حدثنا ابو داود الحفري ، حدثنا سفيان ، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، قال: قال ابو موسى : قدمت من اليمن، قال: فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم:" بم اهللت؟"، قال: قلت: بإهلال كإهلال النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فقال:" هل معك من هدي؟"، قال: قلت: يعني لا، قال: فامرني، فطفت بالبيت، وبين الصفا، والمروة، ثم اتيت امراة من قومي، فمشطت راسي، وغسلته، ثم احللت، فلما كان يوم التروية اهللت بالحج ، قال: فكنت افتي الناس بذلك إمارة ابي بكر، وعمر رضي الله تعالى عنهما، فبينا انا واقف في سوق الموسم، إذ جاء رجل فسارني، فقال: إنك لا تدري ما احدث امير المؤمنين في شان النسك، قال: قلت: ايها الناس، من كنا افتيناه في شيء فليتئد، فهذا امير المؤمنين قادم عليكم، فبه فاتموا، قال: فقال لي: إن ناخذ بكتاب الله تعالى، فإنه يامر بالتمام، وإن ناخذ بسنة نبينا صلى الله عليه وسلم، فإنه لم يحل، حتى نحر الهدي.حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَن قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَن طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى : قَدِمْتُ مِنَ الْيَمَنِ، قَالَ: فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِمَ أَهْلَلْتَ؟"، قَالَ: قُلْتُ: بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ:" هَلْ مَعَكَ مِنْ هَدْيٍ؟"، قَالَ: قُلْتُ: يَعْنِي لَا، قَالَ: فَأَمَرَنِي، فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ، وَبَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي، فَمَشَطَتْ رَأْسِي، وَغَسَلَتْهُ، ثُمَّ أَحْلَلْتُ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ أَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ ، قَالَ: فَكُنْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِذَلِكَ إِمَارَةَ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا، فَبَيْنَا أَنَا وَاقِفٌ فِي سُوقِ الْمَوْسِمِ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَسَارَّنِي، فَقَالَ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ، قَالَ: قُلْتُ: أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ فِي شَيْءٍ فَلْيَتَّئِدْ، فَهَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ، فَبِهِ فَأْتَمُّوا، قَالَ: فَقَالَ لِي: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى، فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالتَّمَامِ، وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ، حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی قوم کے علاقے میں بھیج دیا، جب حج کاموسم قریب آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لئے تشریف لے گئے میں نے بھی حج کی سعادت حاصل کی، میں جب حاضرخدمت میں ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابطح میں پڑاؤ کئے ہوئے تھے مجھ سے پوچھا کہ اے عبداللہ بن قیس! تم نے کس نیت سے احرام باندھا؟ میں نے عرض کیا " لبیک بحج کحج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھایہ بتاؤ کہ کیا اپنے ساتھ ہدی کا جانور لائے ہو؟ میں نے کہا نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر بیت اللہ کا طواف کرو، صفا مروہ کے درمیان سعی کرو اور حلال ہوجاؤ۔ چناچہ میں چلا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق کرلیا پھر اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے " خطمی " سے میرا سر دھویا اور میرے سر کی جوئیں دیکھیں، پھر میں نے آٹھ دی الحج کو حج کا احرام باندھ لیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک لوگوں کو یہی فتویٰ دیتا رہا جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی یہی صورت حال رہی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو ایک دن میں حجر اسود کے قریب کھڑا ہوا تھا اور لوگوں کو یہی مسئلہ بتارہا تھا جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا کہ اچانک ایک آدمی آیا اور سرگوشی میں مجھ سے کہنے لگا کہ یہ فتویٰ دینے میں جلدی سے کام مت لیجئے کیونکہ امیرالمومنین نے مناسک حج کے حوالے سے کچھ نئے احکام جاری کئے ہیں۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! جسے ہم نے مناسک حج کے حوالے سے کوئی فتویٰ دیا ہو وہ انتظار کرے کیونکہ امیرالمؤمنین آنے والے ہیں آپ ان ہی کی اقتداء کریں، پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تو میں نے ان سے پوچھا اے امیرالمؤمنین! کیا مناسک حج کے حوالے سے آپ نے کچھ نئے احکام جاری کئے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں! اگر ہم کتاب اللہ کو لیتے ہیں تو وہ ہمیں اتمام کا حکم دیتی ہے اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لیتے ہیں تو انہوں نے قربانی کرنے تک احرام نہیں کھولا تھا۔
حدثنا وكيع ، حدثنا مغيرة الكندي ، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني لاتوب إلى الله عز وجل في كل يوم مئة مرة" ، قال عبد الله: يعني: مغيرة بن ابي الحر.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ الْكِنْدِيُّ ، عَن سَعِيدٍ بن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، عَن جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي كُلِّ يَوْمٍ مِئَةَ مَرَّةٍ" ، قَالَ عَبْد اللَّهِ: يَعْنِي: مُغِيرَةَ بْنَ أَبِي الْحُرِّ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں روزانہ سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔
حكم دارالسلام: صحيح من حديث الأغر المزني، وهذا إسناد خالف فيه المغيرة الكندي
حدثنا وكيع ، حدثنا شعبة ، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه ، عن ابي موسى ، قال: بعثني النبي صلى الله عليه وسلم انا ومعاذ بن جبل إلى اليمن، فقلت: يا رسول الله، إن شرابا يصنع بارضنا، يقال له: المزر من الشعير، وشراب يقال له: البتع من العسل، فقال: " كل مسكر حرام" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ إِلَى الْيَمَنِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ شَرَابًا يُصْنَعُ بِأَرْضِنَا، يُقَالُ لَهُ: الْمِزْرُ مِنَ الشَّعِيرِ، وَشَرَابٌ يُقَالُ لَهُ: الْبِتْعُ مِنَ الْعَسَلِ، فَقَالَ: " كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے یمن کی طرف بھیجا) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہاں کچھ مشروبات رائج ہیں، مثلاً جو کی نبیذ ہے جسے مزر کہا جاتا ہے اور شہد کی نبیذ ہے جسے " تبع " کہا جاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4345 تعليقاً، م: 1733
حدثنا وكيع ، حدثني بريد بن ابي بردة ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا مر احدكم بالنبل في المسجد، فليمسك بنصولها" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنِي بُرَيْدُ بْنُ أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، عَن جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا مَرَّ أَحَدُكُمْ بِالنَّبْلِ فِي الْمَسْجِدِ، فَلْيُمْسِكْ بِنُصُولِهَا" .
