حدثنا عفان ، حدثنا الاسود بن شيبان ، قال: سمعت ابا نوفل بن ابي عقرب ، يقول: سال ابي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الصوم، فقال" صم يوما من كل شهر"، فقال: يا رسول الله، بابي وامي، زدني، قال: يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم:" زدني زدني! صم يومين من كل شهر"، فقال: يا رسول الله، بابي وامي زدني، فإني اجدني قويا، قال: يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني اجدني قويا، إني اجدني قويا، إني اجدني قويا!" قال: فالحم اي امسك حتى ظننت انه لن يزيدني، قال: ثم قال: " صم ثلاثة ايام من كل شهر" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَوْفَلِ بْنَ أَبِي عَقْرَبٍ ، يَقُولُ: سَأَلَ أَبِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّوْمِ، فَقَالَ" صُمْ يَوْمًا مِنْ كُلِّ شَهْرٍ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي وَأُمِّي، زِدْنِي، قَالَ: يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" زِدْنِي زِدْنِي! صُمْ يَوْمَيْنِ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي وَأُمِّي زِدْنِي، فَإِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا، قَالَ: يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا، إِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا، إِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا!" قَالَ: فَأَلْحَمَ أَيْ أَمْسَكَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ لَنْ يَزِيدَنِي، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: " صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ" .
حضرت ابوعقرب سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روزے کے متعلق دریافت کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر مہینے میں ایک روزہ رکھا کرو میں نے کہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیا ہوتا ہے کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے اس سے زیادہ طاقت ہے ہر مہینے میں دوروزے رکھ لیا کرو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس میں کچھ اضافہ کردیجئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیا ہوتا ہے کہ اضافہ کردیں بس ہر مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو۔
حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث ، حدثنا سليمان يعني ابن المغيرة ، عن حميد يعني ابن هلال ، قال: كان رجل من الطفاوة طريقه علينا، فاتى على الحي فحدثهم قال: قدمت المدينة في عير لنا، فبعنا بياعتنا، ثم قلت: لانطلقن إلى هذا الرجل، فلآتين من بعدي بخبره، قال: فانتهيت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو يريني بيتا، قال:" إن امراة كانت فيه فخرجت في سرية من المسلمين وتركت ثنتي عشرة عنزا لها وصيصيتها، كانت تنسج بها"، قال:" ففقدت عنزا من غنمها وصيصيتها، فقالت: يا رب، إنك قد ضمنت لمن خرج في سبيلك ان تحفظ عليه، وإني قد فقدت عنزا من غنمي وصيصيتي، وإني انشدك عنزي وصيصيتي"، قال: فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شدة مناشدتها لربها تبارك وتعالى، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فاصبحت عنزها ومثلها، وصيصيتها ومثلها، وهاتيك فاتها فاسالها إن شئت" ، قال: قلت: بل اصدقك.حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ حُمَيْدٍ يَعْنِي ابْنَ هِلَالٍ ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنَ الطُّفَاوَةِ طَرِيقُهُ عَلَيْنَا، فَأَتَى عَلَى الْحَيِّ فَحَدَّثَهُمْ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي عِيرٍ لَنَا، فَبِعْنَا بِيَاعَتَنَا، ثُمّ قُلْتُ: لَأَنْطَلِقَنَّ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ، فَلَآتِيَنَّ مَنْ بَعْدِي بِخَبَرِهِ، قَالَ: فَانْتَهَيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ يُرِينِي بَيْتًا، قَالَ:" إِنَّ امْرَأَةً كَانَتْ فِيهِ فَخَرَجَتْ فِي سَرِيَّةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَتَرَكَتْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ عَنْزًا لَهَا وَصِيصِيَتَهَا، كَانَتْ تَنْسِجُ بِهَا"، قَالَ:" فَفَقَدَتْ عَنْزًا مِنْ غَنَمِهَا وَصِيصِيَتَهَا، فَقَالَتْ: يَا رَبِّ، إِنَّكَ قَدْ ضَمِنْتَ لِمَنْ خَرَجَ فِي سَبِيلِكَ أَنْ تَحْفَظَ عَلَيْهِ، وَإِنِّي قَدْ فَقَدْتُ عَنْزًا مِنْ غَنَمِي وَصِيصِيَتِي، وَإِنِّي أَنْشُدُكَ عَنْزِي وَصِيصِيَتِي"، قَالَ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شِدَّةَ مُنَاشَدَتِهَا لِرَبِّهَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَأَصْبَحَتْ عَنْزُهَا وَمِثْلُهَا، وَصِيصِيَتُهَا وَمِثْلُهَا، وَهَاتِيكَ فَأْتِهَا فَاسْأَلْهَا إِنْ شِئْتَ" ، قَالَ: قُلْتُ: بَلْ أُصَدِّقُكَ.
