حدثنا يزيد ، اخبرنا شعبة ، عن ابي قزعة ، عن حكيم بن معاوية ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ساله رجل: ما حق المراة على الزوج؟ قال: " تطعمها إذا طعمت، وتكسوها إذا اكتسيت، ولا تضرب الوجه، ولا تقبح، ولا تهجر إلا في البيت" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي قَزَعَةَ ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَأَلَهُ رَجُلٌ: مَا حَقُّ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ؟ قَالَ: " تُطْعِمُهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَكْسُوهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ، وَلَا تَضْرِبْ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ، وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ" .
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم پر اپنی بیوی کا کیا حق بنتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کھاؤ تو اسے کھلاؤ، جب تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ، اس کے چہرے پر نہ مارو، اسے گالیاں مت دو اور اس سے قطع تعلقی اگر کرو تو صرف گھر کی حد تک رکھو۔
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا ابو قزعة سويد بن حجير الباهلي ، عن حكيم بن معاوية ، عن ابيه : ان اخاه مالكا قال: يا معاوية، إن محمدا اخذ جيراني، فانطلق إليه، فإنه قد عرفك وكلمك , قال: فانطلقت معه، فقال: دع لي جيراني، فإنهم قد كانوا اسلموا , فاعرض عنه، فقام متمعطا، فقال: اما والله لئن فعلت، إن الناس ليزعمون انك تامر بالامر، وتخالف إلى غيره، وجعلت اجره وهو يتكلم , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما يقول؟" فقالوا: إنك والله لئن فعلت ذلك، إن الناس ليزعمون انك لتامر بالامر، وتخالف إلى غيره , قال: فقال:" او قد قالوها او قائلهم؟ فلئن فعلت ذاك، وما ذاك إلا علي، وما عليهم من ذلك من شيء، ارسلوا له جيرانه" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو قَزَعَةَ سُوَيْدُ بْنُ حُجَيْرٍ الْبَاهِلِيُّ ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنَّ أَخَاهُ مَالِكًا قَالَ: يَا مُعَاوِيَةُ، إِنَّ مُحَمَّدًا أَخَذَ جِيرَانِي، فَانْطَلِقْ إِلَيْهِ، فَإِنَّهُ قَدْ عَرَفَكَ وَكَلَّمَكَ , قَالَ: فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، فَقَالَ: دَعْ لِي جِيرَانِي، فَإِنَّهُمْ قَدْ كَانُوا أَسْلَمُوا , فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَقَامَ مُتَمَعِّطًا، فَقَالَ: أَمْا وَاللَّهِ لَئِنْ فَعَلْتَ، إِنَّ النَّاسَ لَيَزْعُمُونَ أَنَّكَ تَأْمُرُ بِالْأَمْرِ، وَتَخْالُفُ إِلَى غَيْرِهِ، وَجَعَلْتُ أَجُرُّهُ وَهُوَ يَتَكَلَّمُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا يَقُولُ؟" فَقَالُوا: إِنَّكَ وَاللَّهِ لَئِنْ فَعَلْتَ ذَلِكَ، إِنَّ النَّاسَ لَيَزْعُمُونَ أَنَّكَ لَتَأْمُرُ بِالْأَمْر، وَتُخَالِفُ إِلَى غَيْرِهِ , قَالَ: فَقَالَ:" أَوَ قَدْ قَالُوهَا أَوْ قَائِلُهُمْ؟ فَلَئِنْ فَعَلْتُ ذَاكَ، وَمَا ذَاكَ إِلَّا عَلَيَّ، وَمَا عَلَيْهِمْ مِنْ ذَلِكَ مِنْ شَيْءٍ، أَرْسِلُوا لَهُ جِيرَانَهُ" .
