حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگوں نے نماز ظہر کے وقت گرمی شدید ہونے کی شکایت بارگاہ نبوت میں پیش کی لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شکایت کا ازالہ نہیں فرمایا (کیونکہ اوقات نماز اللہ کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں)
حدثنا علي بن عياش الحمصي ، حدثنا شعيب بن ابي حمزة . ح وابو اليمان ، اخبرنا شعيب ، قال: وقال الزهري ، حدثني عبد الله بن عبد الله بن الحارث بن نوفل ، عن عبد الله بن خباب ، عن ابيه خباب بن الارت مولى بني زهرة، وكان قد شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: راقبت رسول الله صلى الله عليه وسلم في ليلة صلاها رسول الله صلى الله عليه وسلم كلها حتى كان مع الفجر، فلما سلم رسول الله صلى الله عليه وسلم من صلاته جاءه خباب، فقال: يا رسول الله، بابي انت وامي، لقد صليت الليلة صلاة ما رايتك صليت نحوها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اجل إنها صلاة رغب ورهب، سالت ربي ثلاث خصال فاعطاني اثنتين، ومنعني واحدة، سالت ربي ان لا يهلكنا بما اهلك به الامم قبلنا، فاعطانيها، وسالت ربي ان لا يظهر علينا عدوا غيرنا، فاعطانيها، وسالت ربي ان لا يلبسنا شيعا، فمنعنيها" ، حدثنا عبد الله، قال: سمعت ابي، يقول علي بن عياش سمع هذا الحديث من شعيب بن ابي حمزة سماعا.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ الْحِمْصِيُّ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ . ح وَأَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، قَالَ: وَقَالَ الزُّهْرِيُّ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ ، عَنْ أَبِيهِ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ مَوْلَى بَنِي زُهْرَةَ، وَكَانَ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: رَاقَبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ صَلَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّهَا حَتَّى كَانَ مَعَ الْفَجْرِ، فَلَمَا سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ جَاءَهُ خَبَّابٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، لَقَدْ صَلَّيْتَ اللَّيْلَةَ صَلَاةً مَا رَأَيْتُكَ صَلَّيْتَ نَحْوَهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَجَلْ إِنَّهَا صَلَاةُ رَغَبٍ وَرَهَبٍ، سَأَلْتُ رَبِّي ثَلَاثَ خِصَالٍ فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ، وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً، سَأَلْتُ رَبِّي أَنْ لَا يُهْلِكَنَا بِمَا أَهْلَكَ بِهِ الْأُمَمَ قَبْلَنَا، فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُ رَبِّي أَنْ لَا يُظْهِرَ عَلَيْنَا عَدُوًّا غَيْرَنَا، فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُ رَبِّي أَنْ لَا يَلْبِسَنَا شِيَعًا، فَمَنَعَنِيهَا" ، حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْت أَبِي، يَقُولُ عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ سَمِعَ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ سَمَاعًا.