حمید بن ہلال کہتے ہیں کہ طفاوہ قبیلے کا ایک آدمی ہمارے پاس سے گزرتا تھا ایک دن وہ ہمارے قبیلے میں آیا اور کہنے لگا کہ میں اپنے ایک قافلے کے ساتھ مدینہ منورہ گیا تھا وہاں ہم نے اپنا سامان تجارت بیچا پھر میں نے سوچا کہ میں اس شخص یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلتا ہوں تاکہ واپس آکر اپنے پیچھے والوں کو ان کے متعلق بتاؤں چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑا وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایک گھر دکھاتے ہوئے فرمانے لگے کہ اس گھر میں ایک عورت رہتی تھی ایک مرتبہ وہ مسلمانوں کے ایک لشکر کے ساتھ نکلی اور اپنے پیچھے بارہ بکریاں اور ایک کپڑا بننے کا کونچ جس سے وہ کپڑے بنتی تھی چھوڑ گئی۔ جب وہ واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کی ایک بکری اور وہ کونچ غائب ہے اس نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ پروردگار تو اپنی راہ میں جہاد کے لئے نکلنے والوں کا ضامن ہے کہ ان کی حفاظت کرے گا اب میری ایک بکری اور کونچ گم ہوگیا ہے میں تجھے قسم دیتی ہوں کہ میری بکری اور وہ کونچ واپس دلا دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شدت مناجات کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ اگلے دن اسے اس کی بکری اور اس جیسی ایک اور بکری مل گئی اسی طرح اس کا کونچ اور اس جیسا ایک اور کونچ بھی مل گیا۔ آؤ اگر چاہو تو اس عورت سے خود پوچھ لو میں نے عرض کیا کہ میں آپ کی تصدیق کرتا ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ليس فى النص مايصرح بسماع حميد من الرجل الطفاوي
حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا ذيال بن عبيد بن حنظلة ، قال: سمعت حنظلة بن حذيم جدي ، ان جده حنيفة، قال لحذيم اجمع لي بني، فإني اريد ان اوصي، فجمعهم، فقال: إن اول ما اوصي ان ليتيمي هذا الذي في حجري مائة من الإبل التي كنا نسميها في الجاهلية المطيبة، فقال حذيم: يا ابت، إني سمعت بنيك يقولون: إنما نقر بهذا عند ابينا، فإذا مات رجعنا فيه، قال: فبيني وبينكم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال حذيم: رضينا، فارتفع حذيم وحنيفة وحنظلة معهم غلام، وهو رديف لحذيم، فلما اتوا النبي صلى الله عليه وسلم، سلموا عليه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم" وما رفعك يا ابا حذيم؟"، قال: هذا، وضرب بيده على فخذ حذيم، فقال: إني خشيت ان يفجاني الكبر او الموت، فاردت ان اوصي، وإني قلت: إن اول ما اوصي ان ليتيمي هذا الذي في حجري مائة من الإبل كنا نسميها في الجاهلية المطيبة، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى راينا الغضب في وجهه، وكان قاعدا فجثا على ركبتيه، وقال" لا، لا، لا، الصدقة خمس، وإلا فعشر، وإلا فخمس عشرة، وإلا فعشرون، وإلا فخمس وعشرون، وإلا فثلاثون، وإلا فخمس وثلاثون، فإن كثرت فاربعون"، قال: فودعوه ومع اليتيم عصا وهو يضرب جملا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" عظمت هذه هراوة يتيم!"، قال حنظلة فدنا بي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن لي بنين ذوي لحى ودون ذلك، وإن ذا اصغرهم، فادع الله له، فمسح راسه، وقال" بارك الله فيك، او بورك فيه"، قال ذيال فلقد رايت حنظلة يؤتى بالإنسان الوارم وجهه، او البهيمة الوارمة الضرع، فيتفل على يديه ويقول بسم الله، ويضع يده على راسه، ويقول على موضع كف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيمسحه عليه، وقال ذيال: فيذهب الورم .