حدثنا حدثنا إسماعيل ، حدثنا ابو هارون الغنوي ، عن مطرف ، قال: قال لي عمران بن حصين : اي مطرف، والله إن كنت لارى اني لو شئت حدثت، عن نبي الله صلى الله عليه وسلم يومين متتابعين لا اعيد حديثا، ثم لقد زادني بطئا عن ذلك وكراهية له ان رجالا من اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم او من بعض اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم شهدت كما شهدوا، وسمعت كما سمعوا، يحدثون احاديث ما هي كما يقولون، ولقد علمت انهم لا يالون عن الخير , فاخاف ان يشبه لي كما شبه لهم، فكان احيانا يقول: لو حدثتكم اني سمعت من نبي الله صلى الله عليه وسلم كذا وكذا، رايت اني قد صدقت، واحيانا يعزم فيقول: سمعت نبي الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" كذا وكذا" , قال ابو عبد الرحمن , حدثني نصر بن علي ، حدثنا بشر بن المفضل ، عن ابي هارون الغنوي ، قال: حدثني هانئ الاعور ، عن مطرف ، عن عمران ابن حصين ، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا الحديث , فحدثت به ابي رحمه الله فاستحسنه، وقال: زاد فيه رجلا.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَبُو هَارُونَ الْغَنَوِيُّ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ: قَالَ لِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ : أَيْ مُطَرِّفُ، وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَرَى أَنِّي لَوْ شِئْتُ حَدَّثْتُ، عَنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ لَا أُعِيدُ حَدِيثًا، ثُمَّ لَقَدْ زَادَنِي بُطْئًا عَنْ ذَلِكَ وَكَرَاهِيَةً لَهُ أَنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ مِنْ بَعْضِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهِدْتُ كَمَا شَهِدُوا، وَسَمِعْتُ كَمَا سَمِعُوا، يُحَدِّثُونَ أَحَادِيثَ مَا هِيَ كَمَا يَقُولُونَ، وَلَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّهُمْ لَا يَأْلُونَ عَنِ الْخَيْرِ , فَأَخَافُ أَنْ يُشَبَّهَ لِي كَمَا شُبِّهَ لَهُمْ، فَكَانَ أَحْيَانًا يَقُولُ: لَوْ حَدَّثْتُكُمْ أَنِّي سَمِعْتُ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَا وَكَذَا، رَأَيْتُ أَنِّي قَدْ صَدَقْتُ، وَأَحْيَانًا يَعْزِمُ فَيَقُولُ: سَمِعْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" كَذَا وَكَذَا" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ , حَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْغَنَوِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي هَانِئٌ الْأَعْوَرُ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عِمْرَانَ ابْنُ حُصَيْنٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ , فَحَدَّثْتُ بِهِ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ فَاسْتَحْسَنَهُ، وَقَالَ: زَادَ فِيهِ رَجُلًا.
مطرف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا مطرف! بخدا! میں سمججھتا ہوں کہ اگر میں چاہوں تو مسلسل دو دن تک تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سناؤں تو ان میں ایک بھی حدیث مکرر نہ ہوگی، پھر میں اس سے دور اس لئے جاتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہ " میں بھی جن کی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور میں بھی جن کی طرح سنتا تھا " ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جو اس طرح نہیں ہوتیں جیسے وہ کہہ رہے ہوتے ہیں، میں جانتا ہوں کہ وہ اپنی طرف سے صحیح بات پہنچانے میں کوئی کمی نہیں کرتے، مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں مجھے بھی ان کی طرح شبہ نہ ہوجایا کرے، اس لئے حضرت عمران رضی اللہ عنہ کبھی کبھار یوں کہتے تھے کہ اگر میں تم سے یہ حدیث بیان کروں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے تو میرا خیال ہے کہ میں سچ بول رہا ہوں اور کبھی کبھی پختگی کے ساتھ یوں کہتے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کہتے ہوئے سنا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، إسناده الأول منقطع، أبو هارون الغنوي لم يسمعه من مطرف، والإسناد الثاني ضعيف ، هانئ الأعور مجهول
