حدثنا يحيى ، عن عيينة ، حدثني ابي ، عن ابي بكرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قتل معاهدا في غير كنهه، حرم الله عليه الجنة ان يجد ريحها" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا فِي غَيْرِ كُنْهِهِ، حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ أَنْ يَجِدَ رِيحَهَا" .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جو شخص کسی معاہد کو ناحق قتل کردے اللہ اس پر جنت کی مہک کو حرام قرار دے دیتا ہے۔
حدثنا يحيى ، عن عيينة ، قال: حدثني ابي ، قال: ذكرت ليلة القدر عند ابي بكرة ، فقال: ما انا بطالبها إلا في العشر الاواخر بعد شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، سمعته يقول: " التمسوها في العشر الاواخر، من تسع يبقين، او سبع يبقين، او خمس يبقين، او ثلاث يبقين، او آخر ليلة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُيَيْنَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: ذَكَرْتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ عِنْدَ أَبِي بَكْرَةَ ، فَقَالَ: مَا أَنَا بِطَالِبِهَا إِلَّا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ بَعْدَ شَيْءٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: " الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مِنْ تِسْعٍ يَبْقَيْنَ، أَوْ سَبْعٍ يَبْقَيْنَ، أَوْ خَمْسٍ يَبْقَيْنَ، أَوْ ثَلَاثٍ يَبْقَيْنَ، أَوْ آخِرِ لَيْلَةٍ" .
عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے شب قدر کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو اسے صرف آخری عشرے میں تلاش کروں گا کیونکہ میں اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کیا کرو۔ ٢١ ویں، ٢٣ ویں، ٢٥ ویں شب، یا ٢٧ ویں شب یا آخری رات میں۔
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی رکوع کرلیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اللہ تمہاری دینی حرص میں اضافہ کرے آئندہ ایسا نہ کرنا۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن مهلب بن ابي حبيبة ، حدثنا الحسن ، عن ابي بكرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا يقولن احدكم إني قمت رمضان كله وصمته"، قال: فلا ادري اكره التزكية، ام لا بد من غفلة او رقدة .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مُهَلَّبِ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ إِنِّي قُمْتُ رَمَضَانَ كُلَّهُ وَصُمْتُهُ"، قَالَ: فَلَا أَدْرِي أَكَرِهَ التَّزْكِيَةَ، أَمْ لَا بُدَّ مِنْ غَفْلَةٍ أَوْ رَقْدَةٍ .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے میں نے سارے رمضان قیام کیا اور روزے رکھتا رہا کیونکہ غفلت یا نیند آجانے سے کوئی چارہ کار بھی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کسی دن سوتا رہ جائے۔
حكم دارالسلام: وهذا إسناده ضعيف، الحسن مدلس، وقد عنعن
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا قرة ، حدثنا محمد يعني ابن سيرين ، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة ، وعن رجل آخر وهو في نفسي افضل من عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابي بكرة ، قال عبد الله: قال غير ابي، عن يحيى في هذا الحديث افضل في نفسي حميد بن عبد الرحمن ، ان النبي صلى الله عليه وسلم خطب الناس بمنى، فقال:" الا تدرون اي يوم هذا؟" قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، فقال:" اليس بيوم النحر؟" قلنا: نعم، قال: اي بلد هذا؟" قلنا: الله ورسوله اعلم، قال:" اليس بالبلدة؟" قلنا بلى يا رسول الله، قال:" فإن دماءكم واموالكم واعراضكم وابشاركم حرام، كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، الا هل بلغت؟" قلنا: نعم، قال:" اللهم اشهد، ليبلغ الشاهد الغائب، فإنه رب مبلغ يبلغه من هو اوعى له منه"، فكان كذلك . وقال: " لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض"، فلما كان يوم حرق ابن الحضرمي، حرقه جارية بن قدامة، قال: اشرفوا على ابي بكرة، فقالوا: هذا ابو بكرة، فقال عبد الرحمن: فحدثتني امي ان ابا بكرة، قال: لو دخلوا علي ما بهشت إليهم بقصبة .