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا ذَيَّالُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ حَنْظَلَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ حَنْظَلَةَ بَنَ حِذْيَمٍ جَدِّي ، أَنَّ جَدَّهُ حَنِيفَةَ، قَالَ لِحِذْيَمٍ اجْمَعْ لِي بَنِيَّ، فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُوصِيَ، فَجَمَعَهُمْ، فَقَالَ: إِنَّ أَوَّلَ مَا أُوصِي أَنَّ لِيَتِيمِي هَذَا الَّذِي فِي حِجْرِي مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ الَّتِي كُنَّا نُسَمِّيهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ الْمُطَيَّبَةَ، فَقَالَ حِذْيَمٌ: يَا أَبَتِ، إِنِّي سَمِعْتُ بَنِيكَ يَقُولُونَ: إِنَّمَا نُقِرُّ بِهَذَا عِنْدَ أَبِينَا، فَإِذَا مَاتَ رَجَعْنَا فِيهِ، قَالَ: فَبَيْنِي وَبَيْنَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ حِذْيَمٌ: رَضِينَا، فَارْتَفَعَ حِذْيَمٌ وَحَنِيفَةُ وحَنْظَلَةُ مَعَهُمْ غُلَامٌ، وَهُوَ رَدِيفٌ لِحِذْيَمٍ، فَلَمَّا أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَلَّمُوا عَلَيْهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" وَمَا رَفَعَكَ يَا أَبَا حِذْيَمٍ؟"، قَالَ: هَذَا، وَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِ حِذْيَمٍ، فَقَالَ: إِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَفْجَأَنِي الْكِبَرُ أَوْ الْمَوْتُ، فَأَرَدْتُ أَنْ أُوصِيَ، وَإِنِّي قُلْتُ: إِنَّ أَوَّلَ مَا أُوصِي أَنَّ لِيَتِيمِي هَذَا الَّذِي فِي حِجْرِي مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ كُنَّا نُسَمِّيهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ الْمُطَيَّبَةَ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى رَأَيْنَا الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، وَكَانَ قَاعِدًا فَجَثَا عَلَى رُكْبَتَيْهِ، وَقَالَ" لَا، لَا، لَا، الصَّدَقَةُ خَمْسٌ، وَإِلَّا فَعَشْرٌ، وَإِلَّا فَخَمْسَ عَشْرَةَ، وَإِلَّا فَعِشْرُونَ، وَإِلَّا فَخَمْسٌ وَعِشْرُونَ، وَإِلَّا فَثَلَاثُونَ، وَإِلَّا فَخَمْسٌ وَثَلَاثُونَ، فَإِنْ كَثُرَتْ فَأَرْبَعُونَ"، قَالَ: فَوَدَعُوهُ وَمَعَ الْيَتِيمِ عَصًا وَهُوَ يَضْرِبُ جَمَلًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَظُمَتْ هَذِهِ هِرَاوَةُ يَتِيمٍ!"، قَالَ حَنْظَلَةُ فَدَنَا بِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ لِي بَنِينَ ذَوِي لِحًى وَدُونَ ذَلِكَ، وَإِنَّ ذَا أَصْغَرُهُمْ، فَادْعُ اللَّهَ لَهُ، فَمَسَحَ رَأْسَهُ، وَقَالَ" بَارَكَ اللَّهُ فِيكَ، أَوْ بُورِكَ فِيهِ"، قَالَ ذَيَّالٌ فَلَقَدْ رَأَيْتُ حَنْظَلَةَ يُؤْتَى بِالْإِنْسَانِ الْوَارِمِ وَجْهُهُ، أَوْ الْبَهِيمَةِ الْوَارِمَةِ الضَّرْعُ، فَيَتْفُلُ عَلَى يَدَيْهِ وَيَقُولُ بِسْمِ اللَّهِ، وَيَضَعُ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ، وَيَقُولُ عَلَى مَوْضِعِ كَفِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَمْسَحُهُ عَلَيْهِ، وَقَالَ ذَيَّالٌ: فَيَذْهَبُ الْوَرَمُ .
