حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص دنیا میں اللہ کے مقرر کردہ بادشاہ کی عزت کرتا ہے اللہ قیامت کے دن اس کی تکریم فرمائے گا اور جو دنیا میں اللہ کے مقرر کردہ بادشاہوں کی توہین کرتا ہے اللہ قیامت کے دن اسے رسوا کرے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، سعد بن أوس فيه ضعف، وزياد مجهول
حدثنا عبد الصمد ، وعفان ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا عطاء بن السائب ، عن بلال بن بقطر ، عن ابي بكرة ، قال اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بدنانير، فجعل يقبض قبضة قبضة، ثم ينظر عن يمينه كانه يؤامر احدا من يعطي؟ قال عفان في حديثه: يؤامر احدا، ثم يعطي ورجل اسود مطموم، عليه ثوبان ابيضان، بين عينيه اثر السجود، فقال: ما عدلت في القسمة، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: " من يعدل عليكم بعدي؟!" قالوا: يا رسول الله، الا نقتله؟ فقال:" لا"، ثم قال لاصحابه:" هذا واصحابه يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية، لا يتعلقون من الإسلام بشيء" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ بِلَالِ بْنِ بُقْطُرَ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، قَالَ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدَنَانِيرَ، فَجَعَلَ يَقْبِضُ قَبْضَةً قَبْضَةً، ثُمَّ يَنْظُرُ عَنْ يَمِينِهِ كَأَنَّهُ يُؤَامِرُ أَحَدًا مَنْ يُعْطِي؟ قَالَ عَفَّانُ فِي حَدِيثِهِ: يُؤَامِرُ أَحَدًَا، ثُمَّ يُعْطِي وَرَجُلٌ أَسْوَدُ مَطْمُومٌ، عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَبْيَضَانِ، بَيْنَ عَيْنَيْهِ أَثَرُ السُّجُودِ، فَقَالَ: مَا عَدَلْتَ فِي الْقِسْمَةِ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: " مَنْ يَعْدِلُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي؟!" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَقْتُلُهُ؟ فَقَالَ:" لَا"، ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِهِ:" هَذَا وَأَصْحَابُهُ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لَا يَتَعَلَّقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ بِشَيْءٍ" .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے کچھ دینار آئے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ تقسیم فرما رہے تھے وہاں ایک سیاہ فام آدمی بھی تھا جس کے بال کٹے ہوئے تھے اس نے دو سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) سجدے کے نشان تھے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور کہنے لگا کہ بخدا اے محمد آج آپ جب سے تقسیم کر رہے ہیں آپ نے انصاف نہیں کیا اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید غصہ آگیا اور فرمایا کہ واللہ میرے بعد تم مجھ سے زیادہ عادل کسی کو نہ پاؤگے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم اسے قتل نہ کردیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر فرمایا یہ اور اس کے ساتھی دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة بلال بن بقطر، وفي حفظ عطاء كلام خفيف
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا بشار الخياط ، قال: سمعت عبد العزيز بن ابي بكرة يحدث، ان ابا بكرة جاء، والنبي صلى الله عليه وسلم راكع، فسمع النبي صلى الله عليه وسلم صوت نعل ابي بكرة وهو يحضر يريد ان يدرك الركعة، فلما انصرف النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من الساعي؟" قال ابو بكرة: انا، قال: " زادك الله حرصا ولا تعد" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا بَشَّارٌ الْخَيَّاطُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الْعَزِيزِ بْنَ أَبِي بَكْرَةَ يُحَدِّثُ، أَنَّ أَبَا بَكْرَةَ جَاءَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَاكِعٌ، فَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَ نَعْلِ أَبِي بَكْرَةَ وَهُوَ يَحْضُرُ يُرِيدُ أَنْ يُدْرِكَ الرَّكْعَةَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ السَّاعِي؟" قَالَ أَبُو بَكْرَةَ: أَنَا، قَالَ: " زَادَكَ اللَّهُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ" .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی جوتی کی آواز سنی وہ دوڑ کر رکوع کو حاصل کرنا چاہ رہے تھے نماز سے فارغ ہو کرنی نے پوچھا کون دوڑرہا تھا؟ انہوں نے اپنے آپ کو پیش کردیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اللہ تمہاری دینی حرص میں اضافہ کرے آئندہ ایسا نہ کرنا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، بشار الخياط فيه ضعف، وظاهر الاسناد مرسل