حضرت عبداللہ بن قیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم مسلمانوں کی مسجدوں اور بازاروں میں جایا کرو اور تمہارے پاس تیر ہوں تو ان کا پھل قابو میں رکھا کرو۔
حدثنا ابو اسامة ، عن طلحة بن يحيى ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان يوم القيامة، دفع إلى كل مؤمن رجل من اهل الملل، فيقال له: هذا فداؤك من النار" .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَن طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، دُفِعَ إِلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمِلَلِ، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا فِدَاؤُكَ مِنَ النَّارِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب قیامت کا دن آئے گا تو ہر ایک مسلمان کو دوسرے ادیان و مذاہب کا ایک ایک آدمی دے کر کہا جائے گا کہ یہ شخص جہنم سے بچاؤ کا تمہارے لئے فدیہ ہے۔
حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا سليمان ، عن الحسن ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا تواجه المسلمان بسيفيهما، فقتل احدهما صاحبه، فهما في النار"، قيل: يا رسول الله، هذا القاتل، فما بال المقتول؟ قال:" إنه اراد قتل صاحبه" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونٍَ ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ ، عَن الْحَسَنِ ، عَن أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، فَقَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ، فَهُمَا فِي النَّارِ"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الْقَاتِلُ، فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ:" إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے سامنے آجائیں اور ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کردے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ قاتل کی بات تو سمجھ میں آجاتی ہے مقتول کا کیا معاملہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہتا تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح الغيره، وهذا إسناد منقطع، الحسن البصري لم يسمع من أبى موسى
حدثنا يزيد ، اخبرنا داود ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: استاذن ابو موسى على عمر رضي الله تعالى عنهما ثلاثا، فلم يؤذن له، فرجع، فلقيه عمر، فقال: ما شانك رجعت؟ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من استاذن ثلاثا، فلم يؤذن له، فليرجع" ، فقال: لتاتين على هذا ببينة، او: لافعلن ولافعلن، فاتى مجلس قومه، فناشدهم الله تعالى، فقلت: انا معك، فشهدوا له بذلك، فخلى سبيله.حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ ، عَن أَبِي نَضْرَةَ ، عَن أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ أَبُو مُوسَى عَلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، فَرَجَعَ، فَلَقِيَهُ عُمَرُ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ رَجَعْتَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مِنَ اسْتَأْذَنَ ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، فَلْيَرْجِعْ" ، فَقَالَ: لَتَأْتِيَنَّ عَلَى هَذَا بِبَيِّنَةٍ، أَوْ: لَأَفْعَلَنَّ وَلَأَفْعَلَنَّ، فَأَتَى مَجْلِسَ قَوْمِهِ، فَنَاشَدَهُمْ اللَّهَ تَعَالَى، فَقُلْتُ: أَنَا مَعَكَ، فَشَهِدُوا لَهُ بِذَلِكَ، فَخَلَّى سَبِيلَهُ.