حضرت حنظلہ بن حذیم کہتے ہیں کہ ان کے دادا حنیفہ نے انکے والد حذیم سے ایک مرتبہ کہا کہ میرے سارے بیٹوں کو یہاں اکٹھا کرو تاکہ میں انہیں وصیت کروں چنانچہ انہوں نے ان سب کو اکٹھا کیا تو حنیفہ نے کہا میں سب سے پہلے وصیت تو یہ کرتا ہوں کہ میرا یہ یتیم بھتیجا جو میری پرورش میں ہے اسے سو اونٹ دے دیئے جائیں جنہیں ہم زمانہ جاہلیت میں مطیہ کہتے تھے حذیم نے کہا کہ اباجان میں نے آپ کے بیٹوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ والد کے سامنے تو ہم اس کا اقرار کرلیں گے لیکن ان کے مرنے کے بعد اپنی بات سے پھرجائیں گے حنیفہ نے کہا میرے اور تمہارے درمیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں حذیم نے کہا کہ ہم راضی ہیں۔ چنانچہ حذیم اور حنیفہ اٹھے ان کے ساتھ حنظلہ بھی تھے جو نوعمر لڑکے تھے اور حذیم کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حنیفہ سے پوچھا اے ابوحذیم کیسے آنا ہوا انہوں نے کہا اس کی وجہ سے یہ کہہ کر حذیم کی ران پر ہاتھ مارا اور کہا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں اچانک مجھے موت نہ آجائے اس لئے میں نے سوچا کہ وصیت کردوں چنانچہ میں نے اپنے بچوں سے کہا کہ میری سب سے پہلی وصیت یہ ہے کہ میرا یہ یتیم بھتیجا جو میری پرورش میں ہے اسے سو اونٹ دیئے جائیں جنہیں ہم زمانہ جاہلیت میں مطیہ کہتے تھے اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوگئے اور غصہ کے آثار ہم نے چہرہ مبارک پر دیکھے آپ پہلے بیٹھے ہوئے تھے پھر گھٹنوں کے بل جھک گئے اور تین مرتبہ یہ فرمایا نہیں، نہیں، نہیں، صدقہ پانچ اونٹوں کا ہے ورنہ دس اونٹ، ورنہ پندرہ اونٹ، ورنہ بیس، ورنہ تیس، ورنہ پنتیس، ورنہ چالیس اور اگر بہت زیادہ بہت زیادہ بھی ہو تو۔ چنانچہ انہوں نے اسے چھوڑ دیا اس یتیم کے پاس ایک لاٹھی تھی اور وہ اس کے ایک اونٹ کو مار رہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا بڑی بات ہے یہ یتیم کا سونٹا ہے حنظلہ کہتے ہیں کہ پھر وہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور عرض کیا کہ میرے کچھ بیٹے جوان اور کچھ اس سے کم ہیں یہ ان میں سب سے چھوٹا ہے آپ اس کے لئے اللہ سے دعا کردیجیے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ اللہ تمہیں برکت دے۔ ذیال کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت حنظلہ بن حذیم کے پاس کوئی ورم آلود چہرے والا آدمی لایا جاتا یا ورم آلود تھنوں والا کوئی جانور تو وہ اپنے ہاتھوں پر اپنا لعاب لگاتے اور بسم اللہ کہہ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیتے اور یوں کہتے، علی موضع کف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اور اس کے اوپر پھیر دیتے تو اس کا ورم دور ہوجاتا۔
حدثنا ابو سعيد ، وعفان ، قالا: حدثنا ربيعة بن كلثوم ، حدثني ابي ، قال: سمعت ابا غادية ، يقول: بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابو سعيد: فقلت له بيمينك؟ قال: نعم، قالا: جميعا في الحديث وخطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم العقبة، فقال:" يا ايها الناس، إن دماءكم واموالكم عليكم حرام إلى يوم تلقون ربكم، كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، الا هل بلغت؟" قالوا: نعم، قال:" اللهم اشهد"، ثم قال:" الا لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض" .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا رَبِيعَةُ بْنُ كُلْثُومٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا غَادِيةَ ، يَقُولُ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَقُلْتُ لَهُ بِيَمِينِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَا: جَمِيعًا فِي الْحَدِيثِ وَخَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْعَقَبَةِ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ إِلَى يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟" قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" اللَّهُمَّ اشْهَدْ"، ثُمَّ قَالَ:" أَلَا لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ" .