حدثنا إسماعيل ، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، عن ابي المهلب ، عن عمران بن حصين ، قال: كانت ثقيف حلفاء لبني عقيل فاسرت ثقيف رجلين من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، واسر اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا من بني عقيل، واصيبت معه العضباء، فاتى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في الوثاق، فقال: يا محمد يا محمد! فقال:" ما شانك؟" فقال: بم اخذتني؟ بم اخذت سابقة الحاج؟ إعظاما لذلك , فقال:" اخذتك بجريرة حلفائك ثقيف" ثم انصرف عنه، فقال: يا محمد يا محمد , وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم رحيما رفيقا، فاتاه فقال:" ما شانك؟" قال: إني مسلم , قال: " لو قلتها وانت تملك امرك افلحت كل الفلاح" ثم انصرف عنه، فناداه يا محمد يا محمد , فاتاه فقال:" ما شانك" فقال: إني جائع فاطعمني، وظمآن فاسقني , قال:" هذه حاجتك" قال: ففدي بالرجلين . واسرت امراة من الانصار، واصيب معها العضباء، فكانت المراة في الوثاق، فانفلتت ذات ليلة من الوثاق، فاتت الإبل، فجعلت إذا دنت من البعير رغا، فتتركه حتى تنتهي إلى العضباء، فلم ترغ قال وناقة منوقة، فقعدت في عجزها ثم زجرتها، فانطلقت، ونذروا بها فطلبوها فاعجزتهم، فنذرت إن الله تبارك وتعالى انجاها عليها لتنحرنها، فلما قدمت المدينة، رآها الناس، فقالوا العضباء ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم! فقالت إني قد نذرت إن انجاها الله تبارك وتعالى عليها لتنحرنها، فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم فذكروا ذلك له، فقال: " سبحان الله بئسما جزتها , إن الله تبارك وتعالى انجاها لتنحرنها! لا وفاء لنذر في معصية الله، ولا نذر فيما لا يملك العبد" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: كَانَتْ ثَقِيفُ حُلَفَاءَ لِبَنِي عُقَيْلٍ فَأَسَرَتْ ثَقِيفُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ، وَأُصِيبَتْ مَعَهُ الْعَضْبَاءُ، فَأَتَى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْوَثَاقِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ! فَقَالَ:" مَا شَأْنُكَ؟" فَقَالَ: بِمَ أَخَذْتَنِي؟ بِمَ أَخَذْتَ سَابِقَةَ الْحَاجِّ؟ إِعْظَامًا لِذَلِكَ , فَقَالَ:" أَخَذْتُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ ثَقِيفَ" ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ , وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَفِيقًا، فَأَتَاهُ فَقَالَ:" مَا شَأْنُكَ؟" قَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ , قَالَ: " لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ" ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ، فَنَادَاهُ يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ , فَأَتَاهُ فَقَالَ:" مَا شَأْنُكَ" فَقَالَ: إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي، وَظَمْآنُ فَاسْقِنِي , قَالَ:" هَذِهِ حَاجَتُكَ" قَالَ: فَفُدِيَ بِالرَّجُلَيْنِ . وَأُسِرَتْ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَأُصِيبَ مَعَهَا الْعَضْبَاءُ، فَكَانَتْ الْمَرْأَةُ فِي الْوَثَاقِ، فَانْفَلَتَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ مِنَ الْوَثَاقِ، فَأَتَتْ الْإِبِلَ، فَجَعَلَتْ إِذَا دَنَتْ مِنَ الْبَعِيرِ رَغَا، فَتَتْرُكُهُ حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى الْعَضْبَاءِ، فَلَمْ تَرْغُ قَالَ وَنَاقَةٌ مُنَوَّقَةٌ، فَقَعَدَتْ فِي عَجُزِهَا ثُمَّ زَجَرَتْهَا، فَانْطَلَقَتْ، وَنَذِرُوا بِهَا فَطَلَبُوهَا فَأَعْجَزَتْهُمْ، فَنَذَرَتْ إِنْ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنْجَاهَا عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَلَمَّا قَدِمَتْ الْمَدِينَةَ، رَآهَا النَّاسُ، فَقَالُوا الْعَضْبَاءُ نَاقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ! فَقَالَتْ إِنِّي قَدْ نَذَرْتُ إِنْ أَنْجَاهَا اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: " سُبْحَانَ اللَّهِ بِئْسَمَا جَزَتْهَا , إِنْ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنْجَاهَا لَتَنْحَرَنَّهَا! لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا نَذْرَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ الْعَبْدُ" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عضباء نامی اونٹنی دراصل بنو عقیل میں سے ایک آدمی کی تھی اور حاجیوں کی سواری تھی، وہ شخص گرفتار ہوگیا اور اس کی اونٹنی بھی پکڑ لی گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گذرے