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ سلام کیا، انہیں اجازت نہیں ملی تو وہ واپس چلے گئے بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ان سے ملاقات ہوئی تو پوچھا کہ تم واپس کیوں چلے گئے انہوں نے فرمایا کہ میں نے تین مرتبہ اجازت لی تھی، جب مجھے اجازت نہیں ملی تو میں واپس چلا گیا ہمیں اسی کا حکم دیا جاتا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس پر گواہ پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ انصار کی ایک مجلس میں پہنچے وہ لوگ کہنے لگے کہ اس بات کی شہادت تو ہم میں سب سے چھوٹا بھی دے سکتا ہے چناچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ چلے گئے اور اس کی شہادت دے دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا راستہ چھوڑ دیا۔
حدثنا يزيد ، اخبرنا المسعودي ، وهاشم يعني ابن القاسم ، حدثنا المسعودي، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه ، عن جده ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن امتي امة مرحومة، ليس عليها في الآخرة عذاب، إنما عذابها في الدنيا: القتل، والبلابل، والزلازل" ، قال ابو النضر:" بالزلازل، والقتل، والفتن".حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، وهَاشِمٌ يعني ابن القاسم ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَن سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، عَن جَدِّهِ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أُمَّتِي أُمَّةٌ مَرْحُومَةٌ، لَيْسَ عَلَيْهَا فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ، إِنَّمَا عَذَابُهَا فِي الدُّنْيَا: الْقَتْلُ، وَالْبَلَابِلُ، وَالزَّلَازِلُ" ، قَالَ أَبُو النَّضْرِ:" بِالزَّلَازِلِ، وَالْقَتْلِ، وَالْفِتَنِ".
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت، امت مرحومہ ہے، آخرت میں اس پر کوئی عذاب نہیں ہوگا اس کا عذاب دنیا ہی میں قتل و غارت، پریشانیاں اور زلزلے ہے۔
حكم دارالسلام: ضعيف، يزيد ابن هارون وهاشم بن القاسم رويا عن المسعودي بعد الاختلاط، وقد اختلف فيه على أبى بردة
حدثنا يزيد ، قال: اخبرنا العوام بن حوشب ، حدثنا إبراهيم ابن إسماعيل السكسكي ، انه سمع ابا بردة بن ابي موسى، واصطحب هو ويزيد بن ابي كبشة في سفر، وكان يزيد يصوم، فقال له ابو بردة : سمعت ابا موسى مرارا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا مرض العبد، او: سافر، كتب له من الاجر مثل ما كان يعمل مقيما صحيحا" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ السَّكْسَكِيُّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بُرْدَةَ بْنَ أَبِي مُوسَى، وَاصْطَحَبَ هُوَ وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي كَبْشَةَ فِي سَفَرٍ، وَكَانَ يَزِيدُ يَصُومُ، فَقَالَ لَهُ أَبُو بُرْدَةَ : سَمِعْتُ أَبَا مُوسَى مِرَارًا يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا مَرِضَ الْعَبْدُ، أَوْ: سَافَرَ، كُتِبَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ مَا كَانَ يَعْمَلُ مُقِيمًا صَحِيحًا" .
ابوبردہ اور یزید بن ابی کبثہ ایک مرتبہ سفر میں اکٹھے تھے یزید دوران سفر روزہ رکھتے تھے ابوبردہ نے ان سے کہا کہ میں نے اپنے والد حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو کئی مرتبہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی شخص بیمار ہوجاتا ہے یا سفر پر چلا جاتا ہے تو اس کے لئے اتنا ہی اجر لکھا جاتا ہے جتنا مقیم اور تندرست ہونے کی حالت میں اعمال پر ملتا ہے۔
حدثنا عفان ، وعبد الصمد ، قالا: حدثنا جعفر ، المعنى، قال عفان في حديثه: سمعت ابا عمران الجوني يقول: حدثنا ابو بكر بن عبد الله بن قيس ، قال: سمعت ابي ، وهو بحضرة العدو، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن ابواب الجنة تحت ظلال السيوف" ، قال: فقام رجل من القوم رث الهيئة، فقال: يا ابا موسى، اانت سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول هذا؟ قال: نعم، قال: فرجع إلى اصحابه، فقال اقرا عليكم السلام، ثم كسر جفن سيفه، ثم مشى بسيفه إلى العدو، فضرب به حتى قتل.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، وَعَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ ، الْمَعْنَى، قَالَ عَفَّانُ فِي حَدِيثِهِ: سَمِعْتُ أَبَا عِمْرَانَ الْجَوْنِيَّ يَقُولُ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، وَهُوَ بِحَضْرَةِ الْعَدُوِّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّةِ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ" ، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ رَثُّ الْهَيْئَةِ، فَقَالَ: يَا أَبَا مُوسَى، أَأَنْتَ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَرَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ أَقْرَأُ عَلَيْكُمْ السَّلَامَ، ثُمَّ كَسَرَ جَفْنَ سَيْفِهِ، ثُمَّ مَشَى بِسَيْفِهِ إِلَى الْعَدُوِّ، فَضَرَبَ بِهِ حَتَّى قُتِلَ.
ابوبکربن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ دشمن کے لشکر کے سامنے میں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے میں ہیں یہ سن کر ایک پراگندہ ہیئت آدمی لوگوں میں سے کھڑا ہو اور کہنے لگا اے ابوموسیٰ! کیا یہ حدیث آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس پہنچا اور انہیں آخری مرتبہ سلام کیا اپنی تلوار کی نیام توڑ کر پھینکی اور تلوار لے کر چل پڑا اور اس شدت کے ساتھ لڑا کہ بالآخر شہید ہوگیا۔