حضرت ابوغادیہ جہنی سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ہے یوم عقبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا لوگو قیامت تک لوگوں کی جان ومال کو ایک دوسرے پر حرام کردیا جاتا ہے بالکل اسی طرح جیسے اس دن کی حرمت اس مہینے میں اور شہر میں ہے کیا میں نے پیغام الٰہی پہنچادیا؟ لوگوں نے تائید کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ تو گواہ رہ یاد رکھو میرے پیچھے کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔
حدثنا يونس ، وحسين ، قالا: حدثنا شيبان ، عن قتادة ، عن مضارب بن حزن العجلي قال: وجدت مرثد بن ظبيان ، قال: جاءنا كتاب من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما وجدنا له كاتبا يقرؤه علينا، حتى قراه رجل من بني ضبيعة" من رسول الله إلى بكر بن وائل، اسلموا تسلموا" .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، وَحُسَيْنٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عن مُضارِب بن حَزْن العِجلي قَالَ: وَجَدْتُ مِرْثَدَ بْنَ ظَبْيَانَ ، قَالَ: جَاءَنَا كِتَابٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا وَجَدْنَا لَهُ كَاتِبًا يَقْرَؤُهُ عَلَيْنَا، حَتَّى قَرَأَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي ضُبَيْعَةَ" مِنْ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ، أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا" .
حضرت مرثد سے مروی ہے کہ ہمارے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خط آیا تو ہمیں کوئی پڑھا لکھا آدمی نہیں مل رہا تھا جو ہمیں وہ خط پڑھ کر سناتا بالآخر بنوضبیعہ کے ایک آدمی نے وہ خط پڑھ کر سنایا جس کا مضمون یہ تھا کہ اللہ کے رسول کی طرف سے بکر بن وائل کی طرف اسلام قبول کرلو سلامتی پاجاؤگے۔
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا سعيد الجريري ، عن ابي نضرة ، قال: مرض رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخل عليه اصحابه يعودونه، فبكى، فقيل له ما يبكيك يا عبد الله؟ الم يقل لك رسول الله صلى الله عليه وسلم " خذ من شاربك، ثم اقرره حتى تلقاني"؟ قال: بلى . ولكني ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن الله تبارك وتعالى قبض قبضة بيمينه، فقال: هذه لهذه ولا ابالي، وقبض قبضة اخرى يعني بيده الاخرى، فقال: هذه لهذه ولا ابالي"، فلا ادري في اي القبضتين انا .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، قَالَ: مَرِضَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ أَصْحَابُهُ يَعُودُونَهُ، فَبَكَى، فَقِيلَ لَهُ مَا يُبْكِيكَ يَا عَبْدَ اللَّهِ؟ أَلَمْ يَقُلْ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " خُذْ مِنْ شَارِبِكَ، ثُمَّ اقْرِرْهُ حَتَّى تَلْقَانِي"؟ قَالَ: بَلَى . وَلَكِنِّي وَلَكِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَبَضَ قَبْضَةً بِيَمِينِهِ، فَقَالَ: هَذِهِ لِهَذِهِ وَلَا أُبَالِي، وَقَبِضَ قَبْضَةً أُخْرَى يَعْنِي بِيَدِهِ الْأُخْرَى، فَقَالَ: هَذِهِ لِهَذِهِ وَلَا أُبَالِي"، فَلَا أَدْرِي فِي أَيِّ الْقَبْضَتَيْنِ أَنَا .
