حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم! اگر میں تیری پیاری آنکھیں واپس لے لوں اور تو اس پر ثواب کی نیت سے ابتدائی صدمہ کے اوقات میں صبر کرلے تو میں تیرے لئے جنت کے علاوہ کسی اور بدلے پر راضی نہیں ہوں گا۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو بندہ اللہ کی رضاء کے لئے کسی شخص سے محبت کرتا ہے تو در حقیقت وہ اللہ تعالیٰ کی عزت کرتا ہے۔
ابو غالب سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے " نافلہ " کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نافلہ ہے جبکہ تمہارے لئے باعث اجروثواب ہے۔
حدثنا سيار بن حاتم , حدثنا جعفر , قال: اتيت فرقدا يوما فوجدته خاليا , فقلت: يا ابن ام فرقد لاسالنك اليوم عن هذا الحديث , فقلت: اخبرني عن قولك في الخسف والقذف , اشيء تقوله انت , او تاثره عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: لا , بل آثره عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قلت: ومن حدثك؟ قال: حدثني عاصم بن عمرو البجلي , عن ابي امامة , عن النبي صلى الله عليه وسلم , وحدثني قتادة , عن سعيد بن المسيب , وحدثني به إبراهيم النخعي , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " تبيت طائفة من امتي على اكل , وشرب , ولهو , ولعب , ثم يصبحون قردة وخنازير , فيبعث على احياء من احيائهم ريح , فتنسفهم كما نسفت من كان قبلهم , باستحلالهم الخمور , وضربهم بالدفوف , واتخاذهم القينات" .حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ حَاتِمٍ , حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ , قَالَ: أَتَيْتُ فَرْقَدًا يَوْمًا فَوَجَدْتُهُ خَالِيًا , فَقُلْتُ: يَا ابْنَ أُمِّ فَرْقَدٍ لَأَسْأَلَنَّكَ الْيَوْمَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ , فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِكَ فِي الْخَسْفِ وَالْقَذْفِ , أَشَيْءٌ تَقُولُهُ أَنْتَ , أَوْ تَأْثُرُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَا , بَلْ آثُرُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قُلْتُ: وَمَنْ حَدَّثَكَ؟ قَالَ: حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عَمْرٍو الْبَجَلِيُّ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَحَدَّثَنِي قَتَادَةُ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ , وَحَدَّثَنِي بِهِ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " تَبِيتُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى أَكْلٍ , وَشُرْبٍ , وَلَهْوٍ , وَلَعِبٍ , ثُمَّ يُصْبِحُونَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ , فَيُبْعَثُ عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ أَحْيَائِهِمْ رِيحٌ , فَتَنْسِفُهُمْ كَمَا نَسَفَتْ مَنْ كَانَ قَبْلَهُمْ , بِاسْتِحْلَالِهِمْ الْخُمُورَ , وَضَرْبِهِمْ بِالدُّفُوفِ , وَاتِّخَاذِهِمْ الْقَيْنَاتِ" .