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا زكريا بن سليم المنقري ، قال: سمعت رجلا يحدث، عمرو بن عثمان وانا شاهد، انه سمع عبد الرحمن بن ابي بكرة يحدث، ان ابا بكرة حدثهم، انه شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم على بغلته واقفا، إذ جاءوا بامراة حبلى، فقالت: إنها زنت او بغت فارجمها، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" استتري بستر الله"، فرجعت، ثم جاءت الثانية والنبي صلى الله عليه وسلم على بغلته، فقالت: ارجمها يا نبي الله، فقال:" استتري بستر الله"، فرجعت، ثم جاءت الثالثة وهو واقف، حتى اخذت بلجام بغلته، فقالت: انشدك الله إلا رجمتها، فقال:" اذهبي حتى تلدي"، فانطلقت فولدت غلاما، ثم جاءت فكلمت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال لها:" اذهبي فتطهري من الدم" فانطلقت ثم اتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: إنها قد تطهرت، فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم نسوة فامرهن ان يستبرئن المراة، فجئن وشهدن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم بطهرها، فامر لها بحفيرة إلى ثندوتها، ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمون، فاخذ النبي صلى الله عليه وسلم حصاة مثل الحمصة فرماها، ثم مال رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال للمسلمين:" ارموها، وإياكم ووجهها"، فلما طفئت امر بإخراجها، فصلى عليها، ثم قال: " لو قسم اجرها بين اهل الحجاز وسعهم" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ سُلَيْمٍ الْمِنْقَرِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا يُحَدِّثُ، عَمْرَو بْنَ عُثْمَانَ وَأَنَا شَاهِدٌ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرَةَ يُحَدِّثُ، أَنَّ أَبَا بَكْرَةَ حَدَّثَهُمْ، أَنَّهُ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ وَاقِفًا، إِذْ جَاءُوا بِامْرَأَةٍ حُبْلَى، فَقَالَتْ: إِنَّهَا زَنَتْ أَوْ بَغَتْ فَارْجُمْهَا، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْتَتِرِي بِسِتْرِ اللَّهِ"، فَرَجَعَتْ، ثُمَّ جَاءَتِ الثَّانِيَةَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ، فَقَالَتْ: ارْجُمْهَا يَا نَبِيَّ اللَّهِ، فَقَالَ:" اسْتَتِرِي بِسِتْرِ اللَّهِ"، فَرَجَعَتْ، ثُمَّ جَاءَتِ الثَّالِثَةَ وَهُوَ وَاقِفٌ، حَتَّى أَخَذَتْ بِلِجَامِ بَغْلَتِهِ، فَقَالَتْ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ إِلَّا رَجَمْتَهَا، فَقَالَ:" اذْهَبِي حَتَّى تَلِدِي"، فَانْطَلَقَتْ فَوَلَدَتْ غُلَامًا، ثُمَّ جَاءَتْ فَكَلَّمَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ لَهَا:" اذْهَبِي فَتَطَهَّرِي مِنَ الدَّمِ" فَانْطَلَقَتْ ثُمَّ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّهَا قَدْ تَطَهَّرَتْ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسْوَةً فَأَمَرَهُنَّ أَنْ يَسْتَبْرِئْنَ الْمَرْأَةَ، فَجِئْنَ وَشَهِدْنَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِطُهْرِهَا، فَأَمَرَ لَهَا بِحُفَيْرَةٍ إِلَى ثَنْدُوَتِهَا، ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ، فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَصَاةً مِثْلَ الْحِمَّصَةِ فَرَمَاهَا، ثُمَّ مَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ لِلْمُسْلِمِينَ:" ارْمُوهَا، وَإِيَّاكُمْ وَوَجْهَهَا"، فَلَمَّا طَفِئَتْ أَمَرَ بِإِخْرَاجِهَا، فَصَلَّى عَلَيْهَا، ثُمَّ قَالَ: " لَوْ قُسِّمَ أَجْرُهَا بَيْنَ أَهْلِ الْحِجَازِ وَسِعَهُمْ" ..