حضرت معاویہ بہزی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کے بھائی مالک نے ان سے کہا کہ معاویہ! محمد صلی اللہ علیہ السلام نے میرے پڑوسیوں کو پکڑ لیا ہے، تم ان کے پاس جاؤ، وہ تمہیں پہچانتے اور تم سے بات کرتے ہیں، میں اپنے بھائی کے ساتھ چلا گیا، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے پڑوسیوں کو چھوڑ دیجئے، وہ مسلمان ہوچکے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سے اعراض کیا، (میرا بھائی) اکھڑ پن کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور آہستہ سے کہا کہ بخدا! اگر آپ ایسا کرلیتے تو لوگ یہ سمجھتے کہ آپ ایک کام کا حکم دیتے ہیں اور خود ہی اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں، وہ بولتا جا رہا تھا اور میں اپنی چادر گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کیا کہہ رہے تھے؟ (وہ خاموش رہا) لوگوں نے بتایا کہ یہ کہہ رہا تھا اگر آپ ایسا کرلیتے تو لوگ یہ سمجھتے کہ آپ ایک کام کا حکم دیتے ہیں اور خود ہی اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا لوگ ایسی بات کہہ سکتے ہیں، اگر میں نے ایسا کیا بھی تو اس کا اثر مجھ پر ہوگا، ان پر تو کچھ نہ ہوگا، اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن تم لوگ کامل ستر امتوں کی شکل میں ہوگے اور سب سے آخری امت تم ہوں گے اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت ہو گے۔
حدثنا إسماعيل ابن علية ، عن بهز بن حكيم ، عن ابيه ، عن جده , قال: سمعت نبي الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " في كل إبل سائمة، في كل اربعين ابنة لبون، لا تفرق إبل عن حسابها، من اعطاها مؤتجرا، فله اجرها، ومن منعها، فإنا آخذوها منه وشطرا إبله، عزمة من عزمات ربنا جل وعز , لا يحل لآل محمد منها شيء .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ , قَالَ: سَمِعْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " فِي كُلِّ إِبِلٍ سَائِمَةٍ، فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، لَا تُفَرَّقُ إِبِلٌ عَنْ حِسَابِهَا، مَنْ أَعْطَاهَا مُؤْتَجِرًا، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَمَنْ مَنَعَهَا، فَإِنَّا آخِذُوهَا مِنْهُ وَشَطْرًا إِبِلِه، عَزْمَةً مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا جَلَّ وَعَزَّ , لَا يَحِلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ مِنْهَا شَيْءٌ .
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے سائمہ اونٹوں کی ہر چالیس تعداد پر ایک بنت لبون واجب ہوگی اور زکوٰۃ کے اس حساب سے کسی اونٹ کو الگ نہیں کیا جائے گا، جو شخص ثواب کی نیت سے خود ہی زکوٰۃ ادا کر دے تو اسے اس کا ثواب مل جائے گا اور جو شخص زکوٰۃ ادا نہیں کرے گا تو ہم اس سے جبراً بھی وصول کرسکتے ہیں، اس کے اونٹ کا حصہ ہمارے پروردگار کا فیصلہ ہے اور اس میں سے آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ بھی حلال نہیں ہے۔
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا بهز بن حكيم ، عن ابيه ، عن جده : ان اباه او عمه قام إلى النبي صلى الله عليه وسلم , فقال: جيراني بم اخذوا؟ فاعرض عنه، ثم قال: اخبرني بم اخذوا؟ فاعرض عنه، فقال: لئن قلت ذلك إنهم ليزعمون انك تنهى عن الغي وتستخلي به! فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما قال؟" فقام اخوه او ابن اخيه , فقال: يا رسول الله، إنه قال , فقال:" لقد قلتموها او قائلكم؟ ولئن كنت افعل ذلك، إنه لعلي وما هو عليكم، خلوا له عن جيرانه" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ : أَنَّ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهَ قَامَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: جِيرَانِي بِمَ أُخِذُوا؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ: أَخْبِرْنِي بِمَ أُخِذُوا؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَقَالَ: لَئِنْ قُلْتُ ذَلكَ إِنَّهُمْ لَيَزْعُمُونَ أَنَّكَ تَنْهَى عَنِ الْغَيِّ وَتَسْتَخْلِي بِهِ! فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا قَالَ؟" فَقَامَ أَخُوهُ أَوْ ابْنُ أَخِيهِ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ قَالَ , فَقَالَ:" لَقَدْ قُلْتُمُوهَا أَوْ قَائِلُكُمْ؟ وَلَئِنْ كُنْتُ أَفْعَلُ ذَلِكَ، إِنَّهُ لَعَلَيَّ وَمَا هُوَ عَلَيْكُمْ، خَلُّوا لَهُ عَنْ جِيرَانِهِ" .
