا ڈالوں جن کی زمانہ جاہلیت میں پرستش کی جاتی تھی اور میرے رب نے اپنی عزت کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ میرا جو بندہ بھی شراب کا ایک گھونٹ پئے گا میں اس کے بدلے میں اسے جہنم کا کھولتا ہوا پانی ضرور پلاؤں گا خواہ اسے عذاب میں مبتلا رکھا جائے یا بعد میں اس کی بخشش کردی جائے اور اگر کسی نابالغ بچے کو بھی اس کا ایک گھونٹ پلایا تو اسے بھی اس کے بدلے میں جہنم کا کھولتا ہوا پانی ضرور پلاؤں گا خواہ اسے عذاب میں مبتلا رکھا جائے یا بعد میں اس کی بخشش کردی جائے اور میرا جو بندہ میرے خوف کی وجہ سے اسے چھوڑ دے گا میں اسے اپنی پاکیزہ شراب پلاؤں گا اور مغنیہ عورتوں کی بیع وشراء انہیں گانا بجانا سکھانا اور ان کی تجارت کرنا جائز نہیں ہے اور ان کی قیمت حرام ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، فرج وعلى بن يزيد ضعيفان