تو وہ رسیوں سے بندھا ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار تھے اور ایک چادر اوڑھ رکھی تھی، وہ کہنے لگا اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم کیا تم مجھے اور حاجیوں کی سواری کو بھی پکڑ لوگے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم نے تمہیں تمہارے حلیفوں بنو ثقیف کی جرأت کی وجہ سے پکڑا ہے، کیونکہ بنو ثقیف نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابہ قید کر رکھے تھے، بہرحال! دوران گفتگو وہ کہنے لگا کہ میں تو مسلمان ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے اس وقت یہ بات کہی ہوتی جب کہ تمہیں اپنے اوپر مکمل اختیار تھا تو فلاح کلی حاصل کرلیتے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھنے لگے تو وہ کہنے لگا کہ اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلائیے، پیاساہوں، پانی پلائیے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہاری ضرورت ہے (جو ہم پوری کریں گے) پھر ان دو صحابیوں کے فدئیے میں اس شخص کو دے دیا اور عضباء کو اپنی سواری کے لئے رکھ لیا، کچھ ہی عرصے بعد مشرکین نے مدینہ منورہ کی چراگاہ پر شب خون مارا اور وہاں کے جانور اپنے ساتھ لے گئے انہی میں عضباء بھی شامل تھی۔ نیز انہوں نے ایک مسلمان عورت کو بھی قید کرلیا، ایک دن اس عورت نے لوگوں کو غافل دیکھا تو چپکے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار ہوئی اور یہ منت مان لی کہ اگر صحیح سلامت مدینہ پہنچ گئی تو اسی اونٹنی کو ذبح کر دے گی، بہرحال! وہ مدینہ منورہ پہنچ گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کو ذبح کرنا چاہا لیکن لوگوں نے اسے اس سے منع کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کردیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اسے برا بدلہ دیا، پھر فرمایا ابن آدم جس چیز کا مالک نہ ہو، اس میں نذر نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کی معصیت میں منت ہوتی ہے۔
حدثنا حدثنا إسماعيل ، اخبرنا الجريري ، عن ابي العلاء بن الشخير ، عن مطرف ، قال: قال لي عمران , إني لاحدثك بالحديث اليوم لينفعك الله عز وجل به بعد اليوم، اعلم ان " خير عباد الله تبارك وتعالى يوم القيامة الحمادون" . واعلم انه " لن تزال طائفة من اهل الإسلام يقاتلون على الحق ظاهرين على من ناواهم حتى يقاتلوا الدجال" . واعلم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد اعمر طائفة من اهله في العشر، فلم تنزل آية تنسخ ذلك ولم ينه عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى مضى لوجهه، ارتاى كل امرئ بعد ما شاء الله ان يرتئي" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ: قَالَ لِي عِمْرَانُ , إِنِّي لَأُحَدِّثُكَ بِالْحَدِيثِ الْيَوْمَ لِيَنْفَعَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِ بَعْدَ الْيَوْمِ، اعْلَمْ أَنَّ " خَيْرَ عِبَادِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْحَمَّادُونَ" . وَاعْلَمْ أَنَّهُ " لَنْ تَزَالَ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ حَتَّى يُقَاتِلُوا الدَّجَّالَ" . وَاعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ أَعْمَرَ طائفةً مِنْ أَهْلِهِ فِي الْعَشْرِ، فَلَمْ تَنْزِلْ آيَةٌ تَنْسَخُ ذَلِكَ وَلَمْ يَنْهَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَضَى لِوَجْهِهِ، ارْتَأَى كُلُّ امْرِئٍ بَعْدَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْتَئِيَ" .
مطرف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا میں آج تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں کل کو نفع پہنچائے گا، یاد رکھو! کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سب سے بہترین بندے اس کی تعریف کرنے والے ہوں گے اور یہ بھی یاد رکھو! کہ اہل اسلام کا ایک گروہ ہمیشہ حق کی خاطر جہاد کرتا رہے گا اور اپنے مخالفین پر غالب رہے گا یہاں تک کہ دجال سے قتال کرے گا اور یاد رکھو! کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشرہ ذی الحجہ میں اپنے چند اہل خانہ کو عمرہ کرایا تھا، جس کے بعد کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس نے اسے منسوخ کردیا ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے منع نہیں فرمایا: یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہوگئے ان کے بعد ہر آدمی نے اپنی اپنی رائے اختیار کرلی۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن التيمي ، عن ابي العلاء ، قال: اراه عن مطرف ، عن عمران , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له او لغيره: " هل صمت سرار هذا الشهر؟" قال: لا , قال:" فإذا افطرت او افطر الناس فصم يومين" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ ، قَالَ: أُرَاهُ عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عِمْرَانَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ: " هَلْ صُمْتَ سِرَارَ هَذَا الشَّهْرِ؟" قَالَ: لَا , قَالَ:" فَإِذَا أَفْطَرْتَ أَوْ أَفْطَرَ النَّاسُ فَصُمْ يَوْمَيْنِ" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے پوچھا کیا تم نے شعبان کے اس مہینے کے آخر میں کوئی روزہ رکھا ہے؟ اس نے کہا نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رمضان کے روزے ختم ہوجائیں تو ایک دو دن کے روزے رکھ لینا۔
حدثنا يحيى ، عن الحسن بن ذكوان ، قال: حدثني ابو رجاء ، قال: حدثني عمران بن حصين ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " يخرج من النار قوم بشفاعة محمد صلى الله عليه وسلم فيسمون الجهنميين" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ قَوْمٌ بِشَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُسَمَّوْنَ الْجَهَنَّمِيِّينَ" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہنم سے ایک قوم صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی برکت سے نکلے گی، انہیں " جہنمی " کہا جائے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ: 6566 ، هذا من صحيح حديث الحسن بن ذكوان
حدثنا يحيى , عن عوف ، حدثنا ابو رجاء ، حدثني عمران بن حصين ، قال: كنا في سفر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإنا اسرينا حتى إذا كنا في آخر الليل وقعنا تلك الوقعة، فلا وقعة احلى عند المسافر منها، قال: فما ايقظنا إلا حر الشمس، وكان اول من استيقظ فلان، ثم فلان كان يسميهم ابو رجاء، ونسيهم عوف , ثم عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه الرابع، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا نام لم نوقظه حتى يكون هو يستيقظ، لانا لا ندري ما يحدث او يحدث له في نومه، فلما استيقظ عمر وراى ما اصاب الناس، وكان رجلا اجوف جليدا، قال فكبر ورفع صوته بالتكبير، فما زال يكبر ويرفع صوته بالتكبير حتى استيقظ لصوته رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم شكوا الذي اصابهم، فقال: " لا ضير , او لا يضير , ارتحلوا" فارتحل فسار غير بعيد، ثم نزل فدعا بالوضوء فتوضا ونودي بالصلاة، فصلى بالناس، فلما انفتل من صلاته، إذا هو برجل معتزل لم يصل مع القوم، فقال:" ما منعك يا فلان ان تصلي مع القوم؟" فقال: يا رسول الله، اصابتني جنابة ولا ماء، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" عليك بالصعيد فإنه يكفيك" , ثم سار رسول الله صلى الله عليه وسلم فاشتكى إليه الناس العطش، فنزل فدعا فلانا كان يسميه ابو رجاء، ونسيه عوف ودعا عليا رضي الله تعالى عنه , فقال:" اذهبا فابغيا لنا الماء" قال: فانطلقا، فيلقيان امراة بين مزادتين او سطيحتين من ماء على بعير لها، فقالا لها: اين الماء؟ فقالت: عهدي بالماء امس هذه الساعة، ونفرنا خلوف , قال: فقالا لها: انطلقي إذا , قالت: إلى اين؟ , قالا: إلى رسول الله , قالت: هذا الذي يقال له: الصابئ؟ قالا: هو الذي تعنين، فانطلقي إذا، فجاءا بها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فحدثاه الحديث، فاستنزلوها عن بعيرها، ودعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بإناء فافرغ فيه من افواه المزادتين او السطيحتين، واوكا افواههما فاطلق العزالي، ونودي في الناس: ان اسقوا واستقوا، فسقى من شاء، واستقى من شاء، وكان آخر ذلك ان اعطى الذي اصابته الجنابة إناء من ماء، فقال:" اذهب فافرغه عليك" قال: وهي قائمة تنظر ما يفعل بمائها، قال: وايم الله، لقد اقلع عنها، وإنه ليخيل إلينا انها اشد ملاة منها حين ابتدا فيها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اجمعوا لها" فجمع لها من بين عجوة ودقيقة وسويقة، حتى جمعوا لها طعاما كثيرا وجعلوه في ثوب، وحملوها على بعيرها، ووضعوا الثوب بين يديها، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تعلمين والله ما رزاناك من مائك شيئا، ولكن الله هو سقانا" , قال: فاتت اهلها وقد احتبست عنهم، فقالوا: ما حبسك يا فلانة؟ فقالت: العجب، لقيني رجلان فذهبا بي إلى هذا الذي يقال له: الصابئ، ففعل بمائي كذا وكذا للذي قد كان، فوالله إنه لاسحر من بين هذه وهذه , قالت باصبعيها الوسطى والسبابة فرفعتهما إلى السماء يعني السماء والارض او إنه لرسول الله صلى الله عليه وسلم حقا , قال: وكان المسلمون بعد يغيرون على ما حولها من المشركين ولا يصيبون الصرم الذي هي منه، فقالت: يوما لقومها: ما ادرى ان هؤلاء القوم يدعونكم إلا عمدا فهل لكم في الإسلام؟ فاطاعوها فدخلوا في الإسلام .حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ عَوْفٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ ، حَدَّثَنِي عِمَرانُ بْنُ حُصَيْنٍ ، قَالَ: كُنَّا فِي سَفَرٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّا أَسْرَيْنَا حَتَّى إِذَا كُنَّا فِي آخِرِ اللَّيْلِ وَقَعْنَا تِلْكَ الْوَقْعَةَ، فَلَا وَقْعَةَ أَحْلَى عِنْدَ الْمُسَافِرِ مِنْهَا، قَالَ: فَمَا أَيْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ، وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ اسْتَيْقَظَ فُلَانٌ، ثُمَّ فُلَانٌ كَانَ يُسَمِّيهِمْ أَبُو رَجَاءٍ، وَنَسِيَهُمْ عَوْفٌ , ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ الرَّابِعُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَامَ لَمْ نُوقِظْهُ حَتَّى يَكُونَ هُوَ يَسْتَيْقِظُ، لِأَنَّا لَا نَدْرِي مَا يُحْدِثُ أَوْ يَحْدُثُ لَهُ فِي نَوْمِهِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ عُمَرُ وَرَأَى مَا أَصَابَ النَّاسَ، وَكَانَ رَجُلًا أَجْوَفَ جَلِيدًا، قَالَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، فَمَا زَالَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ حَتَّى اسْتَيْقَظَ لِصَوْتِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَكَوْا الَّذِي أَصَابَهُمْ، فَقَالَ: " لَا ضَيْرَ , أَوْ لَا يَضِيرُ , ارْتَحِلُوا" فَارْتَحَلَ فَسَارَ غَيْرَ بَعِيدٍ، ثُمَّ نَزَلَ فَدَعَا بِالْوَضُوءِ فَتَوَضَّأَ وَنُودِيَ بِالصَّلَاةِ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَلَمَّا انْفَتَلَ مِنْ صَلَاتِهِ، إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مُعْتَزِلٍ لَمْ يُصَلِّ مَعَ الْقَوْمِ، فَقَالَ:" مَا مَنَعَكَ يَا فُلَانُ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَ الْقَوْمِ؟" فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ وَلَا مَاءَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ" , ثُمَّ سَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَكَى إِلَيْهِ النَّاسُ الْعَطَشَ، فَنَزَلَ فَدَعَا فُلَانًا كَانَ يُسَمِّيهِ أَبُو رَجَاءٍ، وَنَسِيَهُ عَوْفٌ وَدَعَا عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ , فَقَالَ:" اذْهَبَا فَابْغِيَا لَنَا الْمَاءَ" قَالَ: فَانْطَلَقَا، فَيَلْقَيَانِ امْرَأَةً بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ أَوْ سَطِيحَتَيْنِ مِنْ مَاءٍ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا، فَقَالَا لَهَا: أَيْنَ الْمَاءُ؟ فَقَالَتْ: عَهْدِي بِالْمَاءِ أَمْسِ هَذِهِ السَّاعَةَ، وَنَفَرُنَا خُلُوفٌ , قَالَ: فَقَالَا لَهَا: انْطَلِقِي إِذًا , قَالَتْ: إِلَى أَيْنَ؟ , قَالَا: إِلَى رَسُولِ اللَّهِ , قَالَتْ: هَذَا الَّذِي يُقَالُ لَهُ: الصَّابِئُ؟ قَالَا: هُوَ الَّذِي تَعْنِينَ، فَانْطَلِقِي إِذًا، فَجَاءَا بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَاهُ الْحَدِيثَ، فَاسْتَنْزَلُوهَا عَنْ بَعِيرِهَا، وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَاءٍ فَأَفْرَغَ فِيهِ مِنْ أَفْوَاهِ الْمَزَادَتَيْنِ أَوْ السَّطِيحَتَيْنِ، وَأَوْكَأَ أَفْوَاهَهُمَا فَأَطْلَقَ الْعَزَالِي، وَنُودِيَ فِي النَّاسِ: أَنْ اسْقُوا وَاسْتَقُوا، فَسَقَى مَنْ شَاءَ، وَاسْتَقَى مَنْ شَاءَ، وَكَانَ آخِرُ ذَلِكَ أَنْ أَعْطَى الَّذِي أَصَابَتْهُ الْجَنَابَةُ إِنَاءً مِنْ مَاءٍ، فَقَالَ:" اذْهَبْ فَأَفْرِغْهُ عَلَيْكَ" قَالَ: وَهِيَ قَائِمَةٌ تَنْظُرُ مَا يُفْعَلُ بِمَائِهَا، قَالَ: وَايْمُ اللَّهِ، لَقَدْ أَقْلَعَ عَنْهَا، وَإِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْنَا أَنَّهَا أَشَدُّ مِلْأَةً مِنْهَا حِينَ ابْتَدَأَ فِيهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اجْمَعُوا لَهَا" فَجَمَع لَهَا مِنْ بَيْنِ عَجْوَةٍ وَدَقِيقَةٍ وَسُوَيْقَةٍ، حَتَّى جَمَعُوا لَهَا طَعَامًا كَثِيرًا وَجَعَلُوهُ فِي ثَوْبٍ، وَحَمَلُوهَا عَلَى بَعِيرِهَا، وَوَضَعُوا الثَّوْبَ بَيْنَ يَدَيْهَا، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَعْلَمِينَ وَاللَّهِ مَا رَزَأْنَاكِ مِنْ مَائِكِ شَيْئًا، وَلَكِنَّ اللَّهَ هُوَ سَقَانَا" , قَالَ: فَأَتَتْ أَهْلَهَا وَقَدْ احْتَبَسَتْ عَنْهُمْ، فَقَالُوا: مَا حَبَسَكِ يَا فُلَانَةُ؟ فَقَالَتْ: الْعَجَبُ، لَقِيَنِي رَجُلَانِ فَذَهَبَا بِي إِلَى هَذَا الَّذِي يُقَالُ لَهُ: الصَّابِئُ، فَفَعَلَ بِمَائِي كَذَا وَكَذَا لِلَّذِي قَدْ كَانَ، فَوَاللَّهِ إِنَّهُ لَأَسْحَرُ مَنْ بَيْنَ هَذِهِ وَهَذِهِ , قَالَتْ بِأُصْبُعَيْهَا الْوُسْطَى وَالسَّبَّابَةِ فَرَفَعَتْهُمَا إِلَى السَّمَاءِ يَعْنِي السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ أَوْ إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا , قَالَ: وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدُ يُغِيرُونَ عَلَى مَا حَوْلَهَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَلَا يُصِيبُونَ الصِّرْمَ الَّذِي هِيَ منه، فَقَالَتْ: يَوْمًا لِقَوْمِهَا: مَا أدَرَى أَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ يَدَعُونَكُمْ إلا عَمْدًا فَهَلْ لَكُمْ فِي الْإِسْلَامِ؟ فَأَطَاعُوهَا فَدَخَلُوا فِي الْإِسْلَامِ .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب سفر میں ایک شب رات بھر چلے رہے اور رات کے آخری حصے میں ایک جگہ ٹھہر کر سو رہے، کیونکہ مسافر کو پچھلی رات کا سونا نہایت شیریں معلوم ہوتا ہے، صبح کو آفتاب کی تیزی سے ہماری آنکھ کھلی پہلے فلاں شخص پھر فلاں پھر فلاں اور چوتھے نمبر پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے اور یہ قاعدہ تھا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم خواب راحت میں ہوتے تو تاوقتیکہ خود بیدار نہ ہوجائیں کوئی جگاتا نہ تھا کیونکہ ہم کو علم نہ ہوتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں کیا واقعہ دکھائی دے رہا ہے، مگر جب عمر رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے اور آپ نے لوگوں کی کیفیت دیکھی تو چونکہ دلیر آدمی تھے اس لئے آپ نے زور زور سے تکبیر کہنی شروع کردی اور اس ترکیب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوگئے لوگوں نے ساری صورت حال عرض کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ حرج نہیں یہاں سے کوچ کر چلو۔ چناچہ لوگ چل دیئے اور تھوڑی دور چل کر پھر اتر پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر وضو کیا اور اذان کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو علیحدہ کھڑا دیکھا اس شخص نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے شخص! تو نے جماعت کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے غسل کی ضرورت تھی اور پانی موجود نہ تھا (اس لئے غسل نہ کرسکا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیمم کرلو کافی ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چل دیئے (چلتے چلتے راستہ میں) لوگوں نے پیاس کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر پڑے اور ایک شخص کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معیت میں بلا کر حکم دیا کہ جاؤ پانی تلاش کرو، ہر دو صاحبان چل دیئے، راستہ میں انہوں نے ایک عورت کو دیکھا جو پانی کی دو مشکیں اونٹ پر لادے ہوئے ان کے درمیان میں پاؤں لٹکا کر بیٹھی تھی، انہوں نے اس سے دریافت کیا کہ پانی کہا ہے؟ عورت نے جواب دیا کہ کل اس وقت میں پانی پر تھی اور ہماری جماعت پیچھے ہے، انہوں نے اس سے کہا کہ ہمارے ساتھ چل! عورت بولی کہاں؟ انہوں نے جواب دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس! عورت بولی کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں، انہوں نے کہا وہی، ان ہی کے پاس چل! چناچہ دونوں صاحبان عورت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور پورا قصہ بیان کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکوں کو نیچے اتروا دیا اور برتن منگوا کر اس میں پانی گرانے کا حکم دیا، اوپر کے دھانوں کو بند کردیا اور نیچے کے دہانے کھول دیئے اور لوگوں میں اعلان کرا دیا کہ اپنے چانور کو پانی پلاؤ اور خود بھی پیو اور مشکیں بھی بھر لو، چناچہ جس نے چاہا اپنے جانور کو پلایا اور جس نے چاہا خود پیا اور سب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جسے نہانے کی ضرورت تھی پانی دیا اور فرمایا کہ اسے لے جاؤ اور نہا لو اور وہ عورت یہ سب واقعہ دیکھ رہی تھی، اللہ کی قسم تمام لوگ پانی پی چکے حالانکہ وہ مشکیں ویسی ہی بلکہ اس سے زائد بھری ہوئی تھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانی کے بدلے اس عورت کے لئے کچھ کھانا جمع کردو، صحابہ رضی اللہ عنہ نے اس کے لئے بہت سا آٹا، کھجوریں اور ستو جمع کر کے ایک کپڑے میں باندھ کر اس کو اونٹ پر سوار کرا کے اس کے آگے رکھ دیا، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے معلوم ہے کہ ہم نے تیرے پانی کا کچھ نقصان نہیں کیا لیکن اللہ نے ہم کو سیراب کردیا، اس کے بعد وہ عورت اپنے گھر چلی گئی اور اس کو دیر ہوگئی تھی لہذا اس کے گھر والوں نے کہا کہ اے فلانی تجھے دیر کیوں ہوگئی، اس نے جواب دیا کہ ایک عجیب واقعہ پیش آیا، مجھے دو آدمی ملے اور مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جس کو لوگ صابی کہا کرتے ہیں اور اس نے ایسا ایسا کیا، لہذا وہ یا تو آسمان و زمین میں سب سے بڑا جاودگر ہے اور یا وہ اللہ کا سچا رسول ہے، اس کے بعد مسلمان آس پاس کے مشرک قبائل میں لوٹ مار کیا کرتے لیکن جس قبیلہ سے اس عورت کا تعلق تھا اس سے کچھ تعرض نہیں کرتے تھے، ایک دن اس عورت نے اپنی قوم سے کہا کہ میرے خیال میں یہ لوگ تم سے عمداً تعرض نہیں کرتے کیا تم مسلمان ہونا چاہتے ہو؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دے دیا اور سب کے سب مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن حسين المعلم ، حدثنا عبد الله بن بريدة ، عن عمران بن حصين , انه سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الرجل قاعدا، فقال: " من صلى قائما، فهو افضل، وصلاة الرجل قاعدا على النصف من صلاته قائما، وصلاته نائما على النصف من صلاته قاعدا" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ الرَّجُلِ قَاعِدًا، فَقَالَ: " مَنْ صَلَّى قَائِمًا، فَهُوَ أَفْضَلُ، وَصَلَاةُ الرَّجُلِ قَاعِدًا عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاتِهِ قَائِمًا، وَصَلَاتُهُ نَائِمًا عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاتِهِ قَاعِدًا" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کھڑے ہو کر نماز پڑھنا سب سے افضل ہے، بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے سے نصف ہے اور لیٹ کر نماز پڑھنے کا ثواب بیٹھ کر نماز پڑھنے سے نصف ہے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن شعبة ، حدثنا قتادة ، عن زرارة ، عن عمران بن حصين , ان رجلا عض يد رجل، فانتزع يده فندرت ثنيته او ثنيتاه فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: " يعض احدكم اخاه كما يعض الفحل، لا دية لك" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ زُرَارَةَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , أَنَّ رَجُلًا عَضَّ يَدَ رَجُلٍ، فَانْتَزَعَ يَدَهُ فَنَدَرَتْ ثَنِيَّتُهُ أَوْ ثَنِيَّتَاهُ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " يَعَضُّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ كَمَا يَعَضُّ الْفَحْلُ، لَا دِيَةَ لَكَ" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے دور سے کا ہاتھ کاٹ لیا، اس نے اپنا ہاتھ جو کھینچا تو کاٹنے والے کے اگلے دانت ٹوٹ کر گرپڑے، وہ دونوں یہ جھگڑا لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باطل قرار دے کر فرمایا تم میں سے ایک آدمی اپنے بھائی کو اس طرح کاٹتا ہے جیسے سانڈ، تمہیں کوئی دیت نہیں ملے گی۔
حدثنا يحيى ، عن هشام ، حدثنا قتادة ، عن الحسن ، عن عمران بن حصين , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال، وهو في بعض اسفاره، وقد تفاوت بين اصحابه السير، رفع بهاتين الآيتين صوته:" يايها الناس اتقوا ربكم إن زلزلة الساعة شيء عظيم يوم ترونها تذهل سورة الحج آية 1 - 2 حتى بلغ آخر الآيتين، قال: فلما سمع اصحابه بذلك حثوا المطي وعرفوا انه عند قول يقوله، فلما تاشبوا حوله , قال: " اتدرون اي يوم ذاك؟" , قال:" ذاك يوم ينادى آدم، فيناديه ربه فيقول: يا آدم ابعث بعثا إلى النار , فيقول: يا رب , وما بعث النار؟ قال: من كل الف تسع مائة وتسعة وتسعين في النار، وواحد في الجنة" قال: فابلس اصحابه حتى ما اوضحوا بضاحكة، فلما راى ذلك، قال:" اعملوا وابشروا، فوالذي نفس محمد بيده، إنكم لمع خليقتين ما كانتا مع شيء قط إلا كثرتاه: ياجوج , وماجوج، ومن هلك من بني آدم وبني إبليس" قال: فاسري عنهم، ثم قال:" اعملوا وابشروا، فوالذي نفس محمد بيده، ما انتم في الناس إلا كالشامة في جنب البعير، او الرقمة في ذراع الدابة" , حدثنا روح ، حدثنا سعيد , وهشام بن ابي عبد الله ، فذكر معناه إلا انه قال: فسري عن القوم , وقال:" إلا كثرتاه".حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ، وَهُوَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، وَقَدْ تَفَاوَتَ بَيْنَ أَصْحَابِهِ السَّيْرُ، رَفَعَ بِهَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ صَوْتَهُ:" يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ سورة الحج آية 1 - 2 حَتَّى بَلَغَ آخِرَ الْآيَتَيْنِ، قَالَ: فَلَمَّا سَمِعَ أَصْحَابُهُ بِذَلِكَ حَثُّوا الْمَطِيَّ وَعَرَفُوا أَنَّهُ عِنْدَ قَوْلٍ يَقُولُهُ، فَلَمَّا تَأَشَّبُوا حَوْلَهُ , قَالَ: " أَتَدْرُونَ أَيَّ يَوْمٍ ذَاكَ؟" , قَالَ:" ذَاكَ يَوْمَ يُنَادَى آدَمُ، فَيُنَادِيهِ رَبُّهُ فيقول: يَا آدَمُ ابْعَثْ بَعْثًا إِلَى النَّارِ , فَيَقُولُ: يَا رَبِّ , وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ فِي النَّارِ، وَوَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ" قَالَ: فَأَبْلَسَ أَصْحَابُهُ حَتَّى مَا أَوْضَحُوا بِضَاحِكَةٍ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ، قَالَ:" اعْمَلُوا وَأَبْشِرُوا، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّكُمْ لَمَعَ خَلِيقَتَيْنِ مَا كَانَتَا مَعَ شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا كَثَرَتَاهُ: يَأْجُوجَ , وَمَأْجُوجَ، وَمَنْ هَلَكَ مِنْ بَنِي آدَمَ وَبَنِي إِبْلِيسَ" قَالَ: فَأُسْرِيَ عَنْهُمْ، ثُمَّ قَالَ:" اعْمَلُوا وَأَبْشِرُوا، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، مَا أَنْتُمْ فِي النَّاسِ إِلَّا كَالشَّامَةِ فِي جَنْبِ الْبَعِيرِ، أَوْ الرَّقْمَةِ فِي ذِرَاعِ الدَّابَّةِ" , حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ , وَهِشَامُ بْنُ أَبِي عبد الله ، فذكر معناه إلا أَنَّهُ قَالَ: فَسُرِّيَ عَنِ الْقَوْمِ , وَقَالَ:" إِلَّا كَثَّرَتَاهُ".
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مختلف رفتار سے چل رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے یہ دو آیتیں پڑھیں تو یہ آیت نازل ہوئی، " اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی عظیم چیز ہے " صحابہ رضی اللہ عنہ کے کان میں اس کی آواز پہنچی تو انہوں نے اپنی سواریوں کو قریب کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد آ کر کھڑے ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم جانتے ہو وہ کون سا دن ہوگا؟ یہ وہ دن ہوگا جب اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) سے پکار کر کہے گا کہ اے آدم! جہنم کا حصہ نکالو، وہ پوچھیں گے کہ جہنم کا حصہ کیا ہے؟ تو ارشاد ہوگا ہر ہزار میں سے نوسوننانوے جہنم کے لئے نکال لو، یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ رونے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم عمل کرتے رہو اور خوش ہوجاؤ، تم ایسی دو قوموں کے ساتھ ہو گے کہ وہ جس چیز کے ساتھ مل جائیں اس کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے یعنی یاجوج ماجوج اور بنی آدم میں سے ہلاک ہونے والے اور شیطان کی اولاد، اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی وہ کیفیت دور ہوگئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا عمل کرتے رہو اور خوش ہوجاؤ اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، تمام امتوں میں تم لوگ اونٹ کے پہلو میں نشان کی طرح ہوگے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، الحسن البصري لم يسمع من عمران لكنه توبع
حدثنا روح حدثنا سعيد وهشام بن ابي عبد الله فذكر معناه إلا انه قال: فسري عن القوم وقال:" إلا كثرتاه"حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ وَهِشَامُ بْنُ أَبِي عبد الله فذكر معناه إلا أَنَّهُ قَالَ: فَسُرِّيَ عَنِ الْقَوْمِ وَقَالَ:" إِلَّا كَثَّرَتَاهُ"
حكم دارالسلام: حديث صحيح، الحسن البصري لم يسمع من عمران لكنه توبع