ابونضرہ کہتے ہیں کہ ایک صحابی جن کا نام ابو عبداللہ لیا جاتا تھا کے پاس ان کے کچھ ساتھی عیادت کے لئے آئے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں انہوں نے رونے کی وجہ پوچھی اور کہنے لگے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ مونچھیں تراشو پھر مستقل ایسا کرتے رہو یہاں تک کہ مجھ سے آملو انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں لیکن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دائیں ہاتھ سے ایک مٹھی بھر کر مٹی اٹھائی اور دوسرے ہاتھ سے مٹھی بھری اور فرمایا یہ (مٹھی) ان (جنتیوں) کی ہے اور یہ (مٹھی) جہنمیوں کی ہے اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اب مجھے معلوم نہیں کہ میں کس مٹھی میں تھا۔
حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا عاصم بن هلال ، حدثنا غاضرة بن عروة الفقيمي ، حدثني ابو عروة ، قال: كنا ننتظر النبي صلى الله عليه وسلم، فخرج رجلا يقطر راسه من وضوء او غسل، فصلى، فلما قضى الصلاة، جعل الناس يسالونه يا رسول الله، اعلينا حرج في كذا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا، ايها الناس، إن دين الله في يسر" ثلاثا يقولها ، وقال يزيد مرة: جعل الناس يقولون: يا رسول الله، ما نقول في كذا؟ ما نقول في كذا؟.حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ هِلَالٍ ، حَدَّثَنَا غَاضِرَةُ بْنُ عُرْوَةَ الْفُقَيْمِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبُو عُرْوَةَ ، قَالَ: كُنَّا نَنْتَظِرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ رَجِلًا يَقْطُرُ رَأْسُهُ مِنْ وُضُوءٍ أَوْ غُسْلٍ، فَصَلَّى، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، جَعَلَ النَّاسُ يَسْأَلُونَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعَلَيْنَا حَرَجٌ فِي كَذَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا، أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ دِينَ اللَّهِ فِي يُسْرٍ" ثَلَاثًا يَقُولُهَا ، وَقَالَ يَزِيدُ مَرَّةً: جَعَلَ النَّاسُ يَقُولُونَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقُولُ فِي كَذَا؟ مَا نَقُولُ فِي كَذَا؟.
حضرت عروہ فقیمی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے وضو یا غسل کی وجہ سے سر مبارک سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگ پوچھنے لگے کہ یارسول اللہ کیا اس معاملے میں ہم پر کوئی تنگی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو اللہ کے دین میں آسانی ہی آسانی ہے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عاصم بن هلال ضعيف يعتبر به، وغاضرة بن عروة مجهول
حدثنا حدثنا روح ، حدثنا عبد الله بن عبيد الديلي ، عن عديسة ابنة اهبان بن صيفي انها كانت مع ابيها في منزله، فمرض، فافاق من مرضه ذلك، فقام علي بن ابي طالب بالبصرة، فاتاه في منزله حتى قام على باب حجرته، فسلم، ورد عليه الشيخ السلام، فقال له علي: كيف انت يا ابا مسلم؟ قال: بخير، فقال علي: الا تخرج معي إلى هؤلاء القوم، فتعينني؟ قال: بلى، إن رضيت بما اعطيك، قال علي:" إذا كانت فتنة بين المسلمين ان اتخذ سيفا من خشب"، فهذا سيفي، فإن شئت خرجت به معك، فقال علي رضي الله عنه: لا حاجة لنا فيك، ولا في سيفك، فرجع من باب الحجرة، ولم يدخل .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدٍ الدِّيلِيُّ ، عَنْ عُدَيْسَةَ ابْنَةِ أُهْبَانَ بْنِ صَيْفِيٍّ أَنَّهَا كَانَتْ مَعَ أَبِيهَا فِي مَنْزِلِهِ، فَمَرِضَ، فَأَفَاقَ مِنْ مَرَضِهِ ذَلِكَ، فَقَامَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ بِالْبَصْرَةِ، فَأَتَاهُ فِي مَنْزِلِهِ حَتَّى قَامَ عَلَى بَابِ حُجْرَتِهِ، فَسَلَّمَ، وَرَدَّ عَلَيْهِ الشَّيْخُ السَّلَامَ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: كَيْفَ أَنْتَ يَا أَبَا مُسْلِمٍ؟ قَالَ: بِخَيْرٍ، فَقَالَ عَلِيٌّ: أَلَا تَخْرُجُ مَعِي إِلَى هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ، فَتُعِينَنِي؟ قَالَ: بَلَى، إِنْ رَضِيتَ بِمَا أُعْطِيكَ، قَالَ عَلِيٌّ:" إِذَا كَانَتْ فِتْنَةٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ أَنْ اتَّخِذْ سَيْفًا مِنْ خَشَبٍ"، فَهَذَا سَيْفِي، فَإِنْ شِئْتَ خَرَجْتُ بِهِ مَعَكَ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَا حَاجَةَ لَنَا فِيكَ، وَلَا فِي سَيْفِكَ، فَرَجَعَ مِنْ بَابِ الْحُجْرَةِ، وَلَمْ يَدْخُلْ .