جعفر کہتے ہیں کہ ایک دن میں " فرقد " کے پاس آیا تو انہیں تنہا پایا، میں نے ان سے کہا اے ابن ام فرقد! آج میں آپ سے اس حدیث کے متعلق ضرور پوچھ کر رہوں گا یہ بتائیے کہ خسف اور قذف سے متعلق بات آپ اپنی رائے کہتے ہیں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے نقل کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں تو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے نقل کرتا ہوں میں نے ان سے پوچھا کہ پھر یہ حدیث آپ سے کس نے بیان کی ہے؟ انہوں نے کہا عاصم بن عمرو بجلی نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے۔
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے مرسلاً مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کا ایک گروہ رات بھر کھانے پینے اور لہو ولعب میں مصروف رہے گا جب صبح ہوگی تو ان کی شکلیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں بدل چکی ہوں گی، پھر ان کے محلوں پر ایک ہوا بھیجی جائے گی جو انہیں اس طرح بکھیر کر رکھ دے گی جیسے پہلے لوگوں کو بکھیر کر رکھ دیا تھا کیونکہ وہ شراب کو حلال سمجھتے ہوں گے، دف (آلات موسیقی) بجاتے ہوں گے اور گانے والی عورتیں (گلو کارائیں) بنا رکھی ہوں گی۔
حكم دارالسلام: هذا الحديث له ثلاثة أسانيد، الأول ضعيف لضعف سيار فرقد، والثاني مرسل، والثالث: معضل
حدثنا الهذيل بن ميمون الكوفي الجعفي , كان يجلس في مسجد المدينة يعني: مدينة ابي جعفر , قال عبد الله: هذا شيخ قديم كوفي , عن مطرح بن يزيد , عن عبيد الله بن زحر , عن علي بن يزيد , عن القاسم , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " دخلت الجنة , فسمعت فيها خشفة بين يدي , فقلت: ما هذا؟ قال: بلال , قال: فمضيت فإذا اكثر اهل الجنة فقراء المهاجرين , وذراري المسلمين , ولم ار احدا اقل من الاغنياء والنساء , قيل لي: اما الاغنياء فهم هاهنا بالباب يحاسبون ويمحصون , واما النساء , فالهاهن الاحمران الذهب والحرير , قال: ثم خرجنا من احد ابواب الجنة الثمانية , فلما كنت عند الباب , اتيت بكفة , فوضعت فيها , ووضعت امتي في كفة , فرجحت بها , ثم اتي بابي بكر رضي الله عنه , فوضع في كفة , وجيء بجميع امتي , فوضعت في كفة , فرجح ابو بكر رضي الله عنه , ثم اتى بعمر , فوضع في كفة , وجيء بجميع امتي فوضعوا , فرجح عمر رضي الله عنه , وعرضت امتي رجلا رجلا , فجعلوا يمرون , فاستبطات عبد الرحمن بن عوف , ثم جاء بعد الإياس , فقلت: عبد الرحمن! فقال: بابي وامي يا رسول الله , والذي بعثك بالحق ما خلصت إليك حتى ظننت اني لا انظر إليك ابدا إلا بعد المشيبات , قال: وما ذاك؟ قال: من كثرة مالي احاسب وامحص" .حَدَّثَنَا الْهُذَيْلُ بْنُ مَيْمُونٍ الْكُوفِيُّ الْجُعْفِيُّ , كَانَ يَجْلِسُ فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ يَعْنِي: مَدِينَةَ أَبِي جَعْفَرٍ , قَالَ عَبْد اللَّهِ: هَذَا شَيْخٌ قَدِيمٌ كُوفِيٌّ , عَنْ مُطَّرِحِ بْنِ يَزِيدَ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ , عَنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَخَلْتُ الْجَنَّةَ , فَسَمِعْتُ فِيهَا خَشْفَةً بَيْنَ يَدَيَّ , فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالَ: بِلَالٌ , قَالَ: فَمَضَيْتُ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ , وَذَرَارِيُّ الْمُسْلِمِينَ , وَلَمْ أَرَ أَحَدًا أَقَلَّ مِنَ الْأَغْنِيَاءِ وَالنِّسَاءِ , قِيلَ لِي: أَمَّا الْأَغْنِيَاءُ فَهُمْ هَاهُنَا بِالْبَابِ يُحَاسَبُونَ وَيُمَحَّصُونَ , وَأَمَّا النِّسَاءُ , فَأَلْهَاهُنَّ الْأَحْمَرَانِ الذَّهَبُ وَالْحَرِيرُ , قَالَ: ثُمَّ خَرَجْنَا مِنْ أَحَدِ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ , فَلَمَّا كُنْتُ عِنْدَ الْبَابِ , أُتِيتُ بِكِفَّةٍ , فَوُضِعْتُ فِيهَا , وَوُضِعَتْ أُمَّتِي فِي كِفَّةٍ , فَرَجَحْتُ بِهَا , ثُمَّ أُتِيَ بِأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , فَوُضِعَ فِي كِفَّةٍ , وَجِيءَ بِجَمِيعِ أُمَّتِي , فوُضعَتْ فِي كِفَّةٍ , فَرَجَحَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , ثم أتى بِعُمَرَ , فَوُضِعَ فِي كِفَّةٍ , وَجِيءَ بِجَمِيعِ أُمَّتِي فَوُضِعُوا , فَرَجَحَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , وَعُرِضَتْ أُمَّتِي رَجُلًا رَجُلًا , فَجَعَلُوا يَمُرُّونَ , فَاسْتَبْطَأْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ , ثُمَّ جَاءَ بَعْدَ الْإِيَاسِ , فَقُلْتُ: عَبْدُ الرُّحْمَنِ! فَقَالَ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا خَلَصْتُ إِلَيْكَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنِّي لَا أَنْظُرُ إِلَيْكَ أَبَدًا إِلَّا بَعْدَ الْمُشِيبَاتِ , قَالَ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: مِنْ كَثْرَةِ مَالِي أُحَاسَبُ وَأُمَحَّصُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں جنت میں داخل ہوا تو اپنے سے آگے کسی کے جوتوں کی آہٹ سنائی دی، میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ بلال ہیں، میں آگے چل پڑا تو دیکھا کہ جنت میں اکثریت مہاجر فقراء اور مسلمانوں کے بچوں کی ہے اور میں نے وہاں مالداروں اور عورتوں سے زیادہ کم تعداد کسی طبقے کی نہیں دیکھی اور بتایا گیا کہ مالدار تو یہاں جنت کے دروازے پر کھڑے ہیں جہاں ان سے حساب کتاب اور جانچ پڑتال کی جا رہی ہے اور خواتین کو سونے اور ریشم نے ہی غفلت میں ڈالے رکھا۔
پھر ہم جنت کے آٹھ میں سے کسی دروازے سے نکل کر باہر آگئے ابھی میں دروازے پر ہی تھا کہ ایک ترازو لایا گیا جس کے ایک پلڑے میں مجھے رکھا گیا اور دوسرے میں میری ساری امت کو تو میرا پلڑا جھک گیا پھر ابوبکر کو لا کر ایک پلڑے میں رکھا گیا اور ساری امت کو دوسرے پلڑے میں ابوبکر کا پلڑا جھک گیا پھر عمر کو لا کر ایک پلڑے میں رکھا گیا اور ساری امت کو دوسرے پلڑے میں تو عمر کا پلڑا جھک گیا پھر میری امت کے ایک ایک آدمی کو میرے سامنے پیش کیا گیا اور وہ میرے آگے سے گذرتے رہے لیکن میں نے دیکھا کہ عبدالرحمن بن عوف نے آنے میں بہت تاخیر کردی ہے کافی دیر بعد جب امید ٹوٹنے لگی تو وہ آئے میں نے ان سے پوچھا عبدالرحمن! کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میری تو جان خلاصی اس وقت ہوئی ہے جب کہ میں یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اب کبھی آپ کی زیارت نہیں کرسکوں گا، الاّ یہ کہ ٹھنڈے دن آجائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کس وجہ سے؟ عرض کیا مال و دولت کی کثرت کی وجہ سے میرا حساب کتاب اور جانچ پڑتال کی جا رہی تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، على بن يزيد واهي الحديث، وعبيد الله وأبو المهلب ضعيفان
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا محبت (اللہ کی طرف سے اور ناموری) آسمان سے آتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو (حضرت جبرائیل علیہ السلام سے) فرماتا ہے کہ میں فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، پھر یہ محبت زمین والوں کے دل میں ڈال دی جاتی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك
حدثنا يحيى بن إسحاق السيلحيني , حدثنا ابن لهيعة , عن سليمان بن عبد الرحمن , عن القاسم , عن ابي امامة , قال: إني لتحت راحلة رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفتح , فقال قولا حسنا جميلا , وكان فيما قال: " من اسلم من اهل الكتابين فله اجره مرتين , وله ما لنا وعليه ما علينا , ومن اسلم من المشركين فله اجره , وله ما لنا وعليه ما علينا" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ السِّيلَحِينِيُّ , حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: إِنِّي لَتَحْتَ رَاحِلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ , فَقَالَ قَوْلًا