حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ کون سا انسان سب سے بہتر ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور عمل اچھا ہو سائل نے پوچھا کہ سب سے بدترین انسان کون ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور اس کا عمل برا ہو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، حدثنا علي بن زيد ، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة ، قال: وفدت مع ابي إلى معاوية بن ابي سفيان، فادخلنا عليه، فقال: يا ابا بكرة ، حدثني بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه الرؤيا الصالحة، ويسال عنها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم" ايكم راى رؤيا؟" فقال: رجل انا يا رسول الله، رايت كان ميزانا دلي من السماء، فوزنت انت بابي بكر، فرجحت بابي بكر، ثم وزن ابو بكر بعمر، فرجح ابو بكر بعمر، ثم وزن عمر بعثمان، فرجح عمر بعثمان، ثم رفع الميزان، فاستاء لها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" خلافة نبوة، ثم يؤتي الله الملك من يشاء" ، قال عفان فيه فاستآلها، وقال حماد: فساءه ذلك.حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، قَالَ: وَفَدْتُ مَعَ أَبِي إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَأُدْخِلْنَا عَلَيْهِ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرَةَ ، حَدِّثْنِي بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ، وَيَسْأَلُ عَنْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ" أَيُّكُمْ رَأَى رُؤْيَا؟" فَقَالَ: رَجُلٌ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْتُ كَأَنَّ مِيزَانًا دُلِّيَ مِنَ السَّمَاءِ، فَوُزِنْتَ أَنْتَ بِأَبِي بَكْرٍ، فَرَجَحْتَ بِأَبِي بَكْرٍ، ثُمَّ وُزِنَ أَبُو بَكْرٍ بِعُمَرَ، فَرَجَحَ أَبُو بَكْرٍ بِعُمَرَ، ثُمَّ وُزِنَ عُمَرُ بِعُثْمَانَ، فَرَجَحَ عُمَرُ بِعُثْمَانَ، ثُمَّ رُفِعَ الْمِيزَانُ، فَاسْتَاءَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" خِلَافَةُ نُبُوَّةٍ، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ" ، قَالَ عَفَّانُ فِيهِ فَاسْتَآلَهَا، وَقَالَ حَمَّادٌ: فَسَاءَهُ ذَلِكَ.
عبدالرحمن بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد کے ساتھ حضرت امیر معاویہ کی خدمت میں حاضر ہوا ہم ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے فرمایا اے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے خود سنی ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نیک خواب بہت اچھے لگتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق پوچھتے رہتے تھے چنانچہ حسب معمول ایک دن پوچھا کہ تم میں سے کوئی کسی نے خواب دیکھا ہے ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ میں نے دیکھا ہے میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک ترازو لٹکایا گیا جس میں آپ کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے وزن کیا گیا تو آپ کا پلڑا جھک گیا پھر ابوبکر کا عمر سے وزن کیا گیا تو ابوبکر کا پلڑا جھک گیا پھر عمر کا عثمان سے کیا گیا تو عمر کا پلڑا جھک گیا پھر وہ ترازو اٹھا لیا گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت پر یہ خواب بوجھ بنا اور فرمایا اس سے خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا حکومت دے دے گا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حدثنا روح ، حدثنا عثمان الشحام ، حدثنا مسلم بن ابي بكرة ، وساله هل سمعت في الخوارج من شيء؟ فقال: سمعت والدي ابا بكرة ، يقول: عن نبي الله صلى الله عليه وسلم" الا إنه سيخرج من امتي اقوام اشداء احداء، ذليقة السنتهم بالقرآن، لا يجاوز تراقيهم، الا فإذا رايتموهم فانيموهم، ثم إذا رايتموهم فانيموهم، فالماجور قاتلهم" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الشَّحَّامُ ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ أَبِي بَكْرَةَ ، وَسَأَلَهُ هَلْ سَمِعْتَ فِي الْخَوَارِجِ مِنْ شَيْءٍ؟ فَقَالَ: سَمِعْتُ وَالِدِي أَبَا بَكْرَةَ ، يَقُولُ: عَنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَلَا إِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ أَشِدَّاءُ أَحِدَّاءُ، ذَلِيقَةٌ أَلْسِنَتُهُمْ بِالْقُرْآنِ، لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، أَلَا فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمْ فَأَنِيمُوهُمْ، ثُمَّ إِذَا رَأَيْتُمُوهُمْ فَأَنِيمُوهُمْ، فَالْمَأْجُورُ قَاتِلُهُمْ" .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے بعد میری امت میں ایک ایسی قوم بھی آئے گی جو بہت تیز اور سخت ہوگی قرآن تو پڑھے گی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا جب جب تمہارا ان سے سامنا ہو تب تب تم انہیں قتل کرنا کہ ان کے قاتل کو اجروثواب دیا جائے گا۔
حدثنا روح ، حدثنا عثمان الشحام ، حدثني مسلم بن ابي بكرة ، انه مر بوالده وهو يدعو ويقول: " اللهم إني اعوذ بك من الكفر والفقر، وعذاب القبر"، قال: فاخذتهن عنه، وكنت ادعو بهن في دبر كل صلاة، قال: فمر بي وانا ادعو بهن، فقال: يا بني، انى عقلت هؤلاء الكلمات؟ قال: يا ابتاه، سمعتك تدعو بهن في دبر كل صلاة، فاخذتهن عنك، قال: فالزمهن يا بني، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو بهن في دبر كل صلاة .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الشَّحَّامُ ، حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ أَبِي بَكْرَةَ ، أَنَّهُ مَرَّ بِوَالِدِهِ وَهُوَ يَدْعُو وَيَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكُفْرِ وَالْفَقْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ"، قَالَ: فَأَخَذْتُهُنَّ عَنْهُ، وَكُنْتُ أَدْعُو بِهِنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ، قَالَ: فَمَرَّ بِي وَأَنَا أَدْعُو بِهِنَّ، فَقَالَ: يَا بُنَيَّ، أَنَّى عَقَلْتَ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ؟ قَالَ: يَا أَبَتَاهُ، سَمِعْتُكَ تَدْعُو بِهِنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ، فَأَخَذْتُهُنَّ عَنْكَ، قَالَ: فَالْزَمْهُنَّ يَا بُنَيَّ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو بِهِنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ .
مسلم بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ اپنے والد کے پاس سے گذرے جو یہ دعا کررہے تھے کہ اے اللہ میں فقر کفر اور عذاب سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں میں نے یہ دعا یاد کرلی اور ہر نماز کے بعد اسے مانگنے لگا ایک دن والد صاحب میرے پاس سے گذرے تو میں یہی دعا مانگ رہا تھا انہوں نے مجھ سے پوچھا بیٹا تم نے یہ کلمات کہاں سے سیکھے ہیں میں نے کہا اے اباجان میں نے آپ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگتے ہوئے سنا تھا لہذا میں نے بھی اسے یاد کرلیا تھا انہوں نے فرمایا بیٹا ان کلمات کو لازم پکڑلو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگتے تھے۔
حدثنا هاشم ، حدثنا المبارك ، حدثنا الحسن ، حدثنا ابو بكرة ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس، وكان الحسن بن علي رضي الله عنهما يثب على ظهره إذا سجد، ففعل ذلك غير مرة، فقالوا له: والله إنك لتفعل بهذا شيئا ما رايناك تفعله باحد، قال المبارك: فذكر شيئا، ثم قال:" إن ابني هذا سيد، وسيصلح الله به بين فئتين من المسلمين"، فقال الحسن فوالله والله، بعد ان ولي لم يهرق في خلافته ملء محجمة من دم .حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَثِبُ عَلَى ظَهْرِهِ إِذَا سَجَدَ، فَفَعَلَ ذَلِكَ غَيْرَ مَرَّةٍ، فَقَالُوا لَهُ: وَاللَّهِ إِنَّكَ لَتَفْعَلُ بِهَذَا شَيْئًا مَا رَأَيْنَاكَ تَفْعَلُهُ بِأَحَدٍ، قَالَ الْمُبَارَكُ: فَذَكَرَ شَيْئًا، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَسَيُصْلِحُ اللَّهُ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ"، فَقَالَ الْحَسَنُ فَوَاللَّهِ وَاللَّهِ، بَعْدَ أَنْ وَلِيَ لَمْ يُهْرَقْ فِي خِلَافَتِهِ مِلْءُ مِحْجَمَةٍ مِنْ دَمٍ .