عدیسہ بنت وھبان کہتی ہیں کہ وہ اپنے والد کے ساتھ ان کے گھر میں تھے کہ وہ بیمار ہوگئے جب انہیں اپنے مرض سے افاقہ ہوا تو کچھ ہی عرصے بعد حضرت علی بصرہ میں تشریف لائے اور ان کے گھر بھی آئے اور گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر سلام کیا والد صاحب نے انہیں جواب دیا حضرت علی نے ان سے پوچھا ابومسلم! آپ کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ خیریت سے ہوں حضرت علی نے فرمایا آپ میرے ساتھ ان لوگوں کی طرف نکل کر میری مدد نہیں کرتے انہوں نے کہا کیوں نہیں بشرطیکہ آپ اس چیز پر راضی ہوجائیں جو میں آپ کو دوں گا حضرت علی نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انہوں نے اپنی بیٹی سے کہا لڑکی میری تلوار لاؤ میں نے نیام سمیت ان کی تلوار نکالی اور ان کی گود میں رکھ دی انہوں اس کا کچھ حصہ سے نیام سے باہر نکلا پھر سر اٹھا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے خلیل اور آپ کے چچازاد بھائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ جب مسلمانوں میں فتنے رونماہونے لگے تو میں لکڑی کی تلواربنا لوں یہ میری تلوار حاضر ہے اگر آپ چاہیں تو میں یہ لے کر آپ کے ساتھ نکلنے کو تیارہوں حضرت علی نے فرمایا فی الحال ہمیں آپ کی یا آپ کی تلوار کی فوری ضرورت نہیں ہے پھر وہ کمرے کے دروازے سے باہر تشریف لے گئے اور دوبارہ اس حوالے سے نہیں آئے۔
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ابي عمرو القسملي ، عن ابنة اهبان ، ان علي بن ابي طالب اتى اهبان ، فقال: ما يمنعك من اتباعي؟ فقال: اوصاني خليلي وابن عمك يعني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ستكون فتن وفرقة، فإذا كان ذلك، فاكسر سيفك، واتخذ سيفا من خشب"، فقد وقعت الفتنة والفرقة، وكسرت سيفي، واتخذت سيفا من خشب، وامر اهله حين ثقل ان يكفنوه، ولا يلبسوه قميصا، قال: فالبسناه قميصا فاصبحنا والقميص على المشجب .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الْقَسْمَلِيِّ ، عَنْ ابْنَةِ أُهْبَانَ ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَتَى أُهْبَانَ ، فَقَالَ: مَا يَمْنَعُكَ مِنِ اتِّبَاعِي؟ فَقَالَ: أَوْصَانِي خَلِيلِي وَابْنُ عَمِّكِ يَعْنِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " سَتَكُونُ فِتَنٌ وَفُرْقَةٌ، فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ، فَاكْسِرْ سَيْفَكَ، وَاتَّخِذْ سَيْفًا مِنْ خَشَبٍ"، فَقَدْ وَقَعَتْ الْفِتْنَةُ وَالْفُرْقَةُ، وَكَسَرْتُ سَيْفِي، وَاتَّخَذْتُ سَيْفًا مِنْ خَشَبٍ، وَأَمَرَ أَهْلَهُ حِينَ ثَقُلَ أَنْ يُكَفِّنُوهُ، وَلَا يُلْبِسُوهُ قَمِيصًا، قَالَ: فَأَلْبَسْنَاهُ قَمِيصًا فَأَصْبَحْنَا وَالْقَمِيصُ عَلَى الْمِشْجَبِ .