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سِيرِينَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، وَعَنْ رَجُلٍ آخَرَ وَهُوَ فِي نَفْسِي أَفْضَلُ مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، قَالَ عَبْد اللَّهِ: قَالَ غَيْرُ أَبِي، عَنْ يَحْيَى فِي هَذَا الْحَدِيثِ أُفَضِّلُ فِي نَفْسِي حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ بِمِنًى، فَقَالَ:" أَلَا تَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟" قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، فَقَالَ:" أَلَيْسَ بِيَوْمِ النَّحْرِ؟" قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: أَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟" قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" أَلَيْسَ بِالْبَلْدَةِ؟" قُلْنَا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ وَأَبْشَارَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟" قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ:" اللَّهُمَّ اشْهَدْ، لِيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَإِنَّهُ رُبَّ مُبَلِّغٍ يُبَلِّغُهُ مَنْ هُوَ أَوْعَى لَهُ مِنْهُ"، فَكَانَ كَذَلِكَ . وَقَالَ: " لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ"، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ حَرْقِ ابْنِ الْحَضْرَمِيِّ، حَرَّقَهُ جَارِيَةُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: أَشْرَفُوا عَلَى أَبِي بَكْرَةَ، فَقَالُوا: هَذَا أَبُو بَكْرَةَ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَحَدَّثَتْنِي أُمِّي أَنَّ أَبَا بَكْرَةَ، قَالَ: لَوْ دَخَلُوا عَلَيَّ مَا بَهَشْتُ إِلَيْهِمْ بِقَصَبَةٍ .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ بتاؤ کہ آج کون سا دن ہے؟ ہم نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر خاموش رہے۔ کہ ہم یہ سمجھے کہ شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا دوسرا نام بتائیں گے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ یوم النحر نہیں ہے ہم نے عرض کیا کیوں نہیں پھر فرمایا یہ کون سا مہینہ ہے ہم نے عرض کی اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر خاموش رہے کہ ہم یہ شاید سمجھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا دوسرا نام بتائیں گے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے ہم نے عرض کیا کیوں نہیں پھر فرمایا کہ یہ کون سا شہر ہے ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم حسب سابق خاموش رہے پھر فرمایا کیا یہ شہر حرم نہیں ہے ہم نے عرض کیا کیوں نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری جان اور مال اور عزت آبرو ایک دوسرے کے لئے اسی طرح قابل احترام ہے جیسا کہ اس شہر میں اس مہینے کے اس دن کی حرمت ہے اور عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا۔ یاد رکھو میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ کیا میں نے پیغام الٰہی پہنچادیا تم میں سے جو موجود ہے وہ غائبین تک یہ پیغام پہنچادے کیونکہ بعض اوقات جسے پیغام پہنچایا جاتا ہے وہ سننے والے سے زیادہ محفوظ رکھتا ہے راوی کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ جس دن جاریہ بن قدامہ نے ابن حضرمی کو آگ میں جلایا تو وہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھے تو کہنے لگے یہ ہیں ابوبکرہ رضی اللہ عنہ، راوی کہتے ہیں حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر یہ لوگ میرے پاس آئے تو میں لکڑی سے بھی ان پر حملہ نہ کروں۔
حدثنا يحيى ، عن اشعث ، عن الحسن ، عن ابي بكرة ،" ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى بهؤلاء الركعتين، وبهؤلاء الركعتين، فكانت للنبي صلى الله عليه وسلم اربعا، ولهم ركعتين ركعتين" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهَؤُلَاءِ الرَّكْعَتَيْنِ، وَبِهَؤُلَاءِ الرَّكْعَتَيْنِ، فَكَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا، وَلَهُمْ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ" .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف میں ایک گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر دوسرے گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تو چار رکعتیں ہوگئی اور لوگوں کی دو دو رکعتیں ہوگئی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، الحسن مدلس، وقد عنعن
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد یہ دعا فرماتے تھے اے اللہ میں کفر، فقر اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔
حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن عبد الملك بن عمير ، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارايتم إن كانت جهينة واسلم وغفار خيرا من بني تميم، وبني عبد الله بن غطفان، وبني عامر بن صعصعة" ومد بها صوته، قالوا: يا رسول الله، قد خابوا وخسروا، قال" فوالذي نفسي بيده، لهم خير" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَتْ جُهَيْنَةُ وَأَسْلَمُ وَغِفَارُ خَيْرًا مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، وَبَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَطَفَانَ، وَبَنِي عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ" وَمَدَّ بِهَا صَوْتَهُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا، قَالَ" فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَهُمْ خَيْرٌ" .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بتاؤ کہ جہینہ، اسلم، غفار، غطفان قبیلے کے لوگ بنواسد، بنوتمیم اور بنوعامر بن صعصعہ سے بہتر ہیں تو ایک آدمی نے وہ نامراد اور خسارے میں رہیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے وہ لوگ ہم سے بہتر ہیں۔
حدثنا وكيع ، حدثنا الاسود بن شيبان ، عن بحر بن مرار ، عن ابي بكرة ، قال: كنت امشي مع النبي صلى الله عليه وسلم، فمر على قبرين، فقال:" من ياتيني بجريدة نخل؟" قال: فاستبقت انا ورجل آخر، فجئنا بعسيب، فشقه باثنين، فجعل على هذا واحدة، وعلى هذا واحدة، ثم قال:" اما إنه سيخفف عنهما ما كان فيهما من بلولتهما شيء"، ثم قال:" إنهما ليعذبان في الغيبة والبول" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ ، عَنْ بَحْرِ بْنِ مَرَّارٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرَّ عَلَى قَبْرَيْنِ، فَقَالَ:" مَنْ يَأْتِينِي بِجَرِيدَةِ نَخْلٍ؟" قَالَ: فَاسْتَبَقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ آخَرُ، فَجِئْنَا بِعَسِيبٍ، فَشَقَّهُ بِاثْنَيْنِ، فَجَعَلَ عَلَى هَذَا وَاحِدَةً، وَعَلَى هَذَا وَاحِدَةً، ثُمَّ قَالَ:" أَمَا إِنَّهُ سَيُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا كَانَ فِيهِمَا مِنْ بُلُولَتِهِمَا شَيْءٌ"، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ فِي الْغِيبَةِ وَالْبَوْلِ" .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا اور ایک آدمی بائیں جانب بھی تھا اچانک ہمارے سامنے دو قبریں آگئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دونوں مردوں کو عذاب ہورہا ہے اور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہورہا۔ تم میں سے کون میرے پاس ایک ٹہنی لے کر آئے گا ہم دوڑ پڑے میں اس پر سبقت کرگیا اور ایک ٹہنی لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور ہر قبر پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا اور فرمایا جب تک یہ دونوں سرسبز رہیں گے ان پر عذاب میں تخفیف رہے گی۔ اور ان دونوں کو عذاب صرف پیشاب اور غیبت کے معاملے میں ہورہا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث قوي، وهذا إسناد منقطع، رواية بحر بن مرار عن جده أبى بكرة منقطعة، وقد روي هذا موصولا
حدثنا وكيع ، حدثنا عثمان الشحام ، قال: حدثني مسلم بن ابي بكرة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنها ستكون فتنة، المضطجع فيها خير من الجالس، والجالس خير من القائم، والقائم فيها خير من الماشي، والماشي خير من الساعي"، قال: فقال رجل: يا رسول الله، فما تامرني؟ قال:" من كانت له إبل فليلحق بإبله، ومن كانت له غنم فليلحق بغنمه، ومن كانت له ارض فليلحق بارضه، ومن لم يكن له شيء من ذلك فليعمد إلى سيفه، فليضرب بحده صخرة، ثم لينج إن استطاع النجاة، ثم لينج إن استطاع النجاة" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الشَّحَّامُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ، الْمُضْطَجِعُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْجَالِسِ، وَالْجَالِسُ خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي"، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا تَأْمُرُنِي؟ قَالَ:" مَنْ كَانَتْ لَهُ إِبِلٌ فَلْيَلْحَقْ بِإِبِلِهِ، وَمَنْ كَانَتْ لَهُ غَنَمٌ فَلْيَلْحَقْ بِغَنَمِهِ، وَمَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَلْحَقْ بِأَرْضِهِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ فَلْيَعْمِدْ إِلَى سَيْفِهِ، فَلْيَضْرِبْ بِحَدِّهِ صَخْرَةً، ثُمَّ لِيَنْجُ إِنِ اسْتَطَاعَ النَّجَاةَ، ثُمَّ لِيَنْجُ إِنِ اسْتَطَاعَ النَّجَاةَ" .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب فتنے رونماہوں گے جن میں لیٹا ہوا آدمی بیٹھے ہوئے سے اور بیٹھا ہوا کھڑے ہوئے سے اور کھڑا ہوا چلنے والے سے اور چلنے والادوڑنے والے سے بہتر ہوگا ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ پھر آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے پاس اونٹ ہوں وہ اپنے اونٹوں میں چلاجائے اور جس کے پاس بکریاں ہوں وہ بکریوں میں چلاجائے اور جس کے پاس زمین ہو وہ اپنی زمین میں چلاجائے اور جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو وہ اپنی تلوار پکڑے اور اس کی دھار کو ایک چٹان پردے مارے۔ اور اگر بچ سکتا ہو تو بچ جائے، اگر بچ سکتا ہو تو بچ جائے۔