حضرت خباب رضی اللہ عنہ جو غزوہ بدر کے شرکاء میں سے ہیں کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رات کے وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کررہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کی تو ساری رات پڑھتے رہے حتی کہ فجر کا وقت ہوا تو اپنی نماز سے سلام پھیرا اس کے بعد خباب رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آج رات تو آپ نے ایسی نماز پڑھی ہے کہ اس طرح کی نماز پڑھتے ہوئے پہلے میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ یہ ترغیب وترہیب والی نماز تھی میں نے اس نماز میں اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا تھا جن میں سے دو چیزیں اس نے مجھے دیدی اور ایک سے انکار کردیا میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ ہمیں اس طرح ہلاک نہ کرے جیسے ہم سے پہلی امتوں کو ہلاک کیا تھا اس نے میری یہ درخواست قبول کرلی پھر میں نے اسے یہ درخواست کی وہ ہم پر کسی بیرونی دشمن کو مسلط نہ کرے اس نے یہ بھی قبول کرلی پھر میں نے اپنے رب سے یہ درخواست کی کہ وہ ہمیں مختلف فرقوں میں تقسیم نہ کرے لیکن اس نے میری یہ درخواست قبول نہ کی۔
حارثہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لئے حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے تو میں ضرور اس کی تمنا کرلیتا۔
حضرت خباب رضی اللہ عنہ جو غزوہ بدر کے شرکاء میں سے ہیں کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رات کے وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کررہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کی تو ساری رات پڑھتے رہے حتی کہ فجر کا وقت ہوا تو اپنی نماز سے سلام پھیرا اس کے بعد خباب رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آج رات تو آپ نے ایسی نماز پڑھی ہے کہ۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لسوء حفظ شريك، وقد توبع
ابومعمر کہتے ہیں کہ ہم حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر میں قرأت کرتے تھے انہوں نے فرمایا کہ ہاں ہم نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا تو انہوں نے کہا کہ آپ کی داڑھی مبارک ہلنے کی وجہ سے۔
حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا إسماعيل ، عن قيس ، عن خباب ، قال: اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في ظل الكعبة متوسدا بردة له، فقلنا: يا رسول الله، ادع الله لنا، واستنصره، قال: فاحمر لونه او تغير، فقال:" لقد كان من كان قبلكم يحفر له حفرة، ويجاء بالمنشار، فيوضع على راسه فيشق، ما يصرفه عن دينه، ويمشط بامشاط الحديد ما دون عظم من لحم او عصب، ما يصرفه عن دينه، وليتمن الله هذا الامر حتى يسير الراكب ما بين صنعاء إلى حضرموت، لا يخشى إلا الله، والذئب على غنمه، ولكنكم تعجلون" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ خَبَّابٍ ، قَالَ: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ مُتَوَسِّدًا بُرْدَةً لَهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ لَنَا، وَاسْتَنْصِرْهُ، قَالَ: فَاحْمَرَّ لَوْنُهُ أَوْ تَغَيَّرَ، فَقَالَ:" لَقَدْ كَانَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ يُحْفَرُ لَهُ حُفْرَةٌ، وَيُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ، فَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ فَيُشَقُّ، مَا يَصْرِفُهُ عَنْ دِينِهِ، وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ عَظْمٍ مِنْ لَحْمٍ أَوْ عَصَبٍ، مَا يَصْرِفُهُ عَنْ دِينِهِ، وَلَيُتِمَّنَّ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مَا بَيْنَ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ، لَا يَخْشَى إِلَّا اللَّهَ، وَالذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ، وَلَكِنَّكُمْ تَعْجَلُونَ" .
حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خانہ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر سے ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے ہم نے عرض کیا یارسول اللہ اللہ سے ہماری لئے دعا کیجیے اور مدد مانگیے یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہوگیا اور فرمایا کہ تم سے پہلے لوگوں کے لئے دین قبول کرنے کی پاداش میں گڑھے کھودے جاتے تھے اور آرے لے کر سر پر رکھے جاتے اور ان سے سر کو چیر دیا جاتا تھا لیکن یہ چیز بھی انہیں ان کے دین سے برگشہ نہیں کرتی تھی اس طرح لوہے کی کنگھیاں لے کر جسم کی ہڈیوں کے پیچھے گوشت پٹھوں میں گاڑھی جاتی تھیں لیکن یہ تکلیف بھی انہیں ان کے دین سے برگشتہ نہیں کرتی تھی اور اللہ اس دین کو پورا کرکے رہے گا یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء اور حضرموت کے درمیان سفر کرے گا جس میں اسے صرف خوف اللہ ہوگا یا بکری پر بھیڑیے کے حملے کا لیکن تم لوگ جلدباز ہو۔