عدیسہ بنت وھبان کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی ان کے والد کے پاس آئے اور فرمایا آپ میرے ساتھ ان لوگوں کی طرف نکل کر میری مدد کیوں نہیں کرتے انہوں نے کہا کہ میرے خلیل اور آپ کے چچازاد بھائی نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ جب مسلمانوں میں فتنے رونما ہونے لگے تو میں اپنی تلوار توڑ کر لکڑی کی تلوار بنا لوں اس وقت فتنے رونما ہورہے ہیں اس لئے میں نے اپنی تلوار توڑ کر لکڑی کی بنالی ہے پھر مرض الوفات میں انہوں نے اپنے اہل خانہ کو وصیت کی کہ انہیں کفن تو دیں لیکن قمیص نہ پہنائیں راوی کہتے ہیں کہ ہم انہیں قمیص پہنا دیں صبح ہوئی تو وہ کپڑے ٹانگنے والی لکڑی پر پڑی ہوئی تھی۔
حدثنا عفان ، حدثنا جرير بن حازم ، قال: سمعت الحسن ، حدثنا عمرو بن تغلب ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتاه شيء، فاعطاه ناسا، وترك ناسا وقال جرير: اعطى رجالا، وترك رجالا قال: فبلغه عن الذين ترك انهم عتبوا، وقالوا: قال: فصعد المنبر، فحمد الله، واثنى عليه، ثم قال:" إني اعطي ناسا، وادع ناسا، واعطي رجالا، وادع رجالا قال عفان: قال: ذي وذي والذي ادع احب إلي من الذي اعطي، اعطي اناسا لما في قلوبهم من الجزع والهلع، واكل قوما إلى ما جعل الله في قلوبهم من الغنى والخير، منهم عمرو بن تغلب"، قال: وكنت جالسا تلقاء وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ما احب ان لي بكلمة رسول الله صلى الله عليه وسلم حمر النعم .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ شَيْءٌ، فَأَعْطَاهُ نَاسًا، وَتَرَكَ نَاسًا وَقَالَ جَرِيرٌ: أَعْطَى رِجَالًا، وَتَرَكَ رِجَالًا قَالَ: فَبَلَغَهُ عَنِ الَّذِينَ تَرَكَ أَنَّهُمْ عَتِبُوا، وَقَالُوا: قَالَ: فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنِّي أُعْطِي نَاسًا، وَأَدَعُ نَاسًا، وَأُعْطِي رِجَالًا، وَأَدَعُ رِجَالًا قَالَ عَفَّانُ: قَالَ: ذِي وَذِي وَالَّذِي أَدَعُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الَّذي أُعْطِي، أُعْطِي أُنَاسًا لِمَا فِي قُلُوبِهِمْ مِنَ الْجَزَعِ وَالْهَلَعِ، وَأَكِلُ قَوْمًا إِلَى مَا جَعَلَ اللَّهُ فِي قُلُوبِهِمْ مِنَ الْغِنَى وَالْخَيْرِ، مِنْهُمْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ"، قَالَ: وَكُنْتُ جَالِسًا تِلْقَاءَ وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِكَلِمَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُمْرَ النَّعَمِ .
حضرت عمرو بن تغلب سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی چیز آئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دے دیا اور کچھ لوگوں کو چھوڑ دیا بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیا ہے وہ کچھ خفا ہیں اور باتیں کررہے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور اللہ کی حمد وثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ میں کچھ لوگوں کو دے دیتا ہوں اور کچھ لوگوں کو چھوڑ دیتا ہوں حالانکہ جسے چھوڑ دیتا ہوں وہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے جسے دیتا ہوں میں کچھ لوگوں کو صرف اس لئے دیتا ہوں کہ ان کے دل بےصبری سے اور بخل سے لبریز ہوتے ہیں اور کچھ لوگوں کو اس غنا اور خیر کے حوالے کردیتا ہوں جو اللہ نے ان کے دلوں میں پیدا کی ہوتی ہے ان ہی میں سے عمرو بن تغلب بھی ہے میں اس وقت بالکل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے پسند نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلمے کے عوض مجھے سرخ اونٹ بھی ملیں۔