حضرت معاویہ بہزی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کے والد یا چچا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے پڑوسیوں کو کیوں پکڑا گیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سے اعراض کیا، دو مرتبہ اسی طرح ہوا پھر والد یا چچا نے کہا کہ بخدا! اگر آپ ایسا کرلیتے تو لوگ یہ سمجھتے کہ آپ ایک کام کا حکم دیتے ہیں اور خود ہی اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں، وہ بولتا جا رہا تھا اور میں اپنی چادر گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ صاحب کیا کہہ رہے تھے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ کہہ رہا تھا اگر آپ ایسا کرلیتے تو لوگ یہ سمجھتے کہ آپ ایک کا کا حکم دیتے ہیں اور خود ہی اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا لوگ ایسی بات کہہ سکتے ہیں، اگر میں نے ایسا کیا بھی تو اس کا اثر مجھ پر ہوگا، ان پر تو کچھ نہیں ہوگا، اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اس شخص کی توبہ قبول نہیں کرتا جو اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ شرک میں مبتلا ہوجائے۔
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن بهز بن حكيم بن معاوية ، عن ابيه ، عن جده , قال: اخذ النبي صلى الله عليه وسلم ناسا من قومي في تهمة فحبسهم، فجاء رجل من قومي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وهو يخطب، فقال: يا محمد، علام تحبس جيرتي؟ فصمت النبي صلى الله عليه وسلم عنه، فقال: إن ناسا ليقولون إنك تنهى عن الشر وتستخلي به! فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما يقول؟" قال: فجعلت اعرض بينهما بالكلام مخافة ان يسمعها، فيدعو على قومي دعوة لا يفلحون بعدها ابدا، فلم يزل النبي صلى الله عليه وسلم به حتى فهمها، فقال:" قد قالوها او قائلها منهم؟ والله لو فعلت لكان علي وما كان عليهم، خلوا له عن جيرانه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ , قَالَ: أَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاسًا مِنْ قَوْمِي فِي تُهْمَةٍ فَحَبَسَهُمْ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَخْطُبُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، عَلَامَ تَحْبِسُ جِيرَتِي؟ فَصَمَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ، فَقَالَ: إِنَّ نَاسًا لَيَقُولُونَ إِنَّكَ تَنْهَى عَنِ الشَّرِّ وَتَسْتَخْلِي بِهِ! فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا يَقُولُ؟" قَالَ: فَجَعَلْتُ أَعْرِضُ بَيْنَهُمَا بِالْكَلَامِ مَخَافَةَ أَنْ يَسْمَعَهَا، فَيَدْعُوَ عَلَى قَوْمِي دَعْوَةً لَا يُفْلِحُونَ بَعْدَهَا أَبَدًا، فَلَمْ يَزَلْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِ حَتَّى فَهِمَهَا، فَقَالَ:" قَدْ قَالُوهَا أَوْ قَائِلُهَا مِنْهُمْ؟ وَاللَّهِ لَوْ فَعَلْتُ لَكَانَ عَلَيَّ وَمَا كَانَ عَلَيْهِمْ، خَلُّوا لَهُ عَنْ جِيرَانِهِ" .