حَسَنًا جَمِيلًا , وَكَانَ فِيمَا قَالَ: " مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابَيْنِ فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ , وَلَهُ مَا لَنَا وَعَلَيْهِ مَا عَلَيْنَا , وَمَنْ أَسْلَمَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَلَهُ أَجْرُهُ , وَلَهُ مَا لَنَا وَعَلَيْهِ مَا عَلَيْنَا" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے نیچے تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر بڑی عمدہ باتیں فرمائیں، انہی میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ اہل کتاب کا جو آدمی مسلمان ہوجائے گا اسے دوگنا اجر ملے گا اور حقوق و فرائض میں وہ ہماری طرح ہوجائے گا اور مشرکین میں سے جو آدمی مسلمان ہوجائے گا، اسے اس کا اجر ملے گا اور وہ بھی حقوق و فرائض میں ہماری طرح ہوجائے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالله بن الهيعة، لكنه توبع
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مؤمن کی نجات کس طرح ہوگی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عقبہ! اپنی زبان کی حفاظت کرو اپنے گھر کو اپنے لئے کافی سمجھو اور اپنے گناہوں پر آہ بکاء کرو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عبيدالله بن زحر وعلي بن يزيد ضعيفان
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مریض کی مکمل بیمار پرسی یہ ہے کہ تم اس کی پیشانی یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر پوچھو کہ وہ کیسا ہے؟ اور تمہاری باہمی ملاقات کے آداب کا مکمل ہونا " مصافحہ " سے ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا ، عبيدالله بن زحر وعلي بن يزيد ضعيفان
حدثنا روح , حدثنا عمر بن ذر , حدثنا ابو الرصافة رجل من اهل الشام من باهلة اعرابي , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من امرئ مسلم تحضره صلاة مكتوبة , فيقوم , فيتوضا , فيحسن الوضوء ويصلي , فيحسن الصلاة , إلا غفر الله له بها ما كان بينها وبين الصلاة التي كانت قبلها من ذنوبه , ثم يحضر صلاة مكتوبة , فيصلي , فيحسن الصلاة , إلا غفر له ما بينها وبين الصلاة التي كانت قبلها من ذنوبه , ثم يحضر صلاة مكتوبة , فيصلي , فيحسن الصلاة , إلا غفر له ما بينها وبين الصلاة التي كانت قبلها من ذنوبه" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ , حَدَّثَنَا أَبُو الرَّصَافَةِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ مِنْ بَاهِلَةَ أَعْرَابِيٌّ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ تَحْضُرُهُ صَلَاةٌ مَكْتُوبَةٌ , فَيَقُومُ , فَيَتَوَضَّأُ , فَيُحْسِنُ الْوُضُوءَ وَيُصَلِّي , فَيُحْسِنُ الصَّلَاةَ , إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ بِهَا مَا كَانَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الصَّلَاةِ الَّتِي كَانَتْ قَبْلَهَا مِنْ ذُنُوبِهِ , ثُمَّ يَحْضُرُ صَلَاةً مَكْتُوبَةً , فَيُصَلِّي , فَيُحْسِنُ الصَّلَاةَ , إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ الصَّلَاةِ الَّتِي كَانَتْ قَبْلَهَا مِنْ ذُنُوبِهِ , ثُمَّ يَحْضُرُ صَلَاةً مَكْتُوبَةً , فَيُصَلِّي , فَيُحْسِنُ الصَّلَاةَ , إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ الصَّلَاةِ الَّتِي كَانَتْ قَبْلَهَا مِنْ ذُنُوبِهِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس مسلمان آدمی پر فرض نماز کا وقت آئے اور وہ کھڑا ہو کر خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر خوب اچھی طرح نماز پڑھے تو اس نماز اور گزشتہ نماز کے درمیان ہونے والے اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں پھر دوسری فرض نماز کا وقت آئے اور وہ کھڑا ہو کر خوب اچھی طرح نماز پڑھے تو اس نماز اور گزشتہ نماز کے درمیان ہونے والے اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