حدثنا إسماعيل ، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، عن ابي المهلب ، عن عمران بن حصين ، قال: كانت ثقيف حلفاء لبني عقيل فاسرت ثقيف رجلين من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، واسر اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا من بني عقيل، واصيبت معه العضباء، فاتى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في الوثاق، فقال: يا محمد يا محمد! فقال:" ما شانك؟" فقال: بم اخذتني؟ بم اخذت سابقة الحاج؟ إعظاما لذلك , فقال:" اخذتك بجريرة حلفائك ثقيف" ثم انصرف عنه، فقال: يا محمد يا محمد , وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم رحيما رفيقا، فاتاه فقال:" ما شانك؟" قال: إني مسلم , قال: " لو قلتها وانت تملك امرك افلحت كل الفلاح" ثم انصرف عنه، فناداه يا محمد يا محمد , فاتاه فقال:" ما شانك" فقال: إني جائع فاطعمني، وظمآن فاسقني , قال:" هذه حاجتك" قال: ففدي بالرجلين . واسرت امراة من الانصار، واصيب معها العضباء، فكانت المراة في الوثاق، فانفلتت ذات ليلة من الوثاق، فاتت الإبل، فجعلت إذا دنت من البعير رغا، فتتركه حتى تنتهي إلى العضباء، فلم ترغ قال وناقة منوقة، فقعدت في عجزها ثم زجرتها، فانطلقت، ونذروا بها فطلبوها فاعجزتهم، فنذرت إن الله تبارك وتعالى انجاها عليها لتنحرنها، فلما قدمت المدينة، رآها الناس، فقالوا العضباء ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم! فقالت إني قد نذرت إن انجاها الله تبارك وتعالى عليها لتنحرنها، فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم فذكروا ذلك له، فقال: " سبحان الله بئسما جزتها , إن الله تبارك وتعالى انجاها لتنحرنها! لا وفاء لنذر في معصية الله، ولا نذر فيما لا يملك العبد" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: كَانَتْ ثَقِيفُ حُلَفَاءَ لِبَنِي عُقَيْلٍ فَأَسَرَتْ ثَقِيفُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ، وَأُصِيبَتْ مَعَهُ الْعَضْبَاءُ، فَأَتَى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْوَثَاقِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ! فَقَالَ:" مَا شَأْنُكَ؟" فَقَالَ: بِمَ أَخَذْتَنِي؟ بِمَ أَخَذْتَ سَابِقَةَ الْحَاجِّ؟ إِعْظَامًا لِذَلِكَ , فَقَالَ:" أَخَذْتُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ ثَقِيفَ" ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ , وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَفِيقًا، فَأَتَاهُ فَقَالَ:" مَا شَأْنُكَ؟" قَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ , قَالَ: " لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ" ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ، فَنَادَاهُ يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ , فَأَتَاهُ فَقَالَ:" مَا شَأْنُكَ" فَقَالَ: إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي، وَظَمْآنُ فَاسْقِنِي , قَالَ:" هَذِهِ حَاجَتُكَ" قَالَ: فَفُدِيَ بِالرَّجُلَيْنِ . وَأُسِرَتْ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَأُصِيبَ مَعَهَا الْعَضْبَاءُ، فَكَانَتْ الْمَرْأَةُ فِي الْوَثَاقِ، فَانْفَلَتَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ مِنَ الْوَثَاقِ، فَأَتَتْ الْإِبِلَ، فَجَعَلَتْ إِذَا دَنَتْ مِنَ الْبَعِيرِ رَغَا، فَتَتْرُكُهُ حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى الْعَضْبَاءِ، فَلَمْ تَرْغُ قَالَ وَنَاقَةٌ مُنَوَّقَةٌ، فَقَعَدَتْ فِي عَجُزِهَا ثُمَّ زَجَرَتْهَا، فَانْطَلَقَتْ، وَنَذِرُوا بِهَا فَطَلَبُوهَا فَأَعْجَزَتْهُمْ، فَنَذَرَتْ إِنْ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنْجَاهَا عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَلَمَّا قَدِمَتْ الْمَدِينَةَ، رَآهَا النَّاسُ، فَقَالُوا الْعَضْبَاءُ نَاقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ! فَقَالَتْ إِنِّي قَدْ نَذَرْتُ إِنْ أَنْجَاهَا اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: " سُبْحَانَ اللَّهِ بِئْسَمَا جَزَتْهَا , إِنْ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنْجَاهَا لَتَنْحَرَنَّهَا! لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا نَذْرَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ الْعَبْدُ" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عضباء نامی اونٹنی دراصل بنو عقیل میں سے ایک آدمی کی تھی اور حاجیوں کی سواری تھی، وہ شخص گرفتار ہوگیا اور اس کی اونٹنی بھی پکڑ لی گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گذرے تو وہ رسیوں سے بندھا ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار تھے اور ایک چادر اوڑھ رکھی تھی، وہ کہنے لگا اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم کیا تم مجھے اور حاجیوں کی سواری کو بھی پکڑ لوگے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم نے تمہیں تمہارے حلیفوں بنو ثقیف کی جرأت کی وجہ سے پکڑا ہے، کیونکہ بنو ثقیف نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابہ قید کر رکھے تھے، بہرحال! دوران گفتگو وہ کہنے لگا کہ میں تو مسلمان ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے اس وقت یہ بات کہی ہوتی جب کہ تمہیں اپنے اوپر مکمل اختیار تھا تو فلاح کلی حاصل کرلیتے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھنے لگے تو وہ کہنے لگا کہ اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلائیے، پیاساہوں، پانی پلائیے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہاری ضرورت ہے (جو ہم پوری کریں گے) پھر ان دو صحابیوں کے فدئیے میں اس شخص کو دے دیا اور عضباء کو اپنی سواری کے لئے رکھ لیا، کچھ ہی عرصے بعد مشرکین نے مدینہ منورہ کی چراگاہ پر شب خون مارا اور وہاں کے جانور اپنے ساتھ لے گئے انہی میں عضباء بھی شامل تھی۔ نیز انہوں نے ایک مسلمان عورت کو بھی قید کرلیا، ایک دن اس عورت نے لوگوں کو غافل دیکھا تو چپکے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار ہوئی اور یہ منت مان لی کہ اگر صحیح سلامت مدینہ پہنچ گئی تو اسی اونٹنی کو ذبح کر دے گی، بہرحال! وہ مدینہ منورہ پہنچ گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کو ذبح کرنا چاہا لیکن لوگوں نے اسے اس سے منع کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کردیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اسے برا بدلہ دیا، پھر فرمایا ابن آدم جس چیز کا مالک نہ ہو، اس میں نذر نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کی معصیت میں منت ہوتی ہے۔