حضرت معاویہ بہزی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کے والد یا چچا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے پڑوسیوں کو کیوں پکڑا گیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سے اعراض کیا، دو مرتبہ اسی طرح ہوا پھر والد یا چچا نے کہا کہ بخدا! اگر آپ ایسا کرلیتے تو لوگ یہ سمجھتے کہ آپ ایک کام کا حکم دیتے ہیں اور خود ہی اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں، وہ بولتا جا رہا تھا اور میں میں اپنی چادر گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ صاحب کیا کہہ رہے تھے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ کہہ رہا تھا اگر آپ ایسا کرلیتے تو لوگ یہ سمجھتے کہ آپ ایک کا کا حکم دیتے ہیں اور خود ہی اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا لوگ ایسی بات کہہ سکتے ہیں، اگر میں نے ایسا کیا بھی تو اس کا اثر مجھ پر ہوگا، ان پر تو کچھ نہیں ہوگا، اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو۔
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن بهز بن حكيم ، عن ابيه ، عن جده , انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " من ساله مولاه فضل ماله، فلم يعطه، جعل يوم القيامة شجاعا اقرع" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ , أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ سَأَلَهُ مَوْلَاهُ فَضْلَ مَالِهِ، فَلَمْ يُعْطِهِ، جُعِلَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ" .
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص سے اس کا چچا زاد بھائی اس کے مال کا زائد حصہ مانگے اور وہ اسے نہ دے تو قیامت کے دن اسے گنجا سانپ بنادیا جائے گا۔
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن بهز بن حكيم ، عن ابيه ، عن جده ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ويل للذي يحدث القوم، ثم يكذب ليضحكهم، ويل له، وويل له" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ الْقَوْمَ، ثُمَّ يَكْذِبُ لِيُضْحِكَهُمْ، وَيْلٌ لَهُ، وَوَيْلٌ لَهُ" .
حضرت معاویہ بہزی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اس شحص کے لئے ہلاکت ہے جو لوگوں کے سامنے انہیں ہنسانے کے لئے جھوٹی باتیں کہتا ہے، اس کے لئے ہلاکت ہے، اس کے لئے ہلاکت ہے۔
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا ابو قزعة الباهلي ، عن حكيم بن معاوية ، عن ابيه ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلت: ما اتيتك حتى حلفت عدد اصابعي هذه ان لا آتيك ارانا عفان وطبق كفيه، فبالذي بعثك بالحق، ما الذي بعثك به؟ قال:" الإسلام" قال: وما الإسلام؟ قال: " ان يسلم قلبك لله، وان توجه وجهك إلى الله، وتصلي الصلاة المكتوبة، وتؤدي الزكاة المفروضة، اخوان نصيران، لا يقبل الله من احد توبة اشرك بعد إسلامه" . قلت: ما حق زوجة احدنا عليه؟ قال: " تطعمها إذا طعمت، وتكسوها إذا اكتسيت، ولا تضرب الوجه، ولا تقبح، ولا تهجر إلا في البيت" . قال: " تحشرون هاهنا واوما بيده إلى نحو الشام , مشاة وركبانا وعلى وجوهكم، تعرضون على الله تعالى وعلى افواهكم الفدام، واول ما يعرب عن احدكم فخذه" ..حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو قَزَعَةَ الْبَاهِلِيُّ ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: مَا أَتَيْتُكَ حَتَّى حَلَفْتُ عَدَدَ أَصَابِعِي هَذِهِ أَنْ لَا آتِيَكَ أَرَانَا عَفَّانُ وَطَبَّقَ كَفَّيْهِ، فَبِالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا الَّذِي بَعَثَكَ بِهِ؟ قَالَ:" الْإِسْلَامُ" قَالَ: وَمَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: " أَنْ يُسْلِمَ قَلْبُكَ لِلَّهِ، وَأَنْ تُوَجِّهَ وَجْهَكَ إِلَى اللَّهِ، وَتُصَلِّيَ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ، وَتُؤَدِّيَ الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، أَخَوَانِ نَصِيرَانِ، لَا يَقْبَلُ اللَّهَُّ مِنْ أَحَدٍ تَوْبَةً أَشْرَكَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ" . قُلْتُ: مَا حَقُّ زَوْجَةِ أَحَدِنَا عَلَيْهِ؟ قَالَ: " تُطْعِمُهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَكْسُوهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ، وَلَا تَضْرِبْ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ، وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ" . قَالَ: " تُحْشَرُونَ هَاهُنَا وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى نَحْوِ الشَّامِ , مُشَاةً وَرُكْبَانًا وَعَلَى وُجُوهِكُمْ، تُعْرَضُونَ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى وَعَلَى أَفْوَاهِكُمْ الْفِدَامُ، وَأَوَّلُ مَا يُعْرِبُ عَنْ أَحَدِكُمْ فَخِذُهُ" ..