حدثنا يحيى ، قال: سمعت الاعمش ، قال: سمعت شقيقا ، حدثنا خبابا ، ح، وابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن خباب ، قال: هاجرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم نبتغي وجه الله، فوجب اجرنا على الله، فمنا من مضى لم ياكل من اجره شيئا، منهم مصعب بن عمير، قتل يوم احد، فلم نجد له شيئا نكفنه فيه إلا نمرة، كنا إذا غطينا بها راسه خرجت رجلاه، وإذا غطينا رجليه خرج راسه،" فامرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نغطي بها راسه، ونجعل على رجليه إذخرا"، ومنا من اينعت له ثمرته، فهو يهدبها، يعني يجتنيها .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، قَالَ: سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ ، قَالَ: سَمِعْتُ شَقِيقًا ، حَدَّثَنَا خَبَّابًا ، ح، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ خَبَّابٍ ، قَالَ: هَاجَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبْتَغِي وَجْهَ اللَّهِ، فَوَجَبَ أَجْرُنَا عَلَى اللَّهِ، فَمِنَّا مَنْ مَضَى لَمْ يَأْكُلْ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئًا، مِنْهُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ، قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ، فَلَمْ نَجِدْ لَهُ شَيْئًا نُكَفِّنُهُ فِيهِ إِلَّا نَمِرَةً، كُنَّا إِذَا غَطَّيْنَا بِهَا رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلَاهُ، وَإِذَا غَطَّيْنَا رِجْلَيْهِ خَرَجَ رَأْسُهُ،" فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُغَطِّيَ بِهَا رَأْسَهُ، وَنَجْعَلَ عَلَى رِجْلَيْهِ إِذْخِرًا"، وَمِنَّا مَنْ أَيْنَعَتْ لَهُ ثَمَرَتُهُ، فَهُوَ يَهْدِبُهَا، يَعْنِي يَجْتَنِيهَا .
حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صرف اللہ کی رضا کے لئے ہجرت کی تھی لہذا ہمارا اجر اللہ کے ذمہ ہوگا اب ہم میں سے کچھ لوگ دنیا سے چلے گئے اور اپنے اجروثواب میں سے کچھ نہ کھاسکے۔ ان ہی افراد میں حضرت مصعب بن عمیر بھی شامل ہیں جو غزوہ احد کے موقع پر شہید ہوگئے تھے اور ہمیں کوئی چیز انہیں کفنانے کے لئے نہیں مل رہی تھی صرف ایک چادر تھی جس سے ہم اس کا سر ڈھانپتے تو پاؤں کھلے رہتے اور اگر پاؤں ڈھانپتے تو سر کھلا رہ جاتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس کا سر ڈھانپ دیں اور پاؤں پر اذخر نامی گھاس ڈال دیں اور ہم میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جن کا پھل تیار ہوگیا اور وہ اسے چن رہے ہیں۔
حدثنا وكيع ، حدثنا ابن ابي خالد ، عن قيس ، قال: دخلنا على خباب نعوده، وهو يبني حائطا له، فقال: المسلم يؤجر في كل شيء خلا ما يجعل في هذا التراب، وقد اكتوى سبعا في بطنه، وقال: لولا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهانا ان ندعو بالموت"، لدعوت به .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ قَيْسٍ ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى خَبَّابٍ نَعُودُهُ، وَهُوَ يَبْنِي حَائِطًا لَهُ، فَقَالَ: الْمُسْلِمُ يُؤْجَرُ فِي كُلِّ شَيْءٍ خَلَا مَا يَجْعَلُ فِي هَذَا التُّرَابِ، وَقَدْ اكْتَوَى سَبْعًا فِي بَطْنِهِ، وَقَالَ: لَوْلَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَانَا أَنْ نَدْعُوَ بِالْمَوْتِ"، لَدَعَوْتُ بِهِ .
قیس کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے وہ اپنے باغ کی تعمیر میں مصروف تھے ہمیں دیکھ کر فرمایا کہ مسلمان کو ہر چیز میں ثواب ملتا ہے سوائے اس کے جو اس مٹی میں لگاتا ہے انہوں نے سات مرتبہ اپنے پیٹ پر داغنے کا علاج کیا تھا اور کہہ رہے تھے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موت کی دعا مانگنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو میں ضرور اس کی دعا کرتا۔
ابومعمر کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر میں قرأت کرتے تھے انہوں نے کہا ہاں۔ ہم نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا انہوں نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈارھی مبارک ہلنے کی وجہ سے۔
ابومعمر کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر میں قرأت کرتے تھے انہوں نے کہا ہاں۔ ہم نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا انہوں نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈارھی مبارک ہلنے کی وجہ سے۔