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے کہ لوگ ایک حاملہ عورت کو لے کر آئے وہ کہنے لگی کہ اس نے بدکاری کا گناہ کیا ہے لہذا اسے رجم کیا جائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اللہ کی پردہ پوشی سے فائدہ اٹھاؤ وہ واپس چلی گئی تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ آئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خچر پر ہی تھے اس نے پھر عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے رجم کردیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا جب وہ تیسری مرتبہ آئی تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر کی لگام پکڑ لی اور کہنے لگی کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتی ہوں کہ آپ مجھے رجم کردیجیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا جاؤ یہاں تک کہ بچہ پیدا ہوجائے۔ وہ چلی گئی بچہ پیدا ہوگیا اور وہ دوبارہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہاں تک کہ دم نفاس سے پاک ہوجاؤ وہ چلی گئی کچھ عرصے بعد دوبارہ آئی اور کہنے لگی کہ وہ پاک ہوگئی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ خواتین کو بلایا اور انہیں اس کی پاکی کے معاملے میں تسلی کرنے کا حکم دیا انہوں نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گواہی دی کہ یہ پاک ہوگئی چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سینے تک ایک گڑھا کھودنے کا حکم دیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ تشریف لائے اور چنے کے دانے کے برابر ایک کنکری پکڑ کر اسے ماری اور واپس چلے گئے اور مسلمانوں سے کہہ دیا کہ اب تم اس پر پتھر مارو لیکن چہرے پر مارنے سے گریز کرنا جب وہ ٹھنڈی ہوگئی تو اسے نکالنے کا حکم دیا اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور فرمایا کہ اگر اس کا ثواب تمام اہل حجاز پر تقسیم کردیا جائے تو وہ ان سب کو کافی ہوجائے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الراوي عن عبدالرحمن بن أبى بكرة لكن أصل القصة صحيح
حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن حميد ، عن الحسن ، عن ابي بكرة ، ان رجلا من اهل فارس اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" إن ربي قد قتل ربك" يعني كسرى، قال: وقيل له يعني للنبي صلى الله عليه وسلم إنه قد استخلف ابنته، قال: فقال: " لا يفلح قوم تملكهم امراة" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ فَارِسَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ رَبِّي قَدْ قَتَلَ رَبَّكَ" يَعْنِي كِسْرَى، قَالَ: وَقِيلَ لَهُ يَعْنِي لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ قَدْ اسْتُخْلِفَ ابْنَتَهُ، قَالَ: فَقَالَ: " لَا يُفْلِحُ قَوْمٌ تَمْلِكُهُمْ امْرَأَةٌ" .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایران سے ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا میرے رب نے تمہارے رب یعنی کسری کو قتل کردیا ہے اسی دوران کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ اب اس کی بیٹی کو اس کا جانشین بنایا گیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ قوم کبھی کام یاب نہیں ہوسکتی جو اپنے معاملات ایک عورت کے حوالے کردے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، الحسن البصري مدلس، وقد عنعن
حضرت ابوموسی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے سامنے آجائیں اور ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کردیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ قاتل کی بات تو سمجھ میں آتی ہے مقتول کا کیا معاملہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہتا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 31، م: 2888، وهذا إسناد ضعيف، مؤمل سيئ الحفظ لكنه توبع
حدثنا عفان ، حدثنا سعيد بن زيد ، قال: سمعت ابا سليمان العصري ، حدثنا عقبة بن صهبان ، قال: سمعت ابا بكرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " يحمل الناس على الصراط يوم القيامة، فتقادع بهم جنبتا الصراط تقادع الفراش في النار"، قال:" فينجي الله برحمته من يشاء"، قال:" ثم يؤذن للملائكة والنبيين والشهداء ان يشفعوا، فيشفعون ويخرجون، ويشفعون ويخرجون، ويشفعون ويخرجون"، وزاد عفان مرة، فقال ايضا:" ويشفعون ويخرجون من كان في قلبه ما يزن ذرة من إيمان" ، قال ابو عبد الرحمن: حدثنا محمد بن ابان ، حدثنا سعيد بن زيد ... مثله.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سُلَيْمَانَ الْعَصَرِيَّ ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ صُهْبَانَ ، قَالَ: سَمِعْتْ أَبَا بَكْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يُحْمَلُ النَّاسُ عَلَى الصِّرَاطِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَتَقَادَعُ بِهِمْ جَنَبَتَا الصِّرَاطِ تَقَادُعَ الْفَرَاشِ فِي النَّارِ"، قَالَ:" فَيُنْجِي اللَّهُ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ"، قَالَ:" ثُمَّ يُؤْذَنُ لِلْمَلَائِكَةِ وَالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ أَنْ يَشْفَعُوا، فَيَشْفَعُونَ وَيُخْرِجُونَ، وَيَشْفَعُونَ وَيُخْرِجُونَ، وَيَشْفَعُونَ وَيُخْرِجُونَ"، وَزَادَ عَفَّانُ مَرَّةً، فَقَالَ أَيْضًا:" وَيَشْفَعُونَ وَيُخْرِجُونَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مَا يَزِنُ ذَرَّةً مِنْ إِيمَانٍ" ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ ... مِثْلَهُ.
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں کو پل صراط پر سوار کیا جائے گا وہ اس کے دونوں کناروں سے اس طرح جہنم میں گریں گے کہ جیسے شمع کے پروانے گرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا اپنی رحمت سے نجات دے گا پھر نبیوں اور فرشتوں اور شہیدوں کو سفارش کی اجازت ملے گی چنانچہ وہ کئی مرتبہ سفارش کرینگے اور بالآخر جہنم سے ہر اس آدمی کو نکال لیا جائے گا جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی ایمان ہوگا۔
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ منورہ میں دجال کا رعب داخل نہ ہوسکے گا۔ اس وقت مدینہ منورہ کے سات دروازے ہونگے اور ہر دروازے پر دو فرشتے ہونگے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: تحت حديث: 7126، تعليقا