حضرت معاویہ بہزی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے اتنی مرتبہ (اپنے ہاتھوں کی انگلیاں کھول کر کہا) قسم کھائی تھی (کہ آپ کے پاس نہیں آؤں گا، اب میں آپ کے پاس آگیا ہوں تو) مجھے بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کس چیز کے ساتھ بھیجا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کے ساتھ بھیجا ہے، پوچھا اسلام کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ یہی دونوں چیزیں مددگار ہیں اور اللہ اس شخص کی توبہ قبول نہیں کرتا جو اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ شرک میں مبتلا ہوجائے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم پر اپنی بیوی کا کیا حق بنتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کھاؤ تو اسے کھلاؤ، جب تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ، اس کے چہرے پر نہ مارو، اسے گالیاں مت دو اور اس سے قطع تعلقی اگر کرو تو صرف گھر کی حد تک رکھو۔ پھر فرمایا تم سب یہاں (شام کی طرف اشارہ کیا) جمع کئے جاؤ گے، تم میں سے بعض سوار ہوں گے، بعض پیدل اور بعض چہروں کے بل۔ قیامت کے دن جب تم لوگ پیش ہوگے تو تمہارے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور سب سے پہلے جو چیز بولے گی، وہ ران ہوگی۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص سے اس کا چچا زاد بھائی اس کے مال کا زائد حصہ مانگے اور وہ اسے نہ دے تو قیامت کے دن فیصلہ سے پہلے اسے گنجا سانپ بنادیا جائے گا، جو اسے ڈستا رہے گا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پہلے زمانے میں ایک آدمی تھا جسے اللہ تعالیٰ نے خوب مال و دولت اور اولاد سے نواز رکھا تھا، وقت گذرتا رہا حتیٰ کہ ایک زمانہ چلا گیا اور دوسرا زمانہ آگیا، جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بچوں سے کہا کہ میرے بچو! میں تمہارے لئے کیسا باپ ثابت ہوا؟ انہوں نے کہا بہترین باپ، اس نے کہا کیا اب تم میری ایک بات مانوگے؟ انہوں نے کہا جی ہاں! اس نے کہا دیکھو، جب میں مرجاؤں تو مجھے آگ میں جلا دینا اور کوئلہ بن جانے تک مجھے آگ ہی میں رہنے دینا، پھر اس کوئلے کو ہاون دستے میں اس طرح کوٹنا (ہاتھ کے اشارے سے بتایا) پھر جس دن ہوا چل رہی ہو، میری راکھ کو سمندر میں بہا دینا، شاید اس طرح میں اللہ کو نہ مل سکوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم! ان لوگوں نے اسی طرح کیا، لیکن وہ اسی لمحے اللہ کے قبضے میں تھا، اللہ نے اس سے پوچھا کہ اے ابن آدم! تجھے اس کام پر کس چیز نے ابھارا؟ اس نے کہا پروردگار! تیرے خوف نے، اللہ تعالیٰ نے اس خوف کی برکت سے اس کی تلافی فرمادی۔