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ایک مرتبہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے جب سجدے میں جاتے تو امام حسن کود کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر سوار ہوجاتے انہوں نے کئی مرتبہ ایسا کیا اس پر کچھ لوگ کہنے لگے آپ اس بچے کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں وہ ہم نے آپ کو کسی دوسرے کے ساتھ ایسا نہیں کرتے ہوئے دیکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا حسن کہتے ہیں کہ واللہ ان کے خلیفہ بننے کے بعد ایک سینگی میں آنے والی مقدار کا خون بھی نہیں بہایا گیا۔
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد گمراہ یا کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 67، م: 1679، وفي الإسناد الأول الحسن البصري وهو مدلس، وقد عنعنه، وفي الإسناد الثاني سماع محمد بن سيرين من أبى بكرة لم يثبت
ایک مرتبہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو کسی معاملے میں گواہی کے لئے بلایا گیا وہ تشریف لائے تو ایک آدمی اپنی جگہ سے کھڑا ہوا حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی اپنی جگہ سے کھڑا ہو اور دوسرا اس کی جگہ پر بیٹھ جائے اور اس بات سے بھی کہ انسان ایسے کپڑے سے ہاتھ پونچھے جس کا وہ مالک نہ ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى عبدالله مولى آل أبى موسى
حدثنا ابو النضر هاشم بن القاسم ، حدثنا الحشرج بن نباتة القيسي الكوفي ، حدثني سعيد بن جمهان ، حدثنا عبد الله بن ابي بكرة، حدثني ابي في هذا المسجد يعني مسجد البصرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لتنزلن طائفة من امتي ارضا يقال لها البصيرة، يكثر بها عددهم، ويكثر بها نخلهم، ثم يجيء بنو قنطوراء، عراض الوجوه صغار العيون، حتى ينزلون على جسر لهم يقال له: دجلة، فيتفرق المسلمون ثلاث فرق فاما فرقة، فياخذون باذناب الإبل وتلحق بالبادية، وهلكت، واما فرقة فتاخذ على انفسها، فكفرت، فهذه وتلك سواء، واما فرقة فيجعلون عيالهم خلف ظهورهم ويقاتلون، فقتلاهم شهداء، ويفتح الله على بقيتها" ..حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا الْحَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ الْقَيْسِيُّ الْكُوفِيُّ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرَةَ، حَدَّثَنِي أَبِي فِي هَذَا الْمَسْجِدِ يَعْنِي مَسْجِدَ الْبَصْرَةِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَتَنْزِلَنَّ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي أَرْضًا يُقَالُ لَهَا الْبُصَيْرَةُ، يَكْثُرُ بِهَا عَدَدُهُمْ، وَيَكْثُرُ بِهَا نَخْلُهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ بَنُو قَنْطُورَاءَ، عِرَاضُ الْوُجُوهِ صِغَارُ الْعُيُونِ، حَتَّى يَنْزِلُونَ عَلَى جِسْرٍ لَهُمْ يُقَالُ لَهُ: دِجْلَةُ، فَيَتَفَرَّقُ الْمُسْلِمُونَ ثَلَاثَ فِرَقٍ فَأَمَّا فِرْقَةٌ، فَيَأْخُذُونَ بِأَذْنَابِ الْإِبِلِ وَتَلْحَقُ بِالْبَادِيَةِ، وَهَلَكَتْ، وَأَمَّا فِرْقَةٌ فَتَأْخُذُ عَلَى أَنْفُسِهَا، فَكَفَرَتْ، فَهَذِهِ وَتِلْكَ سَوَاءٌ، وَأَمَّا فِرْقَةٌ فَيَجْعَلُونَ عِيَالَهُمْ خَلْفَ ظُهُورِهِمْ وَيُقَاتِلُونَ، فَقَتْلَاهُمْ شُهَدَاءُ، وَيَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى بَقِيَّتِهَا" ..
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا میری امت میں سے ایک گروہ ایک علاقے میں اترے گا جس کا نام بصرہ ہے اس کے ایک جانب دجلہ نہر بہتی ہے کثیر باغات والا علاقہ ہے وہاں بنوقنطوراء (ترک) آ کر اتریں گے تو لوگ تین گروہ میں تقسیم ہوجائیں گے ایک گروہ تو اپنی اصل سے جا ملے گا یہ ہلاک ہوگا ایک گروہ اپنے اوپر زیادتی کرکے کفر کرے گا اور ایک گروہ اپنے بچوں کو پس پشت رکھ قتال کرے گا ان کے مقتولین شہید ہوں گے اور ان ہی کے بقیہ لوگوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی فتح ہوگی۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: ضعيف، و متنه منكر، لا يحتمل تفرد سعيد بن جمهان بمثل هذا المتن، وقد اضطرب